افسانہ: ’’پروفیسر‘‘


جب وہ کلاس میں پہنچا تو تمام لڑکے خوش گپیوں میں مگن تھے۔ ایک تو ڈیسک کو ڈھولک بنائے لہک لہک کے کوئی نیا گانا گا رہا تھا، جبکہ اس کے چند ساتھی کورس کا کردار نبھا رہے تھے۔ ایک گروپ زورآزمائی میں مصروف تھا۔ پیچھے چند لڑکے موبائل فون پکڑے کچھ دیکھ رہے تھے۔ اکا دکا لڑکے ہاتھ میں کتاب کھولے بھی بیٹھے تھے۔ لیکن ان کے چہرے کے تاثرات صاف بتا رہے تھے کہ وہ اس شور میں پڑھ نہیں پا رہے۔ وہ چند منٹ کھڑا رہا لیکن کسی نے اس کی آمد کا کوئی نوٹس نہیں لیا تو اس نے ڈائس بجایا لیکن بے فائدہ۔ ۔ پھر اس نے کلاس کو مخاطب کیا۔ ٹیچر کلاس میں موجود ہے۔ آپ لوگ خاموش ہو جائیں۔ لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ سارا پیریڈ وہ فرسٹ ائیر کو چپ کرواتا رہا اور بڑی مشکل سے رول کال لگانے میں کامیاب ہوا۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی بات کرتا، پیریڈ اوور ہو گیا۔ کمرے سے نکل کر اس نے شکر کیا کہ سانس لینے کو تازہ ہوا ملی، ورنہ ایک تو ڈیڑھ سو لڑکوں کی کلاس اور اوپر سے بجلی بھی نہیں۔ ایسے میں لڑکے شور نہ مچاتے تو کیا کرتے۔ وہ دل ہی دل میں یہ سوچتا ہوا کمرہ جماعت سے باہر نکل گیا۔
سیدھاسٹاف روم پہنچا، سٹاف روم کی تمام نشستیں پر تھیں اور کوئی جگہ خالی نہ تھی۔ اس نے سوچا کہ لائبریری چلا جاتا ہوں۔ لیکن معلوم ہواکہ لائبریرین چھٹی پر تھا اس نے ایک پروفیسر سے پوچھا کہ کیا کوئی ایسی جگہ ہے جہاں پر بیٹھ کر وہ اپنے اگلے لیکچر کی تیاری کر سکے۔ ۔ سامنے ہی ایک چھوٹا سا کمرہ تھا وہاں گیا تو معلوم ہوا کہ اس کی صفائی ہورہی ہے۔ صفائی کرنے والے نے کہا، آپ باہر ہی رہیں اس کی صفائی ہو رہی ہے اس کمرے کو سی۔ ٹی۔ آئی ٹیچرز کے لئے سٹاف روم بنا دیا گیا ہے۔ صفائی ہو گئی تو وہ اپنے ’’سٹاف روم‘‘ میں داخل ہوا۔ ابھی وہ کرسی پر پڑھنے بیٹھا ہی تھا کہ پرنسپل کا معتمدِ خاص برآمد ہوا۔ اس نے احد سے کہا کہ وہ مسٹر احمد کی کلاس میں چلا جائے۔ مگر کیوں۔ ۔ ۔؟ ۔ ۔ میں تو۔ ۔ ۔ ابھی کلاس لے کر آیا ہوں۔ اور مجھے اپنے لیکچر کی تیاری کرنی ہے۔ اس نے روہانسی سی صورت بنا کر کہا۔ ۔ ۔ معتمد نے اس کو یوں گھور کر دیکھا جیسے کہ وہ اس کا ماتحت ہو۔ ۔ ۔ بس یہ آرڈر ہے۔ ۔ اس نے رعب سے کہا۔ وہ اندر سے ڈر کر رہ گیا کہ کہیں پھر سے شکایت نہ ہو جائے۔ اب تو اس نے گاؤں میں ماں کو خط بھی لکھ دیا تھا کہ اس کو پروفیسر کی ملازمت مل گئی ہے۔ اس نے کتاب بند کی اور پوچھا کہ سر احمد کی کلاس کس بلاک میں ہوتی ہے۔ شمس بلاک میں۔ اس نے جواب دیا۔ لیکن ان کی کلاس کو پڑھا نا کیا ہے؟ فلاسفی۔ ۔ ۔ ۔ لیکن میں تو اس سبجیکٹ کی الف بے تک نہیں جانتا۔ ۔ مجھے کیا پتا، میں تو چپڑاسی ہوں۔ اوروہ واپس لوٹ گیااور احد اپنی انجانی منزل کی جانب۔
وہ پوچھتا پچھاتا سر احمد کی کلاس میں پہنچا تو وہاں پر ہوُ کا عالم تھا۔ کوئی سٹوڈنٹ کلاس روم میں موجود نہیں تھا۔ وہ واپس آیا اورآڈر کرنے والے کے پاس ہانپتا ہوا پہنچااور بتا یاکہ ان کی کلاس خالی پڑی ہے۔ ۔ ۔ تو۔؟ اس نے سوال کیا۔ تو۔؟ ۔ ۔ جاؤجا کر گراونڈ میں جا کر تلاش کرو، یا پھر کالج کا چکر لگاؤ۔ ۔ ۔ ۔ کہیں نہ کہیں تو مل ہی جائیں گے۔ سی ٹی آئی صاحب! ان کو پڑھانا ضرور،سمجھے !؟ لیکن۔ ۔ ۔ ۔ میں فلسفے کے بارے میں کیا لیکچر دوں گا؟ یہ بھی میں بتاؤں۔ ۔ ۔ ۔ تم لوگوں کو اپنا کام بھی نہیں آتا؟ ہمیں دیکھو چپڑاسی ہو کر ہر کام کرتے ہیں۔ کالج کے، گھر کے اور جانے کون کون سے۔ ۔ ۔ ہم نے تو کبھی نہیں کہا کہ یہ کام ہمیں نہیں آتا۔ ۔ اور ایک آپ لوگ ہیں۔ پڑھانے آئے ہیں اور کہہ رہے ہیں پڑھانا نہیں آتا۔ ارے صاحب کالج میں پڑھانا کون سا مشکل ہے۔ بس بیٹھ جانا۔ یا پھر باتیں کر لینا۔ ۔ ۔ پڑھانا نہیں آتا۔ ۔ ۔ ۔ پھر کچھ سوچ کر بولا۔ میں پوچھ کر آتا ہوں سر احمدسے۔ ۔ ۔ لیکن وہ تو کالج آئے ہی نہیں۔ احد نے سادگی سے دریافت کیا۔ آئے ہیں۔ ۔ ۔ میں خود ان سے پوچھ لیتا ہوں۔ نہیں۔ انہیں ڈسٹرب نہیں کرنا۔ ۔ ۔ وہ کرکٹ میچ دیکھ رہے ہیں۔ ۔ وہ کیسے؟ موبائل فون پر۔ ۔ ۔ وہ گیااور جاکر انڈیا کی ٹیم کا سکور پوچھا اور کہا جناب! آپ دھیان سے میچ دیکھیے میں نے ایک سی ٹی آئی ٹیچر کو آپ کی جگہ بھیج دیا ہے وہ پوچھ رہا ہے کہ پڑھانا کیا ہے؟ This is the tragedy of our nation وہ یہ تک نہیں جانتی کہ کرنا کیا ہے؟ ۔ ۔ ۔ اف! !! آفریدی پھرسے صفر پر آوٹ ہو گیا۔ اور چہرہ لٹکا کر بیٹھ گیا۔ چپڑاسی نے دس کا نوٹ جیب میں ڈالتے ہوئے اس کو تسلی دی ابھی تک پرنسپل صاحب نہیں آئے۔ ان کے آتے ہی میں آپ کو میسج کر دوں گا۔
جاؤ۔ ۔ بس ان کا ٹیسٹ لے لینا اور چیک بھی کر دینا۔ سمجھے۔ ۔ ۔؟ جی ہاں! وہاں سے تیز تیز قدم اٹھاتا وہ شمس بلا ک گیا اور لڑکوں کے بارے استفسار کیا تو معلوم ہوا کہ لڑکے تو سامنے نیو بلاک میں ہیں۔ وہ تیز ی سے وہاں گیا تو معلوم ہوا کہ ان کی کلاس تو کالج کے پچھواڑے کرکٹ کھیلنے میں مصروف ہے۔ وہاں جا کر اس نے لڑکوں سے کہا کہ وہ کلاس میں چلیں تو وہ بولے۔ سر! کیا آپ محبِ وطن نہیں ہیں کیا؟ کیا مطلب؟ اس نے بڑی معصومیت سے سوال کیا۔ سر! جس دن انڈیا اور پا کستان کا میچ ہوتا ہے اس دن کوئی کلاس نہیں ہوا کرتی۔ اور آپ کلاس لینے آگئے ہیں۔ وہ مسکرایا اور بولا کہ اگر حب الوطنی کی یہی تعریف ہے تو پھر میں ایسا ہی ہوں جیسا تم لوگوں نے سوچا ہے۔ چلو! اب کلاس میں۔ وہ چار و ناچار اس کے پیچھے پیچھے چل دئے اور ایک دوسرے کو آنکھوں سے اشارے بھی کر رہے تھے۔ سر کچھ لڑکے سامنے بیٹھے ہیں۔ ان کو بھی بلا لیں۔ جب سب اکٹھے ہوئے تو اگلے پیریڈ کا گھنٹہ بج اُٹھا۔ اگلی کلاس۔ ۔ ۔ لڑکے زور زور سے ہنسنے لگے۔ اور وہ شرمسار چہرے سے سٹاف روم کی طرف لوٹ آیا۔ اس نے رجسٹر اٹھایا اور نگلش کی کلاس لینے چل پڑا۔ آج تو اس کے پاؤں تھک گئے تھے لیکن ابھی اس کا پینڈا طے نہ ہوا تھا۔ اتفاق سے وہ کلاس بھی خالی تھی۔ سارا پیریڈ اسی لُکا چھپی کے کھیل میں ہی برباد ہو گیا۔

Comments are closed.