کشمیر: بغاوت کی آگ؛ جو بجھائے نہ بنے

تحریر: |یاسر ارشاد|
گزشتہ ایک ہفتے سے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں بغاوت کی ایک نئی لہر امڈ آئی ہے۔ بھارتی قابض فوج کا وحشیانہ جبر تاحال اس بغاوت کو مزید بھڑکانے کا باعث بن رہا ہے۔ بغاوت کی اس تازہ لہر کا فوری موجب حزب المجاہدین کے نوجوان کمانڈر برہان وانی کی دو ساتھیوں سمیت بھارتی فوجیوں کی ایک کاروائی میں مارے جانے کا واقعہ تھا۔ وانی کو اس نئی مسلح تحریک کا ’پوسٹر بوائے‘ کہا جاتا ہے جو سوشل میڈیا پر بھارتی فوج کے مظالم کے خلاف اپنی جدوجہد کی تشہیر کے ذریعے کافی شہرت کا حامل تھا۔ وانی کی شہادت نے کشمیر میں پلنے والی بے چینی اور ہندوستانی قبضے کے ساتھ بے پناہ اور مسلسل بڑھتے ہوئے مسائل کے خلاف مجتمع شدہ غم وغصے کے لاوے کو ایک دھماکے کے ساتھ منظرعام پر ابھار دیا ہے۔ وانی کی شہادت کے خلاف ابھرنے والی تحریک کی شدت اور وسعت نے ہندوستانی فوج کے اس زعم کو کہ جبر کے ذریعے انہوں نے کشمیر کی بغاوت کو قابو کر لیا ہے، ایک ہی جھٹکے میں پاش پاش کر دیا۔ اس احتجاجی تحریک کو کچلنے کے لئے جو وحشیانہ ریاستی جبر گزشتہ دس دنوں سے جاری ہے اس کی شدت سے ہندوستانی فوج کی شدید بوکھلاہٹ اور پریشانی جھلک رہی ہے۔ 40سے زیادہ لوگوں کو مارنے اور سینکڑوں لوگوں کو جدیدپیلٹ گن(چھروں والی بندوق)کی فائرنگ سے بینائی سے محروم کرنے اور مزید ہزاروں کو زخمی کرنے کے باوجود حالات قابو سے باہر ہوتے جارہے ہیں۔ اس کے ساتھ گزشتہ ایک ہفتے سے موبائل فون سروس، کیبل ٹی وی سروس کے ساتھ مقامی اخبارات کی اشاعت پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے جبکہ انٹرنیٹ سروس پہلے ہی معطل کر دی گئی تھی۔ وادی کے دس اضلاع میں کرفیو نافذ کرنے کے باوجود مظاہرین کو سڑکوں پر آنے سے نہیں روکا جا سکا اور روزانہ سری نگر شہر کے مختلف علاقوں سمیت وادی کے تمام قصبوں میں درجنوں احتجاجی مظاہرے ہوتے ہیں جن میں فوج کے ساتھ تصادم معمول بن چکا ہے۔ ایک غیر اعلانیہ ایمرجنسی نافذ کی جاچکی ہے جس میں تمام بنیادی حقوق کے ساتھ سہولیات بھی سلب کر دی گئی ہیں۔ اس بھیانک جبر کے باوجود بغاوت کی شدت میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

کشمیر: پیلٹ گن سے زخمی ہونے والا ایک کشمیری ۔ ۔ فوٹو۔ گارڈین

کشمیر: پیلٹ گن سے زخمی ہونے والا ایک کشمیری نوجوان ۔ ۔ فوٹو۔ : گارڈین

اس بغاوت کی فوری وجہ ان کشمیری نوجوانوں کی شہادت کا واقعہ بنا لیکن اس کے اصل محرکات کچھ اور ہیں جن میں سے چند ایک کی نشاندہی ایک کالم نگار گوتم نولکھا نے 12جولائی کے ایک مضمون میں کچھ ان الفاظ میں کی ہے:

’’ طاقت اور جبر کی بنیاد پر مسلط کردہ یونین سے آزادی کے حصول کے جذبے کی شدت اور گہرائی سے ہندوستانی مکمل طور پر بے بہرہ ہیں۔ غیر ریاستی ریٹائرڈ فوجیوں کی آبادکاری کے لئے زمینوں پر قبضے(جوRSSکا پرانہ منصوبہ ہے) اسی طرح غیر ریاستی باشندوں کو صنعتیں لگانے، رہائشی سکیموں، کان کنی، جنگلات کی کٹائی اور مہاجرین کے لئے رہائشی کالونیاں بنانے کے لئے زمینوں کی فراہمی کے ساتھ ریاستی انتظامیہ کی فوجی طاقت اور اختیارات کے سامنے مکمل بے بسی، چونکہ فوج مالیاتی ضروریات کے حوالے سے دہلی پر انحصار کرتی ہے، یہ ایسے معاملات ہیں جو بھارتی قبضے کو ننگا اور جارحانہ بناتے ہیں‘‘۔

Kashmir-protestاس کے علاوہ دیگر غربت، مہنگائی، پسماندگی جیسے مسائل کے ساتھ نوجوانوں میں بیروزگاری کی بڑھتی شرح ایک بارود کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکی ہے جو کسی بھی وقت ایک چھوٹی سی چنگاری سے بے قابوشعلوں میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ کشمیر کی آبادی کا تقریباً70فیصد سے زیادہ نوجوانوں پر مشتمل ہے جن میں بیروزگاری کی شرح 50 فیصد سے زیادہ ہے۔ ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والے اس قسم کے اعدادوشمار بھی صورتحال کی درست عکاسی نہیں کرتے۔ سری نگر شہر کے اندر سفر کرنے کے لئے ہر ایک کلو میٹر کے بعدفوجی چیک پوسٹوں پر ذلت آمیز تلاشیوں کی توہین ہر روز برداشت کرنا اور کسی بھی بنیادی سماجی آسائش کے حصول کی آواز بلند کرنے پر ریاستی جبر اور گولیوں کا نشانہ بننا اور 24گھنٹے سامر اجی سنگینوں کے سائے تلے رہتے ہوئے ایک تلخ اور مسائل سے اٹی ہوئی زندگی گزارنے کی سزا برداشت کرتے رہنے کی ایک حد ہوتی ہے جو ہر چند سال کے بعد ایک بغاوت کو ہی جنم دے سکتی ہے اور یہی ہو رہا ہے۔ اگرچہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں1989ء کی بغاوت کے بعد حالات میں مکمل سدھار کبھی بھی نہیں آسکا لیکن پھر بھی بغاوت کی اس تازہ لہر کے کچھ دیگر محرکات بھی ہیں۔ 1989ء میں ابھرنے والی بغاوت میں مسلح جدوجہد کا عنصر حاوی رہا جس میں پاکستان کے حمایت یافتہ دھڑے بھی سرگرم رہے اور 90ء کی دہائی کے اختتام تک جدوجہدکا یہ ریلہ پسپائی اختیار کر چکا تھا۔ اس کے باوجود آزادی کی جدوجہد کم شدت کے ساتھ جاری رہی اور2008ء اور2010ء کی تحریکوں کے ابھار میں سیاسی جدوجہد مکمل طور پر حاوی نظرآئی، اس کے ساتھ یہ تحریکیں قومی کی بجائے طبقاتی یعنی بنیادی مسائل کے گرد ابھری تھیں۔ ان تحریکوں نے ہندوستانی حکمران طبقے اور فوج کو اس غلط فہمی میں بھی مبتلا کردیا تھا کہ انہوں نے ریاستی جبر کے ذریعے مسلح جدوجہد کا مکمل خاتمہ کردیا ہے۔ درحقیقت مسلح جدوجہد کے طریقہ کار کی محدودیت اور ناکامی کے تجربے نے نئی نسل کو سیاسی جدوجہد کا طریقہ کا اپنانے کا شعور فراہم کیا تھا۔ لیکن جہاں2010ء کی تحریک پر وحشیانہ ریاستی جبر کی سفاکیت نے نوجوانوں کی کچھ پرتوں کو دوبارہ مسلح جدوجہد کا راستہ اپنانے پر مجبور کیا ہے وہیں ان نوجوانوں کی مسلح جدوجہد میں شمولیت سب سے بڑھ کے ہندوستان کی نام نہاد کمیونسٹ(درحقیقت سٹالنسٹ) پارٹیوں کی قیادت کی نظریاتی ناکامی اور بانجھ پن کا واضح ثبوت ہے۔
ان سٹالنسٹ پارٹیوں کی قیادت پارلیمانی سیاست کے نشے میں اس حد تک غرق ہو چکی ہے کہ ان کا قومی سوال پر موقف لفاظی کی حد تک بھی مارکسزم سے مطابقت نہیں رکھتا بلکہ چند لفظوں کے ہیر پھیر کے ساتھ ان کا قومی سوال پر موقف ہندوستانی بورژوازی کے موقف کا ہی چربہ ہے۔ حالیہ بغاوت اور ریاستی تشدد پر بھی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے پولٹ بیورو کی جانب سے ایک مذمتی بیان جاری کیا گیا ہے جس میں تشدد اور کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرنے کے بعد مولوی فضل الرحمٰن کی پیروی کرتے ہوئے ہندوستان کے وزیر داخلہ سے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اگر کشمیری نوجوانوں کی مسلح جدوجہد بھارتی ریاست کی بھاری بھر کم وحشت کو شکست نہیں دے سکتی تو سرمایہ دارانہ بنیادوں پر اور اس کی حدود و قیود کے اندر رہتے ہوئے پر امن سیاسی جدوجہد (جس کا یہ سٹالنسٹ پارٹیاں درس دیتی ہیں) بھی حق خودارادیت کے حصول سمیت دیگر بنیادی مسائل کا کوئی حل فراہم نہیں کر سکتی ۔ دوسری جانب کشمیر میں بھارتی ریاست کا طرزعمل اس قدر ظالمانہ ہے کہ یہاں ابھرنے والی کوئی بھی جدوجہد چاہے کتنی ہی پرامن کیوں نہ ہو اس کے ساتھ جس بہیمانہ انداز میں برتاؤ کیا جاتا ہے اس کو دیکھ کر یہ لگتا ہے جیسے بھارتی ریاست خود کشمیر میں تشدد اور مسلح جدوجہد کو ابھارنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

سرینگر: بھارتی افواج اور کشمیری مظاہرین کے درمیان ہونے والے تصادم کا ایک منظر

سرینگر: بھارتی افواج اور کشمیری مظاہرین کے درمیان ہونے والے تصادم کا ایک منظر

کشمیری نوجوانوں کو مسلح جدوجہد کی جانب دھکیلنے میں جہاں ریاستی جبر کا ایک کردار ہے وہیں پرامن جدوجہد کو درست نظریات اور راہنمائی نہ مل پانا بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ اگر ہندوستان کی کمیونسٹ تحریک کا کوئی ایک دھڑا بھی قومی سوال پر درست موقف اپناتے ہوئے آزادی کی اس جدوجہد کو کشمیر اور ہندوستان بھر میں سوشلسٹ انقلاب کی لڑائی کے ساتھ جوڑتے ہوئے اس کو آگے بڑھاتا تو یہ سربکف کشمیری نوجوان جو نہتے بھارتی ریاست کی سنگینوں کو للکارتے ہوئے شہید ہو جاتے ہیں یہی نوجوان سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کی سرخ فوج کے لڑاکا سپاہی بن سکتے تھے۔ لیکن بنیادی مسئلہ ان سٹالنسٹ پارٹیوں کی قیادت کا دو مراحل پر مبنی انقلاب جیسے غلط نظریات پر کاربند ہونا ہے جس کے باعث نہ صرف کشمیر کے نوجوانوں کا ناحق اور غیر ضروری لہو بہہ رہا ہے بلکہ برصغیر کے اربوں محنت کش اس نظام کے وحشیانہ استحصال کی اذیت سے دوچار ہیں۔ ان تمام مسائل کے باوجود کشمیری نوجوانوں پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی جدوجہد کے تجربات سے نتائج اخذ کرتے ہوئے اس لڑائی کو درست سمت میں آگے بڑھائیں۔
یہ درست ہے کہ کشمیر میں جبر کی جو شدت اور وحشت کشمیریوں پر مسلط ہے اور جس طرح انہیں ہر لمحہ قابض فوج کی سنگینوں کے سائے تلے سانس لینے پر مجبور رکھا جاتا اس کا کسی حد تک فطری ردعمل ہے جو با ر بار کی پر تشدد بغاوتوں میں اپنا اظہار کرتا ہے لیکن اگر ہم حقیقی آزادی کے حصول کی لڑائی کو درست نظریات اور طریقہ کار پر استوار کرتے ہوئے آگے نہیں بڑھائیں گے تو یہ جدوجہد نہ صرف زیادہ طویل ہوتی جائے گی بلکہ بے پناہ قربانیوں کا حاصل پھر تحریک کی ٹوٹ پھوٹ اور ناکامی اور کچھ عرصے کے بعد نئی تحریک اور پھر سے یہی چکر دہرایا جاتا رہے گا۔ اس وقت رائج قیادت کا کوئی بھی دھڑا ان نظریات کی نمائندگی نہیں کرتاجن کے ذریعے آزادی کے خواب کو حقیقت کا روپ دیا جا سکے۔ مسلح جدوجہد کے طریقہ کار کا بھی حتمی مقصد یہ ہے کہ کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے پر بھارت اور پاکستان(دونوں قابض ممالک) کو مجبور کیا جائے۔ بھارت اور پاکستان کے حکمران طبقات کا غیر ارادی طور پرخود پیدا کردہ یہ ایسا مسئلہ ہے جس کو وہ حل کرنا بھی چاہیں تو کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ نہ تو جنگ کے ذریعے اور نہ ہی مذاکرات کے ذریعے۔ دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ ان دونوں ریاستوں کے حکمران اگر اس مسئلے کے کسی حل کی طرف جاتے بھی ہیں (جو ناممکن بات ہے)تو وہ حل محکوم کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق نہیں ہو سکتا بلکہ وہ ان سامراجی ریاستوں کے سامراجی مقاصد کے پیش نظر ہی ہوگا۔ کشمیر کا واحد حل اس خطے کے محنت کشوں اور عوام کی ہر قسم کے سامراجی و طبقاتی جبر، غلامی اور سرمایہ دارانہ استحصال اور لوٹ مار سے مکمل نجات ہے جو اس زوال پذیر سرمایہ داری نظام کے اندر رہتے ہوئے ممکن نہیں۔ کشمیری نوجوانوں کو یہ سمجھنا ہو گا کہ مسلح جدوجہد کا طریقہ کار تاریخی طور پر ایک محدود اور غلط طریقہ کار ہے جس کے ذریعے آزادی کی منزل کا حصول ممکن نہیں بلکہ مسلح جدوجہد کی ہر کارروائی زیادہ وحشیانہ ریاستی جبر کو جواز فراہم کرتی ہے۔ آزادی کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ ان قابض سامراجی ریاستوں کو اکھاڑ پھینکا جائے جو اس خطے میں ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کر کے ہی ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ اور سوشلسٹ انقلاب طبقاتی بنیادوں پر محنت کش طبقے کے اتحاد اور جدوجہد کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ کشمیر کے نوجوانوں اور محنت کشوں کی نجات کا بھی یہی واحد راستہ ہے جو انہیں جلد یا بدیر اپنانا ہی ہو گا۔

Comments are closed.