خیبر پختونخواہ: سرکاری کالجز کی نجکاری کے خلاف ٹیچرز سراپا احتجاج؛ نام نہاد ’تبدیلی‘ کا پردہ چاک

|رپورٹ: اسفند یار شنواری|

سرکاری کالجز کی نجکاری کے خلاف 19 ستمبر کو پختونخوا بھر کے لیکچرار، پروفیسرز اور ٹیچنگ سٹاف نے اسمبلی ہال کے باہر شدید احتجاج کیا اور دھرنا دیا۔ اس احتجاجی دھرنے میں پورے صوبے کے ٹیچنگ سٹاف نے شرکت کی۔ ہزاروں کی تعداد میں ٹیچر اسمبلی ہال کے باہر جمع تھے اور پختونخوا حکومت کے اس عوام دشمن اقدام کے خلاف سراپا احتجاج تھے۔ احتجاج کی شدت سے گھبرا کر اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرنا پڑا۔ دھرنے میں شریک محنت کشوں کا موڈ انتہائی لڑاکا تھا اور وہ تحریک انصاف حکومت کے اس اقدام کے خلاف کسی بھی حد تک جانے کو تیار تھے۔ مظاہرین نے حکومت اور نجکاری کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور کالجز کی مجوزی نجکاری کے اس مذموم منصوبے کو واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ خواتین اساتذہ کی بھی ایک بڑی تعداد دھرنے میں شریک تھی۔ ہسپتالوں کے بعد تعلیمی اداروں کی نجکاری کا اعلان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی مخلوط حکومت کا اصل چہرہ عیاں کرتا ہے اور نام نہاد تبدیلی اور نئے پاکستان کا اصل کردار واضح کرتا ہے۔ 

19ستمبر کو خیبر پختونخواہ حکومت نے مجوزہ ایجوکیشن بل2017ء کے نام سے ایک اشتہار اخبار میں دیا۔ اس بل کے الفاظ کا ’قابل قبول‘ چناؤ بھی کالج کے پروفیسرز اور لیکچررز کے ردعمل کو قابو نہیں کرسکا۔ اس ایکٹ کے مطابق وہ اساتذہ جو کہ ’ایڈ ہاک‘ کی بنیاد پر بھرتی نہیں ہونگے ان کے لئے لازمی ’پروبیشن‘ کا وقت دیا گیا ہے۔ اگر تو کوئی استاد اس عرصے میں پروبیشن پاس کرلے جس میں مزید ٹیسٹ اور ٹرائلز پاس کرنے ہونگے تو اس کو مستقل کر دیا جائے گا۔ حیران کن طور پر اسی بل کے اندر لکھا ہے کہ پروبیشن کے عرصے میں کسی کو بھی کسی بھی وقت نوکری سے فارغ کر دیا جاسکتا ہے۔ 

لیکن اس بل کے بہت سے حصے سامنے نہیں لائے گئے جو حقیقی قوانین ہے وہ اس بل میں موجود نہیں ہے۔ مثلاً کچھ کالجز پر بورڈ آف گورنرز کا تجربہ کیا جا رہا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ کالجز کو خود مختار بنا دیا جائے گا۔ یہ کالجز اپنے لئے خود آمدنی کے ذرائع تلاش کریں گے جس کا خمیازہ لازمی طور پر محنت کشوں کے بچوں اور غریب طلبہ کو بھگتنا پڑے گا۔ پہلے سے کالجز میں ’بی ایس(آنرز) نامی تعلیمی ڈگریوں کو متعارف کیا گیا ہے، جس کے تحت طلبہ کو ایک سمسٹر کی قریباً 6ہزار تک فیس ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ اس کے بر عکس پہلے یہ فیسیں 2ہزار روپے سالانہ ہوا کرتی تھی۔ بی ایس سسٹم جو کہ 4 سالہ ہوتا ہے، میں کالجز صرف 40 سے 50 طلبہ کو داخلہ دے کر باقی ماندہ کو داخلے سے محروم کر دیتے ہیں۔ بورڈ آف گورنرز میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ریاست وقت گزرنے کے ساتھ تعلیمی شعبے سے خود کو مکمل طور پر علیحدہ کرلے گی۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ بورڈ آف گورنرز اور خود مختاری کے نام پر نجکاری کا منصوبہ ہے جس سے صوبے بھر اور فاٹا کے طلبہ کی اکثریت تعلیم سے محروم ہو جائے گی۔ یہی نام نہاد تبدیلی ہے جس کا واویلا تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی قیادت زوروشور سے کرتی ہے۔

اس کے علاوہ تعلیمی مرکزیت، جو کہ اس بل سے متعلقہ ہے بھی ایک دھوکہ اور اس کا مقصد لوٹ کھسوٹ اور جبر کیلئے راہ ہموار کرنا ہے۔ صوبے سے ضلع اور پھر کالجزکونسلز بنائیں جائیں گی جس میں عہدیداران بیٹھ کر اقتصادی، انتظامی اور تعلیمی فیصلے کرینگے۔ صوبے کے سطح پر اس کونسل کا سربراہ اعلیٰ تعلیم کا وزیر ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر کونسل میں بیو روکریٹ یا جج بٹھائے جائینگے جو کہ تعلیمی شعبے سے وابستہ محنت کشوں پر جبر میں اضافی کریں گے۔ انتظامی امور بیوروکریٹوں کو دینے کا مطلب یہ ہے کہ یہ کسی بھی وقت کسی کا بھی تبادلہ کر سکتے ہیں۔ اساتذہ کو پہلے یہ حق حاصل تھا کہ وہ ایک مخصوص عرصہ نوکری کے بعد اپنا تبادلہ کرا سکتے تھے۔ 

حکمرانوں کے ان محنت کش دشمن عزائم اور لوٹ مار کے لئے راہ ہموار کرنے کے خلاف خیبر پختونخواہ پروفیسرز اور لیکچررز ایسوسی ایشن نے بہادری اور ہمت کے ساتھ اسمبلی ہال کے باہر19 ستمبر کو ہزاروں کی تعداد میں دھرنا دیا۔ تقریروں کا سلسلہ صبح سے شروع ہوکر سہ پہر تک جاری رہا۔ کالج اساتذہ کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے جھوٹے وعدوں کے باوجود جو اس نے 30 نومبر 2016ء کو کئے تھے، نہ تو پروفیشنل الاؤنس دیا گیا ہے اور نہ ہی ان کی ترقیاں ہورہی ہے۔ اوپر سے ایڈ ہاک بنیادوں پر بھرتی کئے گئے ہزاروں اساتذہ کو نوکریوں سے فارغ کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ اساتذہ نے بورڈ آف گورنرز کے خلاف بھرپور نعرے لگائے اورہر قسم کی ریاستی بد معاشی کو رد کیا۔ 20اور 21 ستمبر کو صوبے بھر اور فاٹا کے اساتذہ نے تعلیمی بائیکاٹ کیا، جس نے پی ٹی آئی حکومت کو مذاکرات کرنے پر مجبور کردیا جس کے بعد مذاکرات کو کامیابی تک ہڑتال ختم کرنے کا اعلان کیا گیا۔ 

احتجاجی ٹیچرز کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ یہ نجکاری صرف تعلیم کے شعبے تک محدود نہیں ہے، بلکہ عوامی فلاح کا ہر شعبہ اس کا شکار ہے جس میں صحت کا شعبہ سرفہرست ہے۔ کے پی کے اور فاٹا کے ہسپتالوں کو کسی نہ کسی شکل میں ٹھیکیداروں کو بیچ دیا گیا ہے۔ اس سے قبل سکول اساتذہ اور ینگ ڈاکٹرز بھی نام نہاد اصلاحات کے خلاف احتجاج کرتے رہے ہیں۔ وفاقی حکومت سے لے کر تمام صوبائی حکومتیں نجکاری کی پالیسی کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پچھلے سال 2فروری کو پی آئی اے کے محنت کشوں نے نجکاری کے خلاف آٹھ روزہ تاریخی ہڑتال کی اور حکومت کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا۔ اس سے قبل واپڈا کے محنت کشوں کی نجکاری کے خلاف تحریک جاری تھی۔ اس وقت قریباً تمام پارٹیاں حکومت میں ہیں اور سب کی پالیسیاں ایک جیسی ہیں اور تمام پارٹیاں محنت کش دشمنی میں ایک دوسرے پر برتری لے جانے کے لئے سرگرداں ہیں۔ نجکاری کی یہ پالیسی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے سامراجی اداروں کے ایما پر جاری ہے۔ ان سامراجی اداروں سے لئے جانے والے قرضوں کی شرائط میں عوامی فلاح کے اداروں کی نجکاری سرفہرست ہے۔ اور حکومت ایک بار پھر آئی ایم ایف سے قرضے لینے کی طرف جارہی ہے جس کی تیاری کے لئے ایک بار پھر واپڈا، ریلوے، پی آئی اے، سکول اور ہسپتالوں سمیت دیگر اداروں کی نجکاری کا اعلان کیا گیا ہے۔ نجکاری کے اس حملے کا مقابلہ صرف اور صرف محنت کشوں کی طبقاتی جڑت اور اتحاد سے کیا جاسکتا ہے۔ KPPLAکی قیادت کا فرض ہے کہ وہ اس لڑائی میں دیگر اداروں کے محنت کشوں کی حمایت حاصل کرنے کی اپیل کرے اور اس کے لئے عملی اقدامات کرے۔ پیشہ ورانہ تنگ نظری حکومت اور یاست کے فائدے میں جائے گی جو کہ محنت کشوں کے اتحاد میں ایک رکاوٹ ہے۔ ریڈ ورکرز فرنٹ خیبر پختونخوا کے اساتذہ کی اس تحریک کو دیگر اداروں کے محنت کشوں سے جوڑنے کے لئے ہر ممکن کردار ادا کرے گا۔

ریڈ ورکرز فرنٹ اس جدوجہد میں اساتذہ کے ساتھ کھڑا ہے اور کے پی پی ایل اے کے مطالبات کی حمایت اور ہر قسم کی نجکاری کی مخالفت کرتا ہے۔

مزدور دشمن حکمران مردہ باد!

نجکاری مردہ باد!

مزدور اتحاد زندہ باد!

Comments are closed.