بلوچ لانگ مارچ: جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی مارچ پر بدترین ریاستی کریک ڈاؤن، پورے ملک میں محنت کش عوام کا اظہار یکجہتی!

|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، بلوچستان|

21 دسمبر 2023ء کو پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں بلوچ لانگ مارچ کہ احتجاجی شرکاء پر ریاستی اداروں کی جانب سے ایسا تشدد کیا گیا جس کی بہت کم مثال ملتی ہے۔ مظاہرین پر ریاستی تشدد کے بعد بلوچستان کے اکثریتی چھوٹے بڑے شہروں میں شٹر ڈاؤن و پہیہ جام ہڑتال اور احتجاجی مظاہرے و دھرنے ہوئے۔

ریاستی دہشت گردی کے خلاف بلوچستان سمیت ملک بھر میں احتجاج ہوئے، جن میں گوادر، تربت، ہیرونک، پنجگور، حب، کراچی، ملیر، بیلہ، وڈھ، خضدار، مستونگ، دالبندین، کوئٹہ، کوہلو، رکنی، بارکھان، آواران، تونسہ، ڈی جی خان، ڈیرہ بگٹی، سبی، لاہور، اسلام آباد اور بہاولپور سمیت کئی اور علاقے شامل ہیں۔

بلوچستان کی تمام بڑی شاہراہیں بند کر دیی گئی ہیں اور شٹر ڈاؤن و پہیہ جام ہڑتال جاری ہے۔ لیکن ریاست تشدد کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور ہر حال میں بلوچ قوم کو تشدد کے ذریعے زیر کرنے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہے، جوکہ قابلِ مذمت امر ہے۔

حب میں احتجاجی مظاہرین نے روڈ بلاک کیا ہوا ہے۔

واضح رہے کہ دو دن پہلے جوں ہی مظاہرین اسلام آباد پہنچے تو پولیس کی جانب سے ان کے ساتھ مذاکرات کے نام پر کھلواڑ کرتے ہوئے ان کو منتشر کر کے شدید تشدد کیا گیا۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ریاست نے حالیہ دو دنوں سے اسلام آباد میں لاپتہ افراد کے لواحقین اور بلوچ نوجوانوں پر واضح کر دیا ہے کہ ریاست بلوچستان کے حوالے سے کیا سوچتی ہے۔ ایسا نہیں کہ یہ سب کچھ اچانک ہوا ہے بلکہ کئی دنوں کی پلاننگ کے ساتھ ایک پرامن لانگ مارچ کو ریاست نے بد ترین جبر کے ذریعے مکمل طور پر خاموش کرنے کی کوشش کی ہے۔ لانگ مارچ جب 26 دنوں کا طویل سفر طے کرکے کیچ سے اسلام آباد تک خود کو پہنچانے میں کامیاب رہا تو اسلام آباد پہنچتے ہی ایک بڑی فورس کھڑی کی گئی، جبکہ نیشنل پریس کلب کے سامنے جہاں بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین گزشتہ 24 دنوں سے بیٹھے ہوئے تھے ان پر بھی ریاست نے ہلہ بھول دیا۔ مظاہرین پر آنسو گیس شیلنگ، لاٹھی چارج، رات کی ٹھٹھرتی سردی میں واٹر کینن کا بھرپور استعمال کیا گیا جبکہ رات کے اندھیرے میں تقریباً 300 کے قریب نوجوانوں کو اٹھایا گیا جبکہ نیشنل پریس کلب کے سامنے کریک ڈاؤن کے بعد ریاست نے جہاں جہاں بلوچ طلباء رہائش پزیر ہیں وہاں پر چھاپے مارنا شروع کر دیے اور مزید سینکڑوں طلبہ و نوجوانوں کو جبری طور پر لاپتہ کر دیا گیا ہے۔ ان میں کچھ مظاہرین کو منظرعام پر لایا گیا ہے مگر 20 نوجوان ایسے ہیں جنہیں اب تک لاپتہ رکھا گیا ہے اور ان کے حوالے سے کسی کو کوئی بھی علم نہیں ہے کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں شدید خدشہ ہے کہ ریاست انہیں بلوچستان کے دیگر نوجوانوں کی طرح پرامن احتجاج کی پاداش میں گمشدہ نہ کرے۔ ریاست کا رویہ جس طرح گزشتہ کئی دنوں سے واضح طور پر یہ دیکھنے کو مل رہا ہے کہ وہ تشدد کی کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔ بوڑھی بلوچ ماؤں، چھوٹی بچیوں سمیت بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت اور دیگر لواحقین پر شدید تشدد کرکے ریاست نے واضح کر دیا ہے کہ اسے ان کے حقوق کی کوئی پرواہ نہیں۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ترجمان نے مزید کہا کہ ہم ریاست سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جلد از جلد اسلام آباد سے اٹھائے گئے تمام افراد کو رہا کیا جائے اور منظر عام پر لایا جائے۔ اگر انہیں منظر عام پر نہیں لایا گیا اور انہیں رہا نہیں کیا گیا تو وہ سخت اقدامات اٹھانے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔ جبکہ نیشنل پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ لگایا جا چکا ہے۔ اس وقت اس احتجاجی تحریک کا بنیادی مطالبہ صرف جبری طور پر لاپتہ افراد کی بازیابی ہے۔

اسلام آباد کے علاوہ ڈی جی خان سے بھی 20 کے قریب نوجوان احتجاج کے پاداش میں اٹھائے گئے ہیں، ان تمام کی رہائی کے بعد ہی بلوچستان میں بلاک روڈ کھولے جائیں گے۔ ریاستی تشدد کے خلاف احتجاجوں اور ریلیوں کا سلسلہ بلوچستان بھر میں جاری رہے گا۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے کیچ سے شروع ہونے والا لانگ مارچ اسلام آباد اس آسرے پر پہنچا کہ شاید یہاں میڈیا، عدالتیں اور حکمران موجود ہیں، انہیں شاید ان بوڑھی ماؤں اور بہنوں پر ترس آجائے۔ کہ ان کے پیارے کئی سالوں سے لاپتہ ہیں اور حالیہ دنوں میں جس طرح فیک انکاؤنٹرز کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا ہے اس کو ختم کیا جائے اور سی ٹی ڈی جیسے دہشت گرد ادارے جو اس وقت بلوچستان میں بلوچ قوم کی نسل کشی میں ملوث ہے، کو مکمل طور پر غیر فعال کرتے ہوئے بلوچوں کو سکون سے جینے دیا جائے۔ لیکن ریاست اس کے برعکس لانگ مارچ کا اسلام آباد میں کسی اور طریقے سے انتظار کر رہی تھی۔

ریڈ ورکرز فرنٹ بلوچ لانگ مارچ کے تمام مطالبات کی نہ صرف بھرپور حمایت کرتا ہے بلکہ اس پوری احتجاجی تحریک کے دوران ریڈ ورکرز فرنٹ اور پروگریسو یوتھ الائنس کے ساتھیوں نے تربت، پنجگور، مستونگ، کوئٹہ، ڈی جی خان، شاہ صدرالدین، تونسہ اور پھر اسلام آباد میں لانگ مارچ کو خوش آمدید کہا اور اس میں بھرپور شرکت کرتے ہوئے اظہار یکجہتی کی۔ بلوچ لانگ مارچ پر جہاں جہاں بھی ریاستی تشدد ہوا ہے ہم نے وقتاً فوقتاً ان کے خلاف رد عمل دکھانے کے لیے اس ریاستی جبر یا تشدد کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور ہم ہر حال میں اس لانگ مارچ کے احتجاجی شرکاء کے ساتھ قدم بہ قدم شامل رہیں گے۔

اس کے علاوہ ہم اسلام آباد میں پرامن احتجاجی مظاہرین کے اوپر ریاستی تشدد کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور بلوچ یکجہتی کمیٹی سمیت مسنگ پرسنز کے لواحقین اور اسلام اباد میں رہائش پذیر تمام بلوچ طلبہ اور دیگر سیاسی اسیران کی فی الفور رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہم اس ریاستی تشدد میں شامل تمام تر سیکورٹی اہلکاروں کے خلاف قانونی کاروائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اور ہم ان تمام مسنگ پرسنز کے لواحقین اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کو باور کراتے ہیں کہ ریاستی جبر کے خلاف اُن کی جدوجہد میں ہم ان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے رہیں گے۔

Comments are closed.