گلگت بلتستان: پاکستانی سرمایہ دار ریاست کی کالونیل پالیسیوں کے خلاف کامیاب عوامی بغاوت

|رپورٹ: احسان علی ایڈووکیٹ|

گلگت بلتستان میں گزشتہ دو مہینوں سے بھی زیادہ عرصے سے گندم سبسڈی کے خاتمے، نت نئے درجنوں ٹیکسوں کے نفاذ، عوامی اراضیات پہ سرکاری قبضوں، معدنیات کے ذخائر پہ غیر مقامی بڑی کمپنیوں کے قبضے، بجلی کی 20 سے 22 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ، سرکاری ہسپتالوں میں غریب عوام کی علاج سے محرومی اور ہیلتھ کارڈ کی سہولت کے خاتمے سمیت عوامی اہمیت کے بنیادی مطالبات کے گرد ایک زبردست عوامی تحریک کا آغاز ہوا۔

دیکھتے ہی دیکھتے گلگت بلتستان کے تمام اضلاع، تمام تحصیلوں اور یونین کونسلوں سے عوام کی بھاری اکثریت اس عوامی مزاحمتی تحریک کا حصہ بن گئی۔

اس تحریک کی قیادت گلگت اور دیامر ڈویژن کے چھ اضلاع میں عوامی ایکشن کمیٹی کر رہی تھی جبکہ بلتستان ڈویژن میں عوامی ایکشن کمیٹی کے علاوہ بلتستان کوارڈی نیشن کمیٹی اس عوامی مزاحمت کی قیادت کر رہی تھی۔
گلگت بلتستان میں یہ عوامی مزاحمتی تحریک یہاں کے تمام سٹیک ہولڈرز کی تنظیموں کے ساتھ باقاعدہ مشاورت سے شروع کی گئی تھی۔

یہ احتجاجی تحریک تقریباً ایک ماہ تک جاری رہی جس میں ٹھٹھرتی سردی میں ہزاروں لوگ سڑکوں پر احتجاج اور دھرنے میں بیٹھے رہے۔

15نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ

1۔ گلگت بلتستان میں خوراک، خوردنی تیل، مٹی کا تیل، خشک دودھ، طلبہ کے لیے سکالرشپ اور ہوائی سفر پہ حاصل سبسڈی بحال کی جائے
2۔ فنانس ایکٹ 2023ء اور دیگر قوانین کے ذریعے لئے جانے والے تمام ظالمانہ ٹیکسوں کا خاتمہ
3۔ جی بی کے ہسپتالوں میں علاج معالجے کی تمام سہولیات سمیت صحت کارڈ کی بحالی
4۔ جی بی کے دریاؤں سے ہزاروں میگا واٹ سستی ترین ہائیڈل بجلی پیدا ہونے کی گنجائش ہونے کے باوجود جی بی میں بجلی کی 20 سے 22 گھنٹے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کیلئے ہنگامی بنیادوں پہ دریاؤں پر چھوٹے ڈیمز کی تعمیر کے ذریعے بجلی بحران کا مکمل خاتمہ
5۔ دیامر بھاشا ڈیم اور دیامر داسو ڈیم کی بجلی کی رائیلٹی میں 80 فیصد حصہ داری
6۔ سالانہ بجٹ کی تقسیم میں این ایف سی کی طرز پہ گلگت بلتستان اور فیڈرل گورنمنٹ کے درمیان ایک تحریری معاہدہ کرنا
7۔ سی پیک میگا پراجیکٹ کے نام پہ ملک کے چاروں صوبوں میں اربوں ڈالر کے ترقیاتی منصوبے تعمیر کئے گئے ہیں مگر جی بی میں اس مد میں ایک ڈالر بھی خرچ نہیں کیا گیا، اس لیے سی پیک منصوبے میں جی بی سے مظفرآباد تک محفوظ ترین راستے کی تعمیر کے ذریعے سفری سہولیات کے ساتھ ٹورازم کو بھی ترقی دی جائے
7۔ جی بی میں بااثر افراد اور کمپنیوں کو بندر بانٹ کئے گئے معدنیات کے تمام لیزز منسوخ کرکے مقامی آبادی کے اجتماعی نام پہ لیزز جاری کیے جائیں تاکہ معدنیات کے منافع اور رائیلٹی کے فوائد چند افراد کی بجائے اجتماعی طور پہ تمام مقامی آبادی کو مل سکیں
9۔ تمام غیر آباد اور بنجر اراضیات پہ حکومتی دعویٰ ختم کرکے قدیم رواج اور دستور کے مطابق مقامی آبادی کی حق ملکیت کو تسلیم کیا جائے
10۔ گلگت بلتستان کو کسٹم فری زون قرار دیا جائے
11۔ جی بی کے ہمسایہ ریاستوں کے ساتھ قدیم تجارتی راستے کھولے جائیں تاکہ یہاں کے عوام ان قدیم تجارتی راستوں کے ذریعے اپنا روزگار پیدا کر سکیں
12۔ ٹورازم کی ترقی کیلئے مقامی ہوٹل اور ٹرانسپورٹ کو انڈسٹری کا درجہ دیا جائے
13۔ موجودہ کالونیل آرڈر 2018ء کے تحت قائم موجودہ ڈمی اسمبلی کو ختم کرکے گلگت بلتستان میں ایک بااختیار آئین ساز اسمبلی کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ یہاں کے عوام ایک آئین کے ذریعے اپنے بنیادی انسانی، معاشی، سماجی، تعلیمی، تہذیبی حقوق کا تحفظ کر سکیں اور یہاں کے عوام اپنے تمام اندرونی معاملات خود چلا سکیں
14۔ گلگت بلتستان میں انجینئرنگ اور میڈیکل کالجز کا قیام عمل میں لایا جائے، نیز لڑکیوں کیلئے ایک وومن یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا جائے۔ ابتدائی تعلیم سے لے کر یونیورسٹی تک طلبہ کو مفت تعلیم دینا ریاست کی آئینی ذمہ داری قرار دی جائے
15۔ پی ایس ڈی پی کے تحت جی بی میں بننے والے میگا پراجیکٹس کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کرکے مقامی چھوٹے کنٹریکٹرز کو کام کرنے کا موقع دیا جائے تاکہ یہاں بیروزگاری کو کم کیا جا سکے، نیز کنسٹرکشن سے منسلک سیزنل مزدوروں کو گزارا الاؤنس دیا جائے

ان بنیادی مطالبات کے حصول کیلئے گلگت بلتستان میں جاری پر امن اور عظیم الشان احتجاجی تحریک کو حکمرانوں کی جانب سے ناکام بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں۔ حکومت کی جانب سے 29 جنوری کو گندم کی بڑھائی گئی قیمت کو ختم کرکے سابقہ 2022ء کی قیمت کی بحالی کا مطالبہ تسلیم کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ تحریک میں شامل لوگوں میں پھوٹ پیدا کی جائے اور اسے کمزور کرتے ہوئے ختم کیا جائے۔ اگرچہ یہ تحریک کی ہی کامیابی تھی کہ حکومت کو اپنے گھٹنے ٹیک کر یہ مطالبہ تسلیم کرنا پڑا۔ بہر حال باقی چارٹر آف ڈیمانڈ پر عملدرآمد ہونے تک تحریک جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔

بالآخر حکومت نے زبردست عوامی دباؤ کے نتیجے میں 5 فروری کو عوامی ایکشن کمیٹی کی مذاکراتی کمیٹی کے ساتھ ایک عارضی معاہدے کے تحت ٹیکسز لگانے کیلئے پاس کردہ جی بی فنانس ایکٹ 2023ء کی معطلی، ہسپتالوں میں تمام بنیادی طبی سہولیات سمیت صحت کارڈ کی بحالی، بجلی کی تمام سپیشل لائنوں کا خاتمہ، تمام خراب پاور ہاوسز کی ہنگامی بنیادوں پہ مرمت کے بعد چالو کرکے بجلی کی بحران کو کم کرنے کا معاہدہ کیا۔ اور باقی ماندہ بنیادی مطالبات پہ غور کرنے کیلئے دو سے تین ہفتے کی مہلت مانگی۔

اس پہ عوامی ایکشن کمیٹی نے حکومت کو تین ہفتوں کی مہلت دینے کیلئے عوامی تحریک کو تین ہفتوں کیلئے موخر کر دیا۔

اس دوران عوامی ایکشن کمیٹی اپنی تحریک کو گاؤں سے لے کر یونین کونسل، تحصیل اور ڈسٹرکٹ کی سطح پہ نئی کمیٹیاں منتخب کرتے ہوئے عوامی ایکشن کمیٹی کی نئی منتخب قیادت سامنے لائے گی اور عوامی تحریک کے اندر پائی جانے والی کمزوریوں کو دور کرے گی اور عوامی تحریک کو پہلے سے زیادہ منظم بنیادوں پہ آگے بڑھائے گی۔

اس عوامی مزاحمتی تحریک نے اس خطے کے عوام پہ مسلط ایک بدترین نوآبادیاتی قوانین کے جبر کے ذریعے مقامی عوام کے اندر پیدا کردہ ڈر اور خوف کو ختم کر دیا ہے۔ موجودہ تحریک کی کامیابی نے عوام کا اپنی اجتماعی طاقت پہ ایک زبردست اعتماد اور حوصلہ پیدا کیا ہے۔ اب یہاں کے عوام کو سرمایہ دارانہ نظام کے جبر و استبداد کے ماتحت کنٹرول نہیں کیا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کے عوام اور خاص کر نوجوان پہلے سے زیادہ عزم کے ساتھ اس ظلم، جبر اور استحصال پہ مبنی سرمایہ داری نظام کے خلاف مزاحمت کیلئے پرجوش نظر آتے ہیں۔

Comments are closed.