افسانہ: ’’پروفیسر‘‘

سکندر نے بھی اسی سہولت سے فائدہ اٹھایا تھا۔ ادھر احد نے گاؤں سے باہر واقع ڈگری کالج ہی سے ایف اے اور پھر بی اے کیا تھا اور اس کے بعد اس نے شہر کے کالج سے ایم اے انگلش کیاتھا۔ ایم اے انگلش کا سن کر سکندر بہت خوش ہوا۔ اس نے کہا کہ یہ تم نے عقل مندی کی ہے ورنہ وہ اپنا اختر تھا نا؟ احد کو اختر کیسے بھول سکتا تھا۔ ۔ اختر ان کی کلاس کا سب سے لائق لڑکا تھا۔ احد نے کہا ہاں کیا ہوا اس کو؟ سکندر نے بتایا کہ اختر اچھا بھلا لائق لڑکا تھا۔ پتا نہیں اسے کیا سوجھی یونیورسٹی جا کر جغرافیے میں ماسٹرز کر لیا۔ احد نے پریشان ہو کر پوچھا، کیوں، جغرافیے میں کیا برائی ہے؟ تو سکندر نے اسے یوں دیکھا جیسے وہ دنیا کا سب سے بڑا احمق ہو۔ ارے بھائی جغرافیے کی مارکیٹ ویلیو کوئی نہیں ہے۔ ۔ ۔ مارکیٹ ویلیو!!؟ یہ کیا ہے؟ جغرافیہ بڑا اچھا مضمون ہے۔ ارے کاٹھ کے الو، مارکیٹ ویلیو۔ ۔ سمجھو ذرا۔ ۔ میں کہہ رہا ہوں مارکیٹ ویلیو۔ جب تم جغرافیے جیسے تھرڈ کلاس مضمون میں ماسٹرز کر کے آتے ہو تو نہ تو تمہیں کہیں ٹیوشن ملتی ہے اور نہ ہی کوئی اتنی جابز ہیں اس میں۔ اور پرائیویٹ کالج میں۔ ۔ ۔ تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ تمہیں کوئی جاب مل جائے۔ احد کو کچھ سمجھ آئی اور کچھ نہیں۔ اس نے کہا، چلو چھوڑو تم آگے بتاؤ کہ تم یہاں کیسے۔ سکندر نے کہا، یہاں کیسے؟ ارے بھائی میں نے اتنی مشکل سے یہاں ٹرانسفر کروائی ہے۔ ورنہ پی سی ایس کر کے میں تو ایک چھوٹے سے قصبے میں اپوائنٹ ہو گیا تھا۔ اور ایک قصبے کا نام لیا جو کہ اس کے گاؤں کے قریب ہی تھا۔ احد نے کہا کہ مجھے پھر سمجھ نہیں آرہی، جب تمہیں اپنے گھر کے اتنے قریب جاب مل گئی تھی تو تم نے یہاں ٹرانسفر کیوں کروائی؟ سکندر نے سر پر ہاتھ مارا۔ ۔ اور کہا یار تم رہے نا ابھی تک وہی کتابی کیڑے۔ ۔ ارے بھائی تم سونے کی کان میں بیٹھے ہو، سونے کی کان میں!! سونے کی کان؟ !! وہ کیسے؟ وہ ایسے۔ ۔ کہ ہمارے کالج سے تقریباً سو گز کے فاصلے پر کون سا کالج ہے؟ کالج۔ ۔ ۔ ہاں یہ تو وہی نجی کالج ہے جس کا تم ابھی نام لے رہے تھے۔ ۔ ۔ ہاں وہی وہی۔ ۔ تو اس کالج میں پیریڈ پڑھانے کا شاندار موقع ہے۔ ۔ ۔ کیا مطلب؟ تم تو یہاں جاب کرتے ہو گے پھر وہاں۔ ۔ کیا مطلب؟ اوئے کاٹھ کے اُلو۔ ۔ ہمارے کون سے سارے پیریڈ ہوتے ہیں۔ پیریڈ لگانے والے پروفیسر صاحب سے ذرا سیٹنگ کی ضرورت ہے۔ بس وہ آپ کے پیریڈ اس حساب سے لگا دیتا ہے کہ آپ دوسری طرف جا کر پیریڈ پڑھا کر آسکتے ہیں۔ یارمجھے کچھ سمجھ نہیںآرہی۔ کیا ایسا ممکن ہے؟ ممکن؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ کیا مطلب؟ یار ہمارے پی ایچ ڈی لوگ وہاں جا کر پڑھا رہے ہیں۔ تم کہاں بیٹھے ہو؟ تم کیا سمجھتے ہو،*** کالج کوئی معمولی کالج ہے؟ گزشتہ پندرہ سال سے تمام پوزیشنز وہ مار لے جاتا ہے۔ اتنی محنت کرتے ہیں وہ۔ اتنا نام ہے اس کا کہ کیا بتاؤں۔ تم نے تو گورنمنٹ کالج میں پڑھ کے خود کو spoil کر لیا ہے۔ وہاں پڑھے ہونے کی شان ہی الگ ہے۔ میں نے دیکھو اسی کالج کی یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا ہے۔ پروفیشنل ڈگری ہے میرے پاس۔ احد نے کہا، لیکن یار اس کالج میں تو میرے حساب سے ہزارہا بچے پڑھتے ہیں۔ تین شفٹیں چل رہی ہیں۔ اور پوزیشنز تو صرف دس بیس بچے ہی لے پاتے ہیں۔ وہ بھی وہ بچے جو کہ میٹرک کے ٹاپر ہوتے ہیں۔ باقی بچے کہاں جاتے ہیں؟ میں جہاں تک جانتا ہوں، سب سے زیادہ ڈراپ آؤٹ ریٹ بھی تو اسی کالج کا ہے۔ سب سے زیادہ فیل بھی اسی کالج ہی کے طلباء ہوتے ہیں۔ ۔ اور۔ ۔ اور کیا؟ ؟
سکندر نے غصے سے منہ سرخ کر لیا۔ اور کیا؟ اوئے بے وقوف، تم جن بچوں کی بات کر رہے ہو، وہ تو ہوتے ہی نالائق ہیں۔ ان کو کہیں بھی داخل کروا دو وہ نالائق ہی رہیں گے۔
احد نے کہا، یہی بات اگر میں بھی کہوں تو؟ کہ جن بچوں نے ٹاپ کیا ہے، وہ بھی ہوتے ہی لائق ہیں جہاں دل چاہے ان کو داخل کروا دو۔ وہ ٹاپ کر لیں گے۔
نہیں۔ ان پر محنت ہوتی ہے۔
اچھا جی، وہ کیسے؟
یار ان کا ایک سپر سیکشن بنتا ہے۔ ان میں یہ لوگ جو کہ تعلیم کے میدان میں ہمارے شہرکے گورنمٹ کالجوں کی کریم ہیں۔ ان کو پڑھاتے ہیں۔ اپنے کالجوں میں خواہ ایک پیریڈبھی نہ لیں۔ اس کالج میں جا کر جان توڑ محنت کرتے ہیں۔ اس کے بعد پریکٹیکل کے نمبرز کالج والے لگواتے ہیں۔ گیس حاصل کئے جاتے ہیں۔ امتحان گاہوں میں بھی اپنے بندے لگوائے جاتے ہیں۔ پیپرز کہاں جاتے ہیں، کون چیک کرتا ہے، ان سب باتوں کا ایک پورا ڈیپارٹمنٹ کام کرتا ہے، تب کہیں جاکے پوزیشنیں آتی ہیں۔ محض لیاقت سے کچھ نہیں ہوتا۔ آج کل نمبر لینا سائنس نہیں رہا، آرٹ بن چکا ہے آرٹ۔ ۔ میرے بھولے بادشاہ۔ ۔

Comments are closed.