پاکستان کا ماحولیاتی بحران: موت کا زہر ہے فضاؤں میں!

|تحریر: یار یوسفزئی|

پوری دنیا میں آج کل جہاں ایک طرف معاشی بحرانات کی شدت سب سے زیادہ دیکھی اور محسوس کی جاتی ہے، وہاں دوسری جانب ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات بھی شدید انداز میں اپنا اظہار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

اس میں پاکستان بھی شامل ہے، جہاں عوام کو نہ صرف بیروزگاری، قلت، لا علاجی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے بلکہ قدرتی آفات بھی انہیں موت کے منہ میں دھکیل رہی ہیں۔ 2022ء کے موسمِ گرما میں سیلاب کی تباہ کاریوں نے ملک کے ایک تہائی حصے کو زیرِ آب کر دیا تھا۔ مسلسل آٹھ ہفتوں کی موسلا دھار بارشوں اور اس کے باعث آنے والے سیلابی ریلوں کے نتیجے میں 3 کروڑ 30 لاکھ (آبادی کے تقریباً 13 فیصد) سے زائد افراد متاثر ہوئے، اور سینکڑوں کی تعداد میں اموات واقع ہوئیں جبکہ لاکھوں بے گھر ہوئے۔مئی اور جون میں پہلے شدید خشک سالی کا ایک دور آیا اور پھر اگست 2022ء میں معمول سے تین گنا زیادہ بارشیں ہوئیں، جو 1961ء کے بعد کا سب سے برساتی اگست رہا۔ سندھ اور بلوچستان میں اگست نے بارشوں کے حوالے سے ریکارڈ توڑ دیا، جہاں اس مہینے میں معمول سے 7 اور 8 گنا زیادہ بارشیں ہوئیں۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے اندر معمول میں سالانہ 10 انچ سے کم بارشیں ہوتی ہیں، اس دفعہ اگست کے اختتام تک ہی 48 انچ کی بارش ریکارڈ کی جا چکی تھی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض علاقوں میں سیلاب کے نقصانات میں ایک اہم کردارحکمران طبقے کی کرپشن اور لوٹ مار، ناقص انفراسٹرکچر اور دریائی نظام کی بدانتظامی کا تھا۔ مگر اس عمل میں ایک بنیادی عنصر ماحولیاتی تبدیلی کا بھی ہے۔

ماحولیاتی تبدیلی پر تحقیق کرنے والے ایک عالمی ادارے، ’ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن‘، کے مطابق سندھ اور بلوچستان کی 5 روزہ شدید برسات میں 75 فیصد جبکہ دریائے سندھ کے گرد 60 روزہ شدید برسات میں 50 فیصد مزید شدت آئی ہے، اور اس کی وجہ درجہ حرارت میں 1.2 سینٹی گریڈ کا اضافہ ہے۔ یعنی اس طرح کی موسلا دھار بارشوں کے امکانات اب مزید بڑھ گئے ہیں۔

عالمی درجہ حرارت میں اضافے اور مون سون کی بارشوں میں شدت کا تعلق ایک سادہ سا معاملہ ہے۔ گلوبل وارمنگ فضائی اور بحری درجہ حرارت کو بڑھا رہا ہے، نتیجتاً آبی بخارات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ درجہ حرارت میں ایک سینٹی گریڈ کی بڑھوتری ہونے سے آبی بخارات تقریباً 4 فیصد تک بڑھ جاتے ہیں، جو بارش میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔

پاکستان کی آبادی کی اکثریت دریائے سندھ کے قریب آباد ہے اور بارشوں کے باعث وہ سیلابی ریلوں کا شکار ہو جاتی ہے۔ وقت کے ساتھ گرم ہوتا ہوا موسم ان کے لیے سیلاب کا خطرہ مزید بڑھاتا جا رہا ہے۔ماحولیاتی تبدیلی یا گلوبل وارمنگ اس وقت عالمی سطح پر ایک انتہائی سنگین مسئلہ بن چکا ہے اور پوری دنیا میں سنجیدہ بحث کا موضوع ہے۔ یورپ اور امریکہ سمیت بہت سے ممالک میں لاکھوں نوجوان اور سکولوں کے طلبہ اس مسئلے کے باعث دنیا بھر کے حکمران طبقات کے خلاف بہت بڑے بڑے احتجاج کر رہے ہیں اور عالمی سطح کی ایک منظم تحریک کا بھی آغاز ہو چکا ہے۔

گلوبل وارمنگ سے مراد یہ ہے کہ کرۂ ارض کا درجہ حرارت انسانوں یا درست الفاظ میں سرمایہ دارانہ نظام کی سرگرمیوں کے باعث بڑھتا جا رہا ہے جس کے باعث اس پورے سیارے پر زندگی کا وجود خطرے میں آ چکا ہے۔عالمی سطح پر ہونے والی تحقیق کے مطابق زمین کا درجہ حرارت گزشتہ تقریباًدو صدیوں میں 1.2ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ چکا ہے۔ اس سے پہاڑوں اور قطبین پر جمی برف پگھل رہی ہے اور پوری دنیا میں موسموں میں بہت بڑی تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ صحرا پھیل رہے ہیں جبکہ ہیٹ ویو یا گرمی کی لہر اور جنگلوں میں لگنے والی آگ کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔اسی طرح بہت سے نئے طوفان، بارشوں کے رجحان میں تبدیلی اور دیگر اثرات مرتب ہو رہے ہیں، انسانوں کے لیے موجود پانی اور خوراک کے ذرائع کی دستیابی خطرے میں جا رہی ہے۔درجہ حرارت میں اس اضافے کی وجہ منافعوں کے لئے ہونے والی ماحول دشمن صنعتی سرگرمی، تیل اور ڈیزل وغیرہ کا اندھا دھند استعمال اور دیگر انسانی سرگرمیاں ہیں۔ تحقیق کے مطابق موجودہ رفتار سے جاری رہنے پراس صدی کے آخر تک زمین کا درجہ حرارت 2.7ڈگری سینٹی گریڈ اضافے تک پہنچ سکتا ہے جو اس سیارے پر لاکھوں سال سے موجودہر قسم کی زندگی بشمول نباتات و حیوانات کے لیے ہلاکت خیز ہو گا۔

اگر 2030ء تک کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین گیسوں کے اخراج کو کنٹرول کر لیا جاتا ہے اور 2050ء تک ہر قسم کے زہریلے مواد کا اخراج مکمل طورختم کر دیا جاتا ہے تو اس صدی کے آخر تک درجہ حرارت میں اضافہ 1.5ڈگر سینٹی گریڈ تک محدود رکھا جا سکتا ہے، جس سے اس سیارے پر بڑے نقصانات کے ساتھ ہی سہی لیکن زندگی کو برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام اور صنعتی انقلابات کے آغاز سے شروع ہونے والی اس ماحولیاتی تبدیلی کو روکنا موجودہ نظام کے تحت ممکن نظر نہیں آتا اور نہ ہی کسی بھی ملک کا حکمران طبقہ منافع کی ہوس کے باعث اس کے لیے فکرمند نظر آتا ہے۔

ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات پاکستان جیسے ملک پر بہت بڑے پیمانے پر مرتب ہو رہے ہیں اور بھوک اور بیماری سے لڑتے ہوئے عوام پر آئے روز نئے عذاب مسلط کر رہے ہیں۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں زمین کے قطبی (پولر) خطوں کے بعد سب سے زیادہ گلیشیئر پائے جاتے ہیں، جن کی تعداد 7 ہزار 200 سے زائد ہے۔ درجہ حرارت میں اضافے کے باعث گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا میں واقع گلیشیئرز تیزی کے ساتھ پگھل رہے ہیں۔ یو این ڈیویلپمنٹ پروگرام کے مطابق اس عمل کے نتیجے میں 3 ہزار سے زائد جھیلیں بن رہی ہیں۔ ان میں سے تقریباً 33 کو اچانک پھٹنے کا خطرہ درپیش ہے، جو لاکھوں کیوسک پانی بہاؤ میں لا کر 70 لاکھ افراد کی آبادی کو متاثر کر سکتی ہیں۔ 2022ء میں اس قسم کے واقعات میں تین گنا اضافہ دیکھنے کو ملا۔ پچھلے سالوں میں گلگت بلتستان کے اندر اس طرح کے 5 یا 6 واقعات ہوا کرتے تھے، مگر 2022ء میں ان کی تعداد 16 رہی۔ صورتحال کی ستم ظریفی دیکھیے کہ یا تو پانی کی مقدار اتنا بڑھ جاتی ہے کہ دیوہیکل سیلابوں کی شکل اختیار کر لیتی ہے، یا پھر اتنی قلت پیدا ہو جاتی ہے کہ خشک سالی کے باعث فصلیں برباد ہو جاتی ہیں اور لوگ پیاس سے مرتے ہیں۔ چنانچہ لوگوں کا گھر بار مسمار کرنے اور ان کو مال مویشی سمیت ڈبونے کے علاوہ ماحولیاتی تبدیلی ایک اور طرح سے خوراک کی پیداوار پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔

2017ء کی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان کے اندر درجہ حرارت میں ایک سینٹی گریڈ کا اضافہ چاول کی پیداوار میں تقریباً 1 لاکھ 94 ہزار ٹن، گندم کی پیداوار میں تقریباً 3 لاکھ 51 ہزار ٹن، مکئی کی پیداوار میں تقریباً 3 لاکھ 87 ہزار ٹن، اور گنے کی پیداوار میں تقریباً 3 لاکھ 49 ہزار ٹن کمی لانے کا باعث بن سکتا ہے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس کی رپورٹ کے مطابق، پانی کی قلت کے باعث سب سے زیادہ متاثر ہونے والے 17 ممالک کی فہرست میں پاکستان 14 ویں نمبر پر ہے، جہاں دستیاب پانی کا ایک تہائی بد انتظامی اور زرعی آبپاشی کے پسماندہ طریقہ کار کی وجہ سے ضائع ہو جاتا ہے۔ پانی کے بحران کو دو طرح سے ناپا جاتا ہے، اگر کسی ملک میں سالانہ فی کس پینے کا تازہ پانی 1800 کیوبک میٹر سے کم ہو تو کہا جاتا ہے کہ اس ملک کو پانی کے حوالے سے مشکلات کا سامنا ہے، اور اگر یہ مقدار 1 ہزار کیوبک میٹر سے نیچے چلی جائے تو اس ملک کو پانی کی قلت والا ملک قرار دیا جاتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شمار پہلے زمرے میں ہوتا ہے مگر 2035ء تک وہ دوسرے زمرے میں چلا جائے گا۔ اسی طرح پینے کے پانی کا معیار بھی انتہائی خراب حالت میں ہے۔ بڑے شہروں سمیت دیہاتی علاقوں کے اندر،زیرِ زمین اور سطحِ زمین کے اوپر موجود پانی کے دونوں قسم کے ذخائر آلودہ اور مضرِ صحت ہیں۔ پینے کا تازہ پانی بمشکل 20 فیصد آبادی کو دستیاب ہے جبکہ 80 فیصد آبادی آلودہ پانی پینے پر مجبور ہے۔ حالیہ سیلابوں نے صورتحال کو مزید بگاڑ دیا ہے، جن میں آلودہ پانی کے بہاؤ کے باعث پانی کے سطحی ذخائر آلودہ ہوئے ہیں۔ پانی کی آلودگی کے باعث پاکستان میں پہلے ہی ہیضہ اور ٹائیفائڈ جیسی بیماریاں عام ہیں، جو ترقی یافتہ ممالک میں تقریباً ناپید ہو چکی ہیں۔ پاکستان میں 50 فیصد بیماریاں آلودہ پانی کے ذریعے پھیلتی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق، پاکستان میں آلودہ پانی کے باعث پھیلنے والی بیماریوں کے نتیجے میں سالانہ 25 لاکھ اموات واقع ہوتی ہیں؛ جبکہ یونیسیف کے مطابق پانچ سال سے کم عمر بچوں میں سے سالانہ 53 ہزار آلودہ پانی کی وجہ سے لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ فضائی آلودگی بھی مختلف بیماریوں اور اموات کا سبب ہے۔ فیئر فنانس پاکستان نامی ایک ادارے کے مطابق پاکستان میں تقریباً 1 لاکھ 28 ہزار سالانہ اموات کی وجہ فضائی آلودگی ہے۔ ان قابلِ انسداد اور قبل از وقت اموات کی وجہ فضائی آلودگی کے باعث لاحق ہونے والی دل کی بیماریاں، پھیپڑوں کا کینسر اور ان کی انفیکشن ہیں۔ایئر کوالٹی انڈیکس کے مطابق ہوا کا معیار 50 تک اچھا، 100 تک معتدل، 200 تک مضرِ صحت اور 300 تک انتہائی مضرِ صحت مانا جاتا ہے۔ پاکستان کے متعدد شہروں کا ہر سال 300 سے تجاوز کرنا معمول بن چکا ہے، جو 2021ء میں فضائی آلودگی کے حوالے سے دنیا کا تیسرا آلودہ ترین ملک رہا تھا۔

اسی طرح سموگ کے باعث تعلیمی اداروں اور شاہراہوں کی بندش اور پروازوں کی تاخیر بھی معمول بن چکا ہے۔ پنجاب حکومت نے سموگ اور فضائی آلودگی کے باعث دسمبر 2022ء میں ماحولیاتی ایمرجنسی نافذ کی اور لاہور میں تعلیمی اداروں کی موسمِ سرما کی چھٹیوں کو 9 جنوری تک طوالت دے دی گئی۔ سموگ کی سب سے بڑی وجہ بھی گاڑیوں اور صنعتوں کا دھواں ہے اور ٹریفک کے بے ہنگم پھیلاؤ اور منصوبہ بندی اور کنٹرول کی عدم موجودگی کے باعث حکمران طبقہ اس پر کسی بھی قسم کا کنٹرول نہیں کر پا رہا۔ اسی لیے کبھی تعلیمی اداروں میں چھٹیاں دے کر بچوں کی تعلیم کا نقصان کیا جاتا ہے اور کبھی کسانوں کو مورد الزام ٹھہرا دیا جاتا ہے اور کبھی دیگر ایسے ہی عوامل کو جو اس عمل میں انتہائی کم اثرات مرتب کر رہے ہوتے ہیں۔ کبھی تو ہوا کے معیار کے پیمانے کو ہی ماننے سے انکار کر دیا جاتا ہے تاکہ حکمرانوں کی لوٹ مار میں کوئی رکاوٹ نہ آسکے اور وہ مزے سے اپنی زندگی گزارتے رہیں۔ لیکن کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے سے کبھی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔یہ صورتحال فقط پاکستان تک محدود نہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا کی 99 فیصد آبادی اب آلودہ ہوا میں سانس لے رہی ہے۔ فضائی آلودگی کے باعث دنیا بھر میں سالانہ 70 لاکھ اموات واقع ہوتی ہیں، جن میں سے 90 فیصد افراد کا تعلق پسماندہ ممالک سے ہوتا ہے۔ راحت اندوری صاحب نے درست کہا تھا؛

موت کا زہر ہے فضاؤں میں
اب کہاں جا کے سانس لی جائے

اس تمام صورتحال میں کئی دفعہ یہ حل پیش کیا جاتا ہے کہ ہر شخص انفرادی طور پر اگر اس ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات کرے تو مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ کبھی انفرادی طور پر درخت لگانے کا منجن فروخت کیا جاتا ہے اور کبھی آلودگی کے پھیلاؤ میں اپنا حصہ کم سے کم کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس تمام تر ماحولیاتی آلودگی اور تبدیلی کی وجہ سرمایہ دارانہ نظام کی منافع کی ہوس اور قدرتی ذرائع کی بے دریغ لوٹ مار ہے۔انفرادی طور پر کسی بھی عمل سے یہ مسئلہ کبھی بھی حل نہیں ہو سکتا۔ایک انسان اگر انفرادی طور پر پلاسٹک کے استعمال کو ترک بھی کر دے اور ڈیزل، پٹرول وغیرہ کے استعمال کو ختم کر کے سائیکل پر ہی پوری زندگی سفر کرنے کا فیصلہ کر لے تب بھی بجلی پیدا کرنے کے لیے کوئلے، فرنس آئل کے استعمال سے لے کر اشیا کی پیداوار کے لیے موجود ہ صنعتوں کے چلنے سے ماحولیاتی آلودگی بڑھتی ہی رہے گی اور اس کے اثرات پورے کرۂ ارض پر مرتب ہوتے ہی رہیں گے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کو روکنے کے لیے سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی جدوجہد کی جائے اور اس کا آغاز پاکستان سمیت دنیا کے کسی بھی ملک سے ہو سکتا ہے۔پاکستان کا حصہ اگرچہ عالمی سطح پر ہونے والے نقصان دہ گیسوں کے اخراج میں ایک فیصد سے کم ہے مگر یہ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔ اس لیے یہاں کے محنت کشوں اور سوشلسٹ انقلابیوں کا بھی فریضہ بنتا ہے کہ اس مسئلے کی نہ صرف زیادہ سے زیادہ آگہی حاصل کریں بلکہ اس کیخلاف اجتماعی جدوجہد بھی منظم کریں۔

حکمرانوں، صنعت کاروں اور سرمایہ داروں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کے منافعوں کی ہوس سے نسلِ انسانی کو معدوم ہونے کا خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ محنت کش عوام کے پاس اپنے زورِ بازو پر حالات تبدیل کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ اسی لیے دنیا بھر کے محنت کشوں، طلبہ، نوجوانوں اور کسانوں کو طبقاتی بنیادوں پر یکجا ہوتے ہوئے اس مہلک نظام کا تختہ الٹ کر ایک ایسے سماج کی بنیاد رکھنی ہوگی جہاں منافعوں کی بجائے انسانی جانوں اور ان کی ضروریات کو ترجیح دی جاتی ہو؛ جہاں بارش ایک عذاب نہ ہو، جہاں سانس لینا اذیت نہ ہو اور جہاں صاف پانی ایک عیاشی نہ ہو۔آج کے عہد میں ایسے سماج کا قیام صرف اور صرف ایک سوشلسٹ انقلاب اور منصوبہ معیشت کے قیام کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

Comments are closed.