ایران جنگ: ”دیوتا جنہیں برباد کرنا چاہیں، انہیں پہلے پاگل کر دیتے ہیں“

|تحریر: ایلن ووڈز، ترجمہ: ولید خان|

یہ تحریر لکھتے وقت پوری دنیا کی توجہ کا مرکز ایک شخص ہے۔ اس کا ہر لفظ حیران کن تفصیل سے اس امید پر پرکھا، تولا اور تجزیہ کیا جا رہا ہے کہ کچھ سمجھ لگے اس کے کچھ معنی ہیں بھی یا نہیں۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

ان خود ساختہ ماہرین کو دیکھ کر پرانی دنیا کے نجومی یاد آ جاتے ہیں جو اسی توجہ کے ساتھ مردہ جانوروں کی آنتوں کا تجزیہ کیا کرتے تھے تاکہ مستقبل کی پیش گوئی کر سکیں۔

صد افسوس! قیا س کی سائنس میں اس وقت سے آج تک کوئی ترقی نہیں ہو سکی ہے۔

کل راکی پہاڑیوں (Rocky Mountains) میں جاری G7 اقوام کی میٹنگ سے جس لمحہ ڈونلڈ جے ٹرمپ طوفانی تیزی سے نکلا، پوری دنیا کے یہ معزز نام نہاد حکمران، حیران و پریشان رہ گئے، اس وقت سے اب تک ہمیں کچھ پتا نہیں چل رہا کہ امریکی صدر کیا سوچ رہا ہے یا کیا کر رہا ہے۔

اس لمحے پر ہمیں مارکسزم کی سائنس سے رجوع کرنا پڑے گا تاکہ اس وقت جو کچھ دنیا میں ہو رہا ہے اس کا کچھ سر پیر نکال سکیں۔ کیونکہ عظیم تاریخی واقعات کو بنانے میں افراد کی سمجھ بوجھ یا اقدامات جتنے بھی اہم ہوں (اور جو کسی بھی لمحے میں فیصلہ کن حیثیت اختیار کر سکتے ہیں)، یہ کبھی بھی اپنے آپ میں کچھ بھی سمجھنے میں کافی نہیں ہوتے ہیں۔

ان انفرادی اقدامات کو عمومی صورتحال کے حوالے سے جانچنا لازم ہوتا ہے۔ اس نکتہ نظر سے میں آپ کی توجہ ایک سال سے کم عرصہ پہلے مشرق وسطیٰ پر لکھی گئی اپنی ایک تحریر پر دلانا چاہتا ہوں:

”مشرق وسطیٰ میں صورتحال بارودی سرنگوں کا میدان ہے جو کسی بھی وجہ سے کسی وسیع اور خوفناک تباہی میں تبدیل ہونے کو تیار ہے۔ اس ڈرامے میں تمام شرکاء اپنا کردار ایک مخصوص قسم کی اندھی قسمت پرستی کے تحت ادا کر رہے ہیں جو اگلا قدم بتانے سے قاصر ہیں۔ وہ روبوٹس کی طرح خوفناک اٹل انداز میں بڑھ رہے ہیں جن کی پروگرامنگ ایسے انداز میں ہوئی ہے جس کی انہیں کوئی سمجھ نہیں ہے اور کنٹرول تو بہت دور کی بات ہے۔“

کسی بھی جنگ کاتجزیہ کرنے سے پہلے متحارب قوتوں کے جنگی اہداف کا تعین کرنا لازم ہے۔ اسرائیلیوں کے جنگی عزائم کا تجزیہ کرنا مسئلہ نہیں ہے۔ میں نے پچھلے مضامین میں بھی بیان کیا ہے کہ نتن یاہو ایران کے ساتھ جنگ میں امریکیوں کو گھسیٹنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے اور اس کے موجودہ اقدامات اس ہدف کا ہی نتیجہ ہیں۔

اسرائیل کے وزیراعظم کے لیفٹ ونگ ناقدین اسے درست طور پر ایک جنگی مجرم کہتے ہیں جس کے ہاتھ ان گنت معصوموں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ لوگ اسے ایک ایسا قاتل بھی قرار دیتے ہیں جو پاگل پن کا شکار اور نفسیاتی مریض ہے جس کے ہر قدم کا تعین خوفناک نفرت اور خون کی پیاس میں ڈوبا ہوا ہے، یہ درست نہیں۔

درحقیقت نتن یاہو کا کوئی بھی قدم غیر منطقی نہیں ہے۔ اس کے اندر اندھی نفرت یا کسی اور غیر منطقی جذبے کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ اس کا تمام حساب کتاب بالکل منطقی ہے۔

مندرجہ بالا مضمون میں لکھا تھا کہ:

”نیتن یاہو ایک سفاک اور موٹی چمڑی والا سیاست دان ہے جس کا ماضی غیر اصولی چالبازیوں اور کرپشن سے بھرا پڑا ہے۔ اس کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر غزہ میں جنگ ختم ہوتی ہے تو وہ اقتدار کھو دے گا اور جیل اس کا مقدر ہو گی۔ ظاہر ہے کہ اسے اپنے سیاسی کیریئر کے خاتمے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ایک اسرائیلی جیل میں طویل قیام میں تو اور بھی کم دلچسپی ہے۔

”اپنی ساکھ کی کچھ بحالی کی اسے ایک ہی امید ہے کہ اپنے آپ کو ایک مضبوط قائد بنا کر پیش کرے، ایک جنگی قائد۔ لیکن ظاہر ہے کہ ایک جنگی قائد کو قیادت کرنے کے لیے ایک جنگ چاہیے۔ اب یہاں سے معاملہ سمجھنا زیادہ مشکل نہیں ہے، اس سے نکلنے والا نتیجہ فوری طور پر واضح ہو جاتا ہے۔

”اسے اسرائیلی عوام کو قائل کرنا ہے کہ انہیں بیرونی دشمنوں کے ہاتھوں زندگی موت کا مسئلہ درپیش ہے اور ان دشمنوں سے طاقت کے ذریعے ہی نمٹا جا سکتا ہے کیونکہ انہیں یہی ایک زبان سمجھ میں آتی ہے۔“

کوئی شک نہیں کہ یہ ذاتی مسائل نیتن یاہو کے لیے سرفہرست ہیں جسے گھر میں کافی سنجیدہ مسائل کا سامنا ہے۔ ان مسائل کو دبانے کا بہترین طریقہ کار ایک بیرونی عسکری مہم جوئی تھی جس نے اسے موقع فراہم کیا کہ وہ عوام میں ایک ”عظیم جنگی قائد“ کا ڈرامہ رچا سکے۔

میرا حتمی تجزیہ یہی تھا کہ، ”نیتن یاہو ایران کے ساتھ جنگ کا متلاشی ہے جو پورے خطے میں ایک وسیع جنگ کو جنم دے گی، جس میں امریکہ سمیت دیگر طاقتیں بھی گھسیٹی جائیں گی۔ یہی اس کا مقصد ہے اور اس مقصد سے اسے کوئی فرد یا چیز ہٹا نہیں سکتے۔“

میں نے یہ تحریر 2 اگست 2024ء میں ایک مضمون ”مشرق وسطیٰ: جنگ کے دہانے پر، ایک کمیونسٹ تجزیہ“ میں لکھی تھی۔ تقریباً 12 مہینوں بعد مجھے کوئی ایک سطر تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

واقعات بتا رہے ہیں کہ یہ 100 فیصد درست ہے۔ ایک مرتبہ ہم نے یہ حقیقت واضح کر لی تو پھر موجودہ صورتحال کا جوہر اور وجوہات جاننا آسان ہے۔

ہیرو اور وِلن

ہر ڈرامے کی طرح یہاں بھی ہیرو اور ولن موجود ہیں۔ ہر جنگ کی طرح، اس جنگ میں بھی اچھائی کی قوتیں بدی کی قوتوں سے نبرد آزما ہیں۔ ہمارے شاندار پریس نے کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر اسرائیل کو امن، انصاف اور جمہوریت کا ہیرو اور محافظ بنا کر پیش کیا جبکہ ایران کو، پوری دنیا میں نہیں تو کم از کم مشرق وسطیٰ کے اندر تمام برائیوں کی جڑ کے توڑ پر پیش کیا ہے۔

لیکن حتمی طور پر یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ دونوں قوتیں، جو بظاہر جدا اور ایک دوسرے کی حریف ہیں، ایک عالمی تباہی و بربادی پیدا کرنے کی سازش کر رہی ہیں۔

جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہمیں ایرانی ریاست کے رجعتی کردار کے حوالے سے کسی قسم کی کوئی غلط فہمی نہیں ہے۔ لیکن اعلانیہ جنگی مجرم، غزہ کا قصائی بنیامین نیتن یاہو، کو دنیا میں امن کا داعی بنا کر پیش کرنا عقل کو مات دینے کی کوشش کی انتہاء ہے۔

یہ ساری صورتحال غزہ کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ بیچارہ، خون رستا، چکنا چور غزہ جسے اسرائیلی فوج نے ملیا میٹ کر دیا ہے۔ لیکن آج تک اسرائیلی اپنے اعلانیہ جنگی اہداف حاصل نہیں کر سکے۔ مغوی بازیاب نہیں ہوئے اور حماس کو مکمل طور پر تباہ و برباد نہیں کیا جا سکا۔ میں نے تقریباً ایک سال پہلے اگست 2024ء میں اس بات کی وضاحت کی تھی کہ:

”ہم دیکھ رہے ہیں کہ غزہ کی جنگ ایک دلدل بن چکی ہے۔ پورا علاقہ نیست و نابود کرنے کے بعد اسرائیلی فوج کے پاس اب کوئی اہداف نہیں بچے ہیں۔ کچھ جرنیلوں نے بھی صورتحا ل کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

لہٰذا، بی بی کو اب کچھ اور سوچنا پڑے گا۔

اس کی شدید خواہش ہے کہ کسی طرح امریکی فوج خطے کی ایک وسیع جنگ میں ملوث ہو جائے، ایک ایسی جنگ جس میں امریکہ اور اس کے اتحادی کھلم کھلا اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہونے پر مجبور ہو جائیں۔ اس لیے نیتن یاہو ایک ایسی علاقائی جنگ چھیڑنے کی کوشش کر رہا ہے جس میں امریکہ براہ راست اسرائیل کی جانب سے ملوث ہونے پر مجبور ہو جائے۔

اس کام کے لیے اس نے جس دشمن کا انتخاب کیا ہے، وہ کوئی اور نہیں، ایران ہے۔“

اسرائیلیوں نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ کسی طرح ایران کو کوئی قدم اٹھانے پر مجبور کریں۔ میں نے پچھلے سال لکھا تھا کہ:

”اسرائیلیوں نے مسلسل اشتعال انگیزی کا ایک پروگرام بنا رکھا ہے جس کا مقصد ایران کو جنگ میں گھسیٹنا ہے۔ 1 اپریل (2024ء) کو دمشق میں ایرانی سفارت خانے کے کونسلر سیکشن پر ایک اسرائیلی حملے نے سات ایرانی مار دیے تھے، جن میں دو تجربہ کار کمانڈر بھی شامل تھے۔

امریکی اتحادیوں نے فوراً یک زبان ہو کر ایران پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا کہ وہ ’ضبط“ کا مظاہرہ کرے۔ کیا یہ عجیب نہیں کہ اسرائیل کے برعکس ہمیشہ ایران کو ہی ’ضبط‘ کرنے کا کہا جاتا ہے۔ لیکن یہی وہ نصیحت ہے جس کی اسرائیل کو ضرورت ہے۔“

اب تاریخ ایک مرتبہ پھر اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔

نیتن یاہو کی حکمت عملی

یہ بالکل واضح ہے کہ جارحانہ قدم اٹھانے کے لیے ضرروی ہے کہ جارح ستم رسیدہ ہونے کا ڈرامہ رچائے۔ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ دکھائے۔

نتن یاہو کو اپنی بڑھتی بدنامی سے توجہ ہٹانے کے لیے ایک بیرونی دشمن کی نشاندہی کرنی تھی، جو اس سے بھی زیادہ بدنام ہو۔ اس لیے اس نے اسرائیلی حکمران طبقے کی جانب سے دہائیوں میں پروان چڑھنے والے ایران سے خوف کو انتہائی مہارت کے ساتھ ہیجانی کیفیت میں بدل دیا۔ جو اب مجتمع ہو کر ایک ایرانی جوہری بم کے نام نہا دخطرے کا سوال بن گیا تھا۔

سب سے زیادہ معلومات یافتہ ذرائع جن میں امریکہ بھی شامل ہے، یہ نتیجہ اخذ کر چکے ہیں کہ قلیل مدت میں ایران کے لیے اس طرح کا کوئی بھی ہتھیار بنانے کی دھمکی قابل عمل نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ ایرانیوں کے پاس وہ تمام وسائل موجود ہیں جن کے ذریعے حتمی طور پر وہ اپنے جوہری ہتھیار بنا سکتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں جیسے نیتن یاہو کہہ رہا ہے کہ اسرائیل کو ”ایک حقیقی اور موجودہ خطرہ“ لاحق ہے۔

اس کے برعکس، امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے واضح کر دیا ہے کہ ایران کم از کم اگلے تین سال تو جوہری ہتھیار حاصل نہیں کر سکتا۔ جنگی جنون کے طبل میں مسلسل اضافے اور پھیلاؤ میں یہ سب فراموش کر دیا گیا ہے۔

واشنگٹن کا نکتہ نظر

سب سے پہلے تو یہ واضح ہونا چاہیے کہ مشرق وسطیٰ میں ایک عمومی جنگ کا امریکہ کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس کے امریکہ سمیت پوری عالمی معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے جو پہلے ہی ایک معاشی بحران کے دہانے پر کھڑی ہے۔

پھر امریکہ کے مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں فوجی اڈے قائم ہیں جن پر حملہ ہو سکتا ہے، جن کے ساتھ اس کے خطے میں کئی معاشی اور کاروباری مفادات بھی وابستہ ہیں۔

جو بائیڈن اور اس کا جنگی جنونی ٹولہ بھی اس بات کو سمجھتا تھا اور اس لیے ایران پر نیتن یاہو کو گرین سگنل دینے سے مسلسل کتراتا رہا۔ انہوں نے یہ زہریلا فیصلہ ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے چھوڑ دیا۔

جہاں تک ٹرمپ کا تعلق ہے تو وہ واضح طور پر ایران کے ساتھ جنگ کے حق میں نہیں ہے۔ اس کی ایک وجہ تو اس کا انفرادی مؤقف ہے کہ وہ کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتا اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ کوئی ایسا معاہدہ ہو جائے جس میں اسے جیتنے کی امید نظر آتی ہو۔

زیادہ اہم معاملہ یہ ہے کہ اس کی پوری انتخابی مہم بیرونی جنگوں میں امریکہ کی شمولیت کے خلاف پلیٹ فارم پر تھی۔

یاد رہے کہ اس نے یوکرین میں امریکہ کی مداخلت کو 24 گھنٹوں میں ختم کرنے کا اعلان کر رکھا تھا۔ ابھی تک یہ ہدف پورا نہیں ہو سکا ہے۔ لیکن اس نے امریکہ کو یوکرینی دلدل سے نکالنے کا ہدف ابھی تک ترک نہیں کیا ہے۔

نتن یاہو کی جانب سے مسلسل مطالبوں کے باوجود اس نے ثابت قدمی سے ایران پر حملے کے لیے گرین سگنل دینے سے انکار کر رکھا ہے اور اس کے برعکس مذاکرات کے ذریعے ایرانی جوہری پالیسی کا مسئلہ حل کرنے پر زور دیا ہے۔

درحقیقت اسرائیلیوں کے حملے سے پہلے ایرانیوں کے ساتھ مذاکرات جاری تھے۔ ایران پر حملہ 15 جون، اتوار کے دن مذاکرات کے چھٹے دور سے چند دن پہلے ہوا ہے۔ اس لیے ان حملوں کا واضح مقصد مذاکرات کو سبوتاژ کرنا تھا۔

امریکہ کی تردید

ایرانی قیادت نے شدید غصے میں امریکیوں پر منافقت کا الزام لگایا ہے کہ مذاکرات کے پیچھے سفاکی سے چھپتے ہوئے انہوں نے خفیہ طور پر اسرائیلیوں کو جارحیت کی اجازت دی ہے۔

جواب میں امریکیوں نے گرمجوشی سے اس بات کی تردید کی ہے کہ ان کا اس حملے میں کوئی کردار تھا۔ لیکن اس تردید کا آیت اللہ یا ایران کی زیادہ تر آبادی پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔

ایک طرف تو ٹرمپ نے انتہائی بیوقوفی سے یہ چھپانے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی کہ اسرائیلیوں نے اسے حملے سے پہلے خبردار کر رکھا تھا۔ اس حقیقت کو ہر جگہ اس طرح جانا گیا کہ اس نے نتن یاہو کو گرین سگنل دے رکھا تھا جس سے ابھی تک وہ انکاری تھا۔

اگر امریکی پہلے سے اسرائیلی منصوبوں سے آگاہ تھے تو پھر کوئی بیوقوف ہی ہو گا جو یہ سمجھے کہ ان کا کوئی کردار نہیں تھا، چاہے اس حملے میں اس کا کردار کتنا ہی بلا واسطہ کیوں نہ ہو۔ سیٹلائٹ معلومات اور دیگر انٹیلی جنس کی فراہمی ہی اس آپریشن میں کلیدی کردار کی حامل تھی۔

یہ کوئی راز نہیں ہے کہ اسرائیل کے کئی وفادار ملازمین امریکہ میں طاقت کی کرسیوں پر براجمان ہیں؛ ریاستی محکمے میں، پینٹاگون، مستقل غیر منتخب افسر شاہی کے اندر بھی، وائٹ ہاؤس میں کوئی بھی موجود ہو، یہ اپنی جگہ قائم و دائم رہتے ہیں۔ پھر خود حکومت میں بھی کلیدی پوزیشن پر اس کے کئی حامی موجود ہیں۔

یہ تمام طاقتور قوتیں حملے کے لیے متحرک ہو چکی ہیں جو صدر پر بے پناہ دباؤ ڈالیں گی جس نے اسرائیل کے لیے اپنی حمایت کو کبھی نہیں چھپایا۔ ٹرمپ بہت جذباتی ہے اور اس کے موڈ کی تبدیلی کا کچھ پتا نہیں لگتا جو دوسرے ہی لمحے میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

ٹرمپ رویہ بدلتا ہے

اگرچہ ٹرمپ ہر جملے میں کہتا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ جنگ کی بجائے ایک معاہدہ کرنا چاہتا ہے لیکن اس نے خود ایران کے ساتھ موجودہ مذاکرات کو سبوتاژ کیا ہے۔

اس وقت ایرانیوں کو جو پیشکش کی جا رہی ہے وہ جوہری ہتھیاروں کو ترک کرنے کے ابتدائی مطالبے سے بہت زیادہ ہے۔ درحقیقت ایرانیوں سے اب مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اپنا پورا جوہری پروگرام بند کر کے جوہری افزودگی کو ہی ختم کر دیا جائے، چاہے یہ کام امن کے لیے ہو یا جنگ کے لیے۔

ظاہر ہے کہ کوئی بھی ایرانی حکومت کبھی بھی یہ اشتعال انگیز مطالبات نہیں مانے گی جو واضح طور پر ایرانی قومی ریاست کی خودمختاری کے خلاف ہے۔

یہ واضح ہے کہ اس پیشکش پر ایران کی نامنظوری سے وائٹ ہاؤس کا باسی تنگ آ چکا ہے اور اس لیے وہ طاقتور اسرائیلی لابیوں کی دلیلوں پر زیادہ کان دھرنا شروع ہو گیا ہے کہ تہران کے رہائشی صرف طاقت کی زبان ہی سمجھتے ہیں۔

یہ بات کسی کے بھی ذہن میں آ سکتی ہے کہ غصیلے ٹرمپ نے نیتن یاہو کو کہا کہ وہ ایرانیوں کی ”ڈھٹائی“ سے تنگ آ چکا ہے، لہٰذا اسرائیلی ایرانیوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے جو چاہیں کر سکتے ہیں۔

ٹرمپ نے نیتن یاہو کو جو کہا، وہ ریکارڈ پر تو موجود نہیں ہے۔ لیکن اس نے جو بھی کہا، اسرائیل کے وزیراعظم کو یہ یقین ہو گیا کہ وہ واشنگٹن سے جس گرین سگنل کے لیے بے صبری سے انتظار کر رہا تھا، اسے مل چکا ہے۔

ایک مرتبہ یہ قدم اٹھ گیا تو واقعات بجلی کی رفتار سے بڑھنا شروع ہو گئے۔ یہ زیادہ حیران کن نہیں ہے کیونکہ اس کی تمام تیاریاں عرصہ دراز پہلے ہی مکمل کر لی گئی تھیں۔

ایک خطرناک چال

صدر ٹرمپ کینیڈا میں عالمی وزراء کے ساتھ ایک مختصر میٹنگ کے بعد پیر کو رات گئے واشنگٹن واپس پہنچا۔ اس نے پہلے ہی اپنے اتحادیوں سے اس بات کا شکوہ کیا تھا کہ انہوں نے بغیر کسی وجہ کے ولادیمیر پیوٹن کو میٹنگ سے نکالا ہوا ہے۔

اگرچہ ٹرمپ اعلانیہ ”اشتعال انگیزی کو ختم“ کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے لیکن اس کے ساتھ وہ مسلسل اسرائیلی جارحیت کی حمایت بھی کر رہا ہے۔ حتمی طور پر عمل ہمیشہ لفاظی پر بھاری ہوتا ہے۔ یقیناً امریکی بحریہ نے ٹرمپ کے احکامات پر ہی ایک دوسرا کیریئر سٹرائیک گروپ مشرق وسطیٰ بھیجا ہے۔

پریس رپورٹس کے مطابق ائرکرافٹ کیریئرر یو ایس ایس نیمیتز (USS Nimitz)، نو فضائی سکواڈرن اور ایک ایسکورٹ فورس جس میں پانچ ڈسٹرائر شامل ہیں، جنوبی چائینہ سمندر سے یو ایس ایس کارل ونسن (USS Carl Vinson) سٹرائک گروپ کے ساتھ بحیرہ عرب میں شامل ہو رہا ہے۔

اگر واشنگٹن اس کو ”اشتعال انگیزی ختم کرنا“ کہہ رہا ہے تو یہ سوال تو بنتا ہے کہ پھر اصل اشتعال انگیزی کیا ہے!

شاید اس کی یہ کوشش ہے کہ اس طرح سے ایران کو امریکی فوجی اڈوں پر حملہ کرنے سے باز رکھا جا سکے گا۔ لیکن یہ انتہائی خطرناک قدم ہے اور اس کے غیر متوقع خطرات موجود ہیں۔

ایران کے اتنے قریب امریکی فوج کی اتنی دیوہیکل تعداد کی موجودگی کو صرف اشتعال انگیزی کے زمرے میں ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک مرتبہ یہ قوتیں مشرقی بحیرہ روم، خلیج فارس یا بحیرہ احمر میں تعینات ہو گئیں تو پھر ان کو استعمال کرنے کا دباؤ شدید ہو جائے گا اور ایک سنجیدہ لڑائی کا خطرہ مزید بڑھ جائے گا۔

اگر امریکہ جنگ میں شامل ہوتا ہے تو پورے مشرق وسطیٰ میں امریکیوں پر حملوں کا خطرہ شدید ہو جائے گا اور ائرکرافٹ کیریئرز کی موجودگی ان کو کوئی تحفظ فراہم نہیں کر سکے گی۔

مشرق وسطیٰ میں مختلف فوجی اڈوں میں 40 ہزار سے زیادہ فوجی تعینات ہیں جو ممکنہ طور پر ایرانی کی جوابی کاروائی کا شکار بن سکتے ہیں۔

عالمی اثرات

اس طرح کا کوئی بھی قدم سنجیدہ عالمی اثرات مرتب کرے گا۔ اب اس بحث مباحثے میں میرے سامنے ایک سوال ہے کہ حال ہی میں ڈونلڈ ٹرمپ اور ولادیمیر پیوٹن کے درمیان ایک فون کال پر بات چیت ہوئی ہے اور اطلاعات ہیں کہ یہ کال پیوٹن کی درخواست پر ہوئی تھی۔

یہ جاننا تو ناممکن ہے کہ اس بات چیت میں کیا موضوعات زیر بحث تھے کیونکہ اس کا متن عوام کے سامنے نہیں رکھا گیا ہے۔ لیکن یہ واضح ہے کہ روس کے وزیراعظم نے سخت ترین الفاظ میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا ہو گا کہ ایران اسرائیل جنگ میں امریکی فوجی مداخلت کے انتہائی سنجیدہ اثرات ہوں گے۔

ہمیں ذہن میں رکھنا چاہیے کہ 21 اپریل 2025ء کو ولادیمیر پیوٹن نے ایران کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے جس میں دونوں قوموں نے ایک وسیع تزویراتی اشتراک پر دستخط کیے ہیں۔

عجب معاملہ یہ ہے کہ اس معاہدے کی راہ بھی خود امریکہ نے ہموار کی ہے کیونکہ روس اور ایران دونوں پر شدید پابندیاں امریکہ نے ہی لگائی ہوئی ہیں۔ اس وجہ سے روس ایران کا ایک کلیدی تجارتی حلیف بن چکا ہے کیونکہ روس کے پاس بھی تیل کے دیوہیکل ذخائر موجود ہیں۔

اس وقت روس اور ایران کے درمیان ایک گہرا معاشی اور عسکری اتحاد موجود ہے اور دونوں ممالک پر زیادہ تر مغربی ممالک نے سخت پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ اس کا یقینی مطلب ہے کہ ایران پر کوئی بھی عسکری خطرہ روس کو کوئی بھی قدم اٹھانے پر مجبور کر سکتا ہے، اس حوالے سے پیوٹن نے ٹرمپ کو واضح کیا ہو گا۔

یقینا یہ الفاظ ٹرمپ کے ذہن میں موجود ہوں گے کیونکہ اس وقت سے مسلسل پرانتشار خیالات کا اظہار ہو رہا ہے۔ روس کے ساتھ ایک اعلانیہ جنگ اور پھر یقینا اس میں چین بھی شامل ہو جائے گا، اس خیال نے ٹرمپ کو کافی شش و پنج میں مبتلا رکھا ہوا ہے۔

لیکن ایک طرف وائٹ ہاؤس کا رہائشی پسپائی اختیار کر رہا تھا تو دوسری طرف اس کا لندن میں دوست ایک مرتبہ پھر متحرک ہو رہا تھا۔

گھر پر بے تحاشہ مسائل اور شدید بدنامی سے اس کا ابھی دل نہیں بھرا ہے اس لیے سٹارمر اب کسی طرح اندر گھس کر مشرق وسطیٰ میں ”اشتعال انگیزی ختم کرنے“ کی کوشش کر رہا ہے۔

سٹارمر صورتحال میں ”اشتعال انگیزی“ کیسے ختم کرے گا؟ اس نے اس کام کے لیے خطے میں برطانوی جنگی ہوائی جہاز اور ری فیولنگ جہاز بھیج دیے ہیں! اس کا ایسا کرنا کیوں ضروری تھا، ہمیں نہیں معلوم کیونکہ برطانوی وزیر اعظم کے لب سلے ہوئے ہیں۔

لیکن یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ وہ انہیں وہی کچھ کرنے کا کہے گا جو وائٹ ہاؤس میں اس کا مالک حکم دے گا۔ ظاہر ہے کہ یہی ”خاص تعلق“ ہے، ایک آقا اور غلام کا تعلق۔

لیکن ظاہر ہے کہ برطانوی کیریئرز اور امریکی سپر کیریئرز کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ لیکن اس پر جتنی کم بات کی جائے اتنا بہتر ہے۔ نپولین کے الفاظ میں ”شاندار سے مضحکہ خیز تک ایک ہی قدم درکار ہے“۔

متضاد پیغامات

ہمیشہ کی طرح ٹرمپ اپنی ہی نفی کر رہا ہے۔

پیوٹن کے ساتھ حالیہ فون کال میں روس کے وزیراعظم نے ایران اور اسرائیل کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی ہے۔ اس پیشکش سے G7 میٹنگ میں مغربی قائدین کو دل کا دورہ پڑ گیا۔

ٹرمپ نے واضح کر رکھا ہے کہ وہ ذاتی طور پر پیوٹن کے کسی ایسے کردار کا مخالف نہیں ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ وائٹ ہاؤس کا رہائشی ایک دوسرے کی جانی دشمن دو ریاستوں کے درمیان ثالثی کرنے کی سر دردی سے بچ جائے گا، جن کا جنگ ختم کرنے کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔

سب کو معلوم ہے کہ صرف ایک شخص کی بات پر اسرائیلی کان دھرتے ہیں اور اس شخص کا نام ڈونلڈ ٹرمپ ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ صدر میکرون ہیجان کے اس درجے پر پہنچ گیا ہے جو مضر صحت ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کے غصے کا اظہار ہمیشہ اس دعوے سے ہوتا ہے کہ وہی اور صرف وہی ایک ”ایماندار عالمی ثالث“ کا کردار ادا کر سکتا ہے۔

یہ مکمل یقین میکرون کو اس حقیقت سے اندھا کر دیتا ہے کہ آج اس کی یہ اوقات ہو چکی ہے کہ کوئی اسے بازار آدھا کلو دہی لینے نہ بھیجے!

جب ٹرمپ درمیان میں میٹنگ چھوڑ کر نکل گیا تومیکرون نے بیوقوفی کا بہترین مظاہرہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ مشرق وسطیٰ میں جنگ بندی کروانے نکل گیا ہے۔ ٹرمپ نے غصے سے فرانسیسی صدر کو ذلیل کیا کہ وہ ”مقبولیت کا پیاسا صدر ایمانویل میکرون ہے“ جو ”ہمیشہ غلط ثابت ہوتا ہے!“

اس نے کہا کہ اس کا جنگ بندی کرانے یا مذاکرات کرنے کا کوئی پروگرام نہیں ہے اور وہ صرف یہ چاہتا ہے کہ ایران غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دے۔

اس لیے ہمیں ٹرمپ کی حکمت عملی کے قائدانہ عناصر کا تجزیہ کرتے ہوئے کوئی رائے قائم کرنی چاہیے، شرط یہ ہے کہ اس میں ایسا کچھ ہے۔ اور یہی تو واضح نہیں ہے!

امریکہ کا بدلتا کردار

اگر کوئی ایک غلطی کرتا ہے تو ایک منطقی انسان اپنا راستہ تبدیل کرنے کا فیصلہ کرے گا تاکہ دوبارہ ایسی غلطی نہ ہو۔ یہ خیال کہ اگر ایک غلطی ہو گئی ہے اور نتیجہ ناکامی ہے، اور سمجھ یہ آئی ہے کہ دوبارہ وہی غلطی دوہراتے جاؤ تاکہ اس کے اچھے نتائج نکلیں تو یہ منطقی سوچ کا نہیں، بلکہ پاگل پن کا نتیجہ ہے۔

آج کل مغرب میں اسی کو تزویراتی سوچ کہا جاتا ہے۔ یوکرین کے حوالے سے امریکہ اور یورپ کے جنگی جنونیوں نے یہی کام کیا اور اب امریکہ کو ایران کے حوالے سے یہی کام کرنے کی دعوت دی جا رہی ہے!

اگرچہ دنیا پر حکمرانی کرنے والے کینڈین راکی پہاڑوں میں موجود خواتین و حضرات کی موٹی کھوپڑی میں یہ بات گھس نہیں پائی ہے کہ بائیڈن اور اس کے جنگی جنونی ٹولے کے جانے کے بعد دنیا بہت بدل چکی ہے۔

دنیا کی طاقتور ترین سامراجی قوت امریکہ ہے لیکن یہ طاقت لامحدود نہیں ہے اور اب واضح طور پر انحطاط کا شکار ہے۔ چین جیسے معاشی جن اور ایک بحال ہوتے پُر اعتماد روس کے سامنے اب امریکہ کے لیے دنیا میں بدمعاشی کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

میدان جنگ میں اپنے دشمن کو کمزور سمجھنا مہلک ثابت ہوتا ہے۔ بہتر ہے کہ اندھا دھند میدان جنگ میں اترنے کی بجائے اس کی قوتوں کو بہت زیادہ سمجھ کر تیاری کی جائے، بجائے اس کے کہ خوش فہمی میں اپنی موت واقعہ ہو جائے۔

جس احمقانہ غلطی نے امریکہ کو یوکرین کے ساتھ جنگ میں گھسیٹ لیا جہاں ایک شرمناک شکست کی تیاری ہو رہی ہے، اب وہی غلطی دوبارہ دوہرائی جا رہی ہے، جس کے زیادہ سنجیدہ نتائج ہوں گے۔

انہوں نے کبھی سوچا ہی نہیں کہ ہو سکتا ہے جس طرح سے وہ سوچ رہے ہوں، چیزیں ویسے نہ ہوں۔ اسی طرح ان کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ ایرانی میزائل نام نہاد ناقابل شکست اسرائیلی دفاعی حصار کو توڑتے ہوئے اسرائیل کے اندر اہداف کو نشانہ بنائیں گے۔

ابھی بھی وہ حقیقت سے مسلسل انکار کر رہے ہیں یعنی جوہری تنصیبات پر حملوں کا کوئی خاص نتیجہ نہیں نکل رہا۔

ایسے افراد کو میڈیا میں ذہین و فطین بلکہ غیر معمولی بنا کر پیش کیا جاتا ہے جن کی صرف تعریف و تکریم ہی لازم ہے۔ درحقیقت ان کو سب سے قریبی پاگل خانے میں جمع کرا دینا چاہیے جہاں وہ اپنے لیے اور نسانیت کے لیے کسی نقصان کا باعث نہ بنیں!

فاش غلطی

ریپبلیکنز کا سب سے رجعتی دھڑا اسرائیلی حکومت اور اس کے پروپیگنڈہ کی کھلی حمایت کر رہا ہے کہ تہران میں ریاست کو تبدیل کرنے کا یہی موقع ہے۔ نتن یاہو اور اس کے ٹولے کا حقیقی مقصد ایرانی جوہری صنعت کی تباہی نہیں بلکہ ریاست کی تبدیلی ہے۔

لیکن انہوں نے بہت فاش غلطی کر دی ہے۔ اگرچہ کئی ایرانی ریاست سے نفرت کرتے ہیں لیکن آیت اللہ سے نفرت کا یہ مطلب نہیں کہ وہ نیتن یاہو اور امریکہ کی حمایت کرتے ہیں! بلکہ یہ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔

امریکہ کی پشت پناہی کے ساتھ اسرائیل کی جارحیت ایرانی سماج کی اکثریت کو، بشمول ان کے جو ایرانی ریاست سے شدید نفرت کرتے ہیں، ایک بیرونی جارح کے خلاف حکومت کی حمایت پر مجبور کر دے گی۔

ایرانیوں کو جوہری سوال پر زیادہ ”متانت بھرا“ رویہ اپنانے کے بجائے کئی افراد، صرف حکومت میں ہی نہیں بلکہ گلیوں سڑکوں میں بھی، یہ نتیجہ اخذ کریں گے کہ امریکیوں سے بات کرنا وقت ضائع کرنا ہے اور ایران کا حقیقی دفاع جلد از جلد جوہری ہتھیاروں کے حصول میں ہی ممکن ہے۔

کیا اسرائیل کامیاب ہو چکا ہے؟

اس جنگ کے ابتدائی دنوں کا کیا نتیجہ نکلا ہے؟ فی الحال ایران پر ابتدائی حملوں کے نقصان کا درست تجزیہ کرنا ناممکن ہے۔ اسی طرح اسرائیل پر ایرانی حملوں کا بھی نقصان فی الحال سمجھا نہیں جا سکتا۔

ہمیشہ کی طرح جنگ کی دھند نے سب کچھ اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے جس کے بعد فی الحال حقیقت کا تعین کرنا شدید مشکل ہو چکا ہے۔ اس وقت اسرائیلی خوشی کے شادیانے بجا رہے ہیں۔ درحقیقت اگر شیخی بگھارنے اور دعوے کرنے کا کوئی نوبل انعام ہوتا تو یقینی طور پر سب سے پہلے انہیں دیا جاتا!

بدقسمتی سے جنگ میں بلند و بانگ دعوے وقت کے ساتھ جھوٹے ثابت ہو جاتے ہیں۔ اور ایرانی دفاعی نظام اور جوہری ہتھیار بنانے کی قابلیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کے اسرائیلی دعوے بھی اس کی ایک مثال ہیں۔

اسرائیل نے ابتداء میں دعویٰ کیا تھا کہ ایران کچھ عرصے تک مؤثر انداز میں کوئی جواب نہیں دے پائے گا لیکن یہ دعویٰ فوری طور پر جھوٹا ثابت ہو گیا تھا۔

کیا اسرائیلی حملہ ایرانی فضائی دفاع کو برباد کرنے میں کامیاب ہوا ہے؟ جواب ہے، ہاں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حملے سے پہلے ایک سائیبر حملہ ہوا تھا جس نے ایرانی فضائی دفاعی نظام کو کئی گھنٹے معطل کر دیا تھا جس کے نتیجے میں تہران اسرائیلی بمباری کے سامنے بے یار و مددگار ہو کر رہ گیا تھا۔

لیکن ایرانی اب دعویٰ کر رہے ہیں کہ انہوں نے اس مسئلے کو ٹھیک کرنا شروع کر دیا ہے اور ہم پیش گوئی کر سکتے ہیں کہ مستقبل میں اسرائیلی فضائی حملے نقصان کے بغیر نہیں ہوں گے۔

یقینا ایران کو قابل ذکر نقصانات اٹھانے پڑے ہیں۔ لیکن تباہی و بربادی کا پیمانہ یقینی طور پر شدید مبالغہ آرائی پر مبنی ہے۔

یہ اس وقت درست ثابت ہوا جب ایران نے فوری طور پر میزائلوں کی بوچھاڑ کر دی اور اسرائیلی دفاعی نظام مغلوب ہو گیا، اسرائیل نے ابتداء میں فوری طور پر ایسی کسی کاروائی کا امکان رد کر دیا تھا کیونکہ ان کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے ایرانی عسکری مشینری کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔

ایرانیوں نے فوری طور پر میزائلوں کی خوفناک بوچھاڑ کر دی، شائد کئی سو میزائل۔ اسرائیلی اہداف پر حملہ اتنی بڑی تعداد میں تھا کہ کچھ جگہوں پر شہرہ آفاق اسرائیل کا میزائل کش نظام ’ڈیوڈز سلینگ‘ (‘David’s Sling’) ناکام ہوتا نظر آیا۔

اسرائیلیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر میزائلوں کو مار گرایا گیا ہے۔ یقینا ایسا ہی ہے اور یہ کوئی حیران کن بات نہیں ہے۔ لیکن بہرحال کچھ میزائل آر پار ہوئے ہیں جنہوں نے اسرائیل کے میزائل کش نظام نام نہاد ٹھوس ”آئرن ڈوم“ (‘Iron Dome’) اور ”ڈیوڈز سلینگ“ (‘David’s Sling’) کی قلعی کھول دی ہے اور عسکری اور سویلین اہداف کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔

گارڈین اخبار نے رپورٹ دی ہے کہ:

”ایرانی میزائل اسرائیل کے شہر تل ابیب اور حیفہ پر برس رہے ہیں، گھروں کو تباہ کر رہے ہیں اور اس ہفتہ G7 میٹنگ میں موجود عالمی وزراء میں یہ پریشانی بڑھ رہی ہے کہ دو علاقائی دشمنوں میں جنگ مشرق وسطیٰ میں ایک وسیع جنگ کو جنم دے سکتی ہے۔“

ایک تصویر میں تل ابیب میں ایک گھر ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے اور ایک بہت بڑا گڑھا پڑ گیا ہے جو ان میزائلوں کی غیر معمولی تباہ کن صلاحیت کا عکاس ہے۔ اس ساری صورتحال نے اسرائیلی عوام کو جھنجھوڑ ڈالا ہے جسے مسلسل یہ دھوکہ دیا جاتا رہا کہ ان کا شاندار دفاعی نظام ان کی قیامت تک حفاظت کرتا رہے گا۔

پریشان رہائشی صدمے اور خوف کی کیفیت میں اپنے گھروں کو تباہ ہوتا دیکھتے ہوئے سوچ رہے ہیں کہ ”یہ غزہ جیسا ہے“۔

ایک رات میں آئرن ڈوم اور ڈیوڈز سلینگ اور اس طرح کے تمام فضائی دفاعی نظام جنہیں اسرائیل پچھلے تقریباً تیس سالوں سے تعمیر کر رہا تھا، 1991ء میں پہلی امریکہ اور عراق کی جنگ کے بعد ان کی ساکھ ملیا میٹ ہو چکی ہے۔

ایرانی میزائلوں نے جو کوئی بھی نقصان پہنچایا ہو لیکن ان کا سب سے زیادہ شدید اثر نفسیاتی ہے۔ لیکن عوام کی تکالیف سے نتن یاہو کو کوئی سروکار نہیں ہے جو ٹی وی پر روایتی سفاک پرسکون اعتماد اور آہنی عزم کے ساتھ نمودار ہوا اور اسرائیلی عوام سے وعدہ کیا کہ، ”تہران جل کر راکھ ہو جائے گا“۔ یعنی وہی پرانی بکواس۔

لیکن اس بظاہر اعتماد کے پیچھے نیتن یاہو پریشان ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اگر اس نے ایران پر فوری فتح حاصل نہ کی تو اسرائیل کے پاس کچھ زیادہ وقت نہیں بچے گا۔

اسرائیل مسلسل حملے کرتے ہوئے ایرانی حکومت اور ایرانی فوج کے سینئر نمائندوں کا سراغ لگا رہا ہے اور انہیں قتل کر رہا ہے جن میں ایرانی افسر شاہی کے سائنس دان بھی شامل ہیں۔

ایرانی بالسٹک (Ballistic) میزائل اور فضائی دفاعی پوزیشنیں بھی مسلسل نشانے پر ہیں۔ لیکن ابھی تک اسرائیل وہ فیصلہ کن وار نہیں کر سکا ہے جس کی امید میں جمعہ کے دن یہ آپریشن شروع کیا گیا تھا۔

اس دوران اسرائیل کے خلاف ایران کے حملے شدت اختیار کر رہے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ واضح طور پر دستبرداری کی اس جنگ میں ایران کا پلڑا بھاری ہوتا جائے گا۔

اسرائیل کا فضائی دفاعی نظام قلت کا شکار ہو رہا ہے اور ایک وقت آنے پر وہ دفاعی چھتری بھی فراہم نہیں ہو سکے گی جو اس وقت اسے دستیاب ہے۔

یہ سیدھا سادہ معاملہ ہے۔ ایک وقت میں کم از کم دو پیٹریاٹ (Patriot) میزائل درکار ہیں تاکہ ایک میزائل کو تباہ کیا جا سکے۔

ایران کئی سو میزائل داغ رہا ہے اور قیاس ہے کہ اس کے پاس مزید کئی ہزار میزائلوں کا ذخیرہ موجود ہے۔ اس کے برعکس اسرائیل کے پاس محدود پیٹریاٹ میزائل ہیں اور جس طرح وہ استعمال ہو رہے ہیں ان کا ذخیرہ تیزی سے ختم ہو جائے گا۔

اس لیے نیتن یاہو کو ایک فوری فتح درکار ہے۔ لیکن یہ واضح ہو رہا ہے کہ اس کی یہ خواہش پوری نہیں ہو گی،کم از کم جب تک امریکہ عملی طور پر اس جنگ میں نہیں کودتا۔

اسرائیل فوردو (Fordow) جوہری تنصیب کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا سکا ہے۔ اس نے ناتانز (Natanz) تنصیب کے گرد کچھ گڑھے ڈالے ہیں۔ اس لیے ایسا لگ رہا ہے کہ اسرائیل اپنے تین کلیدی اہداف حاصل نہیں کر سکے گا:

1: ایرانی حکومت کا خاتمہ۔

2: اسرائیل کے خلاف ایرانی میزائلوں کی روک تھام، حالانکہ اس کا دعویٰ ہے کہ ایک تہائی ایرانی لانچرز برباد ہو چکے ہیں۔

3: ایران کے جوہری پروگرام کو ناقابل تلافی نقصان یا ایک جوہری بم کی تیاری میں سنجیدہ تعطل۔

اس لیے وہ ٹرمپ کو بے تابی سے مسلسل کالیں کر رہا ہے کہ میری مدد کو پہنچو!

ٹرمپ کے لیے خطرات

اب ٹرمپ کی کیا پوزیشن ہے؟ یہ سوال خاصہ مشکل ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ کو خود سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کہاں جا رہا ہے یا کیا کر رہا ہے۔ یعنی ایک صحافی نے اس سے ایک سادہ سا سوال پوچھا کہ اس جنگ میں مداخلت کرو گے کہ نہیں، تو اس کا جواب تھا، ”ہو سکتا ہے، نہیں بھی ہو سکتا ہے“۔ قیاس یہی ہے کہ ابھی تک اس نے کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔

ایسا طریقہ کار نیو یارک ے ایک پراپرٹی ٹھیکے دار کے لیے کارآمد ہو گا۔ لیکن جب عالمی سفارت کاری کی پیچیدگیوں کا معاملہ ہو تو ان کی کوئی اوقات نہیں ہے۔ تجربیت کی بنیاد پر ردعمل واضح اور مستقل طریقہ کار کا متبادل نہیں ہے۔ لیکن اس حکومت میں اسی چیز کا فقدان ہے۔

حالیہ واقعات کے ردعمل نے واضح کر دیا ہے کہ سفارت کاری کے بنیادی طریقہ کار سے ٹرمپ کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔ سب سے پہلے تو اس نے فوری طور پر اسرائیل کے جارحانہ اقدامات کی مکمل حمایت کر دی، ایران پر ”ایک معاہدہ“ نہ کرنے کا الزام لگا دیا، اس سارے معاملے میں وہ بھول گیا، اگر ’دی گاڈ فادر‘ فلم کے ایک ڈائیلاگ کو ذرا بدل کر بات کی جائے، ”اس نے ایک ایسی پیشکش کی جسے قبول نہیں کیا جا سکتا تھا۔“

اسرائیل کی حمایت کی گرمجوشی میں وہ اتنا آگے چلا گیا کہ اس نے اس بلا اشتعال جارحانہ قدم کو ”شاندار“ قرار دے دیا۔ اس نے یہ بھی واضح کر دیا کہ اسے اس حملے کے بارے میں پہلے سے معلوم تھا۔

اس سب کے باوجود تھوڑی دیر بعد اس نے اعلان کر دیا کہ، ”امریکہ کو اس حملے کا کچھ پتا نہیں تھا اور اس میں کوئی کردار نہیں تھا“۔ یہ ایک ایسا انکار تھا جسے کوئی ذی شعور انسان قبول نہیں کرے گا۔

اس وقت سے وہ مسلسل متضاد بیان بازی کا پرانا کھیل چلا رہا ہے جس سے کوئی بھی مطلب نکالا جا سکتا ہے۔ ایک طرف اسرائیل کی مکمل حمایت۔ دوسری طرف جنگ کا اختتام، ”اشتعال انگیزی کا خاتمہ“ اور مذاکرات کا پھر سے آغاز وغیرہ۔

ایسے متضاد پیغامات ہمیشہ مسائل پیدا کرتے ہیں۔ لیکن ایک جنگی کیفیت میں یہ انتہائی خوفناک بن جاتے ہیں کیونکہ ان سے ایک یا دونوں متحارب قوتوں کو وہ اقدامات اٹھانے کا موقع مل جاتا ہے جو انتہائی خوفناک ثابت ہو سکتے ہیں۔

نیتن یاہو ٹرمپ کے حوالے سے اپنا خلفشار بالکل نہیں چھپا رہا۔ جمعے کے حملے کے بعد ٹرمپ نے تجویز دی کہ ایرانی ریاست کو ابھی بھی مذاکرات کے لیے قائل کیا جا سکتا ہے کہ ایرانیوں کو ”اب ایک معاہدہ کرنا پڑے گا، کیونکہ پھر کچھ نہیں بچے گا۔“

نیتن یاہو کو واشنگٹن سے ایسے الفاظ کی امید نہیں تھی۔ وہ دوبارہ مذاکرات یا کوئی معاہدہ نہیں چاہتا۔ اس کی خواہش ہے کہ جنگ کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ اس حوالے سے اس کو امید ہے کہ امریکہ اس کی حمایت میں جنگ میں کود پڑے گا۔ درحقیقت اس کا منصوبہ ہے کہ امریکہ اس کے لیے یہ جنگ لڑے گا!

یہ دہائیوں سے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی جانب سے مسلسل اجازتوں کا منطقی انجام ہے جنہوں نے تمام عالمی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے مسلسل اسرائیلی جرائم کی حمایت کی ہے۔ اب یہ بات اسرائیلی حکمران طبقے کے دماغ میں رچ بس چکی ہے کہ وہ جو مرضی کریں، امریکہ ان کا بِل ادا کرتا رہے گا۔

مسئلہ یہ ہے کہ نتن یاہو کے جنگی عزائم کا امریکی مفادات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ دی گارڈین اخبار نے درست نشاندہی کی ہے کہ: ”ایران پر حملہ اور مذاکرات کو برباد کر کے نتن یاہو نے ٹرمپ کو مات دے دی ہے اور اب اسرائیلی وزیراعظم امریکہ کو مشرق وسطیٰ میں ایک نئی جنگ میں گھسیٹ لے گا، جس پر ٹرمپ کا اصرار ہے کہ وہ ایسا نہیں چاہتا۔“

اخبار نے مزید لکھا کہ: ”جنوری میں اپنی حلف برداری تقریب میں ٹرمپ نے تقریر کرتے ہوئے خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ ایک ثالث ہو گا جو عالمی جنگیں ختم کرے گا جن میں یوکرین اور غزہ جنگیں شامل ہیں اور نئی جنگیں نہیں لڑی جائیں گی۔ اس نے کہا تھا کہ، ’میری سب سے فخریہ میراث امن پسند اور اتحادی ہونے کی ہو گی۔“

دوسری طرف ریپبلیکن سینیٹر لنڈسی گراہم (Lindsey Graham) جیسے جنگی جنونی شور مچا رہے ہیں کہ امریکہ کو اسرائیل کی حمایت کرنی چاہیے۔ بدمعاش اسرائیلی لابی کا تقریباً پاگل مبہوس الحواس کردار بن چکا ہے۔

اس کی ایک مناسب وجہ ہے۔ جن افراد نے نتن یاہو کے پروپیگنڈے پر یقین کر لیا تھا کہ ایرانی حکومت فوراً تاش کے پتوں کی طرح بکھر جائے گی، اب شدید خلفشار کا شکار ہیں۔

اس تمام شور شرابے کے پیچھے ایک اور جذبہ چھپا ہوا ہے، یعنی خوف۔

اسرائیلی حملے پر ٹرمپ کا پہلا اظہار انتہائی احمقانہ تھا۔ اس نے اس حملے کو ”شاندار“ کہا۔ اس طرح کے اعلانات سے ایرانی کبھی بھی امریکہ کو موجودہ جنگ میں معصوم تماشائی نہیں سمجھیں گے۔

پھر، ڈونلڈ ٹرمپ نے عجیب و غریب اور اپنے کردار سے الٹ خاموشی اختیار رکھی ہوئی ہے۔ اس پر قیاس ہو سکتا ہے کہ ایک مرتبہ پھر وائٹ ہاؤس کا رہائشی تذبذب کا شکار ہے۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہو سکتا ہے کہ حکومت میں اس وقت شدید تضادات موجود ہیں۔

قومی انٹیلی جنس (DNI) کی ڈائریکٹر تلسی گیبارڈ (Tulsi Gabbard) ٹرمپ سے بالکل متفق نہیں ہے۔

پھر زیادہ سنجیدہ مسئلہ یہ ہے کہ اس کے اپنے حامی اس کی باتوں اور حرکتوں پر شدید نالاں ہو رہے ہیں، یہاں تک کہ شدید غصہ پھیل رہا ہے۔ اس نے دیکھ لیا ہو گا کہ اس حوالے سے اس کی باتوں پر میگا (MAGA) تحریک بالکل خوش نہیں ہے۔ درحقیقت اس کی شدید مخالفت ہو رہی ہے اور اس میں صدر کے سب سے وفادار حامی پیش پیش ہیں۔

وہ اسے یاد دلا رہے ہیں کہ اس نے انتخابی مہم میں وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکہ کو کسی ’لامتناہی جنگ‘ میں نہیں گھسیٹے گا، چاہے وہ مشرق وسطیٰ ہو یا کوئی اور خطہ۔

”لامتناہی جنگیں نامنظور“

ٹرمپ نے اپنی MAGA حمایت سے وعدہ کیا تھا وہ مشرق وسطیٰ میں کوئی نئی نام نہاد ’لامتناہی جنگ‘ شروع نہیں کرے گا۔ اس لیے MAGA تحریک میں بہت زیادہ ہیجان موجود ہے جس کا اظہار ٹرمپ کے ایک حمایتی کے اس پیغام سے ہوتا ہے۔

”لعنت ہو! میں نے جنگوں کے خاتمے، سستا پیٹرول، ٹیکسوں کے خاتمے، سستی اشیاء خورد و نوش اور MAGA کے لیے ووٹ دیا تھا۔ ان میں سے کیا پورا ہوا ہے؟ اگر ٹرمپ ہمیں جنگ میں گھسیٹتا ہے تو میرا اس سے اور اس کی حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مجھے شدید غصہ ہے۔“

اس طرح کے کئی پیغامات پچھلے چند دنوں میں ٹرمپ کے ڈیسک تک پہنچے ہوں گے۔

سادہ الفاظ میں ٹرمپ کو ایران سے جنگ کا اتنا ہی شوق ہے جتنا اسے بندوق کی گولی کھانے کا شوق ہے! لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ جنگ کا کوئی امکان نہیں ہے۔

ٹرمپ پر ہر طرف سے شدید دباؤ ہے اور یہ واضح نہیں ہے کہ اس کا حتمی فیصلہ کیا ہو گا۔ لیکن خطرات واضح ہیں کہ:

”اگر ٹرمپ ہمیں جنگ میں گھسیٹتا ہے تو میرا اس سے اور اس کی حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔“

اس سے زیادہ واضح اور کچھ نہیں ہو سکتا۔

Comments are closed.