سیلاب اور بارشوں کی تباہی سے عوام برباد، حکمران خوشحال

|تحریر: آصف لاشاری|

 

ابل پڑے ہیں عذاب سارے!
غبار خاطر کے باب سارے!
سوال سارے جواب سارے

 

پاکستانی ریاست میں بسنے والے محنت کش عوام کے مسائل اس ریاست کے دن بدن بڑھتے ہوئے معاشی و سیاسی زوال کے ساتھ ساتھ بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ پاکستانی حکمران طبقے کے پچھلے پچھتر سال کے گھناؤنے جرائم نے پاکستانی سماج کو اس نہج پر لا کھڑا کیا ہے کہ آج اس ملک کے کروڑوں عوام کے لیے زندگی کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں۔ پاکستان کے حکمرانوں کی نااہلی اور خصی پن کی سزا اس ملک کے وہ کروڑوں محنت کش عوام بھگتنے پر مجبور ہیں جو دن رات انتہائی سخت مشقت کرتے ہیں اور ٹیکس ادا کر کر کے اس ملک کے خزانوں کو بھرتے ہیں۔ حالیہ بارشوں اور سیلاب نے جہاں اس ملک کے کروڑوں غریبوں کو درپیش عذابوں میں کئی گنا اضافہ کیا ہے وہیں اس نے اس ملک پر قابض سول و ملٹری اشرافیہ کی مکمل ناکامی کو بھی عیاں کر دیا ہے۔ حالیہ بارشوں کی وجہ سے بلوچستان، خیبر پختونخواہ، سندھ، ڈیرہ اسماعیل خان سے لے کر راجن پور تک کوہ سلیمان اور اس کے دامان کے علاقوں اور گلگت کے لاکھوں محنت کش مکمل طور برباد ہونے کی طرف گئے ہیں۔ سرکاری سطح پر شائع ہونے والی مختلف نامکمل سروے رپورٹس حقیقی حالات کی درست عکاسی کرنے سے قاصر ہیں۔ اور آنے والے عرصے میں اس تباہی کے حوالے سے حقیقی صورت حال واضح ہونے کی طرف جائے گی۔ لیکن ابھی تک سندھ، بلوچستان اور وفاقی حکومت کی جانب سے شائع ہونے والی رپورٹس جو کہ نامکمل ہیں، سے مدد لی جائے تو ان رپورٹس کے مطابق اس وقت ملک بھر میں لگ بھگ تین کروڑ لوگ متاثر ہوئے ہیں، لاکھوں بے گھر ہوئے ہیں، دو ہزار سے زائد افراد جان کی بازی ہار گئے ہیں اور 4 سے 5 ہزار زخمی ہوئے ہیں، لگ بھگ 80 لاکھ ایکڑ فصلیں تباہ ہونے کی طرف گئی ہیں اور 5000 کلومیٹر سے زائد سڑکیں متاثر ہوئی ہیں، جن کا تخمینہ کم از کم 300 ارب روپے ہے۔ اسی طرح ملک بھر میں تباہ ہونے والے سینکڑوں پُلوں اور درجنوں ڈیموں اور دیگر انفراسٹرکچر کی بربادی کو بھی شامل کیا جائے تو تباہی کا تخمینہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ کے مطابق اب تک دس ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ اسی طرح ان رپورٹس کے مطابق ملک بھر میں 8 لاکھ سے زیادہ مویشی بھی سیلاب کی نذر ہوئے ہیں۔ صرف بلوچستان میں 21 چھوٹے ڈیم تباہ ہونے کی رپورٹ موصول ہوئی ہے۔ یہ تمام رپورٹس نامکمل ہیں اور ہونے والے نقصان کی درست عکاسی نہیں کرتیں۔ درحقیقت سیلاب کی تباہ کاریاں ابھی ختم نہیں ہوئیں، بلکہ سیلاب کا پانی اگست کے اختتام تک بھی تباہی پھیلا رہا ہے۔ تازہ رپورٹوں کے مطابق سندھ کا ضلع دادو سیلاب سے بدترین متاثر ہو رہا ہے۔ اس کے تعلقہ جوہی اور خیر پورناتھن شاہ کے علاقوں کو سیلاب نے ڈبو دیا ہے، جبکہ اب کہا جارہا ہے کہ سیلاب کا پانی دادو شہر میں بھی داخل ہو سکتا ہے۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق اب تک صرف اس ضلع میں بارہ لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں جبکہ ابھی یہ تباہ کاریاں بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ اس سے قبل پختونخواہ کے مختلف اضلاع میں بھی سیلاب تباہی پھیلا چکا ہے، جس میں نوشہرہ اور چارسدہ کے اضلاع سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ صرف نوشہرہ میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد سیلاب سے براہ راست متاثر ہوئے ہیں اور سیلابی پانی نے شہر کے بڑے حصے کو ڈبو دیا ہے۔چارسدہ میں دو لاکھ سے زیادہ افراد کے متاثر ہونے کی رپورٹیں آئی ہیں جبکہ اس ضلع میں گیارہ ہزار ایکڑ پر موجود فصلیں تباہ ہو گئی ہیں۔ یہاں پر موجود منڈا ہیڈورکس کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے اور 120 سے زیادہ نہریں اور آبی گزرگاہیں متاثر ہوئی ہیں۔ جنوبی پنجاب کے بہت سے اضلاع بھی سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں خاص طور پر راجن پور اور ڈیرہ غازی خان کے اضلاع سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ ضلع راجن پور کا علاقہ فاضل پور بند ٹوٹنے کے باعث سیلابی پانی میں ڈوب گیا تھا، جس کے پاس اس پورے علاقے کے افراد کو نکل مکانی کرنی پڑی اور بڑے پیمانے پر مالی و جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح روجھان سے لے کر تونسہ تک یہ پورا خطہ بدترین سیلاب کی لپیٹ میں رہا جس سے لاکھوں افراد متاثر ہوئے ہیں۔ میانوالی اور گرد و نواح کے علاقے پر بھی سیلاب کے خطرات منڈلا رہے ہیں اور ایک وقت میں چشمہ بیراج کے تمام قریبی علاقوں میں خطرے کے الارم بج رہے تھے۔ بلوچستان کے بہت بڑے علاقے سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں، جن کے بارے میں بہت کم رپورٹیں سامنے آ رہی ہیں۔ اس سیلاب کا سب سے بڑا نشانہ کوئٹہ شہر بنا ہے، جو بلوچستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ ایک وقت میں یہ شہر باقی ملک سے مکمل طور پر کٹ گیا تھا اور ریل اور سڑک کا رابطہ ختم ہو گیا تھا۔ انٹرنیٹ، ٹیلی فون اور بجلی کا نظام درہم برہم ہو گیا تھا اور شہر کا ایک حصہ زیر آب بھی آ گیا تھا۔ اس دوران مقامی انتظامیہ کی مکمل بد حواسی اور نا اہلی بھی نظر آئی جو صورتحال کو کسی طرح بھی کنٹرول نہیں کر پائی۔ اسی طرح موسیٰ خیل سے لے کر نصیر آباد اور جھل مگسی تک بہت سے علاقے سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں جہاں تک امدادی کاروائی کرنا بھی ان حالات میں انتہائی مشکل ہے۔ یہ تمام صورتحال حکمران طبقے کی مکمل ناکامی کا ثبوت ہے۔

گلگت بلتستان کے کچھ علاقے بھی سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں جبکہ مرکزی شاہراہ کا رابطہ بھی مختلف جگہ سے منقطع ہوا ہے۔ اسی لیے گلگت جانے والی گندم اور تیل کی سپلائی میں رکاوٹیں پیدا ہورہی ہیں اور ضروری اشیا کی کسی حد تک قلت موجود ہے۔ کوہستان کا علاقہ بھی شدید متاثر ہوا ہے اور وہاں ایک گاؤں میں رہنے والے پانچ بھائیوں کی حکومتی نا اہلی کے باعث سیلاب کے باعث اموات کی ویڈیو نے ہر درد دل رکھنے والے شخص کو خون کے آنسو رونے پر مجبور کیا ہے۔ درحقیقت اس وقت ملک کا ایک تہائی حصہ سیلاب سے متاثر ہے جبکہ آبادی کا پندرہ فیصد براہ راست متاثر ہوا ہے۔ ابھی اس تباہ کاری کا آغاز ہوا ہے اور حکمران طبقے کی نا اہلی کے باعث آنے والے عرصے میں مزید ہلاکتیں اور تباہی متوقع ہے۔ لاکھوں لوگ بھوک، پیاس اور عارضی رہائش کی عدم دستیابی کی وجہ سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ ریاستی اداروں کی نا اہلی کے باعث امدادی سرگرمیاں بر وقت شروع نہیں ہو پارہیں اور نہ ہی حکمران طبقہ عوام کو ریلیف دینا اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے۔ صرف یہ عوام دشمن رویہ اس مشکل وقت میں لاکھوں افراد کی زندگیاں چھین لے گا۔ آنے والے عرصے میں وباؤں کے پھیلنے اور دیگر بیماریوں سے ہونے والی ہلاکتیں اس کے علاوہ ہوں گی۔ ایک رپورٹ کے مطابق سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں اس وقت ساڑھے چھ لاکھ خواتین حاملہ ہیں، جنہیں انتہائی نگہداشت اور مناسب خوراک کی فوری ضرورت ہے۔ اس ملک میں عام حالات میں بھی ہر سال دو سے چار لاکھ خواتین زچگی کے دوران ہلاک ہو جاتی ہیں کیونکہ ان کے لیے مناسب طبی سہولیات موجود نہیں ہوتیں۔ موجودہ صورتحال میں یہ اموات کئی گنا بڑھ سکتی ہیں۔ سیلاب کی وجہ سے پہلے سے تباہ حال صحت کے مراکز مزید تباہ ہو چکے ہیں اور لاکھوں افراد کے لیے صحت کے نام پر اب کوئی مرکز بھی موجود نہیں رہا جبکہ بھوک اور پیاس کے باعث ان کی قوت مدافعت بھی کم ہو رہی ہے۔ مویشیوں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا ہے اور زراعت کے انفرااسٹرکچر کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ ملک کے معاشی بحران اور ریاستی دیوالیہ پن کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل نہیں کہ آنے والے کئی سالوں تک اس تباہی کے اثرات مرتب ہوتے رہیں گے اور لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کی بھینٹ اس سرمایہ دارانہ لوٹ مار کو دی جاتی رہے گی۔ حکمران طبقہ اور اس کے خریدے ہوئے میڈیا اینکرز و ملا حضرات اس تمام تر تباہی کو کبھی عوام کے گناہوں کا عذاب بنا کر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور کبھی فطرت کے طاقتور ہونے کا جواز پیش کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ حکمران طبقہ اس ساری تباہی کو روکنے میں کچھ نہیں کرسکتا اور فطرت کے آگے بے بس ہے۔ اسی طرح کچھ دانشور حضرات آج کے عہد کے زوال پذیر سرمایہ دارانہ نظام کی سماج کو سائنسی بنیادوں پر ترقی نہ دے سکنے کی نااہلیت کو چھپانے کے لیے ”ترقی“ کو ہی مسئلہ بنا کر پیش کرتے ہیں اور اس تمام تر تباہی میں بھی سرمایہ دارانہ نظام کو موردِ الزام ٹھہرانے سے گریز کرتے ہیں۔ دراصل یہ تمام حضرات بالواسطہ یا بلاواسطہ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام جو کہ مسائل کی اصل وجہ ہے کا دفاع کر رہے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ عوام اصلی مجرموں کو نہ پہچان سکیں اور ان مسائل کے درست سائنسی حل کے بارے میں سوچنا نہ شروع کرد یں۔ ان سرمایہ داری کے خیر خواہوں کی توقعات کے برعکس لوگ مسائل کی وجوہات کی نشاندہی کرنا شروع کر چکے ہیں اور یہ بخوبی سمجھتے ہیں کہ بارشوں اور سیلاب سے ان کی تباہی کی وجہ حکمران طبقہ اور ان کا زوال پذیر نظام ہے۔ لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ ان حکمرانوں نے کبھی عوام کے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والے پیسوں کو اس ملک کے عوام کی بہتری کے لیے خرچ نہیں کیا اور ان حکمرانوں کے پاس مستقبل کے حوالے سے کسی قسم کی کوئی منصوبہ بندی موجود نہیں۔

غذائی قلت اور زراعت کا بحران

ایک طبقاتی معاشرے کے اندر قدرتی آفات بھی طبقاتی کردار اختیار کر لیتی ہیں یہی وجہ ہے کہ کسی بھی قدرتی آفت کی طرح موجودہ سیلاب سے بھی کمزور طبقات سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ دیوالیہ ہوتی معیشت کا تمام تر بوجھ پہلے سے ہی حکمرانوں کی جانب سے عام عوام پر ڈالا جا چکا ہے اور محنت کش عوام کی بڑی اکثریت بدترین مہنگائی کی وجہ سے پہلے سے ہی دو وقت کی روٹی سے محروم ہو چکی ہے۔ موجودہ سیلاب غریب عوام کے لیے موت کے پیغام کے علاوہ کچھ نہیں۔ غریب کسان جو ابھی فصل کاشت کرنے کے عمل میں تھے ایک طرف ان کی وہ فصل مکمل طور پر برباد ہو گئی ہے، تو دوسری طرف گھر میں موجود تھوڑی بہت گندم اور دیگر اشیائے ضرورت بھی پانی کی نذر ہو گئی ہیں۔ لاکھوں گھر جو اس سیلاب کے نتیجے میں گر گئے ہیں، موجودہ بدترین مہنگائی کے حالات میں ان کو دوبارہ سے تعمیر کرنا غریب عوام کے لیے بالکل بھی ممکن نہیں۔ آئندہ آنے والے عرصے میں اس ساری تباہی و بربادی سے عوام کے لیے انتہائی مشکل معاشی حالات جنم لیں گے، جو ایک طرف غریب عوام کو بھوک یا بغاوت کی طرف دھکیلیں گے اور دوسری طرف اس ریاست کی کھوکھلی معیشت کو بھی مزید برہنہ کریں گے۔

عالمی سطح پر اس سال کو پہلے ہی غذائی قلت کے حوالے سے اہم قرار دیا جا رہا تھا اور یہ کہا جا رہا تھا کہ روس یوکرین جنگ کے باعث گندم اور دیگر زرعی اجناس کی سپلائی متاثر ہوگی۔ جس کے باعث افریقہ اور مشرق وسطیٰ سمیت غریب ممالک کے لاکھوں لوگ بھوک اور قحط سالی کا شکار ہوں گے۔ پاکستان میں بھی پہلے ہی گندم اور آٹے کے شدید بحران کی پیش گوئی کی جارہی تھی جس کی سب سے بڑی وجہ گندم کے سمگلروں اور آٹے کے مافیا کی حکومتی افراد کی ملی بھگت سے مصنوعی قلت پیدا کر کے ہوشربا منافع کمانے کی روٹین ہے۔ سیلاب کے بعد اس مافیا کو اپنی زندگی کی سب سے بڑی کمائی کے مواقع دکھائی دے رہے ہیں۔ ایک جانب سیلاب کے پانی میں لاشیں تیر رہی ہیں اور لاکھوں کچے مکان تباہ ہوچکے ہیں جبکہ دوسری جانب ریاستی اہلکار اور مافیا کے ڈان اس موقع سے اربوں اور کھربوں روپے کمانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ منڈی میں سبزیوں اور دیگر اشیائے خورد ونوش کی قیمتیں پہلے ہی کئی گنا بڑھ چکی ہیں اور حساس اشیا پر افراطِ زر 45 فیصد کی خوفناک حد بھی تجاوز کر چکا ہے۔ آنے والے عرصے میں یہ لوٹ مار عوام کو مزید بد تر صورتحال میں دھکیلے گی۔

ماحولیاتی تبدیلیاں اور تباہ حال نہری انفراسٹرکچر

عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بڑے پیمانے پر موسمی تبدیلیاں وقوع پذیر ہو رہی ہیں اور پاکستان بھی ان موسمیاتی تبدیلیوں سے بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ اب سے صرف ایک ماہ قبل سندھ اور جنوبی پنجاب کے کسان خریف کی فصلوں کو کاشت کرنے کے لیے پانی کو ترس رہے تھے۔ تھر پارکر میں پانی کی کمی کی وجہ سے انسان اور جانور بلک رہے تھے، جبکہ حکمران کہہ رہے تھے کہ وہ پانی کی کمی کے مسئلے کو حل نہیں کر سکتے اور وہ بارشوں کی دعا کریں۔ ڈیموں اور دریاؤں میں پانی انتہائی کم تھا اور سندھ و جنوبی پنجاب کی اکثر نہریں خشک پڑی ہوئی تھیں۔ کسان ہر جگہ سراپا احتجاج تھے۔ اور بارشوں کا سلسلہ شروع ہونے تک لوگ فصل کی کاشت کی تیاری کر رہے تھے اور جو فصل کاشت ہو رہی تھی وہ بھی اب رود کوہیوں کی نظر ہو گئی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مون سون کے پیٹرن میں کافی تبدیلیاں ہوئی ہیں اور پہلے مون سون کے موسم میں تین مہینے میں جتنی بارشیں ہوتی تھیں اب وہی بارشیں پہلے کی نسبت زیادہ شدت سے صرف تین یا چار ہفتوں میں ہوجاتی ہیں، جو ملک بھر میں سیلابی صورتحال کو جنم دے دیتی ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقات نے پچھلے پچھتر سالوں میں نہری نظام کو جدید بنیادوں پر استوار کرنے کی بجائے پہلے سے موجود نہری انفراسٹرکچر کو ہی برباد کر دیا ہے۔ رود کوہیوں اور دیگر آبی گزر گاہوں کے قدرتی راستوں کو ختم کیا گیا ہے یا ان کے راستے میں رکاوٹیں ڈالی گئی ہیں۔ اسی طرح پچھلی کئی دہائیوں میں پانی کے ذخائر یا ملک کی پانی جمع کرنے کی صلاحیت میں کسی قسم کا کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔ اسی طرح نہروں کے لیے مختص بجٹ میں کٹوتیوں سمیت نجکاری کے عمل کو فروغ دیا گیا ہے، جس کے باعث پورا نظام درہم برہم ہو چکا ہے۔ دریا کے رستوں پر تعمیرات میں ریاستی اہلکاروں نے کمیشن کھائے ہیں، جبکہ ان کی ملی بھگت سے جنگلات کا صفایا کیا گیا۔ چند مہینے پہلے بہت سی جگہوں پر جنگلات میں آگ لگنے کے باعث بھی تاریخ کے سب سے بڑے نقصان پہنچے ہیں۔ اسی طرح ٹمبر مافیا اور ریاستی اہلکاروں نے غیر قانونی طور پر جنگلات کو نقصان پہنچایا ہے، جبکہ حکمرانوں کے شجرکاری کے تمام منصوبے کرپشن اور لوٹ مار کی نذر ہو چکے ہیں۔اس تمام عمل نے ماحولیاتی تبدیلیوں کے آگے بند باندھنے کی بجائے انہیں شدید تر کر دیا ہے اور اب اس کا خمیازہ اس ملک کے عوام بھگت رہے ہیں۔ سردیوں میں لوگوں کو سموگ اور دیگر بہت سی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ سال کے آغاز میں خشک سالی ایک معمول بن رہی ہے۔ گرمیوں کے دوران بد ترین ہیٹ ویو یا گرمی کی شدید لہر بھی اب معمول بن چکی ہے۔ اور اس سال پاکستان نے ایک اور ورلڈ ریکارڈ بنایا جب دنیا میں پہلی دفعہ اپریل کے مہینے میں 50 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت جیکب آباد میں ریکارڈ کیا گیا۔ اس ہیٹ ویو کے باعث بھی سینکڑوں لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں، جبکہ پانی اور بجلی کی قلت کے باعث کروڑوں لوگ اذیت کا شکار ہوتے ہیں۔ اس کے بعد گرمیوں کے آخر میں بارشیں اور سیلاب آ رہے ہیں۔ وہ عام لوگ اور غریب کسان جو ایک مہینہ پہلے پانی کی بوند بوند کو ترس رہے تھے اب سیلابوں سے تباہ و برباد ہو گئے ہیں۔ یہ سیلاب پاکستان کی تاریخ کا نہ تو پہلا سیلاب ہے اور نہ ہی آخری سیلاب ہوگا۔کیونکہ ایک طرف موسمیاتی تبدیلیاں شدت اختیار کرتی جا رہی ہیں تو دوسری طرف پاکستان کا نہری انفرا سٹرکچر تباہ و برباد ہو چکا ہے۔ نہری انفراسٹرکچر اور ڈیموں کی زبوں حالی اتنی شدید ہے کہ یہاں معمولی نوعیت کی بارشیں اور پانی کے ریلے بھی سیلابی صورت حال پیدا کر دیتے ہیں۔ دوسری جانب عالمی سطح پر ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں سے گلیشئیر اور پہاڑوں پر جمی برف کے پگھلنے کا سلسلہ تیز ہو رہا ہے۔ قطبی علاقوں کو اگر چھوڑ دیا جائے تو پاکستان دنیا کا ایسا ملک ہے جہاں گلیشئیرز کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث ہونے والی گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں یہ گلیشئیر اب پہلے کی نسبت زیادہ تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ 2011ء کی ایک رپورٹ کے مطابق اس صدی کی پہلی دہائی میں برف پگھلنے کا یہ عمل پچھلی دہائی کی نسبت 23 فیصد زیادہ تھا۔ گلیشئیر کی برف پگھلنے کا یہ تناسب دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ اسی طرح انہی وجوہات کے باعث بارشیں بھی معمول سے زیادہ ہو رہی ہیں۔ اس سال پاکستان میں اگست تک کی سہ ماہی میں گزشتہ تین دہائی کی اوسط کی نسبت 190 فیصد زیادہ بارشیں ہوئی ہیں جبکہ سندھ زیادہ متاثر ہوا جہاں اوسط سے 466 فیصد زیادہ بارشیں ہوئی ہیں۔ انہی شدید بارشوں کے باعث کمزور اور کچے گھر اور عمارتیں شدید متاثر ہوئی ہیں جبکہ کراچی اور حیدر آباد سمیت بہت سے شہروں کا سیوریج اور نکاسی آب کا پورا ڈھانچہ درہم برہم ہو چکا ہے۔ اس تمام عرصے کے دوران کسی بھی حکومتی اہلکار کا اس حوالے سے کوئی بیان یا منصوبہ سامنے نہیں آیا اور نہ ہی اس تمام صورتحال کا کوئی سائنسی تجزیہ موجود تھا۔ اس ملک کے حکمرانوں نے اس ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچاؤ کی تدابیر کرنے کی بجائے لوٹ مار میں مصروف ہیں اور اقتدار کی ہڈی کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ ایسے میں ماحولیاتی تباہی سے آنے والے عرصے میں بھی مزید تباہی اور بربادی پھیلے گی جس سے نپٹنے کی صلاحیت اس ملک کے موجودہ ریاستی و معاشی ڈھانچے میں بالکل بھی سکت نہیں اور وہ دھیرے دھیرے زمین بوس ہوتا جا رہا ہے۔

پاکستان کے حکمران طبقات نے پچھلے پچھتر سالوں میں نہری نظام کو جدید بنیادوں پر استوار کرنے کی بجائے پہلے سے موجود نہری انفراسٹرکچر کو ہی برباد کر دیا ہے۔

خشک سالی اور سیلابوں سے نجات کیسے ممکن ہے؟

یہ سوال زیادہ مشکل نہیں ہے کہ خشک سالی اور سیلابوں سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔ اور ان مسائل کا حل کیا ہے۔جس طرح آپ کسی سے بھی پوچھ لیں کہ بے روزگاری کا حل کیا ہے تو وہ آسانی سے جواب دے گا کہ روزگار دینا بے روزگاری کا حل ہے۔ لیکن اہم سوال یہ بنتا ہے کہ روزگار پیدا کرنے کے لیے کن ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے اور وہ وسائل کس طرح پیدا کیے جائیں گے۔ اسی طرح ان سیلابوں کو روکنے اور پانی کی کمی کے مسئلے کا حل بھی انتہائی آسان ہے کہ رود کوہیوں کے راستوں کو از سرِ نو جدید سائنسی بنیادوں پر تعمیر کیا جائے اور ان راستوں پر پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے ڈیموں کو تعمیر کیا جائے جو ماحول دشمن نہ ہوں۔ اسی طرح دریاؤں پر بھی ایسے اقدامات کیے جائیں جو دریا کے قدرتی بہاؤ کو متاثر نہ کریں اور آبادی کو بھی محفوظ بنائیں۔ نہروں اور دیگر آبی وسائل کے لیے درکار ضروری بجٹ مہیا کیا جائے اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نپٹنے کی منصوبہ بندی کی جائے اور فوری اقدامات کیے جائیں۔ جنگلات کی کٹائی اور ٹمبر مافیا کی لوٹ مار کا خاتمہ کیا جائے اور بڑے پیمانے پر شجر کاری کی ایسی مہم شروع کی جائے جس میں کرپشن کا خاتمہ کرتے ہوئے منتخب عوامی کمیٹیوں کو اس کی ذمہ داری دی جائے۔ کچے گھروں کے لیے سرکاری سطح پر عوام کو پکے مکان بنا کے دیے جا سکتے ہیں جبکہ تمام شہروں میں نکاسی آب اور سیوریج کے نظام کو از سر نو بڑے پیمانے پر منصوبہ بندی کے تحت دوبارہ بنانے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح شہروں اور دیہاتوں کی تفریق کا خاتمہ کرتے ہوئے دیہاتوں میں بھی ہسپتال اور تعلیمی اداروں سمیت بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں تا کہ آبادیوں کے بے ہنگم پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔ اسی طرح آبی گزرگاہوں کے رستوں میں موجودرکاوٹوں کو ختم کیا جائے اور تمام انفرااسٹرکچر کے منصوبوں میں ناقص تعمیرات اور کرپشن کرنے والوں کو سخت سزائیں دی جائیں تاکہ آئندہ کوئی سڑک، بیراج یا بند معمولی بارشوں سے ٹوٹ نہ پائے۔

لیکن یہاں اہم سوال یہ بنتا ہے کہ ان اقدامات کو عملی جامہ پہنانے کے حوالے سے جن وسائل کی ضرورت ہے کیا وہ وسائل موجودہ سرمایہ دارانہ ریاست فراہم کرنے کی اہلیت رکھتی ہے؟ یا ان مسائل کے حل کے لیے جس معاشی و سیاسی استحکام کی ضرورت ہے، کیا پاکستان کی موجودہ سیاسی جماعتیں وہ سیاسی و استحکام پیدا کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں؟ 2010ء کے سیلاب کو 12 سال گزر چکے ہیں لیکن ان 12 سالوں میں حکمران طبقے نے آئندہ سیلابوں وغیرہ سے بچنے کے لیے کسی قسم کے کوئی اقدامات نہیں کیے۔ اسی طرح پانی کی کمی کے مسئلے کی انتہائی شدت کے حوالے سے مکمل طور پر باخبر ہونے کے باوجود بھی کسی قسم کی کوئی پالیسی نہیں بنائی گئی۔ یہاں یہ سوال بنتا ہے کہ جو حکمران پچھلے پچھتر سالوں میں کسی بھی بنیادی مسئلے کو حل نہیں کر سکے کیا آئندہ یہ حکمران طبقات ان مسائل کو حل کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں؟ ہم سمجھتے ہیں کہ اس ریاست پر براجمان لٹیرے حکمرانوں کو عوام کی جان و مال کی کوئی فکر نہیں۔ انہیں زیادہ سے زیادہ لوٹ مار کر کے صرف اور صرف اپنی دولت میں اضافہ کرنے اور اقتدار کی ہوس ہے۔ پاکستان کی گلی سڑی سرمایہ داری آج نہ کسی قسم کا استحکام پیدا کر سکتی ہے اور نہ ہی آج کے عہد میں درپیش انتہائی سنجیدہ مسائل کو حل کر سکتی ہے۔ آج کے عہد کے تمام تر مسائل چاہے وہ غربت، بے روزگاری اور لاعلاجی کے بڑھتے ہوئے مسائل ہوں یا ماحولیاتی تبدیلیوں سے جنم لینے والے مسائل ہوں، پاکستان کا موجودہ نظام ان کو حل کرنے سے قاصر ہے۔ انتہائی مشکل حالات میں زندہ رہنے والے افراد کے لیے حالیہ سیلاب انتہائی تکلیف دہ معاشی مضمرات کو جنم دے گا، لیکن یہ معاشی دیوالیہ پن ایک وقت آنے پر اپنا اظہار سیاسی بھونچال کی صورت میں بھی کرے گا اور لوگ ان تمام تر مسائل کے حل کے لیے بغاوت کا راستہ اختیار کریں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آج کے عہد کے تمام تر مسائل کے حل کے لیے جس بڑے پیمانے کے وسائل درکار ہیں وہ وسائل صرف اور صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے پیدا کیے جا سکتے ہیں۔ جس میں نجی ملکیت کا خاتمہ کرتے ہوئے تمام تر دولت اور وسائل کو ایک فیصد جاگیردار و سرمایہ دار طبقے سے چھین لیا جائے گا اور ان وسائل کو اجتماعی ملکیت قرار دیتے ہوئے مزدور طبقے کے جمہوری کنٹرول کے ذریعے سماجی بہتری کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ اسی انقلاب کے ذریعے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سیلابوں اور رودکوہیوں کو آبادیوں کو برباد کرنے سے روکا جائے گا اور پانی کی کمی کے مسائل سے لے کر غربت، بے روزگاری، لاعلاجی جیسے مسائل کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا جائے گا۔

Comments are closed.