اداریہ لال سلام: گہرا سکوت اور انقلابی طوفان

 

سطح پر اس وقت گہرا سکوت دکھائی دیتا ہے۔ پورے ملک میں بد ترین مہنگائی، بیروزگاری، لاعلاجی، ناخواندنگی اور طاقتوروں کا کمزوروں پرظلم و ستم اپنی انتہاؤں کو چھو رہا ہے لیکن سیاسی میدان میں عوام کی شمولیت کہیں بھی نظر نہیں آتی۔ امیر اور غریب کی خلیج تمام حدیں عبور کر چکی ہے اور ایک جانب دولت کے انباراور خزانوں کے پہاڑ جمع ہو چکے ہیں جبکہ دوسری جانب بدبو، غلاظت، بیماری اور موت کا ننگا رقص مسلسل نظر آتاہے۔ لیکن اس کے باوجود اس ناانصافی اورطبقاتی تفریق کے خلاف کوئی عوامی بغاوت سطح پر نظر نہیں آ رہی۔ بہت سے دانشوروں، تجزیہ نگاروں اور معیشت دانوں کا خیال تھا کہ آئی ایم ایف سے پاکستان کے معاہدے کے بعد جو معاشی حملے کیے جائیں گے اس سے ملک میں شدید بے چینی پھیلے گی اور عوام سڑکوں پر نظر آئیں گے۔ لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہوا اور سیاست میں عوام کے تمام تر غم و غصے کا کہیں بھی اظہار نہیں ہوا۔

اس صورتحال نے سطحی تجزیے کرنے والے کرائے کے دانشوروں کے ہوش اڑا دیے ہیں اور وہ اس ملک کے محنت کشوں کو طعنے دینے اور ملامت کرنے پر اتر آئے ہیں۔ ان کے خیال میں اگر اس وقت عوامی تحریک نہیں ابھر رہی تو پھر کبھی بھی نہیں ابھرے گی اور اس کی وجوہات تلاش کرتے ہوئے وہ حالات کی تمام تر خرابی کی ذمہ داری عوام پر ہی ڈال رہے ہیں اور یہ فیصلہ صادر کر چکے ہیں کہ ان محنت کشوں کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے۔ دوسری جانب حکمرانوں کے حوصلے بھی بلند ہوئے ہیں اورہ بھی اس صورتحال سے شہہ پاتے ہوئے اسے اپنی ایک بہت بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں اور اپنی سخت کنٹرول کی پالیسی کوکامیابی کا سہرا پہناتے ہوئے اسی پالیسی کو مزید سختی کے ساتھ جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق سب کچھ کنٹرول میں ہے اور اگر کوئی پتہ بھی اپنی جگہ سے ہلے گا تو وہ اس کو اپنی چھڑی کے ذریعے واپس اپنی جگہ پر لے آئیں گے۔ بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ سب کچھ انتظامیہ کے کنٹرول میں ہے اور آنے والے طویل عرصے تک کوئی بڑی عوامی سرکشی ہونے کی کوئی توقع نہیں۔

اس عمل میں سیاسی پارٹیوں کا کردار بھی اہمیت کا حامل ہے جو اس وقت عوام کے کسی بھی حصے کی نمائندگی کرنے سے قاصر ہیں۔ میڈیا پر ہر روز حکومت اور اپوزیشن کے نظر آنے والے بڑے بڑے نام اور بڑے بڑے دعوے کرنے والے افراد خود حالات کے رحم و کرم پر نظر آتے ہیں اور اپنی تمام تر خواہشات کے باوجود کسی بھی قسم کی کامیاب سیاسی سرگرمی کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ تما م تر اپوزیشن مجبور ہے کہ اسمبلی کے اندر سے کی جانے والی تقریروں پر اکتفا کرتے ہوئے میڈیا پر انحصار کرے کہ اس کے ذریعے ان کے بیانات ان کے حلقہئ اثر تک پہنچتے رہیں۔ لیکن اس اپوزیشن کے پاس بھی عوام کے کسی بھی مسئلے کا کوئی حل موجود نہیں اور وہ بھی حکومت کے تمام تر جرائم میں مکمل طور پر شریک ہیں اور اسی حکمران طبقے کا ایک کلیدی حصہ ہیں۔ اس ملک کے محنت کش عوام کا بھی حکمران جماعت سمیت تمام اپوزیشن پارٹیوں پر اعتماد مکمل طور پر ختم ہوچکا ہے اسی لیے وہ اپنے مسائل کے حل کے لیے ان میں سے کسی بھی پارٹی کی جانب رجوع نہیں کر رہے۔ مختلف اداروں کے ملازمین کے نجکاری کے خلاف یا تنخواہوں میں اضافے کے لیے ہونے والے احتجاج بھی آزادانہ طور پر منظم ہوتے ہیں اور وہ کسی بھی سیاسی پارٹی سے تعلق کا اظہار کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ یہاں تک کہ گزشتہ ماہ تاجروں اور دکانداروں کے احتجاجوں میں بھی کسی سیاسی پارٹی کی شمولیت نظر نہیں آئی اور وہ احتجاج بھی سیاسی پارٹیوں کے بغیر ہی منظم کیے گئے۔ درحقیقت، اپوزیشن پارٹیاں ان احتجاجوں کی قیادت کرنے کی بجائے ان کی پیروی کرتی نظر آتی ہیں اور محض حکمران جماعت اور اسٹیبلشمنٹ سے رعایت لینے کی خاطر ان احتجاجوں اور مہنگائی وغیرہ کا ہلکا پھلکا سا تذکرہ کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ یہی کچھ بلاول نے بھی حال ہی میں کیا جب اس نے اپنی سندھ حکومت کی لوٹ مارکو بچانے کی خاطر قومی مسئلے کو استعمال کیا اور اسٹیبلشمنٹ، جو اس وقت قومی تحریکوں سے خوفزدہ ہے، اس کو مزید خوفزدہ کرتے ہوئے اپنی صوبائی حکمرانی کو جاری رکھنے کی بھیک مانگی۔ ن لیگ اور فضل الرحمان سمیت دیگر اپوزیشن پارٹیاں بھی عوام کے ایشوز کو کبھی کبھی زبان پر اسی لیے لاتی ہیں تاکہ اپنی پر تعیش زندگیوں میں آنے والے خلل کو دور کر سکیں۔ ورنہ میڈیا اور سیاسی پارٹیوں میں ہونے والی بحث ایسے فروعی معاملات کے گرد ہو رہی ہوتی ہے جن کا عوام کے حقیقی مسائل سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔

محنت کش عوام کو پارلیمنٹ، عدلیہ اور دیگر ریاستی اداروں کے اندرونی تضادات اور وہاں ہونے والی بے معنی بحثوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔ انہیں یہ بھی یقین ہو چکا ہے کہ پولیس سے لے کر عدالتوں اور بیوروکریسی تک میں موجود بد عنوانی اور دیگر خرافات اس نظام میں رہتے ہوئے درست نہیں کی جا سکتیں اور اس پر جتنا مرضی شور شرابا ہو جائے یہ ٹھیک ہونے والے نہیں۔ بلکہ اصلاحات کا راگ الاپنے کا مقصد صرف بدعنوانی کے ریٹ میں اضافہ ہے جس کی قیمت آخر میں مظلوم عوام نے ہی دینی ہے۔ تمام تر سیاسی پارٹیاں بھی عملی طور پر ناکارہ ہو چکی ہیں اور صرف ریاست کے مختلف دھڑوں کی ہی نمائندہ ہیں۔
لیکن پھر یہ سوال ابھرتا ہے کہ اگر یہ سیاسی پارٹیاں نہ چاہیں اور کوئی بھی لیڈر موجود نہ ہو تو کیا تحریک ابھر سکتی ہے؟ کیا اس ملک کے عوام ہمیشہ ایسے ہی ظلم سہتے رہیں گے اور اپنی زبانیں بند رکھیں گے؟ یہ گہرا سکوت جو سطح پر دکھائی دیتا ہے کیا یہ ایسے ہی لمبے عرصے تک جاری رہے گا؟ تو ان تمام سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔

عوامی تحریکیں لیڈروں کی محتاج نہیں ہوتیں اور نہ ہی کسی سیاسی پارٹی کے رحم و کرم پر ہوتی ہیں۔ بلکہ تاریخ کی حقیقت یہی ہے کہ تحریکیں لیڈربناتی ہیں اور حقیقی سیاسی پارٹیوں کی تخلیق بھی نئی تحریکوں میں ہی ہوتی ہے۔ اس وقت سطح پر دکھائی دینے والا سکوت درحقیقت ایک بہت بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہے۔ سطح سے نیچے اہم تبدیلیاں وقوع پذیر ہو رہی ہیں اورمحنت کش طبقے کا شعور بہت بڑی تبدیلیوں سے گزرتاہوا اہم نتائج اخذ کر رہا ہے۔ لیکن یہ سب ریاضی کے فارمولوں کے تحت آگے نہیں بڑھتا کہ پٹرول یا بجلی کی قیمت میں اتنے اضافے سے تحریک ابھرے گی اور اتنے اضافے سے نہیں ابھرے گی۔ بلکہ سماجی سائنس کے اپنے اصول ہوتے ہیں جنہیں سمجھنے کے لیے جدلیاتی مادیت کے فلسفے کی سمجھ بوجھ درکار ہے۔ اس فلسفے کے تحت تحریکیں اور انقلابات کسی بھی انسانی سماج کا ناگزیر حصہ ہیں اور سماج میں موجود زندہ قوتوں کے طبقاتی تضادات جب ایک خاص نہج پر پہنچ جاتے ہیں تو انہیں پھٹنے سے کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ وہ حکمران جو تحریک کو کنٹرول میں رکھنے پر بغلیں بجا رہے ہیں درحقیقت خود بہت بڑے داخلی تضادات کا شکار ہو چکے ہیں۔ لیکن سب سے بڑھ کر اس سماج میں موجود امیر اور غریب پر مبنی طبقات کا تضاد اپنی انتہاؤں کو چھو رہا ہے اور بہت بڑے انقلابات کے سلسلے کی جانب بڑھ رہا ہے۔ عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیاں بھی اسی جانب اشارہ کر رہی ہیں۔ درحقیقت، یہ سماج اس وقت واضح طور پر انقلاب سے پہلے والی کیفیت میں موجود ہے اور تیزی سے ایک انقلابی صورتحال کی جانب گامزن ہے۔ آنے والی تحریکیں موجودہ سماج میں حاوی دانشوروں، سیاستدانوں، سیاسی پارٹیوں، لیڈروں اوراپنے اپنے حلقے سے غداریاں کرنے والوں کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینکنے کی جانب بڑھیں گی اور تازہ دم سیاسی قوتیں افق پر نظر آئیں گی۔ صرف وہی قوتیں اس تحریک کی قیادت کر سکیں گی جو نظریاتی حوالے سے درست پروگرام اور لائحہ عمل دینے کے علاوہ سب سے زیادہ جرأت مند اور دلیر بھی ہوں گی۔ کمزور ارادے کی حامل متذبذب قوتوں، ماضی میں زندہ رہنے والوں، مفاد پرستوں، دھوکہ بازوں، مکاروں، عیاروں اور ابن الوقتوں کے لیے ایسے انقلابی عہد میں کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ صرف مارکسی نظریات سے لیس بالشویک پارٹی کی طرز پر موجود قوت ہی ایک فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہوئے اس تحریک کو منطقی انجام کی جانب لے جا سکتی ہے اور امیر اور غریب پر مبنی اس طبقاتی تفریق کا خاتمہ ایک کامیاب سوشلسٹ انقلاب سے کر سکتی ہے۔ آج اسی پارٹی کو تعمیر کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

Comments are closed.