افسانہ: ’’پروفیسر‘‘


آخر خدا خدا کر کے دس بجے کے بعد ایک کانسٹیبل نے آ کر پوچھا کہ پروفیسرز کہاں ہیں ان کی حاضری لگنی ہے۔ ادھر ایک لائن میں کھڑے ہو جائیں۔ ایک سینئر پروفیسر نے آگے بڑھ کر بتایا کہ میں فل پروفیسر ہوں، میرا نام ڈاکٹر فلاں پی ایچ ڈی ہے۔ کیا میں بھی لائن میں کھڑا ہوں گا اور ادھر کئی ایم فل، پی ایچ ڈی، ایسوسی ایٹ پروفیسرز اور اسسٹنٹ پروفیسرز بھی موجود ہیں۔ کیا ہم بھی ان سی ٹی آئیز وغیرہ کے ساتھ ہی کھڑے ہو جائیں؟ تو اس کانسٹیبل نے ہاتھ میں پکڑے گھوڑوں والے چابک سے جو کہ اس نے کسی تانگے والے سے چھینا ہوگا، اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ چلیں آپ سینئر پی ایچ ڈی ، ایم فل وغیرہ اس طرف علیحدہ لائن بنا لیں۔ اور اب خاموشی سے چپ چاپ کھڑے رہیں، مجھے حاضری لگا کر تھانے دار صاحب کو دینی ہے۔ ابھی تھوڑی دیر بعد تھانے دار صاحب خود تشریف لا رہے ہیں۔
اس دن کا ایک ایک واقعہ اسے یاد آرہا تھا۔ جلسہ کوئی چار بجے شروع ہوا تھا۔ اور یہ سارا دن وہاں کھڑے رہے تھے۔ تھانے دار صاحب نے آکر انہیں کہا تھا کہ آپ لوگوں نے نعرے بھی لگانے ہیں۔ اس کے بعد سب کی حاضری نہیں لگ سکی تھی۔ بہت سے لوگ بغیر حاضری کے رہ گئے تھے۔ وزیرِ اعلیٰ کے کارندے نے آ کر حاضری چیک کی تو بہت سے لوگوں کو غیر حاضر پایا گیا۔ وزیر اعلیٰ کے حکم پر ان کی ایکس پلے نیشن کال کی گئی ان کی خوب پوچھ گچھ ہوئی، کہ تم لوگوں کو تعلیم یافتہ کہتے ہوئے بھی شرم محسوس ہو رہی ہے۔ تم لوگ اپنے لئے، قوم کے لئے اور سب سے بڑھ کر جمہوریت کے لئے بھی کام نہیں کر سکتے۔ پھر وزیرِاعلیٰ کے حکم پر کئی ایک پرنسپلوں کو معطل کر دیا گیا۔ جن میں سے ایک احد کے ادارے کے پرنسپل صاحب بھی تھے۔
وہاں اس جلسے میں عورتوں کا تو اور بھی برا حال تھا۔ تمام سرکاری اور کارپوریشن سکولوں کی استانیاں جانے کہاں کہاں سے آئی تھیں۔ کوئی اپنے باپ کے ساتھ تھی اور کوئی ماں کے ساتھ۔ بعض اپنے بھائیوں کے ہمراہ آئی تھیں۔ بعض استانیوں کی گود میں شیر خوار بچے بھی تھے، جو سارا دن روتے رہے۔ غرض صبح سے رات آٹھ بجے تک، یعنی جلسہ ختم ہونے تک انہوں نے وہ سارا وقت وہیں بھوکے پیاسے کھڑے رہ کر اسی دھکم پیل میں ہی گزارا۔ اس دن تو وہ سارا دن اس وقت کو کوستا رہا تھا جب اس نے سرکاری جاب کا ارادہ کیا تھا۔ لیکن لوگ تو یہی سمجھ رہے ہیں کہ وہ لوگ پروفیسر بن کر بڑی عزت اور دولت کما رہے ہیں۔
پھر ایک دم سے اسے اسی سے جڑا ہوا دوسرا واقعہ یاد آگیا۔ اس دن جب وہ کالج پہنچا تو کافی سارے سلیکٹیز چھٹی پر تھے۔ اس دن ان تمام کا بوجھ سی ٹی آئیز ہی پر آ پڑا تھا۔ ایک ایک نے چھ چھ سات سات پیریڈ لئے۔ اگلے دن پھر یہی حساب تھا۔ پتہ یہ چلا کہ سلیکٹی پروفیسرز کی ڈیوٹی بطور پریزائیڈنگ آفیسر لگی ہے۔ وہ ضمنی انتخاب میں ڈیوٹی دینے کے لئے گئے ہیں۔ سب سی ٹی آئی ٹیچر ان لوگوں کے متعلق رشک کے جذبات لئے سوچ رہے تھے۔ کہ ان کو مجسٹریٹ درجہ اول کے اختیارات ملے تھے۔ ان کو زیادہ ڈیوٹی کرنے کا غم وغصہ بھی تھا۔ اس سے اگلے دن جب وہ سلیکٹی واپس آئے تو ان کی حالت دیدنی تھی۔ انہوں نے واپس آکر جو اپنی داستانیں سنائیں۔ انہیں سن کر ان سب نے شکر کیا کہ سی ٹی آئیز کو اس ڈیوٹی کے قابل نہیں سمجھا جاتا۔
وہاں بھی ان کے ساتھ کوئی اچھی نہیں ہوئی تھی۔ پہلے دن وہ لوگ حسبِ حکم صبح آٹھ بجے پہنچ گئے تھے۔ ان کو سارا دن انتظار کروا کے شام چار بجے کے قریب متعلقہ سامان اور ھدایات دی گئیں۔ اس سے اگلے دن الیکشن کا ہنگامہ رہا۔ الیکشن کیا تھا ایک طوفان بدتمیزی تھا۔ ضمنی انتخاب تھے، گورنمنٹ کا پورا پریشر تھا کہ ان کے امیدواروں ہی کو جتوایا جائے۔ غرض الیکشن تو جوں توں ختم ہوا۔ شام چھ بجے کوئی’’مجسٹریٹ‘‘ اپنا بورا لے کر درخت کے نیچے پڑا تھا تو کوئی ذرا دور گھاس پر۔ ان سے ایک ایک کر کے رزلٹ لئے گئے اور اسی طرح چابک بردار کانسٹیبلوں کے ذریعے ان کی لائینیں بنوائی گئیں۔ وہ ’’مجسٹریٹ‘‘ تو بس رونے کو تیار بیٹھے تھے۔ انہوں نے کہا کہ شکر کرو کہ تم لوگ آرام سے کالج میں اپنے شایان شان کام پر موجود تھے۔
یہی سوچتے سوچتے اس نے نعمان کو بڑے ٹھنڈے دل سے جواب دیا۔
نہیں یار! میں پروفیسر نہیں ہوں۔
تو پھر؟
یار میں سی ٹی آئی ہوں۔
وہ کیا ہے صاحب؟ احد نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اتنے میں کالج آ گیا۔
احد سٹاف روم میں بیٹھا شیکسپیئر پڑھ رہا تھامگر ذہن اس کا کہیں اور تھا۔ جب اس نے پرائیویٹ سکول کی ملازمت چھوڑی تھی تو سوچا تھا کہ گورنمنٹ کے خاکروب کی تنخواہ بھی پرائیویٹ سکول ماسٹر سے تین گنا ہے۔ لیکن اب گورنمنٹ سیکٹر میں۔ ۔ ۔ یہاں تو تنخواہ ہی چار ماہ بعد ملنی ہے۔
واپسی پر اسے نعمان ملا۔ ۔ وہ چاند گاڑی میں بیٹھ کر اونگھنے لگا۔ ۔ نعمان نے چاند گاڑی ایک مٹھائی والے کی دکان پر روک دی۔ اور ڈبہ خرید کر اسے مٹھائی کھلائی۔ یہ کس بات کی مٹھائی ہے بھائی؟ باؤ جی بچے کو سکول میں داخل کروایا ہے۔ بڑے اچھے سکول میں۔ ۔ ڈویژنل پبلک میں۔ بڑی مشکل سے داخلہ ملا ہے جی۔ ۔ ڈونیشن دے کر۔ ۔ ۔ لیکن یہ سکول تو عام لوگوں کے پیسوں سے بنا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ہم جب گورنمنٹ سکول میں پڑھتے تھے۔ تو ہماری فیس کے ساتھ اس سکول کی ٹکٹ کے پیسے بھی لئے جاتے تھے۔ تو داخلے کے لئے ڈونیشن کیسی؟
باؤ جی! کس دنیا میں رہتے ہو؟ اب اس سکول میں صرف سرمایہ داروں اور افسروں کے بچے ہی پڑھتے ہیں۔ غریب کا بچہ تو اس کے نزدیک سے بھی نہیں گزرتا۔ جب یہ داخلہ ٹیسٹ لیتے ہیں تبھی غریبوں کے بچے فیل ہو جاتے ہیں۔ پھر جس کے پاس روپیہ ہو بھاری ڈونیشن دے کر بچہ داخل کرواتا ہے۔
لیکن تم نے اپنے بچے پر اتنی رقم کیوں خرچ کر دی؟
کیا کریں باؤ جی۔ ۔ میں نہیں چاہتا کہ وہ بھی بڑا ہو کر میری طرح رکشہ چلائے۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ بھی آپ کی طرح بڑا افسر بنے۔ ۔ ۔
لیکن احد کا ذہن کہیں اور بھٹک رہا تھا۔ ۔ ۔ اس نے ایک فیصلہ کر لیا تھا۔ وہ فیصلہ کُن انداز میں بولا۔ ۔
اچھا نعمان! ایک بات تو بتاؤ! تم نے یہ رکشہ کتنے میں خریدا تھا؟
صاحب جی بیوی کا زیور بیچ کرقسطوں پر خریدا تھا۔ ایک ہی سال میں قسطیں ادا کر دیں۔ اب میں اس کا مالک ہوں۔
قسطوں پر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پہلی قسط کی رقم کتنی ہے؟
چالیس ہزار۔ ۔ ۔
ٹھیک ہے مجھے کل چار ماہ کی تنخواہ مل جائے گی۔ تم ایسا کرو کہ مجھے بھی قسطوں پر ایک چاند گاڑی دلوا دو۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اور آج جب پہلے ہی دن اس نے کہا کہ باجی جی ادھر آجائیں، کہاں جانا ہے۔ تو اس کی بیوی جو اس کی ماں کے ہمراہ اسے ملنے آئی تھی۔ اسے دیکھ کر۔ ۔ ۔ وہ بھونچکا رہ گیا۔ وہ سخت ڈر گیا تھا۔ آج اس نے کئی دن کی پس وپیش کے بعد پہلی دفعہ آواز لگائی تھی۔ ۔ میرے خدا یہ کہاں سے آگئیں۔ ۔ اسے بھی آج ہی وارد ہونا تھا۔ ۔ وہ جلدی سے منہ پھیر کے آگے بڑھ گیا۔
شکر ہے کہ اسے دیکھا نہیں گیا تھا۔ آگے سٹاپ پر جا کر وہ ابھی کھڑا ہی ہوا تھا کہ ایک سوٹڈ بُوٹڈ باؤ اس کی چاند گاڑی میں آکر بیٹھ گیا۔ بیٹھتے ہی اس نے کہا۔ ۔ چلو مجھے کالج چھوڑ آؤ۔ ۔ ۔ کیا کہا کالج؟ کون سے کالج جائیں گے آپ؟ اسی میں جہاں تم پڑھاتے تھے۔ ۔ مجھے وہاں تمہاری جگہ اپوائنٹ کیا گیا ہے۔ اسے اس صاحب کی شکل کچھ جانی پہچانی سی معلوم ہوئی۔ اس نے غور سے دیکھا۔ ۔ ا سے چکر سا آگیا۔ ۔ یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں؟ یہ۔ ۔ یہ تو۔ ۔ شاہ رُخ خان ہے۔ ۔ اصلی والا۔ ۔ آپ؟ آپ۔ ۔ تو۔ ۔ ۔؟ !! ہاں میں شاہ رخ خان ہوں۔ اب میں سی ٹی آئی اپوائنٹ کیا گیا ہوں۔ تمہیں معلوم تو ہے ہی۔ ۔ کتنی بیروزگاری ہے۔ ۔ اور جاب بھی تو مشکل ہی سے ملتی ہے۔ ۔ اُف۔ ۔ میرے خدا!!! صاحب جی۔ ۔ صاحب جی۔ ۔ ۔ آپ پھر سو گئے؟ اتر جایئے آپ کا گھر آگیا ہے۔ احد اُٹھ گیا۔ ۔ اُف۔ ۔ تو کیا
یہ سب خواب تھا؟ وہ نعمان کی چاند گاڑی ہی میں بیٹھا تھا۔ نعمان ! وہ تمہارا بچہ؟ ہاہاہا!!! صاحب کیوں مذاق کر رہے ہیں، میری تو ابھی شادی بھی نہیں ہوئی۔ ۔ احد اب اچھی طرح بیدار ہو چکا تھا۔ اس نے نعمان سے کہا کہ اب وہ اسے اس نجی کالج سے رات دس بجے لیا کرے۔ اس نے دو شفٹیں اور پڑھانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ آخر زندگی کا بوجھ بھی تو کھینچنا ہی ہے۔ اور سب یہی تو کر رہے ہیں۔

Comments are closed.