اداریہ: افغانستان کی خانہ جنگی اور انقلابی حل

افغانستان میں امریکی سامراج اور اس کے اتحادیوں کی ذلت آمیز شکست کے بعد صورتحال پھر ایک خانہ جنگی اور خونریزی کی جانب بڑھ چکی ہے۔ خطے کی امریکہ مخالف سامراجی قوتوں کی پشت پناہی سے طالبان کی رجعتی اور عوام دشمن قوت دو دہائیوں بعد پھر سے بے گناہوں کے قتل عام کی جانب بڑھ رہی ہے۔ اب تک چار لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہو کر کابل میں پناہ گزین ہیں اور آنے والے مہینوں میں ان کی تعداد میں کئی گنا اضافہ متوقع ہے۔ بھوک، بیماری اور غربت میں زندگی گزارنے والے افغانستان کے لاکھوں افراد سامراجی طاقتوں کے خونی چکرمیں گزشتہ چار دہائیوں سے پس رہے ہیں اور اب پھر ایک نئی خانہ جنگی کا آغاز ہونے جا رہا ہے جس کے گہرے اثرات پاکستان کے محنت کش طبقے پر بھی مرتب ہوں گے۔

گزشتہ دو دہائیوں کی امریکی سامراج کی مسلط کردہ جنگ کی ناکامی نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر اس خونریزی اور بربادی سے نجات ممکن نہیں۔ دو ہزار ارب ڈالر سے زائد رقم خرچ کرنے اور لاکھوں کی تعداد میں فوج تعینات کرنے کے باوجود امریکی سامراج اور اس کے تمام تر اتحادی افغانستان کو ایک جدید ریاست بنانے میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں۔ سامراجی طاقتوں کی مسلط کردہ کابل حکومت امریکی فوجوں کے مکمل انخلا سے پہلے ہی گرنا شروع ہو گئی ہے۔ تین لاکھ سے زائد افراد پر مشتمل فوج امریکہ کے فراہم کردہ اسلحے سے لیس ہونے کے باوجود تاش کے پتوں کی طرح بکھر رہی ہے۔ افغانستان پر سامراجی طاقتوں کی جانب سے مسلط کردہ اس حکومت کو کبھی بھی عوامی حمایت نہیں مل سکی تھی اور یہ اپنے آقاؤں کی بیساکھیوں پر ہی قائم تھی۔ اب جیسے ہی وہ بیساکھیاں سرکنے لگی ہیں تو یہ دھڑام سے گر رہی ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں فراڈ الیکشنوں اور دیگر طریقوں سے اس حکومت کو مسلط کر کے دنیا کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ افغانستان میں جمہوریت قائم ہو گئی ہے۔ لیکن خطے کے لوگ بخوبی جانتے تھے کہ اس عمل میں سامراجی طاقتیں اپنی کٹھ پتلیوں کو فوجی طاقت کے بلبوتے پر مسلط کر رہی ہے جبکہ عوام میں ان کے خلاف شدید نفرت اور غم و غصہ موجود ہے۔ ان کٹھ پتلیوں کی کرپشن، بے دریغ لوٹ ماراور عوام دشمن کاروائیوں کے باعث اس نفرت میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا اور آج اس کا نتیجہ واضح ہے کہ شمال میں موجود اپنے محفوظ ترین علاقوں میں بھی یہ اپنے سے کئی گنا کم قوتوں کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہیں۔ شیبرغان، کندوز اور دیگر ایسے شمالی علاقے جو اس کابل حکومت کے سب سے مضبوط گڑھ سمجھے جاتے تھے وہاں بھی یہ ابتدائی مراحل میں ہی بدترین شکست سے دوچار ہو رہے ہیں جو گزشتہ دو دہائیوں سے ان کے مکمل طور پر زیر انتظام تھے۔ ان اہم مراکزمیں شکست واضح کرتی ہے کہ طالبان مضبوط یا تعداد میں زیادہ نہیں ہیں بلکہ یہ امریکی مسلط کردہ ریاست ہے جو انتہائی کمزور اور خستہ حال ہے اور ذرہ برابر بھی عوامی حمایت نہ رکھنے کے باعث ہلکی سی ٹھوکر سے ہی زمین بوس ہو رہی ہے۔

المیہ یہ ہے کہ اس سامراجی کٹھ پتلی کے خلاف خانہ جنگی برپا کرنے والی قوتیں بھی مختلف سامراجی طاقتوں کی ہی کٹھ پتلی ہے اور اس قوت سے بھی عوام کی شدید نفرت اور حقارت موجود ہے۔ طالبان کی افغانستان کے عوام میں کہیں بھی حمایت موجود نہیں اور ان کے انسانیت سوز مظالم اور رجعتی نظریات کی قیمت یہاں کے محنت کش عوام گزشتہ تین دہائیوں سے اپنے خون سے ادا کر رہے ہیں۔ ایران، پاکستان، روس اور خطے کی دیگر قوتوں کی حمایت سے یہ انسان دشمن قوت وقتی طور پر حاوی ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے لیکن اس کی بنیادیں بھی انتہائی کمزور ہیں اور جن مختلف بیساکھیوں کے سہارے یہ خانہ جنگی میں اترے ہیں وہ بھی ماضی کی نسبت کہیں زیادہ کھوکھلی ہیں۔ ایران سے اسلحہ، تربیت اور سٹریٹجک حمایت جبکہ پاکستان سے افرادی قوت حاصل کرتے ہوئے طالبان وقتی طور پر کابل حکومت کو ملک کے بڑے حصے سے اکھاڑنے میں کامیاب ہوئے ہیں لیکن ابھی کابل پر قبضہ باقی ہے جس کی جانب پیش قدمی ہو رہی ہے۔ اگر یہ کابل پر قبضہ کر بھی لیتے ہیں تو بھی یہ مکمل کنٹرول کبھی بھی حاصل نہیں کر سکیں گے اور نہ ہی ایک مستحکم ریاستی ڈھانچہ اورمضبوط مالیاتی بنیادیں حاصل کر سکیں گے۔ طالبان کی حمایت کرنے والی قوتیں خود شدید مالیاتی بحران اور عدم استحکام کا شکار ہیں اور آنے والے عرصے میں افغانستان کا عدم استحکام اور خونریزی ناگزیر طور پر ہمسایہ ممالک میں تیزی سے پھیلے گی جو اس خانہ جنگی کو مصنوعی سرحدوں کے پار لے جائے گی۔

درحقیقت طالبان کو اس خطے کے عوام پر مسلط کرنے والی سب سے بڑی قوت امریکی سامراج ہی ہے۔ جس نے پہلے انسانوں کے خون کی پیاسی اس قوت کو سوویت یونین کے خلاف ڈالر جہاد میں استعمال کیا اور پھر دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ دنیا پر مسلط کرنے کے لیے اس قوت کا ہوّا کھڑا کیا تاکہ اپنے ہی تراشے ہوئے اس بُت کے خلاف جنگ کا آغاز کیا جا سکے اور کھربوں ڈالر کی اسلحے کی صنعت کے منافعوں میں اضافہ بھی کیا جا سکے۔ (تصویر: امریکی صدر رونلڈ ریگن مجاہدین کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ)

درحقیقت طالبان کو اس خطے کے عوام پر مسلط کرنے والی سب سے بڑی قوت امریکی سامراج ہی ہے۔ جس نے پہلے انسانوں کے خون کی پیاسی اس قوت کو سوویت یونین کے خلاف ڈالر جہاد میں استعمال کیا اور پھر دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ دنیا پر مسلط کرنے کے لیے اس قوت کا ہوّا کھڑا کیا تاکہ اپنے ہی تراشے ہوئے اس بُت کے خلاف جنگ کا آغاز کیا جا سکے اور کھربوں ڈالر کی اسلحے کی صنعت کے منافعوں میں اضافہ بھی کیا جا سکے۔ گزشتہ ایک دہائی سے نام نہاد امن مذاکرات کے ناٹک میں اس رجعتی قوت کو ایک دفعہ پھر عالمی منظر نامے پر ابھارا گیا اور قطر میں ان کا سفارت خانہ کھولنے کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھ مختلف معاہدے بھی کیے گئے جس سے نہ صرف اس عوامی نفرت کے حامل جتھے کو فریق تسلیم کر لیا گیا بلکہ اسے ایک طاقت کے طورپر بھی پیش کیا گیا۔ آج امریکہ خود اس خطے سے نکل رہا ہے لیکن اپنے پیچھے عدم استحکام اورمزید خونریزی کے بیج بو کر جا رہا ہے جس سے یہ پورا خطہ آنے والے عرصے میں جنگوں اور قتل و غارت کا شکار رہے گا۔

چین اور روس اس صورتحال کو اپنے سامراجی مفادات کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور طالبان کے ساتھ مسلسل مزاکرات کے ذریعے انہیں اپنے مکمل اثر و رسوخ میں لانا چاہتے ہیں اور خطے میں اپنے سامراجی تسلط کو پھیلانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ لیکن ان کے پاس امریکہ اور اس کے اتحادیوں جتنی مالی اور عسکری صلاحیت موجود نہیں اور نہ ہی وہ اپنی حمایت سے کوئی مضبوط مرکزی حکومت تشکیل دینے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ پاکستان بھی ماضی کی طرح کابل میں اپنی کٹھ پتلی حکومت کا خواہشمند ہے اور اس کے لیے طالبان کی بھرپور حمایت کی جا رہی ہے جس کے باعث اس کاحقیقی آقا امریکی سامراج بھی ناراض ہے۔ اس ناراضگی کے نتیجے میں پاکستان کا ریاستی اور مالیاتی بحران گہرا ہوتا جا رہا ہے اور وہ دیوالیہ پن کی جانب بڑھ رہا ہے۔ عالمی مالیاتی بحران کے باعث یہ صورتحال مزید گمبھیر ہوتی جا رہی ہے اور اس ریاست کو بیل آؤٹ کرنے کی قیمت بڑھتی جا رہی ہے جس کے باعث امریکہ کے علاوہ چین کی بھی دلچسپی کم ہوتی جا رہی ہے۔ آنے والے عرصے میں افغان مہاجرین کے نام پر دنیا سے بھیک اکٹھی کر کے پاکستان کے حکمران اپنی عیاشیوں کو جاری رکھنے کی کوشش کر سکتے ہیں لیکن ساتھ ہی ان مہاجرین کے بد ترین استحصال کا بھی آغاز کیا جائے گا۔

درحقیقت واضح ہو چکا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں اس مسئلے کا کوئی حل نہیں اورتاریخ کی سب سے بڑی اور طاقتور سامراجی طاقت بھی یہاں خونریزی روکنے میں مکمل طور پرناکام ہو چکی ہے جبکہ مستقبل میں بھی بہتری کی بجائے مزید بربادی پھیلنے کے ہی امکانات موجود ہیں۔

درحقیقت واضح ہو چکا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں اس مسئلے کا کوئی حل نہیں اورتاریخ کی سب سے بڑی اور طاقتور سامراجی طاقت بھی یہاں خونریزی روکنے میں مکمل طور پرناکام ہو چکی ہے جبکہ مستقبل میں بھی بہتری کی بجائے مزید بربادی پھیلنے کے ہی امکانات موجود ہیں۔ ایسے میں خطے کامحنت کش طبقہ ہی آگے بڑھ کر اس تمام تر قتل و غارت کا انت کر سکتا ہے۔ افغانستان کا انقلاب ناگزیر طور پر ایران اور پاکستان کے انقلاب کے ساتھ جڑچکا ہے اور قومی بنیادوں پر اس مسئلے کا کوئی بھی حل موجود نہیں۔ قوم پرستی کے زہر نے پہلے ہی افغانستان کی عوامی تحریکوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اور ان کو ایک یا دوسری طاقت کی گود میں لا بٹھایا ہے۔ دو دہائیاں قبل تمام تر قوم پرست اور نام نہاد بایاں بازو کود کر امریکی سامراج کی گود میں بیٹھ گیا تھا اور محنت کشوں سے غداری کرتے ہوئے اسی درندے کو نجات دہندہ قرار دے دیا تھا۔ آج ان کی بے بسی دنیا کے سامنے ہے۔ ایسے میں محنت کش طبقے کی انقلابی قوت پر غیر متزلزل یقین ہی آگے بڑھنے کا واحد رستہ ہے۔ ایران، پاکستان یا خطے میں کسی بھی اور ملک میں ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اگر محنت کش طبقہ اقتدار پر قبضہ کرتا ہے اور سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے رکھوالے عوام دشمن حکمرانوں کا صفایا کرتا ہے تو اٖفغانستان کی تمام عوام دشمن قوتوں کا بھی حتمی طور پر خاتمہ ہوگا۔ خطے میں بننے والی مزدور ریاست تمام سامراجی قبضوں اور جنگوں کا بھی خاتمہ کرے گی اور مصنوعی سرحدوں کو مٹاتے ہوئے خطے کی ایک سوشلسٹ فیڈریشن کے قیام کی جانب آگے بڑھے گی۔ آج اشد ضرورت ہے کہ ایسی انقلابی قوت کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جائے جو سوشلسٹ انقلاب کے رستے پر گامزن ہو۔ موجودہ نظام کی حدود اور اس کے تمام تر تعصبات کو تسلیم کر لینے والی کوئی بھی قوت اس خونریزی کا خاتمہ نہیں کر سکتی بلکہ اس کو بڑھانے کا باعث بنے گی۔ سوشلسٹ انقلاب ہی افغانستان کے محنت کش عوام کی واحد راہِ نجات ہے او ر اسی کی جانب آگے بڑھنا ہی انسانیت سے ہمدردی رکھنے والوں کا واحد نصب العین ہونا چاہئیے۔

Comments are closed.