کیا تحریکِ انصاف ایک فاشسٹ پارٹی ہے؟

|تحریر: پارس جان|

 

آج کل کہنے کو سیاسی گہما گہمی اپنے عروج پر ہے مگر اس گہما گہمی میں کوئی چاشنی دکھائی نہیں دیتی۔ یہ ایک ایسا شور و غل ہے جس میں رتی بھر بھی نغمگی نہیں۔ ایک ایسا تماشا ہے جس میں تعمیر و تفریح نہ ہونے کے برابر ہیں۔ تماشائیوں کے چہروں پر نحوست پرور قہقہوں کی پھٹکار ہے اور تمام کرداروں کی حرکات و سکنات جمالیاتی حظ سے عاری اور انتہائی مضحکہ خیز ہیں۔ طنز ایسے ہیں جن میں کوئی مزاح کا پہلو نہیں اور مزاح ایسے جو شادمانی سے یکسر محروم ہیں۔ ہر طرف سے ایسی دلیلیں ہیں جن میں کوئی منطق نہیں اور ایسے مباحث معمول بن چکے ہیں جن میں مقصدیت معدوم ہے۔ اس تماشے میں جہاں ایک طرف ناقابلِ اعتبار رفاقتیں ہیں وہیں ایسی عداوتیں ہیں جن میں حق و باطل کی کوئی تمیز نہیں۔ ایسے ریاکارانہ ایثار ہیں جن میں شدتِ احساس ناپید ہے اور ایسے انتقام ہیں جن میں کوئی سرخروئی نہیں۔ مفاد اور عناد سے لتھڑی عقیدتیں ہیں تو تکبر اور گھمنڈ سے لبریز احسان مندی۔ کم ظرف قیادتیں خود کٹھ پتلیاں ہیں اور عقیدت مندوں کی بے مصرف پھرتیاں سراسر بے سود۔ مختصر یہ کہ ایک دوسرے سے کٹی ہوئی لایعنی اکائیاں اپنے وجود کو تسلیم کروانے اور اپنے ہونے کا احساس دلانے کے لیے نمایاں ہونے کی تگ و دو میں ہلکان ہیں۔ یہ ہے رائج الوقت حاوی (main stream) سیاست کا کردار، یعنی ایسی چہل پہل اور رونق میلہ جس کا جوہر نری بیگانگی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اجتماعیت سے خوفزدہ انفرادیت کا گٹھ جوڑ جو ہوا کے تھپیڑوں میں ایک دوسرے سے ٹکراتے ہوئے ایک دائرے میں ایسی برق رفتاری سے سرگرداں ہے کہ اس کا تھکنا، ٹوٹنا اور گر کر چکناچور ہونا ناگزیر ہے۔

یہ بلاشبہ ایک بے نظیر بحرانی کیفیت کا منظر نامہ ہے اور اقتدار سے بے دخلی کے بعد تحریک انصاف کے حالیہ ابھار نے جو کہ اس بحران ہی کی پیداوار ہے، اب اس بحران کی شدت اور حدت میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے۔ اس نو آموز اور خام سیاسی مظہر کو کوئی بھی سمجھ نہیں پا رہا۔ اسے سمجھنے کی نا اہلیت نے تمام حاوی دانش کی مسدودیت اور متروکیت کو ایک جگہ مرتکز کر دیا ہے۔ سامراجی پالیسی ساز، عالمی جریدے، مقامی ماہرین، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا ٹائیکونز، سوشل میڈیائی دانشور، بلاگرز، بورژوا پارٹیاں، یعنی تحریک انصاف اور ان کے حمایتیوں کو نکال کر باقی تمام سیاسی و علمی حلقے تحریکِ انصاف کو بحیثیت ِکل (whole) ایک فسطائی یا نیم فسطائی مظہر قرار دے چکے ہیں اور ان پر انحصار کرنے والا لگ بھگ سارا ہی بایاں بازو بھی اسی طرح کے نتائج اخذ کر رہا ہے۔ عمران خان کا موازنہ مسولینی اور ہٹلر سے کیا جا رہا ہے اور تحریک انصاف پر جرمن نازی پارٹی کی طرز کی پارٹی کا ٹھپہ لگا دیا گیا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ بظاہر ایک دوسرے سے الگ تھلگ اور حتیٰ کہ متضاد رجحانات کے لوگ بھی ایک ہی نتیجے پر کیوں پہنچ رہے ہیں؟ یقیناً ان میں کوئی نہ کوئی قدر تو ضرور مشترک ہو گی۔ جی ہاں بالکل ہے اور وہ ہے ان کا میکانکی طرزفکر جسے تجربیت کہا جاتا ہے۔ یہ سب اس وقت دنیائے سیاست کے سٹیج پر چلنے والے ڈرامے کے پس پردہ محرکات کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ بائیں بازو کا یہ فکری دیوالیہ پن غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ان کے دائیں بازو کے ساتھ طرزفکر کے اشتراک کی بنیاد پر ہی ان کی سیاست کا تعین ہوتا ہے۔ اس طرح کے تجزیئے اور فکری نتائج نام نہاد بائیں بازو کے حلقوں میں اس لیے بھی زیادہ مقبول ہوتے ہیں کیونکہ یہ ان کی موقع پرستی، بزدلی اور کاسہ لیسی کو دانشورانہ جواز فراہم کرتے ہوئے ان کے ضمیر کی طرف سے ہر قسم کی ممکنہ ملامت کے راستے مسدود کر دیتے ہیں۔

حاوی دانش کا یہ بحران کوئی نیا معاملہ نہیں ہے بلکہ 1920ء کی دہائی میں مسولینی کے اقتدار میں آنے کے بعد بھی ایسا ہی ہوا تھا جب ہر طرح کی آمریتوں اور رجعتی تحریکوں کے لیے دانشوروں نے فسطائیت کی اصطلاح استعمال کرنی شروع کر دی تھی۔ مگر لیون ٹراٹسکی نے ان فکری نقائص کی نشاندہی کی اور وضاحت کی کہ تمام سیاسی مظاہر کی درست تشخیص اور تفہیم انقلابی سیاست میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ مثال کے طور پر 1923ء میں پرائمو ڈی رویرا کے دور میں ہسپانوی ریاست کو کچھ لوگوں نے فسطائیت قرار دیا تو ٹراٹسکی نے ان پر تنقید کی۔ کیونکہ ٹراٹسکی سمجھتا تھا کہ یہ حکومت مسولینی کی طرز پر مزدور سیاست کا قلع قمع کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے گی کیونکہ ابھی ہسپانوی محنت کشوں کو کوئی فیصلہ کن شکست نہیں ہوئی ہے بلکہ وہ تاریخ کے میدان میں اترنے کے لیے پر تول ر ہے ہیں۔ تاریخ نے ٹراٹسکی کو درست ثابت کیا اور 30ء کی دہائی میں ہسپانوی محنت کشوں نے فقید المثال انقلابی بغاوت کو جنم دیا۔ محنت کش طبقے کی اس تحریک کے لیے چونکہ پہلے سے تیار قیادت متذبذب تھی اس لیے وہ اس انقلابی تحریک میں قائدانہ کردار ادا کرنے سے قاصر رہی اور کئی سالوں پر محیط اس انقلابی سرکشی کا انجام فرانکو کی خونی فسطائیت کی شکل میں ہوا جس کا خمیازہ ہسپانوی محنت کشوں کو کئی دہائیوں تک بھگتنا پڑا۔

آج بھی ہم عالمی سطح پر ایک شدید بحرانی کیفیت سے دوچار ہیں۔ تحریکِ انصاف کوئی الگ تھلگ سیاسی مظہر نہیں ہے بلکہ ہم حالیہ تاریخ میں امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ، برازیل میں بولسونارو اور بھارت میں مودی جیسی دائیں بازو کی انتہا پسند اور مضحکہ خیز شخصیات کو برسر اقتدار آتے ہوئے دیکھ چکے ہیں۔ ان سب پر بھی مقامی اور بین الاقوامی میڈیا نے فسطائیت کے لیبل چسپاں کیے۔ لیکن مارکس وادیوں نے ہر جگہ نہ صرف اس کی مخالفت کی بلکہ ان سیاسی مظاہر کی وضاحت بھی کی۔ ہمارا استفسار یہی تھا کہ ان اشخاص میں بطور ایک فرد فسطائی جراثیم بھلے ہی پائے جاتے ہوں مگر ان کو میسر سماجی حمایت کا کردار مسولینی اور ہٹلر کے کارکنان سے معیاری طور پر مختلف ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے حمایتیوں کی بڑی تعداد اسلامو فوبیا سے متاثر ہونے کی بجائے پارلیمانیت کی محدودیت اور نا اہلی سے بدظن ہے۔ لوگ نظام پر عدم اعتماد کا اظہار کرنا چاہتے ہیں اور اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت ان کے احساسِ عدم تحفظ کی تجسیم ہے۔ اپنی حمایت کے ذریعے وہ ڈونلڈ ٹرمپ کو محنت کشوں کے خلاف انتہائی اقدامات کا لائسنس نہیں دے رہے بلکہ وہ ان سے اپنی زندگیوں میں فوری بہتری لانے کے اقدامات کی مانگ کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے دورِاقتدار میں ٹریڈ یونینز پر فیصلہ کن وار نہیں کر سکا بلکہ اسے پیٹی بورژوازی سے ہی امریکہ کی سیاسی تاریخ کی سب سے بڑی مزاحمتی تحریک کا سامنا کرنا پڑا۔ یہی پراسیس دیگر ممالک میں بھی اپنی اپنی مخصوصیت کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔ حال ہی میں ہم نے انڈیا میں مودی کے خلاف کسانوں کی شاندار کامیاب تحریک دیکھی جس نے مودی سرکار کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ اسی طرح انڈیا میں عام ہڑتالیں سالانہ سیاسی معمول کا حصہ بن چکی ہیں، اگرچہ کسانوں کی کامیاب جدوجہد کی طرز پر انہیں ابھی بڑی حاصلات نہیں مل سکی ہیں اور ٹریڈ یونین اشرافیہ خود محنت کشوں کے رستے کی سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے لیکن مودی بھی محنت کش طبقے پر ننگا جبر کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ اس کے عزائم جتنے بھی فسطائی کیوں نہ ہوں، ان کو عملی جامہ پہنانے کے حالات تا حال دستیاب نہیں ہیں۔ ہم ان تمام سیاسی مظاہر کو سرمایہ دارانہ نظام کے عالمگیر بحران کی علامات کے تسلسل کے طور پر سمجھ سکتے ہیں جہاں ایک طرف محنت کش طبقہ شدید ترین معاشی جبر میں سسک رہا ہے اور ایک بڑی لڑائی کی تیاری کر رہا ہے، وہیں درمیانے طبقے کے معیار زندگی پر پے در پے اور یکے بعد دیگرے حملے کیے جا رہے ہیں۔ ایسے میں درمیانے طبقے کی معاشی ابتری ان کے نفسیاتی ہیجان کو مختلف سیاسی مظاہر میں ڈھال رہی ہے۔ فسطائیت بلاشبہ پیٹی بورژوازی کا مخصوص سیاسی مظہر ہی ہوتا ہے اور یہ بھی درست ہے کہ پیٹی بورژوازی کی سیاست کا عمومی کردار رجعتی، متشدد اور نفرت انگیز ہی ہوتا ہے مگر درمیانے طبقے کا ہر سیاسی ابھار فسطائی ہی ہو گا یہ قطعاً ضروری نہیں۔

فسطائیت کے لوازمات اور تاریخی مقام

فسطائیت سرمایہ دارانہ نظام کے زوال کے عہد کی پیداوار ہے۔ پہلی عالمی جنگ اس بات کا اعلان تھی کہ اب سرمایہ دارانہ نظام میں کسی بھی سطح کا ترقی پسندانہ کردار ادا کرنے کی اہلیت نہیں رہی۔ سرمایہ داری کا بحران ایک مخصوص مرحلے پر جا کر اور چند مخصوص معروضی لوازمات کی موجودگی میں فسطائیت کو جنم دیتا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ انیسویں صدی میں سرمایہ داری بحرانات سے دوچار نہیں ہوتی تھی بلکہ کارل مارکس کے بقول بحرانات سرمایہ داری کے خمیر میں موجود ہوتے ہیں۔ لیکن انیسویں صدی میں سماج کا طبقاتی توازن بہرحال بورژوازی کے حق میں تھا۔ جہاں ایک طرف محنت کش طبقہ اپنے حجم اور پوٹینشل کے حوالے سے ابھی اقتدار پر براہِ راست قابض ہونے کے ابتدائی مراحل میں تھا وہاں پیٹی بورژوازی ابھی اس قابل نہیں تھی کہ اسے مزدور تحریک کے خلاف سیاسی طور پر ننگے جبر کے لیے استعمال کیا جاتا۔ جہاں جہاں سرمایہ دار طبقے کو ضرورت پڑتی تھی، وہ براہِ راست آمریت کا سہارا لیتے تھے۔ بورژوازی کے تاریخی خصی پن کے باعث کچھ غیر معمولی خصوصیات کی حامل شخصیات ریاستی طاقت کے بے دریغ استعمال کے ذریعے تلافی کر کے سرمایہ دارانہ نظام کے ارتقائی لوازمات کی تکمیل کرتی تھیں۔ فرانس میں نپولین اور جرمنی میں بسمارک اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ اس مظہر کو بونا پارٹزم کا نام دیا جاتا ہے۔ لیکن امریکہ میں خانہ جنگی کے بعد غلامی کے خاتمے اورانیسویں صدی کی اختتامی دہائیوں میں سرمایہ دارانہ معیشت کے عروج نے سرمایہ دارانہ معاشروں کی نامیاتی ترکیب (composition) کے تناسب میں بھونچال برپا کر دیا۔ جہاں محنت کش طبقے کے حجم میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا وہیں ایک جاہ طلب (ambitious) پیٹی بورژوازی بھی پیدا ہوئی۔ محنت کش طبقے کی دیو ہیکل سیاسی طاقت کو براہِ راست کنٹرول کرنا حکمران طبقے کے لیے اب آسان نہیں تھا۔ جونہی سرمایہ دارانہ معیشت کے ابھار کی واپسی کا عمل شروع ہوا تو یہ تمام تر سماجی تضادات سطح پر نمودار ہونا شروع ہو گئے۔ جنگ نے ان تمام تضادات کو مہمیز دی اور محنت کش طبقے کے ساتھ ساتھ پیٹی بورژوازی کو بھی بڑے پیمانے پر متحرک (politicize) کر دیا۔

کارل مارکس نے وضاحت کی تھی کہ انقلابات تاریخ کا انجن ہوتے ہیں۔ لیکن انقلابی عمل خطِ مستقیم میں آگے نہیں بڑھتا بلکہ سماجی اتھل پتھل کے ادوار میں انقلابی اور ردِ انقلابی رجحانات بیک وقت ایک دوسرے سے ٹکراؤ کی کیفیت میں آگے بڑھتے ہیں۔ بورژوا طبقہ سماج میں چھوٹی سی اقلیت پر مشتمل ہوتا ہے، اس لیے ردِ انقلابی رجحانات کو سیاسی قوت کا روپ دھارنے کے لیے پیٹی بورژوازی کی بے چینی کو اپنی آماجگاہ بنانا پڑتا ہے۔ پیداواری عمل میں پیٹی بورژوازی کی فروعیت اس کے سیاسی کردار کا تعین کرتی ہے۔ سرمایہ دار طبقہ اپنے تمام تر استحصال کو محض ریاستی اتھارٹی کے بلبوتے پر ہمیشہ کے لیے قائم نہیں رکھ سکتا اور اس استحصالی نظام کو سماجی جواز فراہم کرنے کے لیے قو می شاونزم، نسلی ولسانی تعصبات اور مذہبی جنون کا سہارا لیتا ہے۔ پیٹی بورژوازی ان رجحانات کے لیے خام مال کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ جب محنت کش طبقے کی برداشت کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے اور وہ اپنی تقدیر بدلنے کے لیے میدانِ عمل میں اترتا ہے تو وہ ملکیتی رشتوں کو چیلنج کر دیتا ہے اور سماج میں ایک انقلابی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد یورپ بھر میں اسی قسم کی صورتحال نے جنم لیا۔ بالشویک پارٹی کی موجودگی اور لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت کے باعث روس کے محنت کش اقتدار پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے مگر اٹلی میں ایسا نہ ہو سکا اور محنت کش طبقے کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جرمنی میں بھی محنت کش طبقے نے بار بار اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کی مگر قیادت کے نظریاتی ابہام اور غلط حکمتِ عملی کے باعث اسے بار بار شکست ہوئی۔ ان شکستوں کے باعث جہاں محنت کش شدید مایوسی اور بدگمانی کا شکار ہوئے وہیں ان انقلابات نے حکمران طبقے کو بھی پہلے سے کہیں زیادہ منتشر اور منقسم کر دیا۔ ان حالات میں سرمایہ داری کو بچانے کے لیے حکمران طبقے کے ایک دھڑے نے ریاستی آشیر باد سے اقتدار پیٹی بورژوازی کے حوالے کر دیا۔ بونا پارٹ ازم سمیت دیگر تمام سیاسی مظاہر کی طرح فسطائیت کو بھی حقیقت کا روپ دھارنے کے لیے غیر معمولی شخصیت درکار ہوتی ہے۔ تاریخی عمل میں درمیانے طبقے کے افراد کے خبط، ہیجان، جنون اور لا ابالی پن کے اجتماعی معیار کے طور پر آئیڈیل شخصیات نمودار ہوتی ہیں جو اپنے غیر معمولی جوشِ خطابت، بیباکی اور دیدہ دلیری کے بلبوتے پر پیٹی بورژوازی کی وسیع تر پرتوں کو گرویدہ کر لیتی ہیں۔ پیٹی بورژوازی کا یہ دیوانہ پن ان شخصیات کو وہ اخلاقی جواز اور اعتماد فراہم کرتا ہے جس کی بنیاد پر یہ نہ صرف آئین اور قانون کی دھجیاں بکھیر دیتے ہیں بلکہ ضرورت پڑنے پرمحنت کشوں کا قتلِ عام کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ مذکورہ بالا مثالوں میں یہی کچھ ہوا۔ بعد ازاں یہی پراسیس ہمیں سپین کے انقلاب کی ناکامی کے بعد دیکھنے کو ملا۔ مسولینی، ہٹلر اور فرانکو سرمایہ دار وں کی آشیرباداور پیٹی بورژوازی کی حمایت کے بلبوتے پر اقتدار میں آئے۔ جہاں انہوں نے پارلیمانی جمہوریت اور بنیادی انسانی حقوق کو سلب کیا وہیں انہوں نے نجی ملکیت کا بھرپور تحفظ بھی کیا اور اس مقصد کے لیے مزدور تحریک، ٹریڈ یونینز اور انقلابی تنظیموں کا ننگے جبر کے ذریعے صفایا کر دیا۔ مگر اسی ننگے جبر کے باعث بہت جلد یہ فسطائی قیادتیں اپنی سماجی بنیادیں کھو دیتی ہیں اور خالص آمریت کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ ایسے میں بونا پارٹ ازم اور فاشزم میں مماثلت اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے اور انہیں ایک دوسرے کے ساتھ گڈ مڈ کرنا غلط العام بن جاتا ہے۔

فاشزم کی درست تفہیم اور تشخیص کے لیے مذکورہ بالا تمام عوامل کو ملحوظِ خاطر رکھنا بہت ضروری ہے۔ بہت سے لوگ سعودی عرب اور خلیجی ممالک کی بادشاہتوں کے لیے بھی فسطائیت کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں جو کہ سراسر غلط ہے۔ اپنی تمام تر سفاکیت اور رجعتیت کے باوجود یہ آمریتیں فسطائی کردار کی حامل نہیں ہیں۔ یہ درست ہے کہ فسطائیت میں جبر کا عنصر غالب ہوتا ہے مگر ہر طرح کا جبر فسطائیت کے زمرے میں نہیں آتا۔ یہ سوال ریاست کے کردار کے ساتھ بھی منسلک ہے۔ ریاست کا مارکسی نظریہ وضاحت کرتا ہے کہ ریاست غیر جانبداریت کے تمام تر ناٹک کے باوجود طبقات کے مابین مصالحت کا نہیں بلکہ طبقاتی جبر کا آلہ ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے استحکام کے دنوں میں پارلیمانی جمہوریت کے پر فریب نقاب میں اس جبر کو چھپایا جاتا ہے اور انسانی حقوق کے بھاشن دیئے جاتے ہیں اور محنت کش طبقے کی پیدا کردہ قدرِ زائد کو نچوڑنے کا عمل جاری رہتا ہے۔ اس حوالے سے پارلیمانی جمہوریت طبقاتی جبر کاسب سے سستا اور کارگر نسخہ ہے جس میں سرمایہ دارانہ وحشت اپنا انسانی اور تمدنی تاثر برقرار رکھنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ مگر جب استحکام کا دور اختتام پذیر ہوتا ہے اور ریاستی اداروں اور حکمران طبقات کے مابین رسہ کشی شدت اختیار کر جاتی ہے تو یہ پارلیمانیت کا نقاب تار تار ہو جاتا ہے۔ لبرل دانشور چونکہ ریاست کی غیر جانبداریت اور آئین پر ایمان رکھتے ہیں اور سٹالنزم کے جرائم کے باعث بایاں بازو بھی ان کے نقشِ قدم کو ہی مشعلِ راہ بنا لیتا ہے تو جونہی پارلیمانیت کو ہلکی سی بھی گزند پہنچتی ہے، تو یہ بیک آواز ہو کر فاشزم فاشزم چلانا شروع کر دیتے ہیں۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اب تک دنیا بھر میں موجودطبقاتی توازن پھر بڑے پیمانے پر تبدیل ہو چکا ہے۔ اب پرولتاریہ دنیا بھر میں بالعموم اور یورپ اور امریکہ میں بالخصوص آبادی کی بھاری اکثریت پر مشتمل ہے۔ معاشی ابھار کے دنوں میں ’ہم سب مڈل کلاس‘ ہیں کا نعرہ دنیا بھر میں بہت اچھالا گیا۔ مابعد جدیدیوں نے ادب اور فلسفے میں بھی اس کا بھرپور پرچار کیا اور لبرل سیاستدانوں نے بھی ’مزدوروں کے خاتمے‘ کی بھرپور مہم چلائی۔ لیکن مصنوعی (fictitious) سرمائے کا غبارہ پھٹتے ہی طبقاتی تضادات پھر منظرِ عام پر آنا شروع ہو گئے۔ سماج کا طبقاتی توازن اس حد تک محنت کش طبقے کے حق میں تاریخ میں پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ فسطائیت کے لیے سماجی خام مال یعنی پیٹی بورژوازی بالخصوص کسان، ترقی یافتہ دنیا میں نہ ہونے کے برابر ہی رہ گئے ہیں۔ اور محنت کش طبقے کو حال ہی میں کسی بڑی شکست کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اب جدید دنیا میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے فسطائیت کا خطرہ ٹل چکا ہے۔ لیکن مستقبل قریب میں اس کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہی ہیں۔ پارلیمانی جمہوریت کے بحران کے باعث ہمیں ٹرمپ جیسے لیڈروں کا ابھار ضرور نظر آتا ہے مگر آج بھی ٹریڈ یونینز کے خلاف جابرانہ اقدامات کی بجائے ان قیادتوں کو خرید کر اور ان کے ذریعے جمہوریت کی آڑ میں ہی مرتی ہوئی سرمایہ داری کو مسلط رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جوں جوں بحران بڑھتا چلا جائے گا دائیں اور بائیں دونوں اطراف میں نئے نئے سماجی و سیاسی مظاہر جنم لیتے رہیں گے۔ ایک کے بعد دوسرے ملک میں مزدور تحریک کا ابھار ہو رہا ہے۔ ووٹ کے ذریعے تبدیلی سے مایوس ہو کر بالآخر محنت کش طبقہ انقلاب کی طرف آگے بڑھے گا۔ اگر پہلے مرحلے میں اسے کامیابی نہیں بھی ملتی تو وہ آج اتنا طاقتور ہے کہ مختصر وقفوں سے وہ بار بار اپنی تقدیر اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرے گا۔ مسلسل ناکامیوں کے بعد ہی براہِ راست آمریت کی کوئی شکل ابھر کر سامنے آ سکتی ہے۔ ایسے میں بھی ممکن ہے کہ ٹیکنو کریٹس کے ذریعے ہی بیمار معیشت کو چلانے کی کوشش کی جاتی رہے۔ غرضیکہ فسطائیت کے معروضی لوازمات کی تکمیل سے قبل ہی عین ممکن ہے کہ محنت کش بالشویک روایات کو ایک بلند پیمانے پر دہرانے میں کامیاب ہوجائیں۔ اگر ترقی یافتہ دنیا کے کسی ایک ملک میں بھی یہ ہوگیا تو پھر اس کرہِ ارض سے سرمایہ داری کی لعنت کے خاتمے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔

اگرچہ تیسری دنیا کے حالات ترقی یافتہ دنیا سے بہت زیادہ مختلف ہیں مگر ترقی کے مشترکہ کردار کے باعث آج ایک عالمی شعور بھی پروان چڑھ رہا ہے۔ پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں بلاشبہ پیٹی بورژوازی بالخصوص کسان آج بھی آبادی کے ایک خاطر خواہ حصے پر مشتمل ہیں، اس لیے ان خطوں میں فسطائیت کے خطرے کا پھر عندیہ دیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں تحریکِ انصاف کے مظہر کو بھی مذکورہ بالا عمومی قوانین کی روشنی میں پرکھنے کی ضرورت ہے۔ تحریکِ انصاف کے سیاسی کردار کے تعین (characterization) کے لیے پاکستان کی عمومی سیاسی تاریخ اور تحریکِ انصاف کے جنم کے حالات سے اس کے تجزیئے کا آغاز کرنا ہو گا۔

1968-69ء کا بھوت اور فسطائی ردِ عمل

1968-69 کے طوفانی سالوں کے دوران پاکستان کے محنت کشوں کے ایک احتجاج کا منظر

پاکستان ایک مملکت کے طور پر بہت بڑی انقلابی تحریک کے قتل کے بعد معرضِ وجود میں آیا تھا۔ تقسیم کے وقت بھی اس انقلابی تحریک کی باقیات پاکستان میں موجود تھیں مگر ریاست کی بنیاد چونکہ مذہب کی رجعت اور جنونیت پر رکھی گئی تھی اور حکمران طبقے میں کسی قسم کا ترقی پسندانہ کردار ادا کرنے کی اہلیت نہیں تھی اس لیے اپنے قیام کے وقت سے ہی ریاستی مشینری نے فسطائی رجحانات کی پرورش کی ذمہ داری سنبھال لی۔ جماعتِ اسلامی جو پہلے تو پاکستان کی تشکیل کی مخالف تھی، تقسیم کے فوری بعد ریاست نے اسے گود لے لیا۔ جماعتِ اسلامی کے قائد مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کا یہ مشہور جملہ کہ ’قرآن و سنت کی دعوت لے کر اٹھو، اور پوری دنیا پر چھا جاؤ‘ اس جماعت کے فسطائی رجحانات کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ لیکن جماعتِ اسلامی کو کبھی بھی درمیانے طبقے کی وسیع تر حمایت میسر نہیں آ سکی۔ ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن، کمیونسٹ پارٹی، نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن، نیشنل عوامی پارٹی اور مزدور کسان پارٹی جیسے انقلابی رجحانات ایک طویل عرصے تک پاکستان کے سیاسی افق پر حاوی رہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ درمیانے طبقے میں بھی بائیں بازو کے نظریات کی بڑی حمایت موجود تھی۔ ایوب خان کے دور میں اس ملک کی تاریخ کی سب سے بڑی صنعت کاری دیکھنے میں آئی جس کے نتیجے میں پرولتاریہ کی قوت میں مقداری اور معیاری اضافہ ہوا۔ بدعنوان، ٹیکس چور اور تکنیکی طور پر پسماندہ سرمایہ داروں نے محنت کے استحصال کی انتہا کر دی تو انہیں نوجوان اور تازہ دم پرولتاریہ کی طرف سے شاندار مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ایوب خان کے خلاف تحریک میں جب محنت کش طبقہ شامل ہو گیا تو اس تحریک کا کردار یکسر تبدیل ہو گیا۔ اب یہ آمریت مخالف تحریک نہ رہی بلکہ سرمایہ داری کے خاتمے کی ایک سوشلسٹ انقلاب کی تحریک بن گئی۔ مگراس انقلاب کے دوران بائیں بازو کی قیادت تحریک کے ابتدائی مرحلے کے نعروں اور پروگرام سے آگے نہ بڑھ سکی اور جمہوریت جمہوریت کھیلتی رہی۔ ان کے اسی نظریاتی دیوالیہ پن کے باعث سرمایہ داری کے خاتمے کا تاریخی موقع ضائع ہو گیا۔

جماعتِ اسلامی اور اس کی بغل بچہ فسطائی تنظیمیں اگرچہ درمیانے طبقے میں بھی ایک معمولی سی اقلیت ہی رہے۔ لیکن انہوں نے ریاست کی بی ٹیم کے طور پر مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کی عوامی تحریک کو خون میں ڈبونے کے لیے بھر پور خدمات سر انجام دیں۔ اسلام کے ان ٹھیکیداروں نے افواجِ پاکستان کے ساتھ مل کر بنگال میں انسانیت سوز جرائم کی وہ داستانیں رقم کی ہیں، جن کو سن کر عرش والوں کا بھی کلیجہ پھٹ جائے۔ جہاں بنگالیوں کا قتلِ عام کیا گیا وہیں ان کی لاکھوں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی۔ وحشت اور جبر کی یہ تمام مثالیں اپنی جگہ مگر جو کچھ بھی بنگالیوں نے بھگتااسے کسی صورت بھی فسطائیت نہیں کہا جا سکتا۔ یہ ننگا ریاستی جبر تھا جس میں مسلح افواج کو اپنے ہی پالتو فسطائی درندوں کی بھرپور عملی معاونت مہیا تھی مگر اس جبر کو سماج کی کسی پرت سے کوئی حمایت حاصل نہیں تھی۔ اس کے خلاف بنگالی عوام کی بہت بھاری اکثریت نے بھرپور مزاحمت کی جس میں کسانوں سمیت سماج کی تقریباً تمام پرتیں شامل تھیں۔ سرمایہ داری کا خاتمہ تو نہ ہو سکا لیکن بنگالیوں کو ایک نئی ریاست ملی اور مملکتِ خداداد دو لخت ہو گئی۔ باقی ماندہ پاکستان میں تباہ حال ریاست کو ذوالفقار علی بھٹو نے از سرِ نو تعمیر کرنے کا آغاز کیا۔ چند ایک اصلاحات کے ساتھ معیشت کا بنیادی کردار سرمایہ دارانہ ہی رہا اور ریاستی سرمایہ داری کے ذریعے ریاست کو بحران سے نکلنے کے مواقع مہیا کیے گئے۔ ذولفقار علی بھٹو نے مزدوردوستی کا لبادہ اوڑھ ہو کربونا پارٹسٹ کردار ادا کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ ریاست کی از سرِ نو بنیادیں استوار کیں۔ بلوچستان میں فوج کشی کر کے منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا اور رفتہ رفتہ دیگر معاشی اصلاحات کا اثر بھی زائل ہوتا چلا گیا اور محنت کشوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی حمایت سے ہاتھ کھینچنا شروع کر دیئے۔ محنت کش طبقے میں اپنی گرتی ہوئی حمایت کے پیشِ نظر ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سے چمٹے رہنے کے لیے پیٹی بورژوازی سے رجوع کرنے میں ہی عافیت جانی۔ درمیانے طبقے کے رجعتی عناصر کی خوشنودی کے لیے شراب پر پابندی لگانے اور قادیانیوں کو کافر قرار دینے جیسے اقدامات کیے گئے۔ محنت کشوں میں مسلسل بڑھتی ہوئی مایوسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسی ریاست نے، جسے خود بھٹو نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کی نیت سے نئی زندگی دی تھی، بھٹو کے خلاف فسطائی عناصر کو جمع کرنا شروع کیا۔ اگرچہ وہ کوئی بہت بڑی رجعتی تحریک تو نہ بنا سکے مگر انہوں نے بھٹو حکومت کا خاتمہ کر کے اس کے دوغلے سیاسی کردار کی پاداش میں بھٹو کو تختہِ دار پر لٹکا دیا۔

ریاست کے اس بہیمانہ اقدام نے سکتے کا شکاراور گھائل عوامی تحریک میں ایک نئی روح پھونک دی اور ضیا ء الحقی آمریت کو شروع دن سے ہی شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ لبرل دانشور آج بھی ضیائی آمریت کوفسطائیت سے تعبیر کرتے ہیں حالانکہ ضیا ء الحق کو مذہبی عناصر کے علاوہ سماج کی کسی پرت سے کوئی حمایت حاصل نہیں تھی۔ ضیا کے خلاف ایم آر ڈی کی تحریک کی قیادت پیٹی بورژوازی کے پاس ہی تھی اور بالخصوص سندھ کے دیہی علاقے اس تحریک کے مضبوط مراکز تھے۔ مگر اس تحریک کی قیادت ایک ٹھوس پروگرام کے ذریعے مزدوروں اور کسانوں کو منظم کرتے ہوئے ضیائی آمریت پر فیصلہ کن وار کرنے میں ناکام رہی۔ تحریک کے کارکنوں نے قید وبند کی صعوبتیں براشت کیں اور بے مثال قربانیاں دیں۔ ضیا ء الحق نے طلبہ سیاست اور ٹریڈ یونینز پر پابندی لگا دی۔ حدود آرڈیننس کی طرز کے کالے قوانین متعارف کروائے مگر وہ تحریک کو مکمل طور پر زائل کرنے میں ناکام رہا۔ یہ تحریک کا دباؤ ہی تھا کہ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی کی راہ ہموار ہوئی۔ 1968-69ء کے انقلاب کا بھوت ابھی تک منڈلا رہا تھا مگر پیٹی بورژوازی تحریک کی طوالت سے بیزاری اور فرسٹریشن کا شکار ہو رہی تھی۔ مسلم لیگ کوبھی نواز شریف کی قیادت میں اسی عرصے میں از سرِ نو تعمیر کیا گیا۔ ریاست نے آئندہ کے لیے طبقاتی یگانگت کی عظیم کاوش کے راستے مسدود کرنے کے لیے مذہبی فرقہ واریت اور لسانی تعصبات کو فروغ دینا شروع کر دیا تھا۔ وہ طبقاتی وحدت پر فیصلہ کن وار کرنا چاہ رہے تھے۔ انہوں نے درمیانے طبقے کی اس فرسٹریشن کا استعمال کرتے ہوئے امریکی سامراج کی ایما پر سپاہِ صحابہ اور مہاجر قومی موومنٹ (MQM) جیسی فسطائی تنظیموں کی بنیاد رکھی۔ امریکیوں نے ضیا ء الحق کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر کے پھینک دیا اور ایک ڈیل کے ذریعے سامراجی ایجنڈے کی تکمیل کی ذمہ داری بے نظیر بھٹو کو سونپ دی گئی۔ محنت کش عوام نے بے نظیر بھٹو کا پرتپاک استقبال کیا مگر بے نظیر بھٹو نے امریکی سامراج کے ہاتھ پر بیعت کر لی تھی۔ اقتدار میں آتے ہی بے نظیر بھٹو نے عوام دشمن اقدامات کرنا شروع کر دیئے۔ عوامی تحریک کو شدید مایوسی اور بدظنی کا سامنا کرنا پڑا۔ ضیا ء الحق کی وحشت بھی جن حوصلوں کو پست نہیں کر سکی تھی، بے نظیر بھٹو کی زہر آلود جمہوریت نے ان کی بھی کمر توڑ کر رکھ دی تھی۔ یہی وہ مخصوص حالات تھے جن میں پرولتاریہ کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ایم کیو ایم جیسی نیم فسطائی قوت سماجی بنیادیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی اور بہت بڑے خونی کھلواڑ کی راہ ہموار ہوئی۔ ملک کے طول و عرض میں شیعہ سنی تفرقے کا بھی ایسا بیج بو دیا گیا جس کی آبیاری ہزاروں معصوموں کے خون سے کی گئی اور آج بھی ضرورت پڑنے پر ان فسطائیوں کو کھلی چوٹ دے کر عورتوں اور بچوں سمیت نہتے انسانوں کے خون کا بازار گرم کر دیا جاتا ہے۔

سوویت یونین کا انہدام، تزویراتی گہرائی اور تحریکِ انصاف کا جنم

عمران خان کا اپنا نہ تو کوئی نظریہ یا وژن تھا اور نہ ہی کبھی ہو سکتا ہے۔ وہ ابتدا ہی سے اسٹیبلشمنٹ کی انگلی پکڑ کر چلنے کا عادی رہا ہے۔ حمید گل نے نام نہاد وطنیت کے جو تھوڑے بہت مبہم تصورات اس کے دماغ میں انڈیلے، آج تک انہی تصورات کی ہانڈی اس کے کھوکھلے دماغ میں ابلتی رہتی ہے۔

رہی سہی کسر سوویت یونین کے انہدام نے پوری کر دی۔ یہ دنیا بھر میں مزدور تحریک اور ترقی پسند قوتوں کی فیصلہ کن شکست تھی۔ مزدور تحریک سے زندگی کی آخری رمق بھی چھین لی گئی تھی۔ فسطائیت کے ابھار کے تمام معروضی لوازمات موجود تھے۔ اگر پاکستان میں فسطائیت کے ابھار کا واقعی کوئی دور تھا تو وہ یہی نوے کی دہائی تھی۔ اپنے عروج کے وقت بھی فسطائیت ملک بھر میں سماجی بنیادیں حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی لیکن ایم کیو ایم بالخصوص کراچی اور بالعموم شہری سندھ کے اردو بولنے والے مہاجروں کی نہ صرف درمیانے طبقے بلکہ محنت کشوں کی بھی پچھڑی ہوئی پرتوں میں بھاری حمایت حاصل کر کے ریاست کے اندر ایک ریاست بننا شروع ہو گئی۔ کراچی چونکہ پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، اس لیے عالمی سطح پر نیو لبرل معیشت کے ابھارسے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونے کے لیے کراچی میں یہ نیم فسطائیت پاکستانی ریاست کے لیے دردِ سر بننا شروع ہو گئی۔ نوے کی دہائی میں ایم کیو ایم کے خلاف دو بڑے آپریشن کیے گئے اور ایم کیو ایم میں پھوٹ بھی ڈالی گئی لیکن بہرحال ایم کیو ایم کراچی کی سب سے بڑی سیاسی قوت کے طور پر اپنے آپ کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہی۔

افغانستان سے سوویت افواج کے انخلا کے بعد امریکی سامراج کے اس خطے میں فوری مفادات کی نوعیت تبدیل ہونا شروع ہوئی تو پاکستانی ریاست اور بالخصوص آئی ایس آئی کے ساتھ امریکہ کے تعلقات میں بھی دراڑیں پڑنا شروع ہو گئیں۔ مشہورِ زمانہ تزویراتی گہرائی (Strategic Depth) کے تحت آئی ایس آئی افغانستان کو اپنے ایک صوبے کے طور پر چلانے کا ارادہ رکھتی تھی۔ اس وقت آئی ایس آئی کے سربراہ حمید گل نے بھانپ لیا تھا کہ اب اس خطے میں امریکہ اور پاکستان کے مفادات کی یکسوئی زیادہ عرصہ برقرار نہیں رہ سکے گی، اس لیے جہاں ایک طرف افغانستان میں امریکہ سے زیادہ پاکستان کی وفادار حکومت کی تشکیل کے لیے کوششیں تیز کر دی گئیں، وہیں پاکستان میں بھی مطلوبہ سیاسی قیادت کی تعمیر کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا شروع کر دیا گیا۔ اسی اثنا میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم عمران خان کی قیادت میں ورلڈ کپ جیتنے میں کامیاب ہو گئی اور عمران خان ایک سیلیبریٹی کے طور پر بے حد مقبول ہو گیا۔ حمید گل نے عمران خان کی اس مقبولیت سے بھرپور استفادہ حاصل کرنے کے لیے اسے سیاست میں لانے کا فیصلہ کیا۔ عمران خان اپنے مخصوص پیٹی بورژوا پسِ منظر اور شخصی رجحانات کے باعث بہت جلد اس پروجیکٹ میں کلیدی مہرے کے طور پر کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہو گیا۔ براہِ راست سیاست میں عملی کردار ادا کرنے سے قبل اسے خدمتِ خلق کے علمبردار کے طور پر متعارف کروانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس مقصد کے لیے شوکت خانم کینسر ہسپتال کی مہم کو ریاستی آشیر باد سے بڑی تیزی سے بین الاقوامی سطح پر پھیلایا گیا۔ حال ہی میں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں پاکستان کے نامور سوشل ورکر اور ایدھی ایمبولینس سروس کے بانی عبدالستار ایدھی کو یہ انکشاف کرتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ حمید گل اور عمران خان اس وقت بے نظیر کی حکومت کے خلاف سازشوں میں بھی ملوث تھے اور اس حوالے سے انہوں نے عبدالستار ایدھی پر بھی بہت دباؤ ڈالا۔ اسی عرصے میں نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومتیں آتی اور جاتی رہیں مگر ریاستی اداروں کے تضادات میں شدت آنا شروع ہو چکی تھی۔ افغانستان میں سعودی عرب اور امریکہ کی معاونت سے طالبان کی خونی آمریت مسلط کر دی گئی۔ اور 25 اپریل 1996ء کو عمران خان کی قیادت میں بطور ایک سیاسی پارٹی تحریکِ انصاف کے قیام کا اعلان کر دیا گیا۔

یہاں یہ بات خاص طور پر قابلِ ذکر ہے کہ تحریکِ انصاف کو ایک انتہائی دائیں بازو کی جماعت کے طور پر تشکیل نہیں دیا گیا تھا۔ حمید گل کی سربراہی میں آئی ایس آئی پہلے ہی مذہبی فسطائیت کے بہت سے پراجیکٹ چلا رہی تھی۔ حمید گل سمجھتا تھا کہ یہ عناصر کبھی بھی سماجی بنیادیں حاصل نہیں کر سکیں گے، اس لیے انہیں افغانستان اور کشمیر میں سامراجی مداخلت کے لیے بطور ہتھیار ہی استعمال کیا جا سکتا ہے اور ملک میں ضرورت پڑنے پر محنت کشوں کو ہراساں کرنے کے لیے بھی یہ مفید ہیں مگر خارجہ پالیسی کو پاپولر سپورٹ مہیا کرنے کے لیے ان کو استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ ساتھ ہی دنیا بھر کے پالیسی سازوں کی طرح حمید گل بھی یہ سمجھتا تھا کہ اب سوشلزم کا خطرہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ٹل چکا ہے۔ اس لیے اس کے خیال میں اب مذہبی قوتوں اور سابقہ بائیں بازو کے لوگوں کو ایک امریکہ مخالف اتحاد میں فوری مفادات کے لیے اکٹھے کام کرنا چاہیے تھا، اس نے کئی دفعہ اس خواہش اور منصوبے کا برملا اظہار بھی کیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ بہت بہتر طریقے سے جانتا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو اس ملک کا واحد پاپولر لیڈر رہا ہے۔ اپنے مخصوص عملیت پسندانہ طرزِ فکر کی وجہ سے وہ بھٹو کی عوامی مقبولیت کے محرکات کو سمجھنے سے قاصر تھا، اس کا خیال تھا کہ بھٹو کی مقبولیت کی وجہ یہ تھی کہ اس نے چند سرخوں کو ساتھ ملا لیا تھا، لہٰذا آج بھی امریکہ مخالف ایجنڈے پر اگر بائیں بازو کے لوگوں کو ساتھ ملا لیا جائے تو بہت کم وقت میں ایک پاپولر پارٹی بنائی جا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھٹو کے پرانے ساتھی، نامور سوشلسٹ رہنما اور این ایس ایف کے سابقہ صدر معراج محمد خان کو تحریکِ انصاف کا پہلا جنرل سیکرٹری منتخب کیا گیا۔ معراج محمد خان کی وجہ سے اس کے پرانے ساتھیوں اور سرخوں کی ابتدا میں تحریکِ انصاف کی طرف کچھ خوش فہمیاں بھی پیدا ہو گئی تھیں، جو رفتہ رفتہ دم توڑ گئیں۔ مگر حمید گل کی طرح یہ پرانے سرخے بھی یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ پاپولر پارٹیاں مخصوص عہد اور حالات میں بنتی ہیں۔ حمید گل نے پرانے سرخوں کے ساتھ ساتھ جماعتِ اسلامی کے پرانے کیڈرز کو بھی تحریکِ انصاف میں اہم ذمہ داریاں تفویض کی تھیں۔ درمیانے طبقے کی کسی بھی پرت کی توجہ حاصل کرنے میں ناکامی کے ابتدائی سالوں میں ہی حمید گل کو اندازہ ہو گیا تھا کہ فی الوقت تحریکِ انصاف کے پراجیکٹ کی عوامی پذیرائی کے امکانات مسدود ہیں۔ اسی لیے اس نے فوری طور پر آمریت کی چھایا چھتر میں ہی عمران خان کو لانچ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اپنے مخصوص طرزِ فکر کی بنیاد پر شاید اس نے یہ سوچا ہو گا کہ جس طرح ایوب خان کی چھتری تلے بھٹو نے اپنی سیاسی شناخت بنائی تھی ایسے ہی پرویز مشرف کی چھتری تلے عمران خان سیاست میں اپنے پاؤں جمانے میں کامیاب ہو جائے گا۔

مشرف آمریت اور پیٹی بورژوازی کا نیا ابھار

نوے کی دہائی پاکستانی ریاست کے عزائم کی از سر نو تشکیل کی دہائی تھی۔ اس مصنوعی ریاست کا شناخت کا بحران (Identity Crises) ایک دفعہ پھر شدت کے ساتھ ابھر کر سامنے آ رہا تھا۔ مختلف سوچوں اور مفادات کی بنیاد پر ریاست میں گروہی وابستگیاں بننے اور ٹوٹنے کا عمل جاری رہا۔ خطے میں امریکی سامراج کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے آزادانہ پالیسی تشکیل دینے کا عزم لیے حمید گل اور اس کے حواری بہت پر امید تھے۔ سب سے پہلے تو حمید گل نے خود چیف آف آرمی سٹاف بننے کی بھر پور کوشش کی۔ لیکن اسی عرصے میں طالبان کی نومولود حکومت کے ساتھ گیس پائپ لائن کے پراجیکٹ کی بنیاد پر امریکیوں کے تضادات ابھر کر سامنے آنا شروع ہو چکے تھے۔ امریکی جانتے تھے کہ طالبان آئی ایس آئی کی پشت پناہی کے بغیر انہیں آنکھیں دکھانے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ ادھر پاکستانی ریاست ایٹمی دھماکے کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی تھی۔ سی آئی اے کو اس کے بارے میں مکمل جانکاری تھی اور وہ چاہتے تھے کہ پاکستان اس قسم کی مہم جوئی سے باز رہے۔ حمید گل اس سارے کھیل میں ایک اہم کھلاڑی تھا۔ امریکیوں نے فیصلہ کیا کہ اسے کسی بھی صورت میں پاکستانی مسلح افواج کا سربراہ نہیں ہونا چاہیے۔ ایک ویڈیو انٹرویو میں خود حمید گل نے اعتراف کیا کہ پاکستان افواج کے تمام سربراہان کی تعیناتی امریکہ بہادر کی ایما پر ہی کی جاتی ہے، اور امریکہ کی مداخلت کے سبب ہی اسے آرمی چیف نہیں بننے دیا گیا۔ امریکہ نے اس وقت کے وزیرِ اعظیم نواز شریف کو بھی ایٹمی دھماکے کرنے سے باز رہنے کی تلقین کی مگر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ چونکہ فیصلہ کر چکی تھی اس لیے بالآخر دھماکے کیے گئے۔ پاکستانی ریاست کے کچھ حصے اس معاملے میں تذبذب کا شکار تھے۔ پرویز مشرف نے بطور چیف آف آرمی سٹاف کارگل میں محاذ کھول دیا۔ کہا جاتا ہے کہ نواز شریف کو اس کی اطلاعات جھڑپیں شروع ہونے کے بعد موصول ہوئیں۔ اس معاملے میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ فوری ناچاقی کی صورت میں نواز شریف کو اقتدار سے ہاتھ دھونے پڑے اور پرویز مشرف نے امریکہ کی حمایت سے ملک میں مارشل لا لگاکر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔

پرویز مشرف کے دور میں پاکستانی ریاست کے امریکہ کے ساتھ تعلقات میں ایک دفعہ پھر بہتری آنا شروع ہو گئی۔ نائین الیون کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر ہونے والے حملے اور اس کے ردِ عمل میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد اس خطے میں امریکہ نے پاکستان کو ایک نیا رول تفویض کر دیا۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف نام نہاد سامراجی جنگ میں ڈالروں کے عوض امریکہ کے فرنٹ مین کا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا لیکن ساتھ ہی ساتھ طالبان کی پشت پناہی بھی جاری رکھی تاکہ ڈالروں کے حصول کے لیے اس اہم اور مؤثر ہتھیار کو بوقت ضرورت استعمال کرنے کے قابل رکھا جا سکے۔ یہی سارا عمل جو ریاست کی متضاد پالیسیوں کا لازمی نتیجہ تھا بعد ازاں ڈبل گیم کہلایا۔ حمید گل اور اس کے حواری اس ڈبل گیم میں بھی اہم کردار ادا کرتے رہے۔ گزشتہ عرصے میں حمید گل کی ایک ویڈیو منظرِ عام پر آئی تھی جس میں موصوف بڑے فخریہ انداز میں یہ فرما رہے تھے کہ’’مؤرخ لکھے گا کہ کس طرح پاکستان نے امریکہ کی مدد سے سوویت یونین کو شکست دی“۔ ہلکے سے معنی خیز توقف کے بعد اپنی بات جاری رکھتے ہوئے وہ کہتا ہے کہ’’اور اگلا جملہ ہوگا کہ، پاکستان نے امریکہ ہی کی مدد سے خود امریکہ کو بھی شکست دی“۔ اس کے بعد فاتحانہ قہقہوں سے کمرہ کافی دیر گونجتا رہا۔ مشرف آمریت کے ابتدائی دنوں میں ہی حمید گل نے فیصلہ کر لیا تھا کہ عمران خان کو مشرف کی سیاسی ٹیم میں اہم ذمہ داریاں سنبھال لینی چاہئیں، اس طریقے سے جہاں اس کی سیاسی و سفارتی تربیت ہو گی وہیں اس کے قد کاٹھ میں بھی اضافہ ہو گا۔ عمران خان ان دنوں میں کھل کر پرویز مشرف کی تعریف کیا کرتا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کی پالیسی پر بھی عمران خان نے مشرف کی بھرپور تائید کی۔ جس طرح پرویز مشرف امریکہ کے فرنٹ مین کا منافقانہ کردار ادا کر رہا تھا، اسی تسلسل میں عمران خان پرویز مشرف کے وفادار فرنٹ مین کا کردار ادا کرنے کے لیے غیر مشروط طور پر ہمہ وقت تیار رہتا تھا۔ اس وقت کچھ صحافتی حلقوں میں یہ خبریں بھی گردش کرتی رہیں کہ یہ طے پا چکا ہے کہ عام انتخابات کے بعدعمران خان پرویز مشرف کے نامزد کردہ نئے وزیرِ اعظم ہوں گے۔

عمران خان کا اپنا نہ تو کوئی نظریہ یا وژن تھا اور نہ ہی کبھی ہو سکتا ہے۔ وہ ابتدا ہی سے اسٹیبلشمنٹ کی انگلی پکڑ کر چلنے کا عادی رہا ہے۔ حمید گل نے نام نہاد وطنیت کے جو تھوڑے بہت مبہم تصورات اس کے دماغ میں انڈیلے، آج تک انہی تصورات کی ہانڈی اس کے کھوکھلے دماغ میں ابلتی رہتی ہے۔ اس کا معیشت، تاریخ اور جغرافیے کا علم مضحکہ خیز حد تک کمتر ہے۔ اس کا اظہار ہر کچھ روز کے بعد اسکی تقاریر اور گفتگو کے ذریعے ہوتا بھی رہتا ہے۔ اس نے کبھی سنجیدگی سے ان علوم کو سیکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ وہ اپنی جہالت کو بطور سیاستدان عین فطری اور معمول کی چیز سمجھتا ہے لیکن ساتھ ہی وہ خود کو بہت زیادہ چالاک اور ہوشیار اوراپنے سامعین کو بیوقوف سمجھتے ہوئے انہیں دھوکہ دینے کی کوششوں میں مصروف رہتا ہے۔ وہ اس معاملے میں اس لیے قدرے حق بجانب بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس ملک میں نواز شریف جیسا اوسط سے بھی کمتر ذہنی صلاحیت اور علمی طور پر قحط زدہ آدمی وزیرِ اعظم بن سکتا ہے تو وہاں زیادہ مطالعے اور ذہنی مشق کی ضرورت ہی کیا ہے۔ تھوڑی بہت چالاکی اور ہوشیاری کافی ہے اور انسان کو مقتدر حلقوں کے سامنے گڑگڑانا اور وقت پڑنے پر ان کے پاؤں پکڑنے کا گُر آنا چاہیے۔ ویسے بھی وہ نواز شریف سے کہیں بہتر اور رواں انگریزی تو بول ہی سکتا ہے۔ وہ ایک فطری کھلاڑی ہے، ہاں البتہ ایک سیلیبریٹی بننے کے بعد اس میں خود پسندی اور انانیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ لیکن ابتدا میں اس میں فسطائیت کے رجحانات کا شائبہ تک نہیں تھا بلکہ وہ ایک روایتی ڈیموکریٹ ہونے کا ناٹک کرتا تھا۔ وہ روایتی بورژوا سیاستدانوں کی طرح اپنے مخالفین پر تنقید ضرور کرتا تھا مگر کبھی اشتعال انگیز گفتگو نہیں کرتا تھا۔ لیکن 2002ء کے انتخابات کے بعد ڈبل گیم کے اپنے داخلی تقاضوں کے تحت خیبر پختونخواہ (اس وقت صوبہ سرحد) اور بلوچستان میں اقتدار ملاؤں یعنی ایم ایم اے (متحدہ مجلسِ عمل) کو دینا پڑا جس کی قیادت جمعیت علمائے اسلام یعنی مولانا فضل الرحمان کے پاس تھی۔ ملاؤں کی قطعی طور پر کوئی سماجی بنیادیں نہیں تھیں مگر افغانستان میں جاری کھلواڑ کے پیشِ نظر اور امریکہ کو یہ تاثر دینے کے لیے کہ پاکستان میں ملاؤں کی اچھی خاصی سماجی بنیادیں موجود ہیں، انہیں انتخابات کے ناٹک کی آڑ میں پلیٹ میں رکھ کر صوبائی حکومتیں دے دی گئیں۔ اسی لیے ایم ایم اے کو ملاں ملٹری الائنس بھی کہا جاتا تھا۔ پنجاب میں نون لیگ کو سبق سکھانے کے لیے مسلم لیگ کی ایک دفعہ پھر ری سٹرکچرنگ کرتے ہوئے ق لیگ بنائی گئی اور نہ صرف پنجاب بلکہ وفاقی حکومت انہیں سونپنا بھی مجبوری تھا۔ دوسری طرف پرویز مشرف خود ایک مہاجر شاونسٹ بھی تھا، اس لیے کراچی میں ایم کیو ایم کو کھلی چھوٹ دی گئی اور وہ تمام شہری سندھ میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے۔ یوں انتخابات کے بعد ایک بالکل نیا منظرنامہ سامنے آیا جس میں قومی اسمبلی کی صرف ایک نشست رکھنے والے عمران خان کو وزیرِ اعظم بنانا عملاً ناممکن ہو گیا۔

خود پرست عمران خان اسٹیبلشمنٹ (پرویز مشرف) کی یہ بے وفائی برداشت نہ کر سکا اور اس کی انا کو شدید دھچکا لگا۔ جس طرح ماہرینِ نفسیات کے مطابق بچپن میں جنسی ہراسانی (Child Abuse) کا شکار ہونے والے لوگوں کی شخصیت پر اس کے انتہائی منفی اور ہیجان پرور اثرات مرتب ہوتے ہیں ایسے ہی ہم کہہ سکتے ہیں کہ اپنی مصنوعی سیاسی زندگی کے لڑکپن میں عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے دیا گیا بے وفائی کا یہ زخم اس کی سیاسی روح کو بری طرح مجروح کر گیا تھا، اس حادثے نے اسے یکسر ایک خبطی سیاستدان میں تبدیل کر دیا۔ اس کے بعد اچانک اس نے پرویز مشرف کی پالیسیوں پر تنقید کرنا شروع کر دی، بالخصوص دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ہونے والے ڈرون حملوں کی پالیسی کو اس نے خوب آڑے ہاتھوں لیا۔ جب بھی ڈبل گیم کی ہنڈیا چوراہے پر پھوٹنے لگتی، تو مشرف کو مجبوراً کچھ ’دہشت گرد‘ امریکہ کے حوالے کرنے پڑ جاتے اور اس کے عوض اربوں ڈالر بھی مل جاتے جو اقتدار میں موجود تمام افراد کا حتمی مقصد ہوتا ہے۔ دوسری طرف ریاست کے انتہائی دائیں بازو جس کی قیادت حمید گل اور اس جیسے افراد کے پاس ہی تھی اور وہ اپنے کاروباری مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے گڈ طالبان کی بھرپور پشت پناہی جاری رکھے ہوئے تھے۔ طالبان نے اسی پشت پناہی کی بنیاد پرملک بھر میں خانہ جنگی کا ماحول بنا دیا۔ دھماکے اور خود کش حملے معمول بنتے چلے گئے جن میں ہزاروں لوگ لقمہِ اجل بنے۔ آئی ایس آئی اور ایم آئی سمیت مختلف ریاستی اداروں کی باہمی لڑائی شدت اختیار کر گئی اور حمید گل اور اس کے ہم خیال ریٹائرڈ جرنیلوں نے کچھ حاضر سروس افسران کے ساتھ مل کر مشرف کے خلاف صف بندی کرنے کا آغاز کر دیا۔ ایسے میں میڈیا چینلز کو بھی اس لڑائی میں گھسیٹ لیا گیا۔ ان دنوں میں عمران خان کو بھی ٹاک شوز میں خوب پذیرائی ملنا شروع ہو گئی۔

ریاستی اداروں کے تمام تر داخلی تناؤ کے باوجود مشرف کے دور میں معیشت کا پہیہ بہت خوش اسلوبی سے چلتا رہا۔ اس کی ایک بڑی وجہ عالمی معیشت کا ابھار تھی اور دوسری طرف افغانستان میں جاری جنگ کے باعث امریکہ نے پاکستان پر بے حساب ڈالر نچھاور کیے۔ ان تمام تر ڈالرز کے بلبوتے پر پاکستان میں بینکنگ، ریئل اسٹیٹ، آٹو انڈسٹری اور موبائلز کے شعبہ جات کو بہت فروغ ملا۔ جب شوکت عزیز وزیرِ اعظم تھا اس وقت پاکستان کی معیشت کا گروتھ ریٹ لگ بھگ 8 فیصد تک پہنچ گیا تھا۔ اگرچہ اس تمام تر ترقی سے محنت کشوں کی زندگیوں پر کچھ قابلِ ذکر مثبت اثرات مرتب نہیں ہوئے تھے اور اس وقت بھی روزانہ دس ہزار لوگ غربت کی لکیر سے نیچے گرتے رہے مگر اس مصنوعی معاشی ابھار کے سبب ملک میں ایک ڈیڑھ کروڑ کی ایک بالکل تازہ دم کنزیومر کلاس یعنی درمیانے طبقے نے جنم لیا۔ یہ ایک نیا معاشی مظہر تھا جسے جلد یا بدیر کسی سیاسی مظہر کے ذریعے ناگزیر طور پر ظاہر ہونا ہی تھا۔ یہ نو دو لتیے آڑھتیوں، پراپرٹی ڈیلروں، بینکاروں، سٹے بازوں، ان کی بیگمات اور چھچھوری اولادوں پر مشتمل درمیانہ طبقہ ہی تھا جس نے پرویز مشرف سے ناراض ریاستی دھڑے کی سیاسی پیاس بجھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ پہلے عدلیہ کے ذریعے پرویز مشرف کا گھیرا تنگ کیا گیا اور جب مشرف نے جوابی کاروائی کی اورعدالتِ عظمیٰ کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو برخاست کیا، جیو نیوز پر پابندی عائد کی تو وکلا نے عدلیہ بحالی تحریک کا اعلان کیا اور اس عدلیہ بحالی تحریک کو سماجی مواد مذکورہ بالا درمیانے طبقے سے ہی میسر آیا۔ عمران خان کو مصنوعی طور پر اس تحریک کا ہیرو بنانے کی کوشش کی گئی مگر کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ دو بار اسے گرفتار بھی کیا گیا مگر اس کی حمایت میں کوئی اضافہ نہ ہو سکا اور اس درمیانے طبقے نے بھی اسے زیادہ سنجیدہ نہیں لیا۔ اسی عرصے میں مشرف کی مزدور دشمن پالیسیوں کا ردِ عمل بھی آنا شروع ہو گیا تھا اور پی ٹی سی ایل کی نجکاری کے خلاف مزدوروں کی ایک شاندار تحریک بن رہی تھی۔ امریکی سامراج کے سنجیدہ حلقے اس خطرے کو بھانپ چکے تھے، اس لیے انہوں نے پیپلز پارٹی، نون لیگ کے مابین ’میثاقِ جمہوریت‘ کا معاہدہ کروایا اور پھر پرویز مشرف سے ان کی ڈیل کروائی تاکہ نئے انتخابات کروائے جائیں اور ملک میں مسلسل بڑھتی ہوئی پولرائزیشن کی روک تھام کی جا سکے۔ اس ڈیل کے نتیجے میں بے نظیر پاکستان واپس آئی اوربیس لاکھ سے زائد لوگوں نے کراچی میں اس کا استقبال کیا۔ ریاست کی اسی داخلی لڑائی میں بے نظیر کو بھی قتل کر دیا گیا اور انتخابات میں پیپلز پارٹی واضح اکثریت لے کر آصف علی زرداری کی قیادت میں اقتدار میں آ گئی۔ یوں عمران خان کے خواب ایک دفعہ پھر چکنا چور ہو گئے اور اس کی فرسٹریشن بھی مسلسل بڑھتی چلی گئی۔

نون لیگ، پیپلز پارٹی اور کمتر برائی کا رجعتی مفروضہ

آصف علی زرداری کی زیرِ نگرانی پیپلز پارٹی کی حکومت نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا ایجنڈا پوری قوت سے لاگو کیا۔ مفاہمت کی سیاست کے نام پر ایم کیو ایم سمیت تمام عوام دشمن قوتوں سے سیاسی سمجھوتے کیے گئے۔ سندھ اور جنوبی پنجاب کے تمام جاگیرداروں اور بلوچ قبائلی سرداروں کے لیے پارٹی کے دروازے کھلے تھے۔ زرداری نے سیاست میں ایک نیا کمرشل برانڈ متعارف کروایا تھا۔ وہ پارٹی اور حکومت کو ایک کارپوریشن کی طرح چلا رہا تھا۔ اس کی سیاست کا لبِ لباب یہ تھا کہ ’آؤ، سرمایہ کاری کرو، کماؤ، کمیشن دو اور نکلو‘۔ کرپشن کے ایسے ایسے طریقے متعارف کروائے گئے کہ بدعنوانی کو ایک آرٹ کا درجہ دے دیا گیا۔ اور یہ سب کچھ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد ملنے والی سیاسی ہمدردی کی آڑ میں کیا جا رہا تھا۔ اس سیاسی ہمدردی کا دائرہ کار صرف محنت کش طبقے تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ درمیانے طبقے میں بھی پیپلز پارٹی کی اچھی خاصی حمایت موجود تھی۔ اسی حمایت کی وجہ سے ان مزدور دشمن پالیسیوں کے باوجود بھی آصف علی زرداری کی حکومت کو اپنے پانچ سالہ دورِ اقتدار میں کسی بہت بڑی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ بہت زیادہ عملی مزاحمت نہ ہونے کے باوجود محنت کش طبقے میں شدید مایوسی کی لہر دوڈ چکی تھی اور وہ پیپلز پارٹی سے مکمل بدظن ہو چکے تھے۔ محنت کش طبقے کی پیپلز پارٹی سے نسل در نسل چلی آ رہی عقیدتیں اب اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہی تھیں۔ اٹھارویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ جیسے اقدامات سے درمیانے طبقے کے ایک حصے کی حمایت میں تو اضافہ ضرور ہوا تھا مگر محنت کشوں میں پیپلز پارٹی کی سماجی بنیادوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ یوں اس پانچ سالہ دورِ اقتدار میں پیپلز پارٹی کے سیاسی کردار میں معیاری تبدیلی رونما ہوئی۔ اب یہ محنت کشوں کی روایتی پارٹی نہیں رہی بلکہ حکمران طبقے کی ایک کلاسیکل پارٹی میں تبدیل ہو گئی جس کی حمایت درمیانے طبقے کی کچھ پرتوں تک محدود ہو کر رہ گئی۔

پرویز مشرف کے دور میں بننے والے نودولتیوں میں آگے بڑھنے کا بھر پور جوش اور امید موجود تھی۔ لیکن 2008ء کے عالمی معاشی بحران کے بعد پیپلز پارٹی حکومت نے جو پالیسیاں لاگو کیں، اس سے معیشت کے مصنوعی غبارے کی ہوا نکلنا شروع ہو گئی۔ 2011ء تک درمیانے طبقے کی آرزوئیں، اور امنگیں چکنا چور ہو چکی تھیں۔ عدلیہ کی نام نہاد بحالی نے بھی ان کی معاشی ترقی کے لیے کوئی معجزہ سر انجام نہیں دیا تھا۔ یہ طبقہ یہ سمجھتا تھا کہ بتدریج بہتری کے ذریعے وہ بہت جلد حکمران طبقے کا حصہ بننے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ملک کی ترقی کی خواہش اور امید بھی اسی لیے ان کے اندر بدرجہ اتم موجود تھی۔ اس طبقے کی ’ملکی ترقی‘ کی خواہش کو عمران خان کی ’وطنیت‘ اور کرپشن کے خاتمے جیسے نعرے بہت اپیل کرنے لگے اور عمران خان کی حمایت میں اضافہ ہونے لگا۔ عمران خان نے ملک بھر میں بڑے بڑے جلسے کیے۔ بالخصوص کراچی میں مزارقائد اور لاہور میں مینارِ پاکستان پر ہونے والے جلسوں کے بعد پہلی دفعہ تحریکِ انصاف کو ایک ملک گیر پارٹی کے طور پر پہچانا جانے لگے۔ میڈیا نے ان جلسوں کو اور بھی بڑا کر کے دکھایا۔ حمید گل کے زیرِ اثر زیادہ تر میڈیا براہِ راست عمران خان کے ان جلسوں کی کمپئین کیا کرتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ بین الاقوامی سطح پر تحریکِ انصاف کو ایک میڈیا میڈ پارٹی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ نو دولتیا درمیانہ طبقہ اور پاکستان کا الیکٹرانک میڈیا ایک ساتھ ہی جوان ہوئے تھے، اس لیے ان کی سوچوں کی تشکیل میں اس بورژوا میڈیا کا کلیدی کردار تھا۔ ان میڈیا چینلز نے مڈل کلاس کی دلچسپی کی اس سیاسی نعرے بازی کو بھرپور طریقے سے پروموٹ کیا اور عمران خان کو ایک مسیحا اور نجات دہندہ بنا کر پیش کیا گیا۔ درمیانے طبقے کی اہم پرتوں نے میڈیا کا یہ بیانیہ اپنانا شروع کر دیا تھا۔ لیکن محنت کش طبقے کی ان نعروں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی، اس لیے انہوں نے ماضی کی طرح عمران خان کو ایک دفعہ پھر مکمل طور پر نظر انداز کر دیا۔ یہی وجہ تھی کہ تمام تر بڑے بڑے جلسوں کے باوجود 2013ء کے انتخابات میں تحریکِ انصاف کو ممکنہ کامیابیاں نہ مل سکیں۔ اسٹیبلشمنٹ بھی اس وقت تک کسی بہت بڑی سیاسی مہم جوئی کے لیے تیار نہیں تھی، اس لیے انہوں نے پرانے اور منجھے ہوئے مہروں پر ہی اکتفا کرنے میں عافیت جانی اور نواز شریف بڑی اکثریت کے ساتھ تیسری دفعہ ملک کا وزیرِ اعظم بننے میں کامیاب ہو گیا۔

نواز شریف کی آخری حکومت نے بھی فوری طور پر آئی ایم ایف سے رجوع کیا، نجکاری کی پالیسی کو تیز تر کر دیا گیا۔ سرمایہ دار طبقے کو ٹیکسوں میں بڑی چھوٹ دی گئی اور عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار کر دی گئی۔ ان پالیسیوں نے محنت کش طبقے کے ساتھ ساتھ سفید پوش طبقے کی زندگیوں کو بھی اجیرن کر دیا تھا۔ محنت کش طبقے میں تو نون لیگ کی کبھی کوئی حمایت موجود ہی نہیں تھی۔ اسکی اپنی سپورٹ بیس یعنی تاجر طبقے میں بھی مایوسی انتہاؤں کو جا پہنچی۔ زرداری حکومت سے ورثے میں ملا ہوا انرجی کا بحران بھی شدت اختیار کرتا رہا۔ ان دونوں حکومتوں میں لارج سکیل مینوفیکچرنگ میں مزید سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر تھی بلکہ ٹیکسٹائل سمیت بہت سے شعبوں سے سرمایہ بنگلہ دیش اور سری لنکا جیسے ممالک میں منتقل ہوتا رہا۔ بجلی کے بحران کے باعث زراعت کو بھی بہت بڑا دھچکا لگا اور دیہی علاقوں سے شہروں کی طرف بڑے پیمانے کی نقل مکانی دیکھنے میں آئی۔ لیکن شہروں میں بھی روزگار کے مواقع ناپید تھے جس کے باعث ان حکومتوں میں ان دونوں پارٹیوں کے خلاف عوامی سطح پر شدید نفرت پنپتی رہی۔ معیشت کا تمام تر دارومدار چینی سرمایہ کاری بالخصوص سی پیک پر ہی تھا جس نے ملکی معیشت کو آگے بڑھانے کی بجائے مقامی صنعت میں سے زندگی کی رہی سہی رمق بھی چھین لی۔ دوسری طرف سی پیک کی وجہ سے ریاستی اداروں کی رسہ کشی بھی مسلسل بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ امریکہ کی طرف سے ’ڈو مور‘ کا دباؤ بھی شدت اختیار کرتا چلا جا رہا تھا۔ افغانستان میں امریکہ کی مسلسل بڑھتی ہوئی خجالت پاکستانی ریاست کے لیے بہت بڑا چیلنج بنتی جا رہی تھی۔ ریاست چاہتی تھی کہ امریکہ افغانستان میں ہی پھنسا رہے تاکہ یہ ڈالر بٹورتے رہیں اور معیشت کسی نہ کسی طرح چلتی رہے۔

نواز شریف کے دور میں ماضی کی طرح بھارت کے ساتھ دوستی اور تجارتی تعلقات کی استواری کی سنجیدہ کوششیں کی گئیں۔ مودی نے پاکستان کا ایک سرپرائز وزٹ بھی کیا اور نواز شریف سے ملاقات بھی کی۔ ریاستی اداروں میں ہم آہنگی نہ ہونے کے برابر تھی اور اداروں کی ٹوٹ پھوٹ تیز ہوتی رہی۔ حمید گل نے زرداری حکومت میں ہی ایک دفعہ پھرتمام فسطائی قوتوں کو ’دفاعِ پاکستان کونسل‘ کی چھتری تلے جمع کر لیا تھا تاکہ امریکہ کی طرف سے مسلسل بڑھتے ہوئے دباؤ اورریاست کے بھارت کے ساتھ دوستانہ مراسم میں ہونے والی کسی بھی قسم کی پیش رفت کو ناکام بنایا جا سکے۔ اس ضمن میں اسے کوئی خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی اور ملاؤں کی سماجی حمایت مسلسل سکڑ رہی تھی۔ اسی لیے نواز شریف حکومت میں تحریکِ انصاف پر پہلے سے کہیں زیادہ سرمایہ کاری کی گئی۔ جنرل پاشا اور ظہیر الاسلام کے دور میں تحریکِ انصاف کی تنظیم سازی، پروپیگنڈے اور کمپئین وغیرہ کا سارا کام مکمل طور پرآئی ایس آئی نے سنبھال لیا تھا۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات میں مسلسل اتارچڑھاؤ کے باعث فوج نے براہِ راست مارشل لگانے کا سوچنا ہی ترک کر دیا تھا۔ اس لیے اب ففتھ جنریشن وار کے نام پر نوجوانوں کی ذہن سازی کے کام کو تیز کر دیا گیا تھا تاکہ ریاستی بیانیے کی مرتی ہوئی حمایت میں اضافہ کیا جائے اور دفاعی بجٹ کو کم کرنے جیسے نعروں اور مطالبات کا مقابلہ کیا جا سکے۔ حمید گل کی اچانک وفات کے بعد بھی تحریکِ انصاف کی مسلسل آبیاری کا عمل جاری رکھا گیا۔ نواز شریف کی حکومت کے خلاف تحریکِ انصاف اور طاہر القادری سے 126 روزہ دھرنا بھی دلوایا گیا جسے تمام میڈیا چینلز نے بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ کنٹینر سے عمران خان کی تقاریر کو براہِ راست نشر کیا جاتا تھا۔ ان دھرنوں کے دوران پی ٹی وی پر قبضہ کرنے کی کوشش بھی کی گئی اور دیگر اشتعال انگیزی کے باوجود بھی عمران خان اسلام آباد میں بہت بڑی تعداد میں لوگ جمع نہ کر سکا۔ اسٹیبلشمنٹ میں بھی شدید دراڑیں تھیں اور تمام جرنیل مکمل طور پر حکومت گرانے کے حق میں نہیں تھے اس لیے، اس وقت تو نواز شریف کی حکومت نہیں گرائی جا سکی مگر بعد ازاں مائنس ون فارمولے کے تحت نواز شریف کو ہٹا کر شاہد خاقان عباسی کو وزیرِ اعظم بنا دیا گیا اور اگلے انتخابات میں عمران خان کی حکومت تشکیل دینے کی حکمتِ عملی بنائی گئی۔

نون لیگ اور پیپلز پارٹی سے ناراض درمیانے طبقے کی کچھ پرتیں عمران خان کی سیاسی نعرے بازی کے سحر میں مبتلا ہو رہی تھیں۔ عمران خان کے ریاستی پشت پناہوں نے میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر تاریخی کمپئین چلائی اور یہ بیانیہ پیش کیا کہ نواز شریف اور پیپلز پارٹی کو بار بار آزمایا جا چکا ہے۔ یہ تمام پارٹیاں چوروں کے ٹولے ہیں لہٰذا عمران خان کو ایک موقع ضرور ملنا چاہیے۔ وہ اگر آئیڈیل لیڈر نہ بھی ہو، ان چوروں سے ہزار درجے بہتر ہے وغیرہ وغیرہ۔ یوں ابتدا میں عمران خان کی مقبولیت کی بنیاد کسی سیاسی پروگرام یا نظریے پر نہیں رکھی گئی تھی بلکہ اسے ایک کمتر برائی کے طور پر عوام کے سامنے سنجیدہ آپشن کے طور پر پیش کیا گیا۔ موقع پرست اور عملیت پسند درمیانے طبقے کو کمتر برائی کا آئیڈیا ہمیشہ لبھاتا ہے۔ اس وقت عمران خان کے حامیوں کے پاس صرف ایک یہی بیانیہ تھا کہ وہ باقیوں سے بہتر ہے گو کہ ان کے پاس سماج کی تبدیلی کا کوئی ٹھوس پروگرام اور منصوبہ کبھی بھی نہیں تھا اور ملک میں اچانک دو سو ارب ڈالر لانے جیسی کھوکھلی نعرے بازی تھی جس کا سنجیدہ حلقوں کی جانب سے اس وقت بھی تمسخر اڑیا گیا۔ لیکن ریاستی اداروں کی جانب سے کمتر برائی کا پراپیگنڈہ پھیلا کر اسے ایک فراڈ الیکشن میں کامیابی دلوا کر اقتدار سونپ دیا گیا اور عوام کو یہ باور کروانے کی کوشش کی گئی کہ ان کے لیے طاقتور حلقوں نے سوچ سمجھ کر درست فیصلہ کیا ہے کیونکہ ان کے نزدیک عوام اپنے لیے سوچنے سمجھنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔

لیکن دوسری طرف کمتر برائی کا آزمودہ فارمولا اب تحریک انصاف کی مخالفت کے لیے استعمال کیا جا رہاہے۔ تحریکِ انصاف کو فاشسٹ پارٹی قرار دینے والے لبرلز اور بایاں بازو بھی اسی کمتر برائی کے فارمولے کے تحت نون لیگ یا پیپلز پارٹی کی حمایت کا جواز گڑھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ وہ عمران خان اور تحریکِ انصاف کے فاشسٹ ہونے کے حق میں جو دلائل پیش کرتے ہیں، وہ بالکل غیر سائنسی اور کونٹینٹ سے عاری ہیں۔ مثال کے طور پر تحریکِ انصاف کے حمایتیوں کی بدزبانی اور بہتان تراشی کو بہت اچھالا جاتا ہے۔ لیکن کیا دیگر پارٹیوں بالخصوص نون لیگ کی ماضی میں پیپلز پارٹی اور بے نظیر کے خلاف استعمال کی گئی زبان اس سے کم غلیظ تھی؟ ہرگز نہیں۔ موجودہ وزیراعظم خود سڑکوں پر گھسیٹنے اور نشان عبرت بنا دینے جیسی زبان بے دریغ استعمال کیا کرتے تھے۔ ابھی حال ہی میں نون لیگ کے ایک اہم لیڈر حنیف عباسی نے اعلان کیا ہے کہ جو شخص شیخ رشید کی وگ لے کر آئے گا اسے پچاس ہزار روپے انعام دیا جائے گا۔ فاشسٹ بدزبان اور منہ پھٹ ضرور ہوتے ہیں مگر ہر بدتمیز اور گالم گلوچ کرنے والے شخص کو فاشسٹ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اسی طرح پی ٹی وی پر قبضے کی کوشش، اور ابھی حال ہی میں آئین اور عدلیہ کو خاطر میں نہ لانے جیسے اقدامات کو بھی ایک دلیل بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ کیا ماضی میں نون لیگ خود سپریم کورٹ پر حملے جیسے اقدامات میں ملوث نہیں رہی۔ عمران خان کی طرف سے سیاست میں مذہب کے استعمال کو بھی ایک اہم جواز کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن اگر تاریخ پر غیر جانبدارانہ اور طائرانہ نظر ڈالی جائے تو کون سی ایسی پارٹی ہے جس نے مذہب کارڈ استعمال نہیں کیا۔ خود نون لیگ کو ہی دیکھ لیجیے، اپنے سیاسی کیریئر کے آغاز میں نواز شریف کھل کر مذہبی زبان استعمال کیا کرتا تھا۔ موجودہ حکومت کا وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ غلیظ ترین فسطائی تنظیم سپاہ ِصحابہ کا کھلم کھلا حمایتی تھا۔ نون لیگ نے تبلیغی جماعت کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ پیپلز پارٹی کے دور میں افغانستان میں طالبان کی حکومت تشکیل دی گئی۔ بعد ازاں پیپلز پارٹی اور اے این پی کی مخلوط حکومت نے سوات میں شریعت نافذ کرنے کے اقدامات کیے۔ سب سے بڑھ کر اس وقت پی ڈی ایم کا سربراہ مولانا فضل الرحمان اور اسکی جماعت آج بھی کھل کر افغان طالبان کی حکومت کے سب سے بڑے حامی ہیں۔ یہ جماعت بھی کراچی اور ملک بھر میں بہت بڑے بڑے جلسے کرتی ہے اور اس کی ریلیوں میں انتہائی فسطائی عناصر کھلے عام اسلحہ لہراتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اس نے حال ہی میں ایک پریس کانفرنس میں تحریکِ انصاف کو دھمکی دیتے ہوئے افغانستان کی مثال دی تھی کہ تمہارا وہی حال کریں گے جو ہم نے افغانستان میں امریکہ کا کیا ہے۔

یہ تمام دلیلیں غیر مؤثر اور طفلانہ ہیں۔ اگر عمران خان کی شخصیت کی بات کی جائے تو چند ایک فسطائی رجحانات اپنی جگہ مگر اس میں وہ بیباکی، برجستگی اور دیدہ دلیری دکھائی نہیں دیتی جو ایک فاشسٹ لیڈر کا خاصہ ہوا کرتی ہے۔ انتہائی بحرانی لمحات میں ہم نے دیکھا کہ وہ قیدیوں کی ایک وین دیکھ کر دم دبا کر بھاگ گیا۔ اس کے پونے چار سالہ دوراقتدار میں صحافت پر لگائی گئی قدغنوں کو بھی اس کے فسطائی ہونے کی دلیل بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کی وجہ سے یہ ایک عالمی مظہر ہے کہ تحریر و تقریر کی آزادیاں خطرے میں ہیں۔ ہم دیکھیں گے کہ یہ موجودہ حکومت بھی آنے والے دنوں میں اسی طرح کے اقدامات کرنے پر مجبور ہو گی۔ تحریکِ انصاف کی حکومت میں محنت کشوں کے احتجاجوں پر تشدد کی چند ایک مثالیں ملتی ہیں مگر ہمیں اگیگا کے پلیٹ فارم سے سرکاری ملازمین کی شاندار اور کامیاب تحریک بھی نظر آتی ہے جس پر ایک دن آنسو گیس پھینکی گئی تو اگلے ہی دن ان کی قیادت کے ساتھ معاہدے پر دستخط بھی کرنے پڑے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج بھی اساتذہ یا پیرامیڈیکس وغیرہ کے احتجاجوں پر سب سے زیادہ تشدد لبرلز کی محبوبہ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت میں ہی ہوتا ہے۔ مزدوروں پر گولی چلانے کا آخری واقعہ پی آئی اے کی نجکاری مخالف تحریک میں پیش آیا تھا جب صوبے میں پیپلز پارٹی کے ساتھ ساتھ مرکز میں نون لیگ کی حکومت تھی۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں بھی کھلے عام مظاہرین پر گولیاں چلائی گئی تھیں۔ جہاں تک سیاستدانوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا تعلق ہے تو نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومتوں سے اسکی بے شمار مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ پارلیمان میں پہلے بھی کئی بار ہاتھا پائی اور کھینچا تانی کے واقعات ہوتے رہے ہیں۔ غرضیکہ تحریک انصاف کی حکومت کی معاشی پالیسی سے لے کر دیگر انتظامی معاملات تک کچھ بھی ماضی کی حکومتوں سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ ان میں سے کسی کو بھی کمتر برائی قرار دے کر سیاسی رعایت نہیں دی جا سکتی۔ نون لیگ اور تحریک انصاف سمیت دونوں کی حمایت میں مذہبی اور فسطائی عناصر موجود ہیں، تحریک انصاف میں یہ قدرے زیادہ ہیں مگر ان میں سے کسی پارٹی کو بھی فاشسٹ پارٹی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ در اصل عمران خان کی اپنی حکومت کے خلاف مذہبی فسطائیوں نے فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے کے مطالبے کے گرد بہت بڑی ہنگامہ آرائی کی تھی جسے ایک وقت میں سنبھالنا بہت مشکل ہو گیا تھا۔ اگر تحریکِ انصاف پر فاشزم کا ٹھپہ لگا دیا جائے گا تو حقیقی فسطائی عناصر کی نشاندہی ناممکن ہو جائے گی جو اس ملک میں بہرحال موجود ہیں اور مخصوص حالات میں ان کے فعال اور موثر ہونے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔

ماضی میں خفیہ اداروں کے تخلیق کردہ تمام فسطائی عناصر بالکل غیر مقبول ہو چکے تھے۔ ایم کیو ایم مشرف دور میں ریاست کی بی ٹیم بن جانے کے باعث اور اس کے بعد بھی مسلسل تمام حکومتوں کا حصہ رہنے کی وجہ سے تیزی سے غیر مقبول ہو رہی تھی۔ کراچی جو پاکستان کے محنت کشوں کا گڑھ تھا، اسے ایک لمبے عرصے تک ایم کیو ایم کی فسطائیت کے ذریعے کنٹرول کیا گیا تھا۔ جب بھی کسی صنعتی ادارے میں محنت کش اپنے مطالبات کے گرد منظم ہونے کی کوشش کرتے یا ہڑتال پر جاتے تو ایم کیو ایم کے غنڈے انہیں گھر گھر جا کر زد و کوب کرتے اور ہڑتال توڑنے پر مجبور کرتے۔ ایک ریڑھی والے سے لے کر چھوٹے بڑے تاجروں تک سب سے بھتہ وصول کیا جاتا تھا۔ یہ صورتحال پہلے سے تباہ حال معیشت کے لیے مزید پریشانی کا باعث تھی لہٰذا ایم کیو ایم کی مسلسل بڑھتی ہوئی غیر مقبولیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ریاستی اداروں نے اس کے مزید حصے بخرے کر دیے۔ وہ مکمل طور پر ایم کیو ایم کو ختم نہیں کرنا چاہتے تھے، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ کراچی پر”خوف کا راج“ آج بھی بہت ضروری ہے۔ الطاف حسین کی شخصیت ایم کیو ایم کی تنظیمی جڑت کی علامت تھی لہٰذا مائنس ون فارمولا کے تحت الطاف حسین کی ریاست مخالف اشتعال انگیزی کو بنیاد بنا کر میڈیا میں اس کی تقاریر نشر کرنے پر پابندی لگا دی گئی۔ ایم کیو ایم کے دفاتر بند کر دیے گئے اور کارکنوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاری کا عمل شروع ہوا۔ نوے کی دہائی میں ایم کیو ایم کے خلاف ہر ریاستی کاروائی سے ایم کیو ایم کمزور ہونے کی بجائے مزید مضبوط ہوتی تھی مگر دو دہائیاں گزرنے کے بعد اب یہ کیفیت اپنے الٹ میں تبدیل ہو چکی تھی۔ مسلسل ریاستی آشیرباد اور وزارتوں اور قبضہ گیریوں کے باعث اب نظریاتی کارکنان نہ ہونے کے برابر رہ گئے تھے اور موقع پرست سیاسی ٹھیکیدار ہر سطح پر پارٹی میں براجمان ہو چکے تھے، انہوں نے الطاف حسین کے بیانیے کو مسترد کرتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان کی بنیاد رکھی۔ اسی طرح کراچی کے سابقہ میئر مصطفی کمال کی زیرقیادت ایک الگ پارٹی بنانے کا تجربہ بھی بری طرح ناکام ہوا۔ کراچی سے خوف کے بادل چھٹ رہے تھے جو ریاستی اداروں کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں تھی۔ دوسری طرف دفاع پاکستان کونسل کا تجربہ بھی بری طرح ناکام ہوا اور مذہبی فسطائیت بھی اپنی موت آپ مر رہی تھی۔ ریاستی حلقوں میں کسی نئے فسطائی پلیٹ فارم کی تشکیل کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی تھی۔ ایسے میں ملک کے سب سے بڑے مذہبی فرقے یعنی بریلویوں کو، جو ماضی میں مکمل طور پر پرامن اور بظاہر غیر سیاسی ہوا کرتے تھے، ختم نبوت کے تحفظ اور یورپ میں مسلسل بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا کے ردعمل کی بنیاد پر تحریکِ لبیک پاکستان کے پلیٹ فارم پر فسطائی نعروں کے گرد جمع کرنا شروع کیا گیا۔ جب امریکہ کے دباؤ میں سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کو سزائے موت سنائی گئی تو اس فیصلے کے خلاف خادم حسین رضوی کی جذباتی تقاریر اور جنونی لب و لہجے نے ملک بھر میں منتشر فسطائی عناصر کو ایک پلیٹ فارم پر جوڑنے میں اہم کردار ادا کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے تحریک لبیک پاکستان کی ریلیوں اور جلوسوں کے شرکا کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ کراچی سمیت مختلف شہروں میں صوبائی اسمبلیوں کی کچھ نشستیں بھی انہیں ریاستی آشیر باد سے دی گئیں اور پنجاب سمیت ملک بھر میں ان جنونیوں نے انجینئیرڈ انتخابات میں لاکھوں ووٹ حاصل کیے۔ یہ ایک ایسا سیاسی مظہر تھا جسے بجا طور پر فاشسٹ پارٹی کہا جا سکتا تھا۔ لیکن تمام لبرل انٹیلی جینشیہ اس کے سیاسی اثرورسوخ کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کر رہی تھی اور آج بھی کرتی ہے۔ یہ درست ہے کہ سماج کی لمپنائزڈ پرتوں اور کسانوں میں اس پارٹی کی تھوڑی بہت حمایت موجود ہے اور آئندہ انتخابات میں ان کے ووٹ بینک میں مزید اضافہ بھی ہو سکتا ہے مگر ان کے اقتدار میں آنے کے دور دور تک کوئی امکانات نہیں۔ کوئی نام نہاد”کمتر برائی“ ان حقیقی فسطائی عناصر کی افزودگی کو روکنے کی اہلیت نہیں رکھتی، ان کے رستے کی سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان کے کروڑوں محنت کش ہیں جو تمام حالیہ واقعات سے اہم نتائج اخذ کر رہے ہیں۔

مزدور تحریک

گزشتہ عرصے میں ہونے والے اگیگا کے بہت سے مظاہرے حکومتی اور اپوزیشن کے احتجاجی مظاہروں سے بھی بڑے تھے۔

بائیں بازو اور لبرل دانشوروں کا پاکستان میں فاشزم کے ابھار کا تناظر اس بیانیے پر قائم ہے کہ پاکستان کا محنت کش طبقہ کوئی انقلابی تحریک چلانے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ وہ محنت کش طبقے کے انقلابی پوٹینشل پر اپنے عدم اعتماد کو مختلف اصطلاحات اور جملے بازی کے لبادے میں چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ محنت کش سکتے کی کیفیت میں ہیں، جمود کا شکار ہیں اور مجہول ہیں۔ کبھی عہد کو ہی ردانقلابی اور رجعتی قرار دے دیا جاتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سوویت یونین کے بعد کا عہد حقیقی معنوں میں تاریخ کا ایک رجعتی اور سیاہ ترین باب تھا۔ مگر 2008ء کے مالیاتی بحران کے بعد وہ عہد اپنے اختتامی مراحل میں داخل ہو چکا تھا اور 2011ء کے عرب بہار نے اس کے تابوت میں فیصلہ کن کیل ٹھوک دی تھی۔ اس کے بعد دنیا ایک عبوری عہد میں داخل ہوئی جس میں پرانی دنیا کی کوکھ سے ایک نئی دنیا کا جنم ہوا۔ اور اب ہم ایک بالکل نئے عہد میں جی رہے ہیں جسے بجا طور پر ایک انقلابی عہد کیا جا سکتا ہے۔ میکانکی سوچ رکھنے والے انقلابی شاید انقلابی عہد سے مراد ایسے مجرد دور کو لیتے ہیں جہاں ردانقلابی رجحانات مکمل معدوم ہو جاتے ہیں اور صرف اور صرف محنت کش طبقے کی انقلابی تحریکیں ہی آگے بڑھتی ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے، ہم پہلے ہی تاریخی مثالوں سے واضح کر چکے ہیں کہ کیسے انقلابی تحریکوں کو آگے بڑھنے کے لیے ردِانقلاب کے تازیانوں کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ اگرچہ پاکستان میں اس وقت انقلابی کیفیت موجود نہیں مگر تمام معاشی، سیاسی اور ثقافتی عوامل ایک انقلابی پیش رفت کی ناگزیریت کا احساس دلا رہے ہیں۔ ہمارے قنوطی دانشور انقلاب اور بالخصوص محنت کش طبقے کے شعور کے سالماتی عمل کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ان کے خیال میں یا تو مزدور تحریک ہوتی ہے یا نہیں ہوتی، وہ تحریک کی تعمیر کی مقداری حرکیات کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ہم مارکس وادی ایک طویل عرصے سے دلائل سے وضاحت کرتے چلے آ رہے ہیں کہ اب محنت کش طبقہ جمود کی کیفیت سے باہر آ چکا ہے اور وہ علیحدہ علیحدہ ہی سہی مگر مزاحمتی تحریکوں میں سرگرم ہو رہا ہے۔ ہم گزشتہ عرصے میں پیرامیڈکس، اساتذہ، کلرکس، ریلوے، واپڈا، لیڈی ہیلتھ ورکرز، پاکستان اسٹیل، پی آئی اے، کے الیکٹرک اور صنعتی اداروں میں بے شمار تحریکیں دیکھ چکے ہیں۔ سب سے اہم پیش رفت جو محنت کش طبقے کے شعور میں بڑی تبدیلی کی غمازی کرتی ہے وہ بین الصوبائی اور ادارہ جاتی اتحادوں کی تشکیل کا عمل ہے جو پہلے مرحلے میں چند ایک کامیابیاں حاصل کرنے کے باوجود اب ٹوٹ پھوٹ اور تعطل کا شکار ضرور ہے، مگر اس نے طبقاتی جڑت کے راستے کے کانٹے صاف کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ موجودہ حکومت کی طرف سے بھی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی پالیسیوں کے تسلسل کے باعث ہم پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ آنے والے عرصے میں ملک بھر میں پبلک اور پرائیوٹ سیکٹر سمیت تمام اداروں میں سیاسی تحرک، احتجاجی مظاہروں اور ہڑتالوں میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہو گا۔ اس کے متوازی طلبہ کی مزاحمت بھی بڑھے گی اور قومی و جمہوری تحریکیں بھی آگے بڑھیں گی۔ یہ وہ مقداری عمل ہے جو ایک معیاری جست لے کر سماج کو ایک انقلابی کیفیت میں دھکیل دے گا، ریاستی جبر کا کوئی بھی واقعہ اس میں عمل انگیز کا کردار ادا کر سکتا ہے۔

اسی طرح تحریکِ لبیک جیسے فسطائی عناصر بھی ریاستی آشیر باد سے وقتاً فوقتاً اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے رہیں گے اور ریاست ان کی پرورش جاری رکھے گی تاکہ مزدور تحریک کو ہراساں کیا جا سکے۔ ابھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ ریاست کی آپس کی لڑائیوں میں ہی کراچی میں ایم کیو ایم کو دوبارہ کھلا میدان مہیا کیا جا رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ الطاف حسین کی تقاریر پر عائد پابندی کا بھی بہت جلد خاتمہ کر دیا جائے اور کراچی میں نہ صرف مزدور تحریک بلکہ تحریک انصاف کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو روکنے کی کوشش کی جائے۔ اسی طرح ریاستی ٹوٹ پھوٹ کے باعث دہشت گردی کے واقعات کی رفتار ماضی کی طرح پھر تیز ہو سکتی ہے۔ ہم مارکس وادی ان تمام منفی اور رجعتی عوامل کو کبھی بھی فراموش نہیں کرتے بلکہ اسے ایک تاریخی لازمے کے طور پر مزدور تحریک کے تعلق میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ الیکٹرک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر چونکہ ان تمام منفی رجحانات پر زیادہ واویلا کیا جاتا ہے اور مزدور تحریک کا ذکر تک نہیں ملتا، اسی وجہ سے دانشوروں کو صرف یہ منفی رجحانات ہی غالب نظر آتے ہیں اور مزدور تحریک اپنے اصل حجم اور پوٹینشل سے بہت چھوٹی دکھائی دیتی ہے۔ حقیقت میں گزشتہ عرصے میں ہونے والے اگیگا کے بہت سے مظاہرے حکومتی اور اپوزیشن کے احتجاجی مظاہروں سے بھی بڑے تھے، گوادر کے محنت کشوں کی تحریک بلوچستان کی تاریخ کی سب سے بڑی سیاسی سرگرمی تھی، اگرچہ لبرل قوم پرستوں کی غلط حکمت عملی کے باعث اس تحریک کی قیادت رجعتی عناصر کے پاس ہے، مگر تحریک جوں جوں آگے بڑھے گی، اس میں ایک نئی لڑاکا قیادت کے ابھار کے امکانات بھی بڑھتے چلے جائیں گے۔

پاکستانی سماج کی طبقاتی بنتر کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے لبرل دانشوروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں درمیانے طبقے کا حجم مسلسل بڑھ رہا ہے اور پرولتاریہ یا محنت کش طبقہ سکڑ رہا ہے۔ قوم پرست تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ پسماندہ علاقوں میں تو محنت کش طبقہ وجود ہی نہیں رکھتا۔ اگر اس قسم کے دعووں کو درست تسلیم کر لیا جائے تو واقعی فسطائیت کے ابھار اور ممکنہ اقتدار کو خارج از امکان قرار دینا مشکل ہو جائے گا۔ مگر یہ تجزیہ سراسر غلط ہے۔ یہ درست ہے کہ پبلک سیکٹر کے اہم اداروں کی نجکاری، ڈاؤن سائزنگ اور دیگر لبرل پالیسیوں کے باعث کروڑوں محنت کشوں کو اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھونے پڑے ہیں مگر بیروزگار ہو جانے کے باعث ان میں جہاں لمپنائزیشن کے امکانات ضرور بڑھ جاتے ہیں وہاں فوری طور پر ان کا طبقاتی کردار تبدیل نہیں ہو جاتا۔ اس کے ساتھ ساتھ دیہی آبادی کا بہت بڑا حصہ بحران کے باعث زمین کی ملکیت سے محروم ہو کر دیہی پرولتاریہ کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اب یہ لازم نہیں کہ وہ فسطائیت کا آسانی سے خام مال بنایا جا سکے۔ سوشل میڈیا اور دیگر بہت سے عوامل نے مل کر اس کے شعور پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں اس لیے عین ممکن ہے کہ شہروں میں چلنے والی مزدور تحریک انہیں فسطائی عناصر کی نسبت زیادہ توانائی سے اپنی طرف راغب کرے۔ ماضی میں پروفیشنل کلاس سمجھے جانے والے وائٹ کالر ملازمین کے پرولتاریائے جانے کا عمل بھی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ یوں یہ آبادی کی ایک بھاری اکثریت ہے جو آنے والے دنوں میں اپنی بقا کی جدوجہد کے لیے متحرک اور منظم ہو کر فسطائیت کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑی ہو گی۔

تحریکِ انصاف کا مستقبل

تحریک ِانصاف اپنے پشت پناہوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود محض کرپشن مخالف بیانیے کی بنیاد پر اقتدار میں آنے کی اہل نہیں تھی۔ ایک تو تاریخ کی سب سے بڑی دھاندلی بلکہ کھلی بدمعاشی کی گئی اور الیکٹیبلز کو بلیک میل کر کے سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا۔ دوسری طرف اس پولیٹیکل انجینئرنگ کے لیے درکار کم از کم سماجی حمایت کے حصول کے لیے بھی کرپشن مخالف بیانیے سے آگے بڑھتے ہوئے ایک پاپولر اصلاحات پر مبنی الیکشن منشور اور پروگرام بھی پیش کرنا پڑا۔ ایک کروڑ نوکریوں، پچاس لاکھ گھروں جیسے بہت سے ایسے لولی پاپ دیئے گئے جو کسی حد تک ناممکن دکھائی دیتے تھے مگر معاشی دباؤ کے شکار درمیانے طبقے کے پاس اس مصنوعی امید کے علاوہ کوئی دوسری بیساکھی بھی باقی نہیں بچی تھی۔ تحریک انصاف انہی پاپولسٹ نعرے بازی کی بنیاد پر ہی اقتدار میں آئی تھی مگر اس نے ماضی کی حکومتوں کی طرح تمام عوام دشمن پالیسیاں عوام پر مسلط کیں۔ رہی سہی کسر کرونا بحران نے پوری کر دی اور عمران خان کی پاپولر سپورٹ میں بہت تیزی سے کمی آنا شروع ہو گئی۔ بالخصوص وہ لوگ جو واقعی تبدیلی کے آرزومند تھے، وہ مایوسی کا شکار ہو کر سیاسی طور پر کنارہ کش ہونا شروع ہو گئے تھے۔ اگر عمران خان کی حکومت اپنی مدت پوری کر جاتی تو اس کی بچی کھچی ساکھ بھی ناپید ہو جاتی اور آئندہ انتخابات میں زیادہ تر مرکزی قائدین کی ضمانتیں تک ضبط ہو جاتیں۔ مگر ریاست کی داخلی لڑائی کے باعث عمران خان کو اقتدار سے بے دخل کرنا پڑا اور صورتحال ڈرامائی طور پر تبدیل ہو گئی۔

جنرل قمر جاوید باجوہ، سابقہ آئی ایس آئی چیف فیض حمید اور عمران خان کی ٹرائیکا کا بنیادی منصوبہ یہ تھا کہ 2028ء تک عمران خان ہی حکومت میں رہے گا۔ باجوہ کے بعد فیض حمید اس کا جانشین ہو گا اور وہ گزشتہ الیکشن کی طرز پر آئندہ انتخابات میں بھی تحریک انصاف کی کامیابی کو ہر قیمت پر یقینی بنائے گا۔ لیکن افغانستان میں ہونے والی تاریخی اتھل پتھل اور طالبان کی حکومت کی تشکیل میں فیض حمید کے فعال کردار کے باعث امریکی آقاؤں کی برہمی بہت زیادہ شدت اختیار کر گئی تھی اور نوے کی دہائی میں جیسے امریکہ نے حمید گل کو آرمی چیف کے طور پر قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا، ویسے ہی اسی حمید گل کے حقیقی”نظریاتی“ وارث فیض حمید بھی ان کی ناپسندیدگی کی بھینٹ چڑھ گیا۔ چین اور روس کی طرف جھکاؤ کو بھی بنیاد بنایا جا رہا تھا۔ عمران خان طے شدہ فارمولے کے تحت فیض حمید کو آرمی چیف بنانے پر بضد تھا جس کے باعث کشیدگی کم ہونے کی بجائے شدت اختیار کرتی گئی۔ اپنی باری کے انتظار میں بیٹھے دیگر سینیر جرنیل بھی فیض حمید کے حق میں دستبردار ہونے کو تیار نہیں تھے۔ لیکن چونکہ فیض حمید جس ریاستی دھڑے کی نمائندگی کرتا ہے، وہ کافی طاقتور ہے اور ریاستی مشینری میں اسکی بنیادیں کافی گہری ہیں، اس لیے حمید گل دھڑے نے بھرپور مزاحمت کرنے اور زور زبردستی اور ہر ممکن دھونس دھاندلی کرنے کی کوشش کی۔ اسی کی آشیر باد سے عمران خان اور اسکے حواریوں نے آئین شکنی، پارلیمان میں ہنگامہ آرائی جیسے اقدامات کیے جن کو بنیاد بنا کر عمران خان پر فسطائیت کا لیبل لگایا جا رہا ہے۔

مزید برآں ان تمام اقدامات کو عوامی سطح پر قابلِ قبول بنانے کے لیے ایک نیا امریکہ مخالف بیانیہ تشکیل دیا گیا۔ اور چونکہ پی ڈی ایم عمران خان کی حکومت کو گرانے کے لیے واضح طور پر اسٹیبلشمنٹ کی دم چھلگی کا کردار ادا کر رہی تھی اس لیے اس بیانیے کو بڑے پیمانے پر پذیرائی ملنا شروع ہو گئی۔ نون لیگ کی ماضی میں اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کی بنیاد پر ہی درمیانے طبقے کی تھوڑی بہت حمایت موجود تھی، وہ بیانیہ بھی تحریکِ انصاف نے بڑی مہارت سے وقتی طور پر استعمال کیا اور اس کی بنیاد پر اقتدار سے بے دخلی کے فوری بعد وہ ایک دفعہ پھر بڑے بڑے جلسے کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ تحریک انصاف کا حالیہ ابھار عمران خان کی سحر انگیز شخصیت کے باعث نہیں بلکہ امریکہ، اسٹیبلشمنٹ اور پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی نفرت کے باعث ہے۔ یہ پارٹیاں اپوزیشن میں رہ کر بھی اپنی سماجی بنیادوں میں اضافہ کرنے میں بری طرح ناکام ہوئی ہیں۔ جب عمران خان کی مقبولیت کا گراف نیچے جا رہا تھا، تب بھی وہ تمام تر حمایت ان پارٹیوں کی جھولی میں نہیں گری، جو ان پارٹیوں اور قیادتوں کی تاریخی متروکیت اور استرداد کی واضح نشانی ہے جنہیں کمتر برائی یا متبادل بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ یہاں یہ ذکر کرنا انتہائی اہم ہے کہ ان تمام پارٹیوں کی حمایت نہ ہونا محنت کش طبقے کی مجہولیت یا شعور کی پستگی کی نہیں بلکہ انتہائی بلند شعور کی دلیل ہے۔ میدیا پر ان پارٹیوں کی دن رات تقریریں، پریس کانفرنسیں، مصنوعی لانگ مارچ اور نام نہاد احتجاجی بیانات یا مقدمے بازی کسی بھی طرح عوام کی اکثریت کو اپنی جانب متوجہ نہیں کر سکی اور عوام کی نفرت ان کے ساتھ بدستور موجود ہے۔ تحریک انصاف کو بھی محنت کش طبقے کی بڑی حمایت نہ ملنے کی وجہ بھی محنت کش طبقے کے بلند شعور کی عکاسی کرتی ہے۔

اگر اقتدار سے بے دخلی کے بعد تحریک انصاف کی مقبولیت میں تیز ترین اضافے کو دیکھا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسے ایک دفعہ پھر بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اور بالخصوص اس کے فسطائی تشخص کو مصنوعی طور پر ابھارا جا رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ اس پارٹی میں فسطائی عناصر موجود ہیں مگر ان کی تعداد پارٹی کے حمایتیوں کی دس فیصد سے زیادہ نہیں ہو گی۔ لیکن اپنے مخصوص بیانیے کے باعث میڈیا اور سوشل میڈیا میں انہی لوگوں کی ویڈیوز وائرل ہوتی ہیں تو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ شاید یہ تمام لوگ ہی فاشسٹ ہیں۔ اسی طرح تحریکِ انصاف کے جلسوں کے شرکا میں دس سے پندرہ فیصد تو ایسے نوجوان ہوتے ہیں جو محض ”دلپشوری“ کی غرض سے آتے ہیں، ان کا پارٹی کے پروگرام سے یانام نہاد بیانیے سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ تیس سے چالیس فیصد ایسے نوجوان ضرور ہوتے ہیں جو واقعی اس مرتے ہوئے نظام میں اصلاحات کے خواہشمند ہیں۔ پیپلز پارٹی کے سابقہ جیالے اور ان کی اولادیں بھی عمران خان کے نون لیگ مخالف بیانیے سے متاثر ہو کر تحریک انصاف میں سرگرم ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کسی بھی صورت نون لیگ دشمنی میں عمران خان کے معتقد بنے ہوئے ہیں۔ پنجاب میں بالخصوص پیپلز پارٹی کا لگ بھگ صفایا ہو چکا ہے اور تحریکِ انصاف کی حمایت کا پندرہ سے بیس فیصد انہی سابقہ پیپلیوں پر مشتمل ہے۔ پیپلز پارٹی اب پنجاب میں اپنی بقا کے لیے آئندہ انتخابات میں نون لیگ سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے دباؤ بڑھا رہی ہے اوراس کے پاس ریاستی آشیر بادبھی اس مقصد کے لیے موجود ہے۔ اسی طرح نون لیگ اور جماعت اسلامی وغیرہ کے ناراض کارکنوں کی بھی بڑی تعداد تحریکِ انصاف میں شمولیت اختیار کر چکی ہے۔ یوں بحیثیتِ مجموعی فسطائی عناصر پورے سماج کی طرح تحریکِ انصاف میں بھی ایک چھوٹی سی اقلیت پر ہی مشتمل ہیں۔ اگر کل کلاں کو عمران خان مزید فسطائی نعرے بازی کرنے کی کوشش کرتا ہے، تو اس کی مقبولیت بڑھنے کی بجائے کم ہونے کی طرف ہی جائے گی۔ جبکہ اس کے مقابلے میں تحریکِ لبیک پاکستان کی قیادت اگر اپنے فسطائی نعرے یعنی ”سر تن سے جدا“سے منحرف ہوتی ہے تو اس کی ساکھ بری طرح متاثر ہو گی۔ یہ وہ معیاری فرق ہے جسے ہر قیمت پر ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔

موجودہ صورتحال میں اگر تمام ممکنات کا جائزہ لیا جائے تو تحریکِ انصاف کے مستقبل کا تناظر انتہائی مشروط دکھائی دیتا ہے۔ غالب امکان یہی ہے کہ امریکہ فیض حمید کی بطور آرمی چیف تعیناتی کسی صورت قبول نہیں کرے گا، اس لیے موجودہ سیٹ اپ کو کم از کم اس سال نومبر تک ہر صورت میں چلانے کی کوشش کی جائے گی۔ عمران خان اور فیض حمید بڑے بڑے جلسوں کے ذریعے اپنا دباؤ مسلسل بڑھاتے رہیں گے لیکن وقت کے ساتھ ان جلسوں میں شرکا کی تعداد کم ہونے کے امکانات ہیں۔ صرف امریکہ مخالف بیانیے پر لمبے عرصے تک بڑی موبلائزیشن کو برقرار نہیں رکھا جا سکتا اس کے لیے سماج کے سلگتے ہوئے حقیقی ایشوز کو موضوع بنانا پڑے گا اور عمران خان یا اس کی پشت پر موجود ریاستی دھڑا اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ درمیانے طبقے میں سیاسی ابال آتے رہتے ہیں اور ان کی حمایت زیادہ پائیدار اور مستحکم نہیں ہوتی۔ سامراج مخالفت کا یہ ناٹک بہت جلد ایکسپوز ہو جائے گا۔ جونہی حالیہ ریلا گزرے گا تو لوگ سوال اٹھائیں گے کہ سٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے حوالے کرنے والوں کی سامراجی مخالفت کا کیا معیار ہے۔ ساتھ ہی قومی سالمیت اور خود مختاری کا نعرہ پاکستان جیسے ملک میں، جو خود مظلوم قومیتوں کا جیل خانہ ہے، زیادہ دیر چل نہیں سکتا۔ پاکستانی نہ تو کبھی ایک قوم تھے اور نہ ہی یہ کبھی ایک قوم بن سکیں گے۔ پاکستانی شاونزم کی بنیاد پر بلوچستان اور سندھ میں کبھی سماجی بنیادیں حاصل نہیں کی جا سکتیں۔ خیبر پختونخوا اور کشمیر میں بھی جب تک حکومت ہے، وہاں سے کچھ افرادی قوت کو سیاسی طور پر متحرک رکھا جا سکے گا۔ اور اگر موجودہ حکومت فیض حمید کی بجائے کسی اور آرمی چیف کو تعینات کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو فیض حمید کا جوش و خروش بھی ماند پڑ جائے گا۔ اگر اس رسہ کشی کے دوران واقعی عمران خان کی معترضہ ویڈیوز وائرل کر دی جاتی ہیں تو اس سے بھی اسکی مقبولیت کا گراف متاثر ہونے کا اندیشہ ہو گا۔ ریاست کے سنجیدہ دھڑے مفاہمت کروانے کی کوشش میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ مفاہمت اگرچہ زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکے گی، لیکن اس سے عمران خان کے موجودہ بیانیے کا غبارہ ضرور پھٹ جائے گا اور پھر نواز شریف کی طرح ہی اس بیانیے کے گرد بنائی گئی عمران خان کی حمایت بھی زمین بوس ہو جائے گی۔

یہاں ایک دفعہ پھر اس بات پر زور دینا ضروری ہے کہ عمران خان کی طاقت اس کی شخصیت میں نہیں بلکہ اس کے مخالفین کی کمزوری اور نا اہلی میں پنہاں ہے۔ تاہم عمران خان کے جو شیدائی مستقبل میں دو تہائی اکثریت کے خواب دیکھ رہے ہیں انہیں شدید خجالت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مخصوص حالات میں تحریکِ انصاف کے دوبارہ حکومت میں آنے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اگر تحریکِ انصاف پھر اقتدار میں آتی بھی ہے تو وہ امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کاسہ لیسی میں موجودہ حکومت سے بھی آگے جانے پر مجبور ہو گی۔ لیکن اس کے پاس جو اس وقت سماجی حمایت ہے، یہ اس سے مکمل طور پر محروم ہو جائے گی اور مزدور تحریک کا ایک تھپیڑا بھی برداشت نہیں کر سکے گی۔

اگر محنت کش طبقہ ایک ملک گیر تحریک میں کود پڑتا ہے تو تحریکِ انصاف کی حمایت میں موجود سنجیدہ نوجوان بھی اپنا قبلہ تبدیل کریں گے اوراس تحریک کی طرف رجوع کریں گے۔ اس لیے مزدور تحریک کو ایک ٹھوس، جامع سیاسی پروگرام دینے کی ضرورت ہے جو پیٹی بورژوازی کی وسیع تر پرتوں کی حمایت جیتنے کے لیے ضروری ہے۔ ٹراٹسکی کے بقول پیٹی بورژوازی کا صرف ایک ہی خدا ہے، اور وہ ہے طاقت۔ جب محنت کش طبقہ اپنی طاقت کا اظہار کرے گا تو پیٹی بورژوازی کا اسکی طرف جھکاؤ ناگزیر ہو گا۔ بالخصوص ایک عام ہڑتال پاکستان کے سیاسی افق کی موجودہ کیفیت کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دے گی۔ لیکن اگر مزدور تحریک کے پاس کوئی مؤثر پروگرام اور پلیٹ فارم نہ ہوا اور وہ مسلسل کوششوں کے ایک طویل سلسلے کے باوجود سرمایہ داری کا خاتمہ کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی تو یہی پیٹی بورژوازی رجعتیت کی ہر حد کو پار کر سکتی ہے۔ اور ایسے میں وہ تحریک انصاف سے زیادہ رجعتی اور واقعی فسطائی عناصر کی طرف رجوع کر سکتی ہے۔ اس وقت پاکستان میں حقیقی فسطائیت کا ظہور ہو گا۔ اس عمل کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ مارکس وادی آج ایک غیر متزلزل اور سوشلسٹ انقلابی پروگرام کے ساتھ مزدور تحریک میں مداخلت کریں اور کمتر برائی جیسے رجعتی مفروضوں کو مسترد کرتے ہوئے سرمایہ داری اور اس کی انتہائی شکل سامراج سے آزادی کا ٹھوس پروگرام پیش کریں۔ اس صورت میں فتح کے امکانات شکست سے کہیں زیادہ ہوں گے اور فسطائیت کے امکانات کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔

Comments are closed.