افغانستان: امریکی سامراج کی ذلت آمیز شکست، سفاکی اور فرار

|تحریر: حمید علی زادے، ترجمہ: ولید خان|

امریکی تاریخ کی سب سے طویل جنگ کا خاتمہ امریکی سامراج کی شرمناک اور ذلت آمیز شکست کی صورت میں ہو چکا ہے۔ افغانستان پر فوج کشی کے بیس سال بعد انسانی تاریخ کی طاقتور ترین عسکری قوت پسماندہ مذہبی انتہاء پسندوں کے ایک گروہ کے ہاتھوں مکمل طور پرشکست خوردہ ہو چکی ہے۔

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

ایک ہفتہ حیران کن تیز ترین یلغار اور پیش قدمی کا اختتام کابل کی فتح پر ہوا۔ اس ایک ہفتے میں طالبان نے آدھے سے زیادہ ملک پر قبضہ کر لیا جس میں سب سے زیادہ گنجان آباد شہر شامل ہیں۔ اس وقت وہ ملک کے ہر ڈسٹرکٹ پر قابض ہو چکے ہیں۔

لیکن زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب صدر جو بائیڈن نے سب کو حوصلہ دیا تھا کہ طالبان پورے ملک سمیت کابل پر قبضہ نہیں کریں گے، طالبان کے ساتھ معاہدہ ہو چکا ہے کہ ایک قومی یکجہتی پر مبنی حکومت بنائی جائے گی وغیرہ وغیرہ۔

ایک مہینہ پہلے اس نے پرُ اعتماد اعلان کیا کہ ”اس بات کے انتہائی کم امکانات ہیں کہ طالبان ہر چیز کو روند ڈالیں گے اور پورے ملک پر قبضہ کر لیں گے۔ ہم نے اپنے افغان ساتھیوں کو تمام اوزار سے مسلح کیا ہے۔۔میں زور دے رہا ہوں کہ کسی بھی جدید فوج کے تمام اوزار، ٹریننگ اور سامان وغیرہ سب کچھ“۔

اب یہ تمام وعدے پانی کا بلبلہ ثابت ہو چکے ہیں۔ امریکی افواج نے ابھی اپنی منصوبہ بند پسپائی مکمل نہیں کی تھی کہ طالبان بھوکے کتوں کی طرح ٹوٹ پڑے۔ ان کی تیز تر یلغار سے کابل میں پہلے ہی انتشار زدہ حکومت کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے۔

امریکی حکام کے مطابق افغان ریاست، اس کی فوج اور پولیس نے امریکی پسپائی کے ساتھ پورے ملک کا نظم و نسق اپنے ہاتھوں میں لینا تھا۔ لیکن ریاست کہیں نظر نہیں آئی۔ امریکی افواج کی مسلح کردہ اور تربیت یافتہ افغان فوج جس کی تعداد 3 لاکھ بتائی جا رہی تھی، سادہ ہتھیاروں سے لیس اسلامی انتہاء پسندوں کے سامنے تحلیل ہو گئی۔ ان انتہاء پسندوں کی حد درجہ مبالغہ آرائی کے باوجود تعداد 75 ہزار مستقل جنگجوؤں سے زیادہ نہیں۔

پچھلے ایک ہفتے میں فوجی کمانڈروں اور سیاست دانوں کی تمام تر ولولہ انگیز بیان بازی کہ ’سب خون کے آخری قطرے تک لڑیں گے‘، کے برعکس، فیصلہ کن لڑائی کا وقت آنے پر سب نے مکمل طور پر دھوکہ دیا۔ محض چند دن پہلے ”سینہ پیٹتے“ اور”لڑنے مرنے کے لئے تیار“ ہر شخص یکے بعد دیگرے ہر شہر میں طالبان کو اقتدار دے کر دم دبا کر بھاگ نکلا یا پھر کچھ جگہوں پر ان کے ساتھ مل کر نئی ملا آمریت کو اپنی خدمات پیش کرنے لگا۔

افغان فوج تیزی کے ساتھ بکھرنا شروع ہو گئی۔ حکومتی فوجیوں کے جتھے در جتھے پیسوں کے بدلے طالبان کو اپنے ہتھیار دینے لگے اور شہروں کی شکست کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔

کابل کے نزدیک یلغار پہنچنے پر حکومت نے اعلان کیا کہ وہ اقتدار کی پرُ امن منتقلی پر مذاکرات کریں گے جس کے نتیجے میں افغانیوں کے بنیادی حقوق کو یقینی بنایا جائے گا۔ صدر اشرف غنی نے یہ بھی اعلان کیا کہ ایک عبوری حکومت قائم کرنے کا معاہدہ ہو چکا ہے جس میں طالبان اور پرانی ریاست کے نمائندے شامل ہوں گے۔

اس سے پہلے کہ اس قسم کے کسی بھی معاہدے کی تفصیلات منظر عام پر آتیں، یہ خبر افغان عوام پر بجلی بن کر گری کہ اشرف غنی ملک چھوڑ کر بھاگ گیا ہے۔ اشرف غنی کی بدعنوان اور رجعتی ریاست تاش کے پتوں کی مانند بکھر گئی۔ غنی نے افغان عوام کو ایک آخری ٹی وی پیغام دیا جس میں خون کے آخری قطرے تک لڑنے کی تلقین کی گئی اور اس کے بعد اپنا سامان باندھ کر ایک نجی طیارے میں تاجکستان دُم دبا کر بھاگ گیا جہاں اسے ایک آرام دہ ملک بدری نصیب ہو گی جبکہ اس کی عوام پر طالبان حکومت قہرعظیم بن کر نازل ہو گی۔

Biden Ghani Image public domain

تمام تر بیان بازی کے برعکس اشرف غنی اور اس کے دیگر وزیر اور فوجی کمانڈر فیصلہ کن گھڑی میں ملک چھوڑ کر بھاگ گئے۔

پورے ملک میں یہی عمل نظر آیا۔ عوام کو سرکاری اعلانات کے ذریعے محفوظ ہونے کے مصنوعی احساس میں مبتلا رکھا گیا جبکہ درپردہ طالبان اور پرانی ریاست کے درمیان معاہدوں کی بوچھاڑ جاری رہی۔ کچھ تجزیہ نگاروں کا اندازہ ہے کہ آخر میں اس طرح کے معاہدوں میں امریکی سامراج بھی براہ راست شامل رہا تاکہ پہلے ہی ایک شرمناک شکست اور پسپائی کو اور زیادہ بے عزتی کا باعث بننے سے روکنے کے لئے کابل سے خون بہائے بغیر پسپائی یقینی بنائی جا سکے۔


ایک طرف اشرف غنی اور اس کے پٹھو اپنی کھال بچانے میں مصروف تھے جبکہ دوسری طرف طالبان جنگجو بغیر کسی مزاہمت کے دارالحکومت میں داخل ہو گئے۔ اب امریکی سامراج کے ہاتھوں بیس سال تباہی سہنے کے بعد افغان عوام کو ہولناک رجعتی انتہاء پسند اسلامی حکومت کا سامنا ہے۔ اسلامی انتہاء پسندوں کی واپسی سے افغان عوام کا خوف کے مارے کلیجہ پھٹ گیا۔ طالبان کی یلغار کے کابل کے قریب پہنچتے ہی دارلحکومت انتشار اور ہیجان کا شکار ہو گیا۔

ایک طرف محنت کشوں، خواتین اور دیگر کو طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا تو دوسری طرف امراء اپنے آپ کو بچانے میں مصروف تھے۔ طبقہ اعلیٰ کے کئی ممبران ملک سے دم دبا کر بھاگتے دکھائی دیئے۔ دیگر نے طالبان کے ساتھ شمولیت اختیار کر لی۔ اطلاعات کے مطابق وزیرِ دفاع بسم اللہ محمدی اپنے بیٹوں کے ساتھ عرب امارات بھاگ نکلا ہے۔ سابق دپٹی سپیکر اور غنی کے قریبی اتحادی ہمایوں ہمایوں کا کہنا ہے کہ اسے طالبان نے کابل کا پولیس چیف لگا دیا ہے۔

جب کابل فتح ہو رہا تھا تو اس دوران ملک کے شمال (پرانی ریاست کا سب سے مضبوط علاقہ) سے جنگجو سرداروں اور کاروباریوں کا ایک وفد طالبان کے مرکزی پشت پناہ پاکستان میں پایا گیا۔ قیاس یہی کیا جا سکتا ہے کہ وہ نئے نظام میں اپنے کردار کے لئے مذاکرات کرنے گئے تھے۔ اس دوران غربت اور جبر میں پسے عوام کو تنہاء چھوڑ دیا گیا ہے۔

طالبان کے سرکاری اعلانات کے باوجود کہ حقوق نسواں کا خیال رکھا جائے گا اور تمام پر امن ہتھیار ڈالنے والوں کو عام معافی دی جائے گی، اطلاعات موصول ہو رہی ہیں کہ دانشوروں اور خواتین کو قتل کیا جا رہا ہے۔ کل ہرات میں طالبات کو یونیورسٹیوں میں داخل ہونے سے روکا گیا اور بینک میں خواتین ملازمین کو گھر جانے کا حکم دیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق قندھار میں غیر ملکی خبر رساں ایجنسیوں کے صحافیوں کی کھوج میں گھر گھر تلاشی لی جا رہی ہے۔ آنے والے دنوں اور ہفتوں میں اقتدار پر گرفت مضبوط کرنے کی کوششوں میں طالبان کا یہ جبر و خوف مزید بڑھے گا۔

طالبان کے نمائندے عوام کے سامنے ٹی وی کیمروں کے لئے شیریں نرمی کا ڈھونگ رچا رہے ہیں کہ ”ہم پہلے جیسے نہیں ہیں، ہم نے کئی اسباق سیکھے ہیں“ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ان لطیف اعلانات کی کوئی حقیقت نہیں۔ ان کا بنیادی مقصد ”عالمی برادری“ کے ہیجان پر مرہم رکھنا ہے تاکہ بیرونی عسکری مداخلت کے خطرے کو کم سے کم کیا جا سکے۔

لیکن ازسر نو بیرونی مداخلت اب ایک دھندلا خواب بن کر رہ گیا ہے۔ بائیڈن فیصلہ کر چکا ہے اور اب واپسی ممکن نہیں۔ اس کے سیاسی مخالفین صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس پر کیچڑ اچھالیں گے کہ یہ ”وہ شخص ہے جس نے افغانیوں کو دھوکہ دیا“۔ اس کا احتجاج نظر انداز کیا جا رہا ہے کہ یہ اس کا پیش رو ڈونلڈ ٹرمپ تھا جس نے افغانستان سے فوجیں واپس نکالنے کا فیصلہ کیا تھا۔

Taliban beating Image RAWA

طالبان کے نمائندے عوام کے سامنے ٹی وی کیمروں کے لئے شیریں نرمی کا ڈھونگ رچا رہے ہیں کہ ”ہم پہلے جیسے نہیں ہیں، ہم نے کئی اسباق سیکھے ہیں“ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ان لطیف اعلانات کی کوئی حقیقت نہیں۔ ان کا بنیادی مقصد ”عالمی برادری“ کے ہیجان پر مرہم رکھنا ہے تاکہ بیرونی عسکری مداخلت کے خطرے کو کم سے کم کیا جا سکے۔

اس سے کسی نے مطمئن نہیں ہونا۔ ویسے بھی کچھ تبدیل نہیں ہو سکتا کیونکہ ریپبلیکن سمیت کوئی بھی سنجیدگی سے نئی عسکری مداخلت کا مشورہ نہیں دے رہا۔ یہ درست ہے کہ افغانستان میں امریکی افواج کی تعداد ایک ہزار سے تین ہزار، پھر پانچ ہزار اور اب چھ ہزار کر دی گئی ہے۔

لیکن ان افواج کو کابل بھیجنے کا واحد مقصد طالبان سے لڑنے کے برعکس شہر میں پھنسے تقریباً 20 ہزار امریکی شہریوں اور اہلکاروں کو بحفاظت نکالنا ہے۔ لیکن یہ مسئلہ بھی پیچیدہ ہو چکا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ واضح ہو چکا ہے کہ مستقبل میں طالبان کے جبر کا شکار ہونے والے زیادہ تر افرادکے لئے امریکہ کچھ نہیں کرے گا۔

ہزاروں افغانیوں نے ہیجان میں امریکی سفارتی کارندوں پر دھاوا بول دیا تاکہ ملک سے باہر نکلنے کے لئے ایک ویزہ اور فلائٹ حاصل کی جا سکے۔ لیکن کوئی شک نہیں کہ ان میں سے بھاری اکثریت کو مایوسی ہوئی ہے۔ ہفتے کے دن سے کابل ہیجان سے بھرپور لوگوں سے بھرا پڑا ہے جو طالبان کے آخری قبضے سے پہلے کابل سے باہر نکلنے کی ہر ممکن سر توڑ کوشش کر رہے ہیں۔

دیگر نے گاڑیوں کے ذریعے بھاگنے کی کوشش کی جس کے نتیجے ٹریفک جام ہو گیا اور شہر کی آمد و رفت مفلوج ہو گئی۔ طالبان نے اعلان کیا ہے کہ وہ عوام کو کابل سے باہر جانے دیں گے لیکن آخر وہ کہاں جا سکتے ہیں؟ امریکی حکومت نے اشارہ دیا تھا کہ طالبان کو مذاکرات کے ذریعے چلایا جا سکتا ہے لیکن اب یہ خیال خود ایک مایوس کن سراب میں تبدیل ہو چکا ہے۔

انتشار اور ہیجان کی تصویر بنے انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر ہزاروں خوف سے نڈھال افغانیوں کی کوشش تھی کہ وہ امریکی فوجیوں اور امریکی شہریوں کے مکمل انخلاء سے پہلے ہی ملک چھوڑ کر بھاگ جائیں مگر وقت آنے پر امریکہ کی جانب سے اپنے افغان ”دوستوں“ اور ”اتحادیوں“ کے ساتھ سفاک دھوکہ کیا گیا اور انتہائی بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں طالبان کے رحم و کرم پر بے یارو مدد گار چھوڑ دیا گیا۔

مگر منصوبے کے مطابق یہ سب کچھ تو نہیں ہونا تھا۔ افغانستان سے منظم امریکی انخلاء ہونا تھا۔ بائیڈن کی جانب سے کہا گیا تھا کہ سائیگون سے 1975ء کے امریکی انخلاء کو نہیں دہرایا جائے گا۔۔ایک ذلت آمیز شکست جو ویتنام جنگ کے خاتمے کا اعلان تھی:

”طالبان جنوبی۔۔شمالی ویتنامی فوج نہیں ہیں۔ وہ۔۔وہ صلاحیت میں ان کا عشر و عشیر بھی نہیں۔ ایسے کوئی حالات پیدا نہیں ہوں گے جن میں آپ افغانستان میں امریکی سفارت خانے کی چھت سے لوگوں کو بھاگتا (ہیلی کاپٹر کے ذریعے) دیکھیں گے۔ یہ موازنہ ہو ہی نہیں سکتا“۔

درحقیقت ہم سائیگون کا ہی ایک ایکشن ری پلے دیکھ رہے ہیں جس میں امریکی سفارت خانے سے لوگوں کو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے بھگا کر لے جانا بھی شامل ہے۔ لیکن موجودہ صورتحال اور بھی زیادہ گھمبیر ہے۔ انتشار اتنا شدید ہے کہ زیادہ تر اثناء میں طالبان ایک ضلع سے دوسرے ضلع بغیر کسی رکاوٹ مارچ کرتے چلے جا رہے ہیں۔

چند مہینوں پہلے یہ بائیڈن ہی تھا جس نے امریکی انخلاء کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ افغان ریاست کی بقاء کی ضمانت دے رہا ہے، وہ اسلامی انتہاء پسندوں کی حکمرانی نہیں بننے دے گا اور وہ حقوقِ نسواں کا تحفظ کرے گا۔ وہ کسی طرح یہ اہداف اس وقت حاصل کرے گا جب افواج ایک محفوظ فاصلے پر پہنچ جائیں گی۔ لیکن یہ جلد ہی واضح ہو گیا کہ امریکہ، افغان عوام کو تو کیا تحفظ دے گا الٹا اسے خود اپنے اہلکاروں کو تحفظ دینے میں شدید دشواریوں کا سامنا ہے۔

یہاں تک کہ وہ افراد جن کے پاس ٹکٹ خریدنے کے پیسے تھے وہ بھی ہوائی جہازوں پر سوار نہیں ہو سکے۔ امریکی فوج نے اپنی فلائٹس چلانے کے لئے کابل ائیرپورٹ بند کر دیا تھا۔ ظاہر ہے کہ چند ایک صاحبِ ثروت اور مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے افراد ہی اس سے فائدہ اٹھا سکتے۔ افغانوں کی بھاری اکثریت کے پاس تو اتنے پیسے بھی نہیں کہ وہ ائیرپورٹ پہنچنے کیلئے ٹیکسی کا کرایہ تک دے سکیں۔ ان کے پاس اب شدید ظلم و جبر کے ایک نئے دور کا انتظار کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ موجود نہیں۔

دارالحکومت پر طالبان کے کنٹرول کے بعد ائیرپورٹ پر موجود لوگوں نے بالآخر رن ویز پر دھاوا بول دیا کہ کسی بھی طرح ملک سے نکلا جا سکے۔ انہیں پتہ ہے کہ صرف ائیرپورٹ سے واپسی پر نظر آ جانا ہی موت کا پروانہ ہے۔ لیکن اطلاعات کے مطابق ان کی مدد کرنے کے بجائے امریکی افواج نے ان پر فائرنگ شروع کر دی تاکہ لوگوں کو ان کے جہازوں پر سواری کرنے سے روکا جا سکے۔ پیر کے دن دو افراد کو امریکی فوجیوں نے قتل کر دیا جبکہ تین افراد ایک جہاز کے ساتھ لٹک کر فرار ہونے کی کوشش میں ٹیک آف کے کچھ ہی دیر بار نیچے گر کر جاں بحق ہو گئے۔ یہ اقدامات واضح کرتے ہیں کہ امریکہ اپنے ”اتحادیوں“ کو کیسے دیکھتا ہے۔۔جب تک وہ امریکی سامراج کے لئے مفید ہیں اس وقت تک وہ ان کا گولہ بارود ہیں۔ ایک مرتبہ ان کی افادیت ختم ہو جائے تو ان کی حیثیت گٹر کے کیڑے مکوڑوں سے زیادہ نہیں۔

طالبان کیسے کامیاب ہوئے؟

بائیڈن حکومت نے فوراً افغان عوام پر انگلی اٹھائی ہے کہ انہیں ”اپنے لئے لڑنا ہے“۔ لیکن امریکی انخلاء کے طریقہ کار نے طاقتوں کا توازن فیصلہ کن طور پر طالبان کی حمایت میں جھکا دیا ہے۔ کئی مہینوں پہلے امریکی انخلاء کی تاریخ کا اعلان کر کے بائیڈن نے طالبان کو حملہ کرنے کا گرین سگنل دے دیا اور انہیں حتمی حملے کی تیاری کے لئے بے تحاشہ وقت بھی مل گیا۔

لیکن دھوکہ اس سے بھی کہیں گہرا ہے۔ فروری میں مذاکرات کے دوران امریکہ نے طالبان کا ہر مطالبہ من و عن مان لیا اور نتیجے میں کوئی ایک مطالبہ بھی نہیں منوایا۔ اس صورتحال میں اسلامی انتہاء پسندوں کے حوصلے بہت زیادہ بڑھ گئے جبکہ افغان فوج کو واضح پیغام مل گیا کہ امریکہ ان کے پیروں تلے زمین کھینچ رہا ہے۔ ایک ایسے سلسلہ وار عمل کا جنم ہوا جس میں ہر افغان کمانڈر اور سیاست دان طالبان سے ڈیل بنانے کے لئے متحرک ہو گیا۔

پھر پینٹاگون کی جانب سے متعدد واضح وارننگز کے باوجود بائیڈن نے امریکی انخلاء کے عمل کو تیز تر نہیں کیا کیونکہ اس کا خیال یہ تھا کہ جنگ کو اپنے منطقی اختتام تک پہنچنے میں کئی مہینے لگ جائیں گے۔ اس وجہ سے انتشار اور عدم منصوبہ بندی اور بھی زیادہ بڑھ گئی جس سے ایک مرتبہ پھر فائدہ صرف انتہاء پسندوں کو ہی پہنچا۔ ہر موڑ پر امریکہ کی عدم تیاری، نااہلی اور طالبان کے ہر مطالبے پر سر تسلیم خم کی پالیسی نے افغان فوج اور ریاستی مشینری کو مٹی کا ڈھیر بنانے کے عمل کو تیز تر کیا۔

افغان ریاست امریکی سامراج کی محض ایک کٹھ پتلی تھی۔ یہ افغانستان میں امریکی تسلط کا ایک اوزار تھی جس کی قیمت لاکھوں افراد کی موت اور عوام کی بے پناہ تباہی و لاچارگی کی صورت میں ادا ہوئی۔ اس لئے یہ جابر ریاست شدید نفرت کا شکار تھی۔ اس میں سماج کے سب سے خوفناک موقع پرست شامل تھے جوموزوں قیمت پر ہر وقت ملک بیچنے کو تیار رہتے ہیں۔۔سابق تاریکین وطن ٹیکنوکریٹس، مقامی جنگجو سردار اور سربراہان جن کے لئے ریاست محض ذاتی امارت میں اضافے کا ایک ذریعہ ہے۔ اس ریاست کی حکمرانی میں غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبی عوام رشوت کے بغیر زندگی کی بنیادی ترین سہولیات حاصل کرنے سے بھی قاصر تھی۔

Ghost soldier Image public domain

سرکاری طور پر افغان فوج کی تعداد 3 لاکھ تھی لیکن اس میں ”کاغذی فوجیوں“ کی بھرمار تھی، یعنی وہ فوجی جو صرف کاغذوں میں ہی موجود تھے تاکہ پیسہ کمانڈروں اور مقامی اشرافیہ کی جیبوں میں جا سکے۔

سرکاری طور پر افغان فوج کی تعداد 3 لاکھ تھی لیکن اس میں ”کاغذی فوجیوں“ کی بھرمار تھی، یعنی وہ فوجی جو صرف کاغذوں میں ہی موجود تھے تاکہ پیسہ کمانڈروں اور مقامی اشرافیہ کی جیبوں میں جا سکے۔ حتمی تجزیئے میں اس کا کام درپردہ موجود امریکی سامراج کی پردہ پوشی کرنا تھا۔ جب کبھی یہ فعال بھی ہوئی تو عوام اسے ایک قومی فوج کے بجائے قابض فوج کے طور پر دیکھتی تھی۔ اس لئے یہ حیران کن بات نہیں کہ ایک غلیظ گلا سڑا ڈھانچہ امریکہ کی آشیر باد کے بعد ایک ٹھوکر سے دھڑام سے گر گیا۔

افغان عوام طالبان سے شدید نفرت کرتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف کسی کو بھی امریکی آشیر باد میں قائم کردہ بدعنوان ریاست پر بھی اعتماد نہیں اور ظاہر ہے کوئی بھی اس کو بچانے کے لئے مرنے کو تیار نہیں۔ اس کے برعکس طالبان ملیشیاء مسلسل جنگوں میں تربیت یافتہ اسلامی انتہاء پسند ہیں جن کے لئے ایک شہید کی موت مرنا سب سے بڑا اعزاز ہے۔

اس رجعتی تحریک کو دہائیوں سے پاکستانی حکمران طبقے کی پشت پناہی رہی ہے۔ درحقیقت اس ہولناک عفریت کو اس طبقے نے پروان ہی اس لئے چڑھایا کیونکہ وہ تاریخی طور پر افغانستان پر حکمرانی کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن حال ہی میں طالبان کو ایران، چین اور روس کی طرف سے حمایت حاصل ہوئی ہے کیونکہ یہ سب امریکی پسپائی کے بعد بڑھتے عدم استحکام سے شدید پریشان ہیں۔

اس وجہ سے طالبان کو مزید شہہ ملی۔ ان طاقتوں کی کوشش ہے کہ کسی طرح ان اسلامی انتہاء پسندوں کو معاشی اور سیاسی مراعات دے کر ان کی سرگرمیوں کو افغانستان کی حدود میں محدود کر دیا جائے۔ لیکن ایسا ہونا ضروری نہیں۔ طالبان ایک مرکزیت پر مبنی تحریک نہیں ہے اور نہ ہی اس کی قیادت تعقلی انسانوں کے پاس ہے جنہیں آسانی سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ امریکی سامراج کو اس حوالے سے وسیع تجربہ ہے جس سے یہ ممالک استفادہ حاصل کر سکتے ہیں۔

کس پر اعتماد کیا جا سکتا ہے؟

مغربی سامراج کی سفاکی آج پوری دنیا کے سامنے ننگی ہو چکی ہے۔ وہ لوگ جو دن رات نام نہاد ”مغربی اقدار“ جیسے ”جمہوریت“ اور ”انسانی حقوق“ کی مالا جپتے رہتے ہیں آج افغانستان سے دم دبا کر بھاگ رہے ہیں اور اپنے مقامی معاونین کو پسماندہ بربروں کے رحم و کرم پر چھوڑ رہے ہیں۔ برطانوی سیکرٹری دفاع نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ”کچھ لوگ واپس نہیں آئیں گے“۔ برطانیہ اس وقت اپنے شہریوں اور کچھ افغان معاونین کو نکالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جب تک ”عوام کی مدد“ کا مطلب ایک غریب قوم پر فوج کشی اور ہولناک بمباری ہے تو آسمان تلے تمام وسائل بروئے کار لائے گئے۔ لیکن جب ”عوام کی مدد“ کا مطلب ایک قاتل ملا آمریت سے نجات کے لئے بھاگنے والے لوگوں کی مدد کرنا ہے تو اسے نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

امریکی سامراج اور اس کی معاونت کرنے والی NATO افواج نے اسلامی انتہاء پسندی کو جڑ سے اکھاڑ پھنکنے اور ایک جدید جمہوری ریاست بنانے کے وعدے پر افغانستان پر فوج کشی کی تھی۔ بیس سال بعد کھربوں ڈالر خرچ کرنے کے بعد لاکھوں زندگیاں موت کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں اور ایک پوری نسل برباد ہو چکی ہے۔ افغانستان سے کیا گیا ایک بھی وعدہ پورا نہیں ہوا۔ بیس سال بعد افغانستان کو تاخت و تاراج کرنے کے بعد یہ بزدل گیدڑوں کی مانند دم دبا کر بھاگتے ہوئے افغان عوام کو وحشی طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑ ے جا رہے ہیں۔ اس جرم کی پاداش میں انہیں ابد تک پوری دنیا کے محنت کش لعنت ملامت کرتے رہیں گے۔

افغان عوام ان میں سے کسی پر بھی اعتبار نہیں کر سکتی۔ نہ ہی وہ چین، روس، ایران یا درپردہ چھپی کسی طاقت کے حکمران طبقے پر اعتبار کر سکتے ہیں جو آج ملک میں صورتحال پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہی ہیں۔ وہ صرف اپنی قوتوں پر ہی اعتبار کر سکتے ہیں جو ایک مرتبہ متحرک ہو جائیں تو پھر دنیا کی کوئی فوج ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ ان کی تاریخ گواہ ہے۔

افغان عوام تاریک ترین رات سے گزر رہے ہیں لیکن انہوں نے بار بار ثابت کیا ہے کہ وہ شدید ترین مشکلات کو توڑ کر پھر آگے بڑھنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہمیں بھرپور اعتماد ہے کہ وہ ایک مرتبہ پھر اٹھیں گے اور اپنے ملک سے ہر قسم کی بربریت، رجعتیت اور سامراجیت کو صفحہ ہستی سے مٹا دیں گے۔

Comments are closed.