اداریہ: بٹوارے کے 75 سال اور معیشت کا دیوالیہ

اس سال اگست میں برصغیر کے خونی بٹوارے کو 75 سال مکمل ہو جائیں گے۔ اس اہم سنگ میل کے موقع پر پاکستان کی معیشت دیوالیہ پن کی جانب تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ روپے کی قدر بے قابو ہو کر تیزی سے کم ہو رہی ہے اور زر مبادلہ کے ذخائر ختم ہو رہے ہیں۔ ایک تازہ رپورٹ کے مطابق سٹیٹ بینک 33 ہزار سے ایک لاکھ ڈالر تک کی بھی رقوم یکمشت بیرون ملک بھیجنے کی اجازت نہیں دے رہا تاکہ زر مبادلہ کے ذخائر کی کمی کو روکا جا سکے۔ یہ سیلاب کے آگے تنکوں کا بند باندھنے کے مترادف ہے۔ پاکستان کی تمام تر صنعتی پیداوار کے لیے خام مال کی امپورٹ کلیدی اہمیت کی حامل ہے۔ موجودہ صورتحال میں ملک بھر میں صنعتوں کا پہیہ تیزی سے بند ہو رہا ہے اور لاکھوں مزدور بیروزگار ہو رہے ہیں۔ ملکی ضرورت کے لیے درکار تیل اور گیس امپورٹ کرنے کے وسائل بھی ختم ہو رہے ہیں جس کے نتیجے میں لوڈ شیدنگ کا عذاب پھیلتا جا رہا ہے۔ گندم اور دیگر اہم اجناس کی امپورٹ میں بھی مشکلات کا سامنا ہے جس کے باعث آٹے اور خوراک کی دیگر اجناس کی شدید قلت پیدا ہونے کے امکانات ہیں۔ آئی ایم ایف سے قرضے کی قسط لینے کے لیے ابھی بجلی کی قیمت میں مزید اضافے اور کہیں سے بھی چار ارب ڈالر کے قرض کے حصول کی ضمانت بھی درکار ہے۔ یہ صورتحال برقرار رہتی ہے توروپے کی بے قدری کا جِن بے قابو ہو سکتا ہے اور ڈالر کا ریٹ 300 سے تجاوز کر کے نئی بلندیوں کی جانب بڑھ سکتا ہے۔ دیوالیہ معیشت کا سیلاب ملک کی آبادی کی اکثریت کی گھریلو معیشت کو ڈبو دے گا۔ اس دوران حکمران طبقہ اپنے اقتدار کو بچانے کے غلیظ کھیل میں مصروف ہے۔ عوام دشمن سیاسی پارٹیوں کو سماج پر مسلط رکھنے کے لیے ان کی اچھل کود جاری رکھی جاتی ہے اور تمام تر میڈیا حقیقی ایشوز کو نظر انداز کر کے یہی کرتب دکھاتا رہتا ہے۔ ایک طرف بھوک سے تنگ افراد جرائم کی جانب بڑھ رہے ہیں جبکہ دوسری جانب خود کشیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لیکن پورا سماج خود کشی نہیں کرے گا بلکہ ان حکمرانوں کی عیاشیوں میں مداخلت کرتے ہوئے عوام انہیں سڑکوں پر گھسیٹیں گے اور اس ملک میں بہت بڑی عوامی تحریکیں برپا ہوں گی۔

خونی بٹوارے کے دوسری جانب بھی صورتحال مختلف نہیں اور انڈیا کی معیشت بھی شدید بحران کا شکار ہے۔ اس کی کرنسی بھی روبہ زوال ہے اور اس کی قدر میں بھی چند ماہ میں پانچ فیصد تک کمی ہو چکی ہے جبکہ زر مبادلہ کے ذخائر بھی تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ معاشی بحران کا تمام تر بوجھ وہاں بھی عوام پر منتقل کیا جا رہا ہے اور بد ترین مہنگائی اور بیروزگاری کروڑوں افراد کو غربت اور بھوک کی دلدل میں دھکیل رہی ہے۔ وہاں بھی حکمران طبقہ عوامی تحریک کے ابھار سے خوفزدہ ہو کر مذہبی اور قومی تعصبات کو سماج پر مسلط کر رہا ہے اور بنیاد پرست قوتوں کو ریاستی پشت پناہی سے مسلسل ابھارا جا رہا ہے تا کہ انڈیا کے دیو ہیکل مزدور طبقے کی جڑت کو توڑا جا سکے۔

درحقیقت خونی بٹوارے کے بعد بننے والی دونوں ریاستوں کی بنیاد سرمایہ دارانہ نظام ہی تھا اور دونوں جانب ہی برطانوی سامراج کی تشکیل دی گئی سرمایہ دارانہ ریاست کو ہی جاری رکھاگیا۔ برطانوی سامراج نے اس خونی بٹوارے کو عملی جامہ ہی اس لیے پہنایا تھا تاکہ سرمایہ دارانہ نظام کو اس خطے میں قائم رکھا جا سکے اور محنت کش طبقے کی جڑت اورسرمایہ داری کیخلاف ابھرنے والی انقلابی بغاوتوں کومذہبی تعصبات اورخونریزی تلے روند دیا جائے۔ 75 سال پہلے ملنے والی اس نام نہاد آزادی کے بعد محنت کش طبقے کا ایک بھی مسئلہ حل نہیں ہوسکا جو درحقیقت سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان تو کیا ملنا تھا انہیں پینے کے لیے صاف پانی بھی نہیں مل سکا۔ آج بھی دونوں طرف لاکھوں لوگ قابل علاج بیماریوں سے زندگی کی بازی ہار جا تے ہیں جبکہ کروڑوں بھوک اور ذلت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ دوسری جانب دونوں طرف کے حکمران طبقے کی دولت اور جائیدادوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ سرمایہ دار طبقہ انڈیا کا ہو یا پاکستان کا دونوں کی زندگیاں کسی مہاراجے، کسی وائسرائے سے زیادہ پر تعیش، آرام دہ اور پر آسائش ہیں۔ دونوں ممالک کے حکمران مزدوروں کی پیدا کردہ دولت کو سرمایہ دار وں کی تجوریوں میں بھی منتقل کرتے جاتے ہیں اور سامراجی طاقتوں کی غلامی بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ امریکی اور برطانوی سامراج نے بالواسطہ حکمرانی سے گزشتہ 75 سال میں اس خطے سے جتنی لوٹ مار کی ہے وہ دو سو سال کی براہ راست حکمرانی میں بھی نہیں کر سکے تھے۔ اس دوران اسلحے کی خریداری ہو یا ملٹی نیشنل کمپنیوں کے منافعوں کی ہوس دونوں ممالک کے عوام ان عالمی طاقتوں کے سامنے محض ایک مجبورگاہک کی حیثیت رکھتے ہیں۔

اپنی حکمرانی کو مسلط رکھنے کے لیے دونوں جانب آج بھی مذہبی تعصب کو ریاستی پشت پناہی سے پوری قوت کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے اور مزدور طبقے کی جڑت توڑنے کے لیے ایک اہم اوزار کے طور پر آج بھی موجود ہے۔ حکمرانی کے تمام تر نسخے دونوں طرف وہی ہیں جو برطانوی سامراج نے یہاں متعارف کروائے تھے۔ پاکستان کے الگ ملک بن جانے کے بعد بھی یہاں مذہب کا سیاسی مفادات اور سرمایہ دارانہ ریاست کے تحفظ کے لیے استعمال ختم نہیں ہوا بلکہ اس کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ انڈیا میں بھی صورتحال مختلف نہیں اور نام نہادسیکولر پارٹی کانگریس نے ہی مودی کی انتہائی دائیں بازو کی بنیاد پرست قوت کے اقتدار میں آنے کی راہ ہموا ر کی تھی۔ دونوں سرمایہ دارانہ ریاستیں قومی مسئلہ بھی حل نہیں کر سکیں اور دونوں جانب مظلوم قومیتوں پر بد ترین جبر آج پہلے کی نسبت کہیں زیادہ شدت سے موجود ہے۔ دونوں جانب برطانوی سامراج کا ہی مسلط کردہ ایک جیسا نو آبادیاتی ریاستی نظام موجود ہے جسے آئین، قانون، سرمایہ دارانہ جمہوریت اور ریاست کے تقدس کے نام پر تحفظ دیا گیا ہے۔ بنگلہ دیش اور خطے کے دیگر ممالک میں بھی صورتحال مختلف نہیں اور وہاں بھی سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ہی مزدوروں کا بد ترین استحصال موجود ہے اور ان کی غیر ادا شدہ اجرت سرمایہ دار طبقے کی جیبوں میں جا رہی ہے۔

اس تمام تر حالات کو صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے تبدیل کیا جا سکتا ہے جس میں سرمایہ دارانہ نظام کا مکمل خاتمہ کیا جائے اور تمام تر ذرائع پیداوار مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں لے کر امیر اور غریب کی طبقاتی تقسیم کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کیا جائے۔ یہ انقلاب نہ صرف سامراجی طاقتوں کے اس خطے پر تسلط کا خاتمہ کرے گا بلکہ ان طاقتوں کی ماضی میں لگائی گئی مصنوعی لکیروں کو بھی خون کے دھبوں سمیت صاف کرے گا۔ حکمران طبقے کے مفادات کے لیے مذہب، قوم اور زبان کے استعمال کا بھی خاتمہ ہوگا اور امن و آشتی پر مبنی ایک نئے سماج کا آغاز ہو گا جہاں بھوک، لاعلاجی اور ناخواندگی ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں گے۔ برصغیر کی ایک سوشلسٹ فیڈریشن ہی نہ صرف خطے میں امن کی ضمانت دے گی بلکہ معاشی بحرانوں اور سامراجی قرضوں سے عوام کو نجات دلائے گی۔ اس عظیم مقصد کے لیے انقلابی پارٹی کی تعمیر آج کے مزدوروں اور انقلابی نوجوانوں کا اولین فریضہ ہے۔

Comments are closed.