انڈیا: کیرالا کے ماہی گیر امیر ترین شخص اڈانی کے منصوبے کے خلاف سراپا احتجاج

|تحریر: لوئی تھامس، ترجمہ: ولید خان|

اس وقت کیرالا کے دارالحکومت تھیرووانن تھاپرم سے دو کلومیٹر کی مسافت پر جنوب میں واقع ساحلی قصبہ ویرنگم انڈیا کے امیر ترین سرمایہ دار گوتم اڈانی کی نجی بندرگاہ کی تعمیر کے خلاف ہونے والے احتجاجوں کی لپیٹ میں ہے۔ ساحلی قصبے کی زیادہ تر آبادی کا پیشہ ماہی گیری ہے اور وہ اڈانی کی زیر تعمیر ویرنگم انٹرنیشنل بندرگاہ کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

پچھلے 140 دن سے جاری احتجاج کو احتجاجی کمیٹی اور کیرالا کی ریاستی حکومت کے درمیان مذاکرات کے بعد عارضی طور پر ملتوی کر دیا گیا ہے۔ اس وقت بائیں بازو کی سیاسی پارٹیوں کی مخلوط حکومت کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (ماکسسٹ، CPI-M) کی قیادت میں لیفٹ ڈیموکریٹک فرنٹ (LDF) اقتدار پر براجمان ہے جس کا قائد پینارائے وجایان 2016ء سے ریاستی حکومت کو کنٹرول کر رہا ہے۔

ویرنگم بندرگاہ کے لئے معاہدہ 2015ء میں کانگریس قیادت میں سابق یونائٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ (UDF) حکومت نے کیا تھا لیکن کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا-مارکسسٹ کی قیادت میں جب سے موجودہ ریاستی حکومت برسر اقتدار آئی ہے، اس منصوبے پر عمل جاری ہے اور حکومت نے مظاہرین کے خلاف مرکز میں موجود مودی سرکار سے اتحاد کر رکھا ہے جس میں تحریک کو طاقت کے ذریعے کچلنے کی کوششیں بھی شامل ہیں۔

اڈانی انڈیا کا امیر ترین سرمایہ دار ہونے کے ساتھ دنیا کا دوسرا امیر ترین سرمایہ دار ہے جس کے کل اثاثے 2020ء میں 9 ارب ڈالر سے بڑھ کر آج 127 ارب ڈالر ہو چکے ہیں۔ گجرات ریاست کے ایک متوسط خاندان میں پیدا ہونے والے اڈانی کی پچھلی دو دہائیوں میں حیران کن اٹھان میں انڈین سیاست میں مودی کے ساتھ قریبی روابط کا کلیدی کردار رہا ہے۔ مودی 2001ء میں گجرات کا وزیر اعلیٰ منتخب ہوا تھا اور 2014ء میں انڈیا کا وزیر اعظم بننے تک اسی کرسی پر براجمان رہا۔ پچھلے دو سالوں میں مودی سرکار کی نجکاری پالیسیوں میں تیزی آنے کے ساتھ اڈانی پر بھی دولت کی دیوی مہربان ہوئی ہے جبکہ انڈیا کی بھاری اکثریت کورونا وباء اور موجودہ عالمی معاشی بحران میں مسلسل غربت اور تنگ دستی میں پس رہی ہے۔

نجکاری کے جھنڈے تلے برپا ریاستی اداروں کی لوٹ مار میں سب سے زیادہ مستفید اڈانی ہوا ہے۔ دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ پہلے گجرات میں نجکاری کے نتیجے میں مندرہ بندرگاہ کو خریدنے کے بعد آج اڈانی گروپ 8 ائرپورٹس اور 13 بندرگاہوں کا مالک ہے۔ اس کے شکنجے میں میڈیا، دفاع اور سیمنٹ سیکٹرز ہیں جبکہ انڈیا ریلوے کا ایک خصوصی لائسنس بھی موجود ہے جس کے تحت اپنی بندرگاہوں کے لئے کئی سامان بردار ٹرینوں کو چلانے کی اجازت ہے۔

اڈانی ممبئی انٹرنیشنل ائرپورٹ میں 74 فیصد کا مالک ہے جو انڈیا میں دہلی کے بعد دوسرا مصروف ترین ائرپورٹ ہے۔ شرمناک طور پر انڈیا کی نام نہاد کمیونسٹ پارٹیوں نے بھیڑیا صفت سرمایہ داروں اور ان کے نجی تعمیراتی منصوبوں کی مکمل حمایت کی ہے جن کے نتیجے میں مقامی عوام کا روزگار اور ماحولیات تباہ و برباد ہو رہے ہیں۔

ویرنگم بندرگاہ انڈیا کی پہلی ”میگا ٹرانس شپمنٹ کنٹینر ٹرمینل“ ہو گی۔ منصوبے میں ایک گہرے پانی کی بندرگاہ اور کنٹینر ٹرمینل شامل ہیں جو میگا میکس کنٹینر بحری جہازوں کو سنبھالنے کی اہلیت رکھتے ہیں اور مکمل ہو جانے کے بعد یہاں بیس فٹ کے برابر 6.2 ملین کارگو یونٹ (TEUs) سنبھالنے کی اہلیت ہو گی۔ لیکن یہ سارا منصوبہ ماحولیات اور ماحولیاتی نظام کے لئے زہر قاتل ہونے کے ساتھ اس علاقے میں صدیوں سے آباد ہزاروں خاندانوں کے روزگار کے لئے جان لیوا ہے۔

Gautam Adani Image fair use

اڈانی انڈیا کا امیر ترین سرمایہ دار ہونے کے ساتھ دنیا کا دوسرا امیر ترین سرمایہ دار ہے جس کے کل اثاثے 2020ء میں 9 ارب ڈالر سے بڑھ کر آج 127 ارب ڈالر ہو چکے ہیں۔

کیرالا انڈیا کی ان چند ریاستوں میں سے ایک ہے جس میں آج بھی کمیونسٹ پارٹیوں کی ایک قابل ذکر تعداد موجود ہے۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا-مارکسسٹ کی قیادت میں سٹالنسٹ لیفٹ جب حزب اختلاف میں تھا تو اس وقت انہوں نے اس منصوبے کی مخالفت کی تھی۔ وجایان نے اس وقت کہا تھا کہ ”ویرنگم منصوبے کے ذریعے تعمیر و ترقی کے پردے میں دیو ہیکل کرپشن کی جار ہی ہے جس کے تحت 60 ہزار ملین روپے مالیت کی زمین اڈانی گروپ کو دی جا رہی ہے“۔

لیکن 2016ء میں وجایان کی قیادت میں بننے والی حکومت نے اس منصوبے کو جاری رکھا۔ اس وقت اڈانی بندرگاہ منصوبے کا اخراجاتی تخمینہ 900 ملین ڈالر ہے۔ کیرالا حکومت منصوبے کے مختلف پہلووں پر دیو ہیکل اخراجات کرے گی۔ یہ منصوبہ کم از کم 40 سال اڈانی گروپ کی ملکیت رہے گا۔

معاہدے کے تحت اڈانی ویرنگم پورٹ کمپنی بندرگاہ کو ”تعمیر، سرمایہ کاری، انتظام اور ٹرانسفر“ پالیسی کے تحت تعمیر کرے گی۔ منصوبے کی 81 فیصد سرمایہ کاری کیرالا حکومت کرے گی اور محض 19 فیصد سرمایہ کاری اڈانی کرے گا جس کا مطلب ہے کہ 1 لاکھ 25 ہزار ملین روپے میں سے صرف 24 ہزار 540 ملین روپے اڈانی پورٹس کی ذمہ داری ہو گا۔ اڈانی پورٹس کمپنی ٹرانسفر کی گئی 190 ایکڑ زمین کو گروی رکھوا کر قرضہ بھی لے سکے گی۔

پھر اڈانی کو اگلے 15 سال حکومت کو ایک روپیہ بھی نہیں دینا ہے اور اگر اس کے بعد منافع شروع ہو گا تو اسے اس میں سے صرف 1 فیصد حکومت کو دینا ہو گا۔ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ منصوبہ مکمل ہونے کے بعد اڈانی بندرگاہ سے 8 لاکھ ملین منافع حاصل ہو گا جبکہ اخراجات کا دیو ہیکل حصہ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ عموماً اس طرح کے معاہدوں کی معیاد 30 سال ہوتی ہے جبکہ اڈانی پورٹ کمپنی کا معاہدہ 40 سال کے لئے ہے جس کے نتیجے میں اڈانی کو مزید 2 لاکھ 92 ہزار 170 روپے منافع حاصل ہو گا۔

2017ء میں ایک سرکاری رپورٹ میں سنجیدہ بے ضابطگیوں اور کرپشن کا انکشاف کیا گیا تھا۔ کومپٹرولر اور آڈیٹر جنرل (CAG) کی رپورٹ کے مطابق کیرالا حکومت کو 40 سال کی رعایتی سرگرمیوں کے دوران تقریباً 56 ہزار 80 ملین روپے کا نقصان ہوگا۔ رپورٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ معاہدہ ریاست کے بجائے اڈانی کے فائدے کے لئے بنایا گیا اور ٹینڈر کا عمل بھی مشکوک تھا۔

اس وقت ایڈمنسٹریٹیو ریفارمز کمیشن کے چیئرمین اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا-مارکسسٹ کے ایک اور قائد وی-ایس اچوتھانندن نے وجایان کو ایک خط بھیجا جس میں منصوبے کی مخالفت کرتے ہوئے ایک جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ منصوبے کے ابتدائی مراحل کے دوران بھیجے گئے خط میں لکھا گیا تھا کہ کیرالا ریاست کو دیو ہیکل نقصان ہو گا جو پہلے ہی 3.5 لاکھ کروڑ روپے قرضے کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔

ماحولیات اور روزگار پر اثرات

وزارت برائے ماحولیات نے 2011ء میں منصوبے کی منظوری دے دی تھی لیکن کئی ماہرین کے مطابق یہ منصوبہ ماحولیات کے لئے ایک دیو ہیکل تباہ کاری ہے اور سمندری لہروں کی ساخت تبدیل کرنے کے ساتھ ساحلی کٹاؤ میں تیزی سے اضافہ کرے گا۔

منصوبے کی تعمیر کے لئے 450 ایکڑ زمین استعمال ہو گی جس میں سمندر اور تہہ سمندر سے حاصل کردہ 120 ایکڑ شامل ہیں۔ بندرگاہ کی تعمیر کے آغاز سے اب تک 600 میٹر ساحل کٹاؤ کا شکار ہو چکا ہے جس کے نتیجے میں کئی سو مقامی افراد بے گھر ہو چکے ہیں اور اب ریلیف کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ ویلایودھم میں گھروں کی پانچ قطاریں ختم ہو چکی ہیں۔

کئی ماہرین کے مطابق یہ منصوبہ ماحولیات کے لئے ایک دیو ہیکل تباہ کاری ہے اور سمندری لہروں کی ساخت تبدیل کرنے کے ساتھ ساحلی کٹاؤ میں تیزی سے اضافہ کرے گا۔

کیرالا کا مشہور شم خم خام ساحل اور سیاحتی ویلی گاؤں ساحلی کٹاؤ کی وجہ سے ختم ہو چکے ہیں۔ ایک بریک واٹر (مصنوعی سمندری دیواریں جن کا مقصد کسی ساحل یا بندرگاہ کا تیز لہروں سے تحفظ ہوتا ہے، مترجم) کی تعمیر کے بعد لہروں میں تیزی آ چکی ہے جس کے نتیجے میں 60 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ بندرگاہ منصوبے کی وجہ سے ماہی گیر سمندر میں شکار کے لئے نہیں جا سکتے اور نتیجے میں اس علاقے میں 50 ہزار خاندانوں کا روزگار متاثر ہو گا۔

اس منصوبے کا حیاتیاتی تنوع اور سمندری مچھلیوں کی تعداد پر بھی تباہ کن اثر پڑ رہا ہے۔ مظاہرین کے مطابق منصوبے کے لئے بے تحاشہ پتھر اور گرینائٹ درکار ہے جسے وسیع پیمانے پر کان کنی اور کھدائی کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے اور نتیجے میں کیرالا کی مشہور مغربی گھاٹوں کے گرد ماحولیاتی تباہی میں مزید اضافہ ہو گا۔ ماحولیاتی تبدیلیاں ابھی سے واضح ہیں جن کا اظہار حالیہ شدید بارشوں اور لینڈ سلائڈنگ میں ہوا ہے جن کے نتیجے میں کئی افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ انڈیا پہلے ہی ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے سر فہرست ممالک میں شامل ہے اور پورے ملک میں اڈانی کے کوئلوں سے چلنے والے توانائی پلانٹ اس تباہی و بربادی کو تیز تر کر رہے ہیں۔

مولور گاؤں میں ملٹی پرپز بندرگاہ پراجیکٹ کمپنی (Multipurpose Seaport Project Company) کے داخلی گیٹ پر ماہی گیروں کی بڑی تعداد نے 140 دن احتجاج جاری رکھا جسے اب 6 دسمبر کو ہونے والے حکومتی مذاکرات کے بعد معطل کر دیا گیا ہے۔ پہلے 23 اگست کو تعمیراتی کام روک دیا گیا جب مظاہرین کی ایک بڑی تعداد تعمیراتی علاقوں میں گھس گئی۔ احتجاجوں کی قیادت ویرنگم ایکشن کونسل کر رہی ہے۔ علاقے کے تقریباً 40 ساحلی گاؤں سے ماہی گیر اس احتجاج میں شامل ہیں۔

27 نومبر کو احتجاج کے نتیجے میں بہیمانہ تشدد ہوا جب ایک کمیونسٹ ریاستی حکومت کے حکم پر پولیس نے مظاہرین پر دھاوا بول دیا۔ احتجاجی کمیٹی نے تشدد اکسانے کے لئے خارجی گھس بیٹھیوں کی سازش کا الزام بھی عائد کیا ہے۔ ویرنگم پولیس نے 5 مظاہرین کو گرفتار کر لیا جس کے بعد مظاہرین نے پولیس اسٹیشنوں پر دھاوا بول دیا۔ تقریباً 2 ہزار مظاہرین نے پولیس اسٹیشنوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور پولیس گاڑیوں کو آگ لگا دی۔

نیوز 18، دی پرنٹ، کومادی، دیشابھیمانی اور جنم جیسا کارپوریٹ میڈیا مظاہرین کے خلاف غلیظ دروغ گوئی سے کام لیتے ہوئے اڈانی پورٹس کمپنی کی حمایت کر رہا ہے۔ کیرالا ہائی کورٹ نے بھی مظاہرین کے خلاف احتجاج ختم نہ کرنے کے جرم میں توہین عدالت کاروائی کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ہمیشہ کی طرح عدالتوں نے سرمائے کے تحفظ میں مداخلت کرتے ہوئے احتجاج ختم کروانے کے لئے گھٹیا اور رجعتی کردار ادا کیا۔

تمام حکمران سیاسی پارٹیاں ایک صفحے پر ہیں

انڈیا میں حکمران طبقے نے ہمیشہ فرقہ وارانہ تشدد اور مذہبی منافرت کو محنت کش طبقے کی تحریکوں کو تقسیم کرنے اور کچلنے کے لئے استعمال کیا ہے۔ کیرالا حکومت بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ اس منصوبے کے نتیجے میں متاثر ماہی گیروں کی اکثریت کا تعلق مسیحی مذہب سے ہے اس لئے حکمران طبقہ اڈانی کی قیادت میں ہندو اور مسلم انتہا پسندوں کو مظاہرین کے خلاف تشدد کے لئے استعمال کر رہا ہے۔ یہ بھی ستم ظریفی ہے کہ عام طور پر ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہونے والے دو مذاہب کے پیروکاروں سے اب تیسرے مذہب کے پیروکاروں پر تشدد کرایا جا رہا ہے۔ اس وقت غیر معمولی اتحاد میں ہندو اور مسلم انتہا پسند تنظیمیں اڈانی کی مکمل حمایت کر رہی ہیں۔

اپنے آغاز میں احتجاجی تحریک خودرو تھی جس کی کوئی واضح قیادت موجود نہیں تھی اور نہ ہی کسی سیاسی پارٹی کی حمایت شامل تھی۔ سیاسی اور محنت کش قیادت کی عدم موجودگی میں کچھ مسیحی پادری حادثاتی قیادت بن کر سامنے آئے ہیں۔ اس وقت تحریک کا قائد لاطینی کیتھولک چرچ کا آرک ڈیوسیز تھیرووانن پورم ہے اور اس میں ویرنگم ایکشن کمیٹی کے نام پر دیگر سرگرم افراد بھی شامل ہیں۔ پولیس نے آرچ بشپ تھامس جے- نیتو اور دیگر 15 پادریوں کو مبینہ طور پر تشدد میں حصہ لینے کی پاداش میں گرفتار کر لیا ہے۔ اس دوران رجعتی ذات پرست تنظیموں جیسے نائر سروس سوسائٹی (NSS)، شری نرائن دھرما پری پلانا یوگم (SNDP) اور دیگر نے بندرگاہ کی تعمیر کی حمایت کی ہے۔

CPIM Flag Image Ranjithsiji

کمیونسٹ پارٹیاں بھی جہاں بر سر اقتدار ہیں وہاں بی جے پی اور کانگریس کی طرح سرمایہ نواز پالیسیاں لاگو کر رہی ہیں۔

کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا-مارکسسٹ حکومت نے کیرالا ہائی کورٹ میں کہا ہے کہ وہ احتجاجوں کو کچلنے کے لئے مرکزی حکومت کی جانب سے تعینات کردہ فورسز کی مخالفت نہیں کرتے۔ کیرالا حکومت کے وزیر برائے ماہی گیری وی- عبدالرحیمان نے مظاہرین پر ”غدار“ کا لیبل لگا دیا ہے۔ یہی زبان مودی، راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (RSS) اور بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP) کے دیگر قائدین عوامی تحریکوں کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ دہلی کی یونیورسٹیوں کے طلبہ ہوں یا پنجاب اور ہریانہ کے کسان، جو بھی اپنے حقوق کے لئے احتجاج کرے گا اسے حکمران طبقہ غدار قرار دے گا۔

منصوبے کی حمایت میں بی جے پی، کانگریس اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا-مارکسسٹ ایک ہی صفحے پر ہیں جبکہ بہت کم تنظیمیں مخالفت کر رہی ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا-مارکسسٹ کی قیادت میں سٹالنسٹ لیفٹ کے پاس کانگریس اور مودی قیادت میں بی جے پی سرکار کی سرمایہ نواز پالیسیوں کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ پہلے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا-مارکسسٹ نے 2010ء میں مغربی بنگال میں تین دہائیاں حکومت کرنے کے بعد اپنی حمایت مکمل طور پر کھو دی کیونکہ محنت کش طبقہ کمیونسٹوں کی قیادت میں بورژوا ریاست کا بھیانک چہرہ دیکھ چکا تھا۔

یہاں فیصلہ کن لمحہ نندی گرام واقعہ تھا جب پولیس نے کسان مظاہرین پر اپنی زمینوں پر ریاستی قبضے کے خلاف احتجاج کے دوران گولیاں چلائیں۔ لیفٹ فرنٹ کی قیادت اس وقت ٹاٹا کمپنی کے سامنے سجدہ زیر ہو گئی اور اس وقت بھی پالیسیاں وہی تھیں جو آج کیرالا میں ہیں۔ مغربی بنگال میں لیفٹ حکومت نے کارپوریٹ تعمیرات کے لئے کسانوں کی زمینوں پر قبضے کر لئے جس کے بعد عوام کے شدید احتجاج کے نتیجے میں لیفٹ حکومت کا تختہ دھڑن ہو گیا۔ آج بنگال میں لیفٹ فرنٹ کی قوت اور حمایت ترینامول کانگریس (TMC) اور بی جے پی جیسی دائیں بازو کی پارٹیوں کے پاس جا چکی ہے۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا-مارکسسٹ نے بنگال کے تجربے سے کچھ نہیں سیکھا ہے اور کیرالا میں وہی پالیسیاں لاگو کر رہے ہیں۔۔۔انڈیا کی آخری ریاست جس میں لیفٹ کی حکومت رہ گئی ہے۔

سٹالنزم کا بحران

انڈیا میں سٹالنسٹ پارٹیوں کی اپنی حکمرانی میں موجود ریاستوں میں کانگریس اور بی جے پی کی طرح کارپوریٹ نواز پالیسیاں ہی ہوتی ہیں۔ طبقاتی مفاہمت کی غلیظ پالیسی جیسے بہار میں کانگریس اور راشٹریہ جنتا دل (RJD) اور تامل ناڈو میں ڈراویڈا منیترا کازاگام (DMK) اور دیگر کے ساتھ سیاسی الحاق سے محنت کش طبقے میں لیفٹ پارٹیوں کی ساکھ بری طرح مجروح ہو چکی ہے۔ ان پارٹیوں کی سٹالنسٹ قیادت نام نہاد مرحلہ وار انقلابی تھیوری کی پیروکار ہے جس کے تحت بورژوا پارٹیوں کے ساتھ الحاق کو جواز فراہم کیا جاتا ہے کہ انڈیا میں فی الحال بورژوا جمہوری انقلاب کی ضرورت ہے جس کے بعد سوشلزم کی بات ہو گی۔ اس شرمناک غداری کے لئے محنت کش طبقے کو سرمایہ داری کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔

یہ اب واضح ہو چکا ہے کہ پوری دنیا اور انڈیا میں سرمایہ داری ایک بند گلی میں پھنس چکی ہے اور اب انسانیت کو کسی قسم کی ترقی دینے سے قاصر ہے۔ یہ دنیا کے تمام وسائل کو مٹھی بھر حکمران طبقے کی جیبیں بھرنے کے لئے لوٹ کھسوٹ رہی ہے اور آبادی کی اکثریت غربت، بھوک اور بیماری کی عمیق دلدل میں دھنستی چلی جا رہی ہے۔ اس وقت انسانیت سمیت دنیا کی ہر جاندار نوع کو صفحہ ہستی سے مٹ جانے کا خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔ محنت کش طبقے کے سامنے ایک ہی راستہ بچا ہے کہ اس خونخوار سرمایہ دارانہ نظام کو ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے اور پر انتشار منڈی کی معیشت کی جگہ ایک منظم منصوبہ بند معیشت قائم کی جائے جو انسانیت کی بقاء کی ضامن ہو۔

یہ بہت اہم ہے کہ پورے انڈیا کے محنت کش اور انقلابی کیرالا میں ماہی گیروں کے احتجاجوں کی حمایت کریں اور اس تحریک کو پوری ریاست اور ملک کی عمومی محنت کش تحریک کے ساتھ جوڑیں۔ صرف محنت کشوں کی ایک آزاد تحریک اور غیر معینہ مدت عام ہڑتال کی جدوجہد کے ذریعے ہی تمام سیکٹرز کے محنت کشوں پر حکمران طبقے کے حملوں کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ ایک غیر معینہ مدت عام ہڑتال مودی کی حکمرانی کے خاتمے کے عمل کو تیز کرتے ہوئے انڈیا میں طاقت کا سوال کھڑا کر ے گی کہ حکمرانی کون کرے گا، بورژوازی یا محنت کش؟

1991ء کی معاشی اصلاحات اور معیشت کو عالمی منڈی کے لئے کھولنے کے بعد سے اب تک تمام سیکٹرز میں وسیع پیمانے پر نجکاری کی جا چکی ہے۔موجودہ مودی حکومت اور سابقہ حکومتیں محنت کشوں کو درپیش بیروزگاری، افراط زر اور دیگر سلگتے مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ ایک ہی حل پیش کیا جاتا ہے کہ صحت، بینکاری، انشورنس، بندرگاہوں، ریلوے، کان کنی اور دیگر تمام سیکٹرز سمیت پورے پبلک سیکٹر کی نجکاری لازمی ہے۔ عوامی غم و غصے اور جدوجہد کے سامنے مودی اور کارپوریٹ میڈیا جھوٹ اور فریب پھیلا کر عوام کو مذہب اور ذات کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی کوششیں کرتا ہے۔

ویرنگم منصوبہ اس علاقے کے محنت کشوں کو ذلیل و خوار کردے گا لیکن اڈانی جیسے مودی کے یاروں کی جیبیں مزید بھر دے گا۔ اس کے نتیجے میں بدحال عوام کے آلام و مصائب میں مزید اضافہ ہو گا جو پہلے ہی کورونا وبا اور معاشی سست روی کے ہاتھوں برباد ہو رہی ہے۔ احتجاج کو عارضی طور پر ملتوی کر دیا گیا ہے لیکن دیگر احتجاج ہوں گے کیونکہ حکومت اپنے وعدے اور دعوے پورے نہیں کرے گی۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (CPI)، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا-مارکسسٹ (CPI-M) اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا-مارکسسٹ لیننسٹ (CPI-ML) وغیرہ کی سٹالنسٹ قیادت سیاسی طور پر دیوالیہ ہو چکی ہے لیکن ان کی جڑیں ابھی بھی کروڑوں محنت کشوں میں موجود ہیں کیونکہ تاحال ان کے پاس کوئی ایسا متبادل موجود نہیں ہے جو ان پارٹیوں سے زیادہ بائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھتا ہو۔

مارکس وادیوں کا فرض ہے کہ وہ حقیقی مارکسزم کا پیغام ان پارٹیوں کے کارکنان تک پہنچائیں اور آزادانہ طور پر منظم بھی ہوں۔ صرف کیرالا میں جاری تحریک کے لئے پوری ریاست اور انڈیا کے محنت کشوں کی یکجہتی اور حمایت ہی اڈانی ویرنگم منصوبے کو روک سکتی ہے۔

ویرنگم ایکشن کونسل کے مطالبے پورے کرو!
منصوبے کے ماحولیاتی اثرات پر تحقیق کے لئے ایک ماہرانہ کمیٹی قائم کرو!
عوام کے خلاف جھوٹے مقدمات ختم کرو!
ماہی گیروں سے یکجہتی زندہ باد!

Comments are closed.