بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریاں: یہیں سے اٹھے گا شورِ محشر!

|تحریر: ثناء اللہ جلبانی|

عام حالات میں لوگ اپنی زندگی معمول کے مطابق بسر کرتے ہیں، لیکن تاریخ میں ایسے ادوار ضرور آتے ہیں جب انسان کا شعور چونک اٹھتا ہے۔ انسان ان لمحوں میں درپیش حالات و واقعات کو سنجیدگی سے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اپنی ذات، اپنے پیاروں اور حتیٰ کہ دشمنوں اور سماجی قوانین تک کا ازسرِ نو جائزہ لیتا ہے۔ یہ کیفیت غیر معمولی حالات میں بالخصوص انقلابات، جنگوں، بحرانوں اور تباہ کاریوں کے ادوار میں لازمی طور پر جنم لیتی ہے۔

حالیہ بارشوں اور سیلاب کی خبریں دیکھ کر روح کانپ اٹھتی ہے۔ ہزاروں اپنے جیسے انسانوں کا پانی کے بپھرے ریلوں میں ہمیشہ کے لیے کھو جانا، سینکڑوں بے یار و مددگار بزرگوں اور معصوم بچوں کے مٹی اور زخموں میں لتھڑے بے جان جسموں کا دریافت ہونا، سالہا سال محنت مزدوری کر کے اپنا خون پسینہ نچوڑ کر بنائے گئے مکان اور بستیوں کا غارے کے ملبے کی شکل اختیار کر جانا، وہ لوگ جن کے ساتھ زندگی کے حسین لمحے بسر کیے، ان کا بغیر الوداع کہے بچھڑ جانا اور ان کی یادوں کی کسک کلیجہ پھاڑ دینے کو ہو۔ روشن مستقبل کی تمنائیں اور حسین خواب! سب اجڑا اجڑا۔۔۔ گویا زندگی کی بساط پر پانی پھیر دیا جا چکا ہو! کھلے آسمان تلے خیمہ زن انسان بے ساختہ پکار اٹھتا ہے: ”کیا یہی زندگی ہے؟ کیا یہی ہمارے نصیب میں لکھا گیا تھا؟“ یہ سب مناظر یقینا انسان کو جھنجھوڑ دیتے ہوں گے۔

یقینا یہ مناظر انسان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ لیکن کیا یہ اندوہناک لمحے انسان کو مزید کمزور بناتے ہیں؟ ہرگز نہیں! یہ قیامت خیز حالات انسان کے اندر تبدیلی کی ایک نئی امنگ، نئے شعور اور جدوجہد کی جوت جگاتے ہیں۔ انسان سمجھنے لگتا ہے کہ یہ زندگی اس کے مقدر کا نام نہیں، بلکہ اِسے بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ یہی لمحے ہوتے ہیں جب انسان موجودہ نظام، اس کے کارندے حکمرانوں اور ریاستی ڈھانچے کو بدلنے کا سوچنے لگتا ہے۔ اس کے اندر ایک نئی آگ بھڑک اٹھتی ہے، وہ مروجہ خیالات پرنظر ثانی کرتا ہے۔ ایسے سانحات انقلابی نظریات کے پروان چڑھنے کا بھی باعث بنتے ہیں۔ لہٰذا آہ و بکا، صبر اور فریاد کے دنوں کو مختصر کرنے کی ٹھان لیتا ہے، اس میں باوقار طور پر جینے کی ہمت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ جدوجہد کے لیے کمر کس کر کہتا ہے، میرے چارہ گر کو نوید ہو، صفِ دشمناں کو خبر کرو!

سیلاب زدگان کے لیے حکمرانوں اور میڈیا کا مضحکہ خیز رویہ!

پاکستانی ریاست، اس کے حکمران اور میڈیا کا عوام دشمن رویہ کوئی نئی بات نہیں، لیکن اس بار ان کی بے حسی ایک نئی حد کو چھو رہی ہے۔ مصائب میں چور عوام کی تباہی پر بھی سیاسی پارٹیاں اپنی سیاست چمکانے میں مصروف ہیں۔ اپنی نااہلی کو چھپانے کے لیے سیلاب کا سارا ملبہ بھارت یا مودی پر ڈال کر اپنے خون آلود ہاتھ دھونے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ بھارت نے اضافی پانی چھوڑا، لہٰذا حکمران قصور وار نہیں۔ لیکن عوام بے وقوف نہیں ہوتے! وہ بخوبی سمجھتے ہیں کہ یہ سب ان کا دھیان اصل مجرموں یعنی یہاں کے حکمرانوں سے ہٹانے کی چال ہے۔ ان تمام حربوں کو جانتے ہیں کہ یہ سب باتیں عوام کے غم و غصے کو محض بھارتی حکمرانوں کی جانب موڑنے کی خاطر کی جا رہی ہیں تاکہ عوام یہاں کے حکمرانوں کے گریبان پکڑنے سے باز رہیں۔ یہ ان حکمرانوں کی خام خیالی ہے کہ عوام ان حکمرانوں کے مظالم اور نااہلی کو بھول جائیں گے۔

نام نہاد ”عقلمند لوگ“ حکمرانوں کی نااہلی پر سوال نہیں کر رہے کہ بروقت اقدامات اور اُجڑے لوگوں کی امداد کیوں نہیں کی جا رہی؟ اس کے برعکس حکمرانوں کی ایما پر قومی تعصبات کو ابھارنے کے مقصد کے تحت، پانی کے بڑے ذخائر تعمیر کرنے اور ڈیم وغیرہ بنانے کی بحث کا آغاز کیا گیا ہے۔ اس موقع پر ان بے جا بحثوں میں بالخصوص پنجاب اور سندھ کے رجعتی قوم پرست بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ آپس میں گتھم گتھا ہو کر زہر آلود مواد پھیلا رہے ہیں۔ اس میں سمجھنے والوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں کہ یہ سب مکروہ افراد آخر کیوں آگ بگولا ہوئے جا رہے ہیں؟ یہ سیلاب اور اس کے سبب تباہی تو ملک بھر میں تمام اقوام اور صوبوں کے غریب عوام کو متاثر کر رہی ہے۔ بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اس تباہی میں ایک خصوصیت یہ ہے کہ قوم، مذہب، نسل، صنف، عمر، قبیلے یا علاقے پر کوئی فرق نہیں رکھتی، لیکن اس تباہی نے یہ امتیاز ضرور رکھا ہے کہ ہر جگہ محنت کش اور غریب عوام کو ہی دبوچ لیتی ہے۔ امیروں اور سرمایہ داروں پر رعایت برتتے ہوئے انہیں کمائی اور منافع خوری کے مواقع فراہم کرتی ہے! یہی حقیقت کہ سیلاب طبقے کی بنیاد پر محنت کشوں پر حملہ آور ہو رہا ہے، جس کے خلاف بغاوت بھی طبقاتی بنیادوں پر ہو گی۔ ملک بھر کے سرمایہ داروں، حکمرانوں، جرنیلوں، ججوں، بیوروکریٹوں، اشرافیہ، ریاستی اداروں اور ان کے نظام کو محنت کش عوام ملیا میٹ کر دیں گے، یہ خوف ان رجعتی قوم پرستوں کو کھائے جا رہا ہے، لہٰذا یہ تقسیم در تقسیم کرنے میں کوشاں ہیں۔

زر خرید میڈیا ایک طرف وزیروں، مشیروں کی تصویریں چھاپ کر ان کی ”خدمت“ کا ڈھونگ رچا رہا ہے اور دوسری طرف متاثرین اور اموات کی اصل تعداد کو چھپانے میں لگا ہوا ہے۔ لیکن حقیقت چھپ نہیں سکتی! مرنے والوں کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر چکی ہے، سینکڑوں لاپتہ ہیں، لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ تاحال خیبر پختونخواہ کے اضلاع میں، بونیر، باجوڑ، مانسہرہ، لوئر دیر، سوات، بٹگرام، شانگلہ، صوابی، ایبٹ آباد، تورغر، اپر دیر اور کوہستان شدید متاثر ہوئے ہیں، جبکہ پنجاب میں درجنوں اضلاع میں اموات رپورٹ کی گئی ہیں، اس کے علاوہ گجرات، سیالکوٹ، نارووال خوفناک تباہی کی زد میں ہیں۔ دریائے راوی، ستلج اور چناب کے کناروں پر واقع شہروں پر خطرے کے بادل چھا چکے ہیں۔ لاہور، فیصل آباد، راولپنڈی، منڈی بہاؤالدین، جھنگ، چنیوٹ، قصور اور ساہیوال کو بھی ایمرجنسی لسٹ میں درج کیا جا چکا ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ سیلابی ریلا سندھ خصوصاً کچے کے علاقے میں بھی بڑی تباہی کا موجب بن سکتا ہے جبکہ کراچی میں بوسیدہ شہری انفراسٹرکچر کے کارن حالیہ بارشوں میں پہلے ہی بہت نقصان ہو چکا ہے۔ بلوچستان میں بھی جانی نقصان درجنوں سے تجاوز کر گیا ہے۔ اس کے علاوہ ”آزاد“ کشمیر اور گلگت بلتستان میں لینڈ سلائیڈنگ کے باعث بے تحاشا تباہی پھیلی ہے۔ کُل ملا کر ہزاروں دیہات، سینکڑوں قصبے اور درجن بھر کے قریب شہر اس وقت زیر آب ہیں اور مزید لاکھوں کیوسک پانی باقی ہے۔ المختصر یہ کہ مزید بڑے پیمانے پر تباہی کے امکانات موجود ہیں۔

دوسری طرف میڈیا عوام کو ہی موردِ الزام ٹھہرا رہا ہے، کہ دریاؤں کے پیٹ میں پلازے اور ہوٹل بنائے ہیں یا پھر ہاؤسنگ سوسائٹیاں قائم کی ہیں، جس سے پانی گزارنے کی کیپیسٹی کم ہو جاتی ہے اور سیلابی کیفیت جنم لیتی ہے۔ بھلا عام محنت کش جو دو وقت کی روٹی بمشکل حاصل کر پاتا ہے، کیسے نجی ہاؤسنگ سوسائٹیاں اور پلازے بنانے کی سکت رکھ سکتا ہے؟ دریاؤں یا نہروں کو مزید بہتر کرنے کی بجائے اس میں مداخلت کرنے میں بھی یہاں کے سرمایہ داروں، حکمرانوں، جرنیلوں اور بیوروکریٹوں کا ہی ہاتھ ہے، جو عوام کے پیسے لوٹ کر پراپرٹی بناتے جاتے ہیں اور اب ملبہ بھی عوام پر ڈال رہے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ضلعی انتظامیہ اور حکومت کو خبر کیے بغیر کوئی راتوں رات ہاؤسنگ سوسائٹی بنا لے؟ یہ سب ڈھونگ رچایا گیا ہے عوام کے شعور کو مسخ کرنے کے لیے۔ درحقیقت نجی ہاؤسنگ سوسائیٹیوں سے یہاں کے حکمرانوں نے کھربوں روپے کمائے ہیں اور لاکھوں عام لوگوں سے پیسے لوٹ کر انہیں بدلے میں انتہائی ناقص معیار کی رہائش فراہم کی ہے۔ روٹی اور کپڑے کے ساتھ ہر شخص کو مکان کی فراہمی بھی ریاست کا فریضہ ہے لیکن یہاں اس بنیادی ضرورت کو بھی لوٹ مار اور کمائی کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے جس میں نجی ہاؤسنگ سوسائیٹیوں کا کاروبار اس وقت ملک کا سب سے منافع بخش کاروبار بن چکا ہے جس میں جرنیل، جج اور بیوروکریٹ بھی ان سرمایہ داروں کے ساتھ شامل ہیں۔

اسی طرح حالیہ سالوں میں نہری نظام کے لیے مختص بجٹ میں بڑے پیمانے پر کٹوتی کی گئی ہے جبکہ دوسری جانب حکمرانوں کی کرپشن اور لوٹ مار میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا ہے جس کا خمیازہ اب یہاں کے عوام بھگت رہے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث سیلاب کی پیش گوئیاں پہلے سے موجود ہیں، لیکن یہاں کے بے حس حکمرانوں کے لیے یہ قدرتی آفات لوٹ مار کے مواقع ہوتے ہیں، جن کا یہ بے تابی سے انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ ایک طرف ان قدرتی آفات اور عام لوگوں کی اموات کو اپنی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور تباہی اور بربادی پر مگرمچھ کے آنسو بہا کر اپنی تشہیر کا موقع ڈھونڈا جاتا ہے، دوسرا ایسی صورتحال میں ایمرجنسی کی صورتحال نافذ کر کے اپنے خلاف ابھرنے والی تحریکوں کو کچلنے کا بہانہ مل جاتا ہے۔ اس کے علاوہ قدرتی آفت کی آڑ میں عوام پر مہنگائی کے نئے حملے کیے جاتے ہیں جبکہ سرمایہ دار ضروری اشیا کی مصنوعی قلت پیدا کر کے زیادہ منافع نچوڑتے ہیں۔ اس کے علاوہ امدادی سرگرمیوں کے نام پر لوٹ مار کا ایک الگ سے بازار گرم کیا جاتا ہے اور دنیا بھر سے بھیک مانگنے کا نیا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اسی طرح نئے تعمیراتی منصوبوں کے ٹھیکوں یا امدادی سرگرمیوں کے بجٹ کے ذریعے کرپشن اور لوٹ مار کے بہت سے نئے مواقع میسر آتے ہیں۔ اس عمل میں نون لیگ، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور دیگر پارٹیاں سب ایک پیج پر ہیں اور ان تمام پارٹیوں کے زیر انتظام یہی سلسلہ جاری رہتا ہے کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام کے اصولوں کے تحت منافع کی ہوس کے سامنے انسانی زندگیاں ہیچ ہیں۔

آخر میں جب کوئی بس نہیں چلتا تو ملاؤں کا گھسا پٹا مؤقف لایا جاتا ہے کہ یہ سب اس ’قوم‘ کا امتحان ہے اور بس گناہوں کی سزا بھگتنے کے لیے تیار ہو جاؤ! ان کی نظر میں گنہگار، رذیل اور عذاب کے لائق صرف محنت کش عوام ہیں، جو زندگی بھر محنت کر کے خون پسینے سے بھی اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دلوا سکتے، ضروری علاج تک نہیں خرید سکتے، محفوظ مکان نہیں بنا سکتے، مہنگائی اور بے روزگاری کے حملوں سے ہر آنے والا کل گزر جانے والے کل سے بہتر نہیں بنا سکتے، ان کے خواب بھی ارمان بن کر سسکیاں اورگرم آنسوؤں کی شکل میں زمین پی جاتی ہے۔ دوسری جانب سرمایہ دار طبقہ نہ صرف ان قدرتی آفات سے اپنے آرام دہ قلعوں میں محفوظ رہتا ہے بلکہ اس کی پُرتعیش زندگیوں میں کوئی رکاوٹ نہیں آتی، الٹا ان کے منافعوں میں اضافے کے امکانات روشن ہو جاتے ہیں۔

لیکن آنے والے وقت میں زمین آنسو پینے سے انکار کرنے والی ہے، یہ آنسو اکٹھے ہو کر انقلابی ریلا بن کر حکمرانوں کے پورے نظام کو بہا لے جائیں گے۔ ہر زخم سے ابھرنے والی چیخ انقلابی نعرہ بننے کو ہے۔ ہم ایک غیر معمولی عہد میں داخل ہو چکے ہیں۔ اس میں طبقاتی لڑائی کو مہمیز ملنے والی ہے۔ پہلے ہی یہاں پر بلوچوں پر قومی جبر کے خلاف تاریخ ساز تحریک جاری ہے، پشتون علاقوں میں دہشتگردی اور بد امنی کے خلاف لاکھوں لوگ میدان عمل میں ہیں، پنجاب اور سندھ کے عوامی اداروں کے محنت کشوں نے بھی بغاوت کے سرخ پرچم لہرا دیے ہیں، گلگت اور ”آزاد“ کشمیر میں عوام نے ان حکمرانوں سے ڈنکے کی چوٹ پر اپنے حقوق چھینے ہیں اور دیگر مطالبات کی منظوری کی لڑائی تاحال جاری ہے۔

آواز دو، ہم ایک ہیں!

پاکستان میں حالیہ سیلابی تباہی کسی قدرتی آفت کا اتفاقیہ نتیجہ نہیں، بلکہ یہ اس ماحولیاتی بگاڑ کا شاخسانہ ہے، جس کا ذمہ دار عالمی سرمایہ دار طبقہ اور ان کی منافع کی لالچ ہے۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے زمین کا اوسط درجہ حرارت تیزی سے بڑھ رہا ہے، جس کے نتیجے میں کہیں خشک سالی، کہیں کلاؤڈ برسٹ، کہیں طوفانی بارشیں اور کہیں گلیشیئرز کا خطرناک حد تک تیزی سے پگھلنا جیسے واقعات وقوع پذیر ہو رہے ہیں۔ عالمی سطح پر سرمایہ دار اور ان کی حکومتیں اس بحران سے نمٹنے کے لیے کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھا رہیں۔ اس کے برعکس، کوئلے، گیس، تیل اور اسلحہ سازی کی صنعتوں سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں مزید اضافہ کیا جا رہا ہے، جو آنے والے دنوں میں تباہی کی نئی لہر بن کر ابھرے گا۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے ایک فیصد امیر ترین افراد اور ان کی کمپنیاں ہی ماحولیاتی تبدیلی کے ساٹھ فیصد سے زائد کی ذمہ دار ہیں، جبکہ ان کا خمیازہ دنیا بھرکے محنت کش عوام بھگت رہے ہیں۔

پاکستان میں محنت کشوں، کسانوں، طلبہ، نوجوانوں اور محکوم قومیتوں پر بڑھتے ریاستی جبر میں تمام حکمران طبقہ اور سیاسی پارٹیاں یک زبان اور ایک پیج پر نظر آتی ہیں۔ چاہے معاملہ ہو عوامی اداروں کی نجکاری کا، تنخواہوں میں کٹوتی کا، مہنگائی، ٹیکسوں اور فیسوں کے اضافے کا، کسانوں کی پیداوار کو اونے پونے داموں خریدنے کا یا پھر مظلوم قومیتوں پر جبر اور وسائل کی لوٹ مار کا، ہر موقع پر عوام پر حملہ کرنے میں یہ سب شریکِ جرم ہوتے ہیں۔ سیلاب، قحط یا کوئی بھی بحران، ان کے لیے انسانی المیہ نہیں بلکہ منافع بٹورنے کا موقع ہوتا ہے۔ یہ تمام سیاسی پارٹیاں اسٹیبلشمنٹ اور عالمی سامراجی آقاؤں کے مفادات کی تکمیل کے لیے آپس میں مقابلہ کرتی ہیں، کیونکہ یہ سب ایک ہی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں؛ سرمایہ دار طبقہ، اور اس نظام میں انسان کی نہیں، منافع کی اہمیت ہے۔

جب مصیبت آتی ہے، تو یہ حکمران اور ان کے ادارے ہماری امداد کو نہیں پہنچتے۔ لیکن جب ہم ان کے ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں، تو پولیس اور مسلح جتھوں کے ذریعے ہمیں دبایا جاتا ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA) اور دیگر ریاستی ادارے، جو عوام کے ٹیکسوں سے قائم ہوئے، ان کی کارکردگی ہر بار صفر ثابت ہوتی ہے۔ ان اداروں کی بیوروکریسی کرپشن میں ڈوبی ہوئی ہے۔ عوام کے ٹیکسوں سے نچوڑا جانے والا اربوں روپے کا بجٹ حکمران طبقہ اور اس کے گماشتے ہضم کر جاتے ہیں۔ یہ نظام عوامی اداروں کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے اور اب اس میں کسی اصلاح کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ ہمیں اس نظام سے مکمل نجات درکار ہے، نہ کہ اس کی مرمت!

حالیہ سیلاب کی تصویریں اور ویڈیوز دیکھنے والے گواہ ہیں کہ امداد اور بچاؤ میں ریاست کہیں نظر نہیں آتی۔ عام محنت کش ہی ایک دوسرے کے اصل ہمدرد اور مددگار ہیں۔ وہی پانی کے ریلوں میں پھنسے لوگوں کو نکالتے ہیں، انہیں محفوظ مقامات تک پہنچاتے ہیں، راشن، دوائیں، کپڑے اور دیگر ضروری سامان فراہم کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو شہر در شہر، گاؤں در گاؤں، اپنی مدد آپ کے تحت مصیبت زدہ بھائی بہنوں کے لیے دیوار بن جاتے ہیں۔ یہ یکجہتی، یہ قربانی، یہ انسان دوستی۔۔۔ ہمیں بتاتی ہے کہ ہم ایک ہیں، اور صرف ہمارا طبقہ ہی ہمارا سہارا ہے۔

جب حکمران بطور طبقہ ہم پر حملہ آور ہوتے ہیں، تو ہماری لڑائی بھی طبقاتی بنیاد پر ہونی چاہیے۔ ملک بھر میں جاری تمام تحریکوں کو ایک لڑی میں پرو کر ملک گیر سطح پر انقلابی جدوجہد کو منظم کرنا ہو گا۔ ہمیں ایک انقلابی کمیونسٹ پارٹی تعمیر کرنا ہو گی، جو سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے اور کمیونزم کے قیام کے لیے جدوجہد کرے۔ یہی واحد راستہ ہے جس کے ذریعے ہم ماحولیاتی تباہیوں، غربت، بے روزگاری، تعلیم و صحت کے بحران اور ریاستی جبر سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام انسانیت اور فطرت دونوں کا دشمن ہے۔ اس کا خاتمہ کیے بغیر نہ زمین بچے گی، نہ انسان۔ ہمیں وہ دنیا بنانی ہے جہاں منافع نہیں، انسان مقدم ہو۔ جہاں وسائل کی ملکیت سرمایہ دار کے ہاتھ میں نہ ہو، بلکہ محنت کش عوام کے اجتماعی کنٹرول میں ہو۔ جہاں فصل کسان کی ہو، کارخانہ مزدور کا ہو، سکول طالبعلم کا ہو!

کمیونزم زندہ باد!
محنت کشوں کا راج زندہ باد!

Comments are closed.