میانمار: فوجی جارحیت مردہ باد!۔۔محنت کش ساتھیو، مسلح بغاوت کی جانب بڑھو!

|تحریر: فریڈ ویسٹن، ترجمہ: یار یوسفزئی|

میانمار اس وقت ایک انقلاب کی لپیٹ میں ہے۔ عوام فوجی حکومت کے ظالمانہ تشدد کا نہایت جرأت سے سامنا کر رہے ہیں۔ محنت کش اور نوجوان اپنے دفاع کے لیے منظم ہو رہے اور میانمار میں موجود مظلوم قومیتوں سے اتحاد میں جانے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ قاتل حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے ضروری ہے کہ محنت کشوں کی مسلح بغاوت اور تسلسل کے ساتھ غیر معینہ مدت تک عام ہڑتال کو منظم کیا جائے!

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

فوجی حکومت کا ننگا وحشیانہ جبر پوری شدت کے ساتھ جاری ہے۔ ہفتے کے دن (27 مارچ 2021ء) احتجاجوں کے دوران متعدد بچوں سمیت 100 سے زائد افراد مارے گئے، جن میں ایک پانچ سالہ بچہ بھی شامل تھا۔ یکم فروری کو ہونے والے ’کُو‘ کے بعد یہ اب تک کا سب سے خونریز دن تھا، جب مجموعی ہلاکتیں 400 سے تجاوز کر گئیں۔ اب ہلاکتوں کی تعداد 500 سے بھی اوپر چلی گئی ہے۔ سیکورٹی فورسز کو ویڈیوز اور تصاویر میں غیر مسلح شہریوں پر اندھا دھند فائرنگ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، جو لوگوں کے سروں اور کمر کو نشانہ بنا کر خوشی مناتے ہوئے ناچ رہے تھے۔

اس شدید بربریت کے باوجود، میانمار کے لوگ، محنت کش اور نوجوان، شاندار عزم و ہمت کا مظاہرہ کر رہے ہیں، اور روزمرہ کی بنیاد پر اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر یکے بعد دیگرے احتجاجوں کی صورت میں سڑکوں پر نکل رہے ہیں۔ منگیان کے وسطی قصبے میں احتجاج کے دوران، جہاں کم از کم دو افراد مارے گئے تھے، ’تو یا زا‘ نے ریوٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا، ”وہ ہمیں پرندوں یا مرغیوں کی طرح مار رہے ہیں، یہاں تک کہ ہمارے گھروں کے اندر بھی۔۔۔ہم ہر صورت احتجاج جاری رکھیں گے۔ ہمیں حکومت کے گرنے تک لڑنا ہوگا۔“

جرنیل اس وقت اتنا متکبرانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں کہ اُس روز جب سینکڑوں لوگوں کا قتل عام کیا گیا اور انکی لاشیں سڑکوں پر پڑی تھیں، جرنیل انتہائی پر تکلف تقریب کی صورت میں مسلح افواج کا دن منا رہے تھے۔ جس میں وہ سارے اپنے بہترین لباس پہن کر آئے تھے اور مہنگی خوراک کھاتے ہوئے شیمپئین کے گھونٹ لے رہے تھے، جبکہ سڑکوں پر عام لوگوں کو گولیاں ماری جا رہی تھیں۔ ان جرنیلوں کی سنگ دلی اگلے دن بھی دیکھنے کو ملی جب پچھلے دن مارے گئے مظاہرین کے جنازوں میں شامل لوگوں کے اوپر سیکورٹی فورسز نے حملہ کر دیا۔

ان سارے واقعات کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر غم و غصّہ پھیل رہا ہے۔ مزدور، نوجوان، کسان، قومی اقلیتیں، روزمرہ کی بنیادوں پر سڑکوں کے اوپر اپنی آنکھوں کے سامنے لوگوں کو مرتا دیکھ رہے ہیں، اور یہ حقیقت آشکار ہوتی جا رہی ہے کہ پُر امن احتجاج اس نفرت انگیز حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے نا کافی ہیں۔

اقلیتوں پر جبر اور عوامی مزاحمت

اقلیتوں کے اوپر جبر کا حالیہ واقعہ ہفتے کے آخر میں کیرن ریاست کے ضلع متراؤ میں واقع دریائے سالوین کے قریب پیش آیا۔ متراؤ ضلع کے دیہبو نوہ گاؤں کے اندر اور قرب و جوار میں 10 ہزار لوگ آباد ہیں، جس پر ہفتے کی رات بمباری کی گئی، جس کے نتیجے میں کم از کم 9 افراد ہلاک اور کئی زخمی ہوئے۔ اتوار کو مزید بمباری کی گئی اور گاؤں کے تقریباً 3 ہزار افراد نے تھائی لینڈ فرار ہو نے کی کوشش کی، جن میں سے بعض کو تھائی لینڈ کی سرحدی سیکورٹی نے عدم اعتماد کا اظہار کر کے واپس بھیج دیا۔

کیرن ریاست کے لوگ دہائیوں سے حقِ خود ارادیت کا مطالبہ کر رہے ہیں اور میانمار کی فوج کے جبر سے اچھی طرح واقف ہیں۔ کیرن اقلیت کی تحریک کی قیادت کیرن نیشنل یونین (کے این یو) کر رہی ہے، جس کا کیرن نیشنل لبریشن آرمی کے نام سے اپنا مسلح گروہ بھی موجود ہے۔ یہ نسلی بنیادوں پر قائم ان متعدد مسلح تنظیموں میں سے ایک ہے جو مرکزی حکومت سے زیادہ اختیارات لینے کی لڑائی لڑ رہی ہیں۔

شمال میں چینی سرحد کے ساتھ واقع کاچن ریاست میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال ہے۔ یہاں کاچن انڈی پینڈینس آرمی، جو میانمار کے سب سے اہم مسلح گروہوں میں سے ایک ہے، 1961ء سے مرکزی ریاست کے ساتھ لڑ رہی ہے، اور حالیہ ہفتوں کے دوران ریاست کے چار قصبوں میں دوبارہ سے تقریباً روزانہ کی بنیاد پر جھڑپیں سامنے آ رہی ہیں۔ شمال میں واقع ریاستِ شان کے اندر بھی تقریباٌ یہی صورتحال ہے۔

موجودہ صورتحال میں، میانمار کی فوج اور پولیس کا واحد عسکری متبادل اقلیتوں کی مسلح تنظیمیں ہیں۔ در حقیقت، جن علاقوں میں وہ مضبوط ہیں، وہاں پر وہ اپنے مسلح دستوں کے ذریعے مظاہروں کے دوران مقامی لوگوں کا دفاع کرتے رہے ہیں۔ 14 فروری کو کے این یو نے احتجاجی تحریک کی حمایت کا اعلان کر دیا، اور کہا کہ وہ نسلی امتیازات سے بالا تر ہو کر مظاہرین کا دفاع کریں گے، اور تب سے لے کر وہ سڑکوں پر مظاہرین کے لیے اپنے دفاعی دستے مہیا کر رہے ہیں۔

ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یہ نسلی بنیادوں پر مسلح تنظیمیں بھی ان حالات میں کیسے ایک مختلف کردار ادا کررہی ہیں، جب بڑے شہروں کے اندر نوجوان، خاص کر بامار قوم سے تعلق رکھنے والے (جو آبادی کا 68 فیصد ہے)، اس نتیجے پر پہنچ رہے ہیں کہ ”پر امن احتجاج“ سے کچھ نہیں بن پا رہا، اور فوجی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے ایک منظم مسلح رد عمل کی ضرورت ہے، بعض نوجوان مدد اور فوجی تربیت حاصل کرنے کے لیے ان نسلی مسلح گروہوں کا رُخ کر رہے ہیں۔

دی گارڈین نے 20 مارچ 2021ء کو ’میانمار کی محصور مزاحمت حکومت کا مقابلہ کرنے کے لیے عوامی فوج کا خواب دیکھ رہی ہے‘ کے عنوان سے شائع ہونے والے اپنے مضمون میں نشاندہی کی کہ نوجوان کس طرح سے انقلابی نتائج اخذ کر رہے ہیں۔ اس میں احتجاج کرنے والے ایک نوجوان کی بات کو نقل کیا گیا جو وضاحت کرتا ہے کہ نوجوان کس طرح سے یو ٹیوب پر جا کر ہتھیار استعمال کرنے کے طریقے سیکھ رہے ہیں، اس نے کہا ”رنگون میدانِ جنگ کا نقشہ پیش کر رہا ہے، فرق یہ ہے کہ گولیاں محض ایک جانب سے چل رہی ہیں۔ اسی وجہ سے ہمیں ایک فوج کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایک ہی وقت میں تربیت دیتے ہوئے لڑنے کی طرف جانا ہوگا؛ ہمارے پاس مزید وقت نہیں بچا۔“ اسی مضمون میں ایک جوان خاتون کے الفاظ بھی رقم تھے جو کہتی ہے، ”اگر ’سی آر پی ایچ‘ (برطرف کیے گئے حکومتی نمائندوں کی کمیٹی) نے علیحدہ فوج بنانے کا فیصلہ کیا تو میں اس کی حمایت کروں گی۔ مجھے اپنے بچے کی دیکھ بھال کی ضرورت ہے، مگر میں اپنے شوہر اور بھائی کو اس فوج میں بھرتی ہونے پر مجبور کروں گی۔“

24 مارچ 2021ء کو نیو یارک ٹائمز میں ایک دلچسپ رپورٹ شائع ہوئی، (’میں اپنے ملک کی حفاظت کے لیے اپنی جان تک قربان کر دوں گا‘؛ میانمار میں ایک نئی مزاحمت کا ابھار) جس سے ہمیں جاری واقعات کا اندازہ ہوتا ہے:

”میانمار کے سرحدی علاقے کے قریب واقع جنگل میں، دستوں نے انتہائی سخت طریقے سے بنیادی ترتیب حاصل کی۔ انہوں نے رائفل لوڈ کرنا، گرینیڈ پھینکنا اور بم بنانے کے طریقے سیکھے۔“

”یہ زیرِ تربیت دستے میانمار کی اس فوج کا حصہ نہیں تھے جس نے پچھلے مہینے اقتدار پر قبضہ کر کے ملک کی آبادی کے اوپر جابرانہ جنگ مسلط کی۔ اس کی جگہ یہ منتخب کیے گئے طلبہ، سیاسی کارکنان اور عام دفتری محنت کشوں کے دستے ہیں، جن کا ماننا ہے کہ دنیا کی سب سے بے رحم مسلح افواج میں سے ایک کو شکست دینے کا واحد راستہ پلٹ کر وار کرنا ہے۔“

”میانمار کے سب سے بڑے شہر، رنگون سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون، جس کو جنگل میں تربیت حاصل کرتے ہوئے ایک ہفتہ گزر گیا تھا، نے کہا، ’میں فوج کو ایسے وحشی جانوروں کے طور پر دیکھتی ہوں جو سوچنے کے قابل نہیں ہیں اور اپنے ہتھیار کو ظلم برقرار رکھنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔‘ مسلح جدوجہد میں شامل ہونے والے دیگر لوگوں کی طرح، وہ اپنا نام اس ڈر سے شائع نہیں کروانا چاہتی تھی کہ وہ تاتماڈو، یعنی میانمار کی فوج کی نظر میں نہ آ جائے۔“

”’ہمیں ان پر جوابی حملہ کرنا ہوگا‘، اس نے کہا، ’یہ جارحانہ معلوم ہوتا ہے، مگر میرا ماننا ہے کہ ہمیں اپنا دفاع کرنا پڑے گا۔“‘

”پر امن احتجاجوں کے کئی ہفتے بعد، میانمار میں یکم فروری والے ’کُو‘ کے خلاف مزاحمت کی اولین صفیں ایک قسم کی گوریلا قوت میں تبدیل ہو رہی ہیں۔ شہروں کے اندر مظاہرین نے محلّوں کو فوج کے حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے رکاوٹیں کھڑی کی ہیں اور انٹرنیٹ سے دھویں والے بم بنانا سیکھے ہیں۔ جنگلات میں وہ جنگ کے بنیادی طریقے سیکھ رہے ہیں اور فوجی مقامات پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔“

یہ انقلاب ہے!

یہ ساری صورتحال انقلاب کی رونمائی کا اظہار ہے۔ اس کی کوئی دوسری وضاحت ممکن نہیں۔ جس نتیجے پر نوجوان اور محنت کش پہنچ چکے ہیں، یا کم از کم ان کی سب سے با شعور پرتیں پہنچ چکی ہیں، وہ یہ ہے کہ حکومت کو مسلح جواب دینے کی ضرورت ہے، جو کہ بالکل درست ہے۔ ہرسچا انقلابی اس جدوجہد میں ان کی بھرپور حمایت کرے گا۔ یہ اس سوال پر تذبذب اور ذہنی الجھن کا شکار ہونے کا وقت نہیں ہے۔ اس حکومت سے سمجھوتہ کرنے کی گنجائش باقی نہیں بچی۔ یہ آر یا پار ہونے کا سوال ہے؛ یا تو عوام فیصلہ کن اقدامات لیتے ہوئے اس حکومت کا تختہ الٹنے کی جانب بڑھیں گے، یا پھر انہیں خونی نتائج اور بھیانک شکست سے دوچار ہونا پڑے گا۔

نیچے سے پڑنے والے دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اور یہ اس بات کی وضاحت کرتا ہے جس کی نشاندہی اس مضمون میں کی گئی ہے، اس حقیقت کی کہ وہی بورژوا لبرلز، جنہوں نے ابھی تک عوام کو بغیر دفاع کے چھوڑا ہوا تھا، انہوں نے اب ”وفاقی فوج“ بنانے کی اپیل شروع کر دی ہے، جو مظلوم قومیتوں کی مختلف مسلح تنظیموں پر مشتمل ہو گی:

”۔۔۔یہ بات لوگوں میں مقبول ہوتی جا رہی ہے کہ اس قسم کی کوششیں (یعنی پر امن احتجاج) کافی نہیں ہیں، کہ تاتماڈو (میانمار کی فوج) کو ان کے اپنے طریقے سے جواب دینا ہوگا۔ پچھلے ہفتے برطرف کیے گئے پارلیمان کے اراکین، جو خود کو قانونی حکومت تصور کرتے ہیں، نے کہا کہ ملک بچانے کی خاطر ’انقلاب‘ کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ایک ایسی وفاقی فوج تیار کرنے کی اپیل کی ہے جو اکثریت میں موجود بامار پر ہی نہیں بلکہ مختلف مظلوم قومیتوں کے گروہوں پر بھی مشتمل ہو۔“

14 مارچ کو ’سی پی آر ایچ‘ نے ایک بیانیہ جاری کیا، جس میں لوگوں کو وضاحت دی گئی کہ یہ ان کا قانونی حق بنتا ہے کہ تشدد کے خلاف اپنا دفاع کریں، اور کہا کہ:

”کمیٹی مخلصانہ طور پر ان تمام مظلوم قومیتوں کی مسلح انقلابی تنظیموں کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں مبارک باد دیتی ہے جو آپس میں جڑت قائم کر کے پُر عزم انداز میں وفاقی جمہوری یونین تعمیر کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔“

سی پی آر ایچ نے یہ بھی کہا کہ اب اس کا مقصد ”وفاقی جمہوری یونین“ کا قیام ہے۔

یہ واقعی میں ستم ظریفی ہے کہ یہی بورژوا لبرلز اب فوجی حکومت کے خلاف جنگ میں مظلوم قومیتوں کے مسلح گروہوں کے آسرے بیٹھ گئے ہیں۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہئیے کہ جب قومی اقلیتوں پر بمباری ہو رہی تھی، ان کا ریپ اور قتلِ عام کیا جا رہا تھا؛ جب پورے کے پورے گاؤں جلا کر راکھ کیے جا رہے تھے؛ جب ہزاروں افراد میانمار سے فرار ہو رہے تھے؛ جب ”نسلی تطہیر“ کی مہم کے نتیجے میں اقلیتی قوم روہنگیا سے تعلق رکھنے والے 7 لاکھ افراد راخائن ریاست سے بنگلہ دیش فرار ہونے پر مجبور ہو رہے تھے؛ این ایل ڈی کے بورژوا لبرلز اور آنگ سان سو چی فوج کی حمایت اور ان اقدامات کے حق میں دلائل پیش کرنے میں مصروف تھے۔

یہی وجہ ہے کہ این ایل ڈی کے خواتین و حضرات پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ ماضی میں انہوں نے مختلف مظلوم قومیتوں کے مسائل حل کرنے کا وعدہ کیا تھا مگر اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے غداری کرتے ہوئے فوج کا ساتھ دیا۔ اب کی بار ان پر ایک دفعہ پھر کیونکر اعتماد کیا جائے؟

1988ء کی تحریک کی 30 ویں برسی پر ٹائم میگزین نے 2018ء میں ایک مضمون شائع کیا، جس میں نشاندہی کی گئی کہ:

”اے اے پی پی (اسسٹنس ایسوسی ایشن آف پولیٹیکل پرزنرز، برما) کے مطابق سو چی حکومت میں بھی میانمار کے اندر 245 سیاسی کارکنان جیلوں میں قید ہیں، جن میں سے 48 کو ابھی عدالت میں بھی پیش نہیں کیا گیا۔ این ایل ڈی، جس کے کئی اراکین ماضی میں خود قیدی رہ چکے ہیں، نے فوج کے وہ قوانین تسلسل سے جاری رکھے ہوئے ہیں جو آزادئی اظہارِ رائے اور اکٹھ پر پابندیاں لگا کر ناقدین کو خاموش کراتے ہیں، اور روہنگیا کے خلاف جاری فوجی کارروائی کی مخالفت نہ کرنے کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پرنفرت کا سامنا کر رہے ہیں۔“

”’این ایل ڈی ایک ایسی حکومت نہیں ہے جو انسانی حقوق اور اس قسم کی آزادی کی قدر کرتی ہو جس کے لیے لوگ سڑکوں پر احتجاج کر رہے تھے۔‘ لندن میں واقع حقوق کا پرچار کرنے والی این جی او، ’برما کمپئین یو کے‘ کے ڈائریکٹر مارک فارمینر نے کہا۔ ’این ایل ڈی کی حکومت کو ماضی کی غلطیوں کی تصحیح کرنے میں ذرا بھی دلچسپی نہیں ہے۔“‘

چنانچہ نوجوانوں، محنت کشوں، کسانوں اور قومی اقلیتوں کو بورژوا لبرلز پر اعتبار نہیں کرنا چاہئیے۔ آج وہ تمہارے دوست ہونے کا ناٹک کریں گے، مگر کل وہ تم سے غداری کریں گے۔ وہ میانمار کے محنت کش طبقے کے مفادات کا دفاع نہیں کرتے۔ ان کا اولین فریضہ امیروں کی ملکیت کی حفاظت کرنا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ ماضی میں انہوں نے فوج کے ساتھ سمجھوتہ کیا۔

طبقاتی مفاہمت نہیں، محنت کشوں کی مسلح بغاوت کی جانب بڑھو

میانمار کے محنت کش صرف اپنی قوت کے سہارے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ میانمار کے جرأت مند عوام کے اندربھرپور انقلابی جذبہ موجود ہے، جو آئے روز سڑکوں پر دیکھا جا سکتا ہے۔ بہت سی طاقتور ہڑتالیں ہوئی ہیں جن میں عام ہڑتالیں بھی شامل ہیں۔ کچھ ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں جس میں پولیس افسران اپنے لوگوں پر گولیاں چلانے کی بجائے بھارت فرار ہو گئے ہیں۔ مگر انقلابی جذبے کو ایک ایسے انقلاب میں بدلنے کے لیے، جس میں عوام اقتدار پر قبضہ کر لے، جس چیز کی ضرورت ہے وہ محنت کشوں کی عوامی انقلابی پارٹی ہے جو ان تمام قوتوں کو یکجا کرنے کی اہل ہو جس کے ذریعے اس حکومت کا تختہ الٹا جا سکتا ہے۔ ایسی کوئی بھی پارٹی آج عوام سے انقلابی اقدامات، بشمول مسلح کارروائیوں کے، اپیل کرے گی۔

میانمار کی فوج کے ہاتھوں 500 مظاہرین مارے جانے کے بعد، جن میں کم عمر بچے بھی شامل ہیں، فوج کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں بچی ہے۔ فوج کی دہشت کو مسلح جواب دینے کی ضرورت ہے۔ سوال یہ ہے کہ؛ کس طرح کا مسلح جواب؟

لینن نے اس حوالے سے روس کے محنت کشوں اور نوجوانوں کے لیے بہترین تجویز پیش کی تھی جب 1905ء میں سینٹ پیٹرز برگ کے اندر زار کے امپیریل گارڈ نے نہتے محنت کشوں پر گولیاں چلا کر 1 ہزار سے زائد افراد کو ہلاک اور تقریباً 2 ہزار کو زخمی کیا تھا، جس کو بعد میں ”خون آلود اتوار“ کا نام دیا گیا۔ اس دن سے پہلے پر امن احتجاج کا طریقہ کار اپنا کر زار سے درخواستیں کی جا رہی تھیں۔ قتلِ عام کے بعد لوگوں کے خیالات میں راتوں رات تبدیلی آئی اور وہ اس کا مسلح جواب دینا چاہتے تھے۔ اس وقت ان کا جو غم و غصّہ تھا، وہ الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔

اس موقع پر لینن محض بیان بازیاں نہیں کرتا رہا۔ اس نے ”پر امن احتجاج“ کی بات نہیں کی۔ ہر گز نہیں، پر امن احتجاج کا دور ختم ہو چکا تھا، اس نے مندرجہ ذیل سطور لکھیں:

”ان کو جتنا بہتر ہو سکے خود کو مسلح کرنا پڑے گا (رائفلیں، ریوالور، بم، چھریاں، انگلیوں پر چڑھانے والا لوہے کا مُکّا، لاٹھیاں، آگ جلانے کے لیے مٹی کے تیل میں بھگوئے گئے کپڑے، رسیاں یا رسیوں والی سیڑھیاں، رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لیے بیلچے، پائی روکسیلین کے کارتوس، خاردار تاریں، (گھڑ سوار فوج کو روکنے کے لیے) کیل، وغیرہ وغیرہ)۔ انہیں کسی بھی صورت دوسرے ذرائع سے مدد لینے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے، جو ان سے الگ ہوں؛ انہیں ہر چیز کو اپنے ہی قابو میں لینا ہوگا۔“

لینن نے یہ 1905ء میں لکھے جانے والے اپنے مضمون ”انقلابی فوج کے دستوں کے فرائض“ میں لکھا، اور آج ہم میانمار کے اندر ہر با شعور نوجوان کو یہ پورا مضمون پڑھنے کی تلقین کریں گے۔

بہرحال ہمیں یہ بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے، کہ میانمار کے نوجوانوں کی سب سے انقلابی پرتیں ماضی میں بھی ان نتائج پر پہنچ چکی ہیں۔ 1988ء کی تحریک پر فوج کے ظالمانہ جبر کے بعد، کئی طلبہ شہروں کو چھوڑ کر سرحدی علاقوں کے جنگلات یا پڑوسی ملک تھائی لینڈ میں مظلوم قومیتوں کے مسلح گروہوں سے تربیت حاصل کرنے کے لیے چلے گئے تھے۔ آل برما ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن فرنٹ نے ہتھیار اٹھا لیے، اور دہائیوں پر مشتمل مسلح جدوجہد کا آغاز کر دیا، مگر وہ فوجی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوششوں میں ناکام ہو گئے اور ان سے غداری کر کے انہیں کچل دیا گیا، تب انہیں بہت مشکل حالات کا سامنا تھا اور وہ بڑھتی ہوئی بیماریوں، ضروری اشیاء اور ہتھیار کی کمی سے دوچار تھے۔

چنانچہ موجودہ حالات میں متبادل وفاقی فوج بنانے کا خیال آگے کا قدم ہے۔ اس کے لیے میانمار کے سماج میں موجود تمام مظلوم پرتوں کو اکٹھا کرنا ہوگا، جو آبادی کی اکثریت ہیں۔ قومی اقلیتوں کو دہائیوں سے جبر کا نشانہ بنایا گیا ہے اور ان میں سے بعض مرکزی حکام کے خلاف گوریلا جنگوں میں بھی شامل رہے ہیں۔ ان کی جانب سے کیا جانے والا زیادہ خود مختاری کا مطالبہ احتجاجی تحریک کو تسلیم کر لینا چاہیے، اور بامار قوم کے محنت کشوں کو حقِ خود ارادیت کے مطالبے کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے تاکہ سالوں سے جاری اس تعصب کا خاتمہ کیا جا سکے جسے فوج نے سوچ سمجھ کر پھیلایا تھا۔

دیہاتی علاقوں کے اندر کسان بھی، فوج اور ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کے زمین پر قبضے کے خلاف جاری جدوجہد میں شریک ہیں۔ کسانوں کو بھی عوامی فوج میں شامل ہونے کی ضرورت ہے، اور وہ شہروں میں جاری تحریک کی حمایت میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس عمل کے نتیجے میں کسان اپنی زمینوں کی ملکیت کا حق حاصل کر پائیں گے۔

البتہ ہمیں خود سے یہ بھی پوچھنے کی ضرورت ہے کہ اس وفاقی فوج کا حتمی مقصد کیا ہوگا۔ کیا اسے خود کو فوج کو اقتدار سے بے دخل کر کے این ایل ڈی اور آنگ سان سو چی کو واپس اقتدار دلانے تک محدود کرنا چاہیے؟ اگر ایسا ہوا تو پھر بورژوا لبرلز کی جانب سے تحریک کے ساتھ دوبارہ غداری کی جائے گی۔ ان لبرلز کو ایک طرف عوام کی جانب سے غصّے کی ایک بڑی لہر کا سامنا ہے جو فوج کو اقتدار سے ہٹانے کی شدید خواہش رکھتے ہیں، اور دوسری جانب سرمایہ داروں کے دباؤ کا، جن میں ملکی و غیر ملکی دونوں شامل ہیں، جو اپنے نظام کے تسلسل کی ضمانت چاہتے ہیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ ایک وقت میں دو آقاؤں کی خدمت نہیں کی جا سکتی۔ مزدوروں اور کسانوں کے مفادات کارخانوں کے مالکان کے مفادات سے مختلف ہیں۔ اس صورتحال میں کسی بھی قسم کی طبقاتی مفاہمت کا نتیجہ نچلی پرتوں کی شکست کی صورت میں نکلے گا۔ ہاں، وہ عارضی طور پر جرنیلوں کو اقتدار سے ہٹانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں، مگر کیا وہ فوجی افسران کو اپنے قابو میں رکھ پائیں گے۔ یاد رہے کہ فوجی افسران میانمار کے سرمایہ دار طبقے کا ایک اہم حصہ ہیں۔ کیا وہ تمام افسران کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتے ہوئے موجودہ فوجی مشینری کا مکمل خاتمہ کر پائیں گے؟ آخری دفعہ جب وہ اقتدار میں آئے تھے، انہوں نے ایسا نہیں کیا تھا۔ ان لوگوں سے ایک ہی توقع کرنا ممکن ہے، یہ کہ وہ دوبارہ غداری کریں گے۔

جس چیز کی ضرورت ہے وہ میانمار کے محنت کش طبقے پر مبنی ایک خود مختار تنظیم ہے۔ محنت کشوں کے پاس ٹریڈ یونینز پہلے سے موجود ہیں، مگر بد قسمتی سے ان میں زیادہ تر کی قیادت افسر شاہی کر رہی ہے جن کے رشتے ناطے این ایل ڈی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، جو سرمایہ دار طبقے کے سیاسی نمائندگان ہیں؛ کارخانوں کے ان مالکان کے نمائندے جو روزمرہ کی بنیاد پر مزدوروں کا استحصال کرتے ہیں۔ کچھ ٹریڈ یونین قائدین، جیسا کہ گارمنٹ ورکرز یونین کے، نے زیادہ لڑاکا رویہ اپنا لیا ہے، مگر ٹریڈ یونین قائدین کی اکثریت تب ہی حرکت میں آتی ہے جب عام محنت کش ان پر دباؤ ڈالنا شروع کرتے ہیں۔

ان نام نہاد ”قائدین“ نے اقوامِ متحدہ اور حتیٰ کہ امریکی ریاست سے بھی اپیلیں کی ہیں، اور اس سراب کو پھیلایا ہے کہ ”مغربی جمہوریت“ حالات کو قابو میں کر سکتی ہے۔ ہم نے میانمار پر لکھے جانے والے اپنے پچھلے مضمون میں وضاحت کی تھی کہ ”مذمت کے چند الفاظ اور کچھ فوجی افسران کے اوپر پابندیاں لگانے کے علاوہ امریکی ریاست میانمار کے اندر فوجی مداخلت کرنے کی جانب نہیں جائے گی۔“ لوگوں کو ان الفاظ کا تلخ سبق آخر سیکھنا ہی پڑا۔

غیر معینہ مدت تک عام ہڑتال

فوجی حکومت کو محنت کش طبقے کے طریقے سے ہٹانے کے لیے ضروری ہے کہ تسلسل کے ساتھ جدوجہد کو جاری رکھا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ غیر معینہ مدت تک عام ہڑتال کو جاری رکھا جائے۔ اب تک کئی دفعہ عام ہڑتالیں ہوئی ہیں جسے میانمار کے محنت کشوں کی اکثریت کی جانب سے بڑی حمایت ملی ہے، مگر اس قسم کی صورتحال میں محض ایک یا دو روزہ ہڑتال کافی نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ غیر معینہ مدت تک عام ہڑتال کو جاری رکھتے ہوئے معیشت کو پوری طرح سے منجمد کر کے رکھ دیا جائے۔

محنت کش ایسا کرنے کی طاقت ضرور رکھتے ہیں۔ وہ ریل اور سڑکوں کی ٹرانسپورٹ کو پوری طرح سے بند کر سکتے ہیں؛ وہ بندرگاہیں بند کر سکتے ہیں؛ وہ بجلی اور تیل کی فراہمی روک سکتے ہیں، اور اس قسم کے طریقوں سے وہ فوج کو بھی نڈھال کر سکتے ہیں۔ ایسی عام ہڑتال کے لیے ضروری ہوگا کہ کام کی جگہوں، سکولوں اور یونیورسٹیوں پر قبضے کیے جائیں، اور اس کے ساتھ ساتھ انتظامیہ کے سارے مراکز کو بھی اپنے قبضے میں لیا جائے۔ اگر ایسی عام ہڑتال میانمار کے ہر کونے، ہر ریاست، ہر شہر اور ہر گاؤں میں منظم کرتے ہوئے تمام محنت کشوں، بامار اور تمام قومی اقلیتوں کو متحد کیا جائے، تو فوج کے پاس اتنے وسائل نہیں بچیں گے کہ وہ سارے لوگوں پر جبر جاری رکھ سکے۔

MM Protests 2021 Image VOA Burmese

غیر معینہ مدت تک ہڑتال کی جانب بڑھو! محنت کشوں کی مسلح دفاعی فوج تعمیر کرنے کی جانب بڑھو! حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے مسلح عوامی بغاوت کو منظم کرو!

ایسی عام ہڑتال کی کامیابی کے لیے کام کی ہر جگہ پر ہڑتالی کمیٹیوں اور ہر شہر اور گاؤں میں محلے کی سطح پر کمیٹیوں کو بھی منتخب کرنا پڑے گا۔ یہ کمیٹیاں مقامی سطح پر انتظامات کو اپنے ہاتھوں میں لے سکیں گی۔ اس کے بعد ان کمیٹیوں کو قومی سطح پر بنائی گئی کمیٹی کے ساتھ تعاون کرنا پڑے گا، جو ملک کے اندر مزدوروں اور کسانوں کی طاقت کا نمائندہ بن کر سامنے آئے گی۔ اس کے نتیجے میں عوام کو یہ پیغام پہنچے گا کہ اب ایک حقیقی انقلابی قیادت سامنے آ گئی ہے، جس کا انتخاب عوام خود کرتے ہیں اور جس کے اختیارات بھی انہیں کے پاس ہیں۔

البتہ اس سب کے سامنے عوام کی مسلح بغاوت کو منظم کرنے کا واضح مقصد بھی ہونا ضروری ہے۔ اسی لیے مسلح محنت کشوں کی دفاعی قوت، محنت کشوں کی مِلیشیا، جس کے اختیارات ہڑتالی کمیٹیوں کے پاس ہوں، تحریک کے فوری فرائض میں سے ایک ہے۔ کئی لوگ، جن میں میانمار کے بورژوا لبرلز اور حتیٰ کہ سامراجی مغربی ممالک کی حکومتیں بھی شامل ہیں، کہہ رہے ہیں کہ فوجی حکومت کے اقدامات مجرمانہ ہیں۔ اگر ان کے اقدامات واقعی میں مجرمانہ ہیں، پھر تو عوام کو کھلی چھوٹ حاصل ہے کہ ان مجرموں کے خلاف لڑنے کے لیے ہتھیار اٹھائیں۔

میانمار کی مزدور تنظیموں کو دیگر ممالک کے محنت کشوں کی تنظیموں سے امداد کی اپیل کرنی چاہئیے، ایسی امداد جو محض مذمتی بیانات یا قراردادوں کی شکل میں نہ ہو، بلکہ ٹھوس اقدامات پر مشتمل ہو۔ میانمار کے اندر غیر معینہ مدت تک ہڑتال کو جاری رکھتے ہوئے عالمی سطح پر محنت کشوں کی طرف سے میانمار کے بائیکاٹ کی ضرورت ہے۔ ہمارے پچھلے مضمون میں، جس کا اقتباس اوپر دیا گیا ہے، ہم نے ماضی میں محنت کشوں کے بائیکاٹ کی مثالیں دی ہیں۔ اس قسم کے بائیکاٹ کی مہم کو کافی مقبولیت ملے گی اگر میانمار کی مزدور تنظیمیں اس کی اپیل شروع کر دیں۔

دیگر ممالک کی مزدور تحریکوں کو شعوری طور پر میانمار کے محنت کشوں اور نوجوانوں کے لیے فنڈ اکٹھا کرنے کی بھی ضرورت ہے، جو انہیں اس ظالمانہ حکومت سے لڑنے کے لیے درکار ہے۔ تاریخ میں ہمیں اس کی شاندار مثال 1930ء کی دہائی میں سپین کے اندر سے ملتی ہے۔ جب فرانکو نے ’کُو‘ کیا تھا، مزدور اور کسان ہتھیار اٹھا کر فاشسٹوں کے خلاف لڑے تھے۔ اور یورپ سمیت دیگر ممالک کے محنت کش اپنے ہسپانوی بہن بھائیوں کی مدد کرنے چلے آئے تھے، اور انہیں ہتھیار فراہم کرنے میں بھی مدد کی تھی۔ ہسپانوی مزدور اور کسان بالآخر اس وجہ سے ناکام ہوئے کیونکہ ان کے قائدین کی پالیسیاں اور پروگرام غلط تھے، جو بورژوا لبرلز کے اوپر اعتبار کر رہے تھے، جنہوں نے انہیں دھوکہ دیا۔ بہرحال بات دراصل یہ ہے کہ دیگر ممالک کے محنت کشوں نے ہسپانوی انقلاب کی مدد کے لیے جو ممکن تھا، کیا۔ آج بھی اس کی ضرورت ہے۔

اگر غیر معینہ مدت تک عام ہڑتال کو مسلح بغاوت کی فیصلہ کن اپیل کے ساتھ ملا کر منظم کیا جائے تو پولیس اور فوج کے عام سپاہیوں کو بھی واضح پیغام پہنچے گا۔ ہم نے دیکھا کہ کچھ پولیس افسران اپنے لوگوں پر گولیاں چلانے سے انکار کر کے بھارت فرار ہو گئے ہیں۔ مگر جس چیز کی ضرورت ہے وہ سرحد پار کر کے فرار ہونا نہیں، بلکہ تحریک میں اپنے ہتھیاروں کے ساتھ شامل ہونا ہے۔ جیسا کہ اوپر دیے گئے دی گارڈین کے مضمون میں نشاندہی کی گئی ہے، ”ایک کامیاب مسلح مزاحمت کے لیے فوج اور پولیس ترک کرنے والے دستوں کی مدد بھی درکار ہوگی۔۔۔“

منظم محنت کش طبقے کی جانب سے واضح پیغام کے نتیجے میں فوج اور پولیس کے عام سپاہی اپنے افسران کی نافرمانی کرتے ہوئے ان کے خلاف کھڑے ہو جائیں گے۔ اس سے تحریک کا پلڑا بھاری ہو جائے گا اور محنت کش طبقے کے مسلح ہونے کا عمل شروع ہو جائے گا، جو اس بھیانک خواب کے خاتمے کا واحد راستہ ہے جس کا سامنا آج میانمار کے عوام کر رہے ہیں۔

غیر معینہ مدت تک ہڑتال کی جانب بڑھو!
محنت کشوں کی مسلح دفاعی فوج تعمیر کرنے کی جانب بڑھو!
حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے مسلح عوامی بغاوت کو منظم کرو!

Comments are closed.