مٹھی، تھرپارکر: بااثر شخصیات کے محنت کشوں کی بستی پر قبضے کیخلاف زبردست احتجاج
چند روز قبل مٹھی شہر، ضلع تھرپارکر میں بھیل برادری نے دو دن زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا جس میں دو ہزار سے زائد لوگ شریک ہوئے جن میں اکثریت محنت کش خواتین کی تھی
چند روز قبل مٹھی شہر، ضلع تھرپارکر میں بھیل برادری نے دو دن زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا جس میں دو ہزار سے زائد لوگ شریک ہوئے جن میں اکثریت محنت کش خواتین کی تھی
چاروں صوبوں کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے محنت کشوں نے بھی اس احتجاج اور قلم چھوڑ ہڑتال میں شرکت کی۔پنجاب کے 36 اضلاع میں احتجاج و ہڑتال ہوئی۔لاہور شہر کے تقریباًً تمام سرکاری دفاتر میں قلم چھوڑ ہڑتال کی گئی
ایک طرف تبدیلی سرکار ملک میں سیاحت کے فروغ اور سیاحت سے زرمبادلہ کمانے کا ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے اور وزیر اعظم یہ بتاتا نہیں تھکتا کہ پاکستان میں سیاحت سے کتنا پیسہ کمایا جاسکتا ہے مگر دوسری جانب پی ٹی ڈی سی موٹلز کی نجکاری کا اقدام اس سب کی نفی اور حکومتی عزائم کا پردہ چاک کرتا ہے۔
حالیہ معاشی اعداد و شمار کے مطابق عالمی معیشت کے زوال کی شرح میں کمی آئی ہے جس کو دیکھ کر سرمایہ داروں اور سٹاک مارکیٹوں نے سکھ کا سانس لیا۔ تاہم کوئی ایک بھی مسئلہ حل نہیں ہوا اور لاک ڈاؤن میں نرمی سے آنے والی ناگزیر بہتری سے گہرے معاشی، سماجی اور سیاسی بحران کا منظر نامہ تبدیل نہیں ہوگا۔
ریل مزدوروں کے بنیادی مطالبات میں تنخواہوں میں سو فیصد اضافہ، نجکاری اور جبری چھانٹیوں کا خاتمہ، ٹیکنیکل الاؤنس کا حصول، سکیل اپ گریڈیشن اور کنٹریکٹ ملازمین کی مستقلی شامل ہیں۔ جلسے کے آخر میں اعلان کیا گیا کہ اگر 5 اگست تک مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو پورے ملک میں ریل کا پہیہ جام کر دیا جائے گا۔
برصغیر سے غربت، بھوک کے خاتمے اور کرونا وبا سے مقابلے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے لیکن ایسا کرنے کے لیے درکار دولت اور سائل مٹھی بھر لوگوں کی ملکیت میں ہیں۔ یہ ہوشربا دولت محنت کشوں کے خون اور پسینے سے نچوڑی گئی ہے۔ بھارت کا حکمران طبقہ اس نابرابری کو قائم و دائم رکھنے کی خاظر ہر حد تک جانے کو تیار ہے۔
ریلوے میں اس وقت 76ہزار کے قریب محنت کش اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں جبکہ اب بھی 28 ہزار کے قریب خالی آسامیاں موجود ہیں جن کو پر نہ کرنے کی وجہ سے ایک مزدور چار سے پانچ آدمیوں کا کام کرتا ہے
|رپورٹ: مرکزی بیورو، ریڈ ورکرز فرنٹ| اطلاعات کے مطابق پاکستانی ریاست آئی ایم ایف پروگرام کے تحت حاضر سروس سرکاری ملازمین کو جبری طور پر قبل از وقت ریٹائر کرنے، پینشن اور مستقل ملازمت کو ختم کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے۔ اس ضمن میں تین کمیٹیاں بنا دی گئی […]
بلوچستان اسمبلی کے سامنے تحریکِ بحالیٔ بی ایم سی کے لیے ایپکا بلوچستان کے زیراہتمام دھرنے کے 18 ویں دن بلوچستان اسمبلی کے سامنے احتجاجی جلسہ ہوا، جس میں ایپکا کے مختلف یونٹس کے علاوہ دیگر مزدور تنظیموں نے شرکت کی
نجکاری کے اس حملے کے خلاف جدوجہد کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ گہرے ہوتے معاشی بحران اور آئی ایم ایف کے سامراجی ادارے کی مسلط کردہ مزدور دشمن پالیسیوں پر عملدر آمد کے لیے حکمران طبقہ ہر حد تک جانے کو تیار ہے اور اس کا مقابلہ مزدور جڑت سے ہی کیا جاسکتا ہے
تبدیلی سرکار نے جہاں ملک بھر کے محنت کش طبقے کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے وہیں پر سرمایہ داروں کے مالی مفادات کے تحفظ کے لئے انہیں کھربوں روپے کی ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے
ایک عام پروپیگنڈہ یہ کیا جا رہا ہے کہ مالی سال-21 2020ء کا بجٹ،ٹیکس فری بجٹ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بجٹ صرف اور صرف سرمایہ داروں اور حکمران طبقات کے لئے ٹیکس فری ہے مگر مزدور طبقے کیلئے اس بجٹ میں مہنگائی،بیروزگاری،نجکاری،غربت اور بربادی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام جانکنی کے عالم میں ہے۔ یہ کوئی معمولی بحران نہیں بلکہ ایک نامیاتی بحران ہے، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام اپنی طبعی عمر پوری کر چکا ہے۔ ایک نئی عالمی کساد بازاری کا آغاز ہوچکا ہے جوکہ 1930ء کی دہائی سے بھی بدتر ہے۔بدترین کٹوتیاں اور گرتا معیار زندگی ناگزیر ہیں۔
ملک بھر کے ہیلتھ ورکرز کو اپنی بقا کی خاطر خود متحرک ہو نا پڑے گا۔ جہاں پر نسبتاً بہتر قیادتیں موجود ہیں وہاں ان قیادتوں پر ریڈیکل اقدامات کے لئے دباؤ ڈالنا ہو گا اور جہاں قیادت موقع پرستی کی دلدل میں بالکل غرق ہو چکی ہے وہاں نئی، لڑاکا اور دیانت دار قیادت تراشنی ہو گی