کوئٹہ: برطرفی کے خلاف کوئٹہ پریس کلب کے سامنے اساتذہ کا احتجاج، 16 نومبر سے تادمِ مرگ بھوک ہڑتال کا اعلان!

|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، بلوچستان|

ضلع کیچ کے 114 اساتذہ (مرد و خواتین) کو آر۔ٹی۔ایس۔ایم کی غلط رپورٹنگ پر بغیر کسی انکوائری کے جبری طور پر برطرف کر دیا گیا۔ وہ 15 ماہ سے اپنی بحالی کیلئے حکام بالا کے دفاتر کے چکر لگاتے رہے لیکن حکومت کی طرف سے کوئی شنوائی نہ کی گئی۔ آخر کار برطرف اساتذہ نے تنگ آ کر اپنے گھر (کیچ) سے 800 کلومیٹر دور کوئٹہ پریس کلب کے سامنے اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف احتجاج کا آغاز کیا۔ انہوں نے گذشتہ 22 دنوں سے اپنے بچوں کیساتھ سردی میں علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ لگایا ہوا ہے، لیکن حکومت کی بے حسی کی انتہا ہوگئی کہ آج تک کوئی بھی حکومتی نمائندہ ان سے ملنے نہیں آیا۔ احتجاجی کیمپ میں ریڈ ورکرز فرنٹ کے ساتھی روزانہ کی بنیاد پر یکجہتی کرتے آرہے ہیں۔

12 نومبر کو جی ٹی اے بلوچستان کے زیرِ اہتمام صوبے بھر میں احتجاجی مظہروں کا انعقاد کیا گیا جس میں ضلع کیچ کے 114 اساتذہ کی برطرفی کیخلاف حکومتی اقدامات کو ملازمین دشمن قرار دیا، اور برطرف اساتذہ کیساتھ مکمل یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انکی بحالی تک جدوجہد جاری رکھنے کا اعادہ کیا گیا۔

اس کے علاوہ مذکورہ برطرف اساتذہ کی برطرفی کیخلاف 16 نومبر کو جی ٹی اے بلوچستان کی جانب سے وزیرِ اعلیٰ ہاؤس کے سامنے احتجاجی مظاہرہ ہوا جس میں کوئٹہ سمیت دیگر مضافاتی علاقوں سے آئے ہوئے سینکڑوں اساتذہ و ملازمین نے بھرپور شرکت کی، احتجاجی مظاہرے میں جی ٹی اے بلوچستان کے مرکزی، صوبائی اور ضلعی عہدیداران نے شرکت کرتے ہوئے برطرف ملازمین کی بحالی تک اُن کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔

علاوہ ازیں 16 نومبر ہی کو برطرف اساتذہ کی جانب سے جی ٹی اے بلوچستان کے زیرِ اہتمام تادمِ مرگ بھوک ہڑتال کیمپ لگایا گیا جہاں پر برطرف ملازمین اپنی بحالی تک بھوک ہڑتال پر بیٹھیں گے۔

ریڈ ورکرز فرنٹ کے نمائندہ وفد نے آج کے احتجاجی مظاہرے سمیت تادمِ مرگ بھوک ہڑتالی کیمپ کے شرکاء کیساتھ اظہارِ یکجہتی کی۔ جبکہ ریڈورکرزفرنٹ ان تمام برطرف اساتذہ کے مطالبات کی غیر مشروط حمایت کرتے ہوئے حکومت سے فی الفور ان کی بحالی کا مطالبہ کرتا ہے، اور ہم یہ اپیل کرتے ہیں کہ اساتذہ کے ساتھ صوبے بھر کی دیگر مزدور تنظیموں کو ان برطرف ملازمین کیساتھ یکجہتی کرنی چاہیے، تاکہ مزدور طبقے کی حقیقی جڑت سے ان نااہل حکمرانوں کو منہ توڑ جواب دیا جاسکے۔

Comments are closed.