|تحریر: ہیلینا بائبرک، ترجمہ: آصف لاشاری|
یکم نومبر 2024ء کو نووی ساد (Novi Sad) سٹیشن کی کنکریٹ کی چھت گرنے کا واقعہ، جس میں 16 افراد جان کی بازی ہار گئے، رونما ہونے کے بعد سربیا بھر میں طلبہ کی قیادت میں قبضوں، ناکہ بندیوں اور احتجاجوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ کرپشن کے باعث پیش آنے والے اس سانحے نے پورے ملک میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی۔ جب یہ مضمون اپریل میں لکھا جا رہا ہے تو سربیا بھر میں دس لاکھ سے زائد افراد طلبہ کے مطالبات کی حمایت میں شامل ہو چکے ہیں۔ ملک بھر میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
طلبہ کی جانب سے شروع ہونے والی یہ عوامی تحریک حال ہی میں 15 مارچ کو بیلغریڈ (Belgrade) میں ایک دیوہیکل مظاہرے کے ساتھ شدت اختیار کر گئی، جس میں پانچ لاکھ تک افراد نے شرکت کی۔ مظاہرے میں شرکاء کی تعداد کا درست اندازہ لگانا مشکل ہے، لیکن بظاہر سربیا کی آبادی کے دس سے پندرہ فیصد افراد سڑکوں پر نکلے تھے۔ سربیا ایک چھوٹا ملک ہے جس کی آبادی 66 لاکھ ہے۔ اگر یہی تناسب امریکہ میں ہوتا تو وہاں 5 کروڑ سے زائد لوگ متحرک ہو چکے ہوتے۔ سابق یوگوسلاویہ کی جدید تاریخ میں اس پیمانے کی عوامی تحریک کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ سرکاری کنٹرول میں چلنے والے میڈیا نے شرکاء کی اصل تعداد چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ ’صرف‘ ایک لاکھ سات ہزار لوگ موجود تھے، لیکن یہ معمولی چال کسی بھی صاحبِ نظر کو دھوکہ نہیں دے سکتی۔
15مارچ کو ہونے والے بڑے مظاہرے کے دن، طلبہ نے ہوشیاری سے ایک جگہ سے دوسری جگہ احتجاج کو منتقل کیا اور حکومت کے غنڈوں کی جانب سے تشدد اور یہاں تک کہ سانک ہتھیار کے استعمال کے باعث مظاہرے کو ایک گھنٹہ پہلے ہی ختم کر دیا گیا تاکہ کوئی بڑا واقعہ رونما نہ ہو۔
نہ تو یہ وسیع مظاہرے اور نہ ہی طلبہ کے حق میں اٹھنے والی وسیع حمایت کی لہر (حالیہ سروے کے مطابق 80 فیصد عوامی حمایت) موجودہ حکومت کو روک سکی ہے۔ تاہم، طلبہ کا حوصلہ، جدوجہد کا جذبہ اور سابق یوگوسلاویہ کے ممالک میں ثقافتی ہم آہنگی، یکساں حالات اور ناکام کرپٹ سرمایہ دارانہ حکومتوں کے تجربات، جو 1990ء کی دہائی میں سرمایہ داری کی بحالی کے نتیجے میں بربادی کا شکار ہوئے، ان مظاہروں کو پورے خطے کے نوجوانوں اور مزدوروں کے لیے تحریک کا ذریعہ بنا رہے ہیں۔
کروشیا کی جانب سے بھی یکجہتی کا اظہار کیا گیا ہے، جہاں سربیا کی سرحد سے باہر یہ تحریک مختلف انداز میں ظاہر ہوئی ہے۔ وہاں اس وقت تعلیم کے شعبے کے ملازمین کی ایک بڑی ہڑتال جاری ہے، جو حالیہ برسوں کی سب سے بڑی ہڑتال ہے اور یہ بھی جزوی طور پر سربیا کے واقعات سے متاثر ہے۔
کروشیا نے 1999ء میں نیٹو کی جانب سے سربیا پر بمباری کے دوران بڑے پیمانے پر تقریباً 246 ہڑتالوں کا تجربہ کیا تھا۔ ان میں سے کئی ہڑتالوں میں مزدوروں نے مہینوں تک فیکٹریوں پر قبضہ کیے رکھا۔ کروشیا میں مخصوص تاریخی حالات اور مزدور تحریک کی روایات کے باعث، عوامی غصہ بڑے مظاہروں کے بجائے زیادہ تر ہڑتالوں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ 1990ء کی دہائی میں یوگوسلاویہ کے ٹوٹنے کے دوران بھی کروشیا میں نجکاری کے عمل کو روکنے کے لیے کئی عام ہڑتالیں ہوئیں۔
گزشتہ ماہ مقدونیہ (Macedonia) میں بھی ایک بڑے احتجاج نے جنم لیا، جب کوچانی (Kocani) کے ایک نائٹ کلب میں آگ لگنے کے سانحے میں 62 افراد جاں بحق اور 193 زخمی ہو گئے تھے۔ اس سانحے نے حکام کی کرپشن اور نااہلی کو بے نقاب کر دیا اور سربیا جیسی غم و غصے کی ایک لہر کو جنم دیا۔ دوسری جانب، سربیا کے صدر وُچچ کا اس سانحے سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش الٹی پڑ گئی۔ ایک شرمناک حرکت میں وُچچ سربیا میں علاج کے دوران ایک شدید زخمی متاثرہ مریض کے آئی سی یو میں داخل ہو گیا، جس سے مریض کی جان کو خطرے میں ڈال دیا۔ اب سربیا میں طلبہ مظاہرین یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ وُچچ کو آئی سی یو میں داخل ہونے کی اجازت دینے والوں کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے۔
زبروی یا عوامی اسمبلیاں
عوام تجربات سے سیکھتے ہیں اور اس میں طلبہ بھی شامل ہیں۔ جو جدوجہد انہوں نے شروع کی، اس کے دوران وہ نئے نئے نتائج اخذ کر رہے ہیں۔ یہ تحریک پہلے سے طے شدہ نہیں تھی بلکہ ابتدا ہی سے ایک بے ساختہ اور فوری ردعمل تھی۔ یہ اپنی فوری وجہ سے کہیں زیادہ گہری تھی اور اس نے نظام کے خلاف جمع شدہ غصے کو بھڑکا دیا۔
تحریک کے پہلے مرحلے میں طلبہ نے خود کو منظم کرتے ہوئے ’کمیٹیوں‘ (عوامی اسمبلیوں) کے ذریعے جدوجہد کا طریقہ اپناتے ہوئے منظم عوامی مظاہرے کیے۔ ہم پہلے بھی کمیٹیوں کے فوائد پر لکھ چکے ہیں۔ دو ماہ کے اندر طلبہ کی جدوجہد اور شعور کا ارتقا ہوا، جس کا اظہار عام ہڑتال کے مطالبے کی صورت میں ہوا۔
24جنوری 2025ء کو دو ماہ کی طلبہ کیمپس پر قابض تحریک، مظاہروں اور سڑکوں کی ناکہ بندیوں کے بعد، عام ہڑتال کے مطالبے نے طلبہ کو آئی ٹی، صحافت، تعلیم اور ثقافت کے شعبوں کے محنت کشوں کے ساتھ جوڑ دیا۔ اگرچہ یہ ہڑتال جزوی تھی اور صرف چند شعبوں کو متاثر کر سکی، لیکن اس نے احتجاجی تحریک کے بڑھتے ہوئے زور کو واضح کر دیا۔ عام ہڑتال کے تصور کو عوامی حمایت حاصل تھی اور طلبہ کی حمایت کرنے والے 80 فیصد افراد اس کے حق میں تھے۔ وزیراعظم کے استعفٰی کے ساتھ، وُچچ نے اپنی حکومت قربان کر کے تحریک کو ٹھنڈا کرنے اور اپنے لیے کچھ گنجائش نکالنے کی کوشش کی۔ تاہم یہ چال بری طرح ناکام ہو گئی، جس کے نتیجے میں تحریک ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئی، جو 15 مارچ کو سربیا کی تاریخ کے سب سے بڑے مظاہرے کی صورت میں منتج ہوئی۔ بیلغریڈ کی گلیوں میں لوگوں کا سمندر دنیا بھر میں دیکھنے کو ملا۔
تحریک کے دوران اپنے تجربات سے سیکھتے ہوئے، طلبہ نے اب تک کے سب سے ترقی پسندانہ نتائج اخذ کیے ہیں۔ طلبہ کی تحریک نے کمیٹیوں کی بنیاد پر اپنی طاقت کو منظم انداز میں بڑھایا۔ اب وہ محلوں میں عوامی اسمبلیوں (زبو روی – زبور کی جمع، جس کا مطلب ہے ’اجتماع‘ یا ’اسمبلی‘) کے قیام اور فروغ کی اپیل کر رہے ہیں۔ اس اپیل کو وسیع پذیرائی حاصل ہوئی ہے اور سینکڑوں زبوروی قائم ہو چکی ہیں۔ تحریک اب اپنے دوسرے اور زیادہ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو رہی ہے۔ طلبہ کا نعرہ ہے: ”سب زبوروی میں شامل ہو جاؤ!“، جیسا کہ پلینم طلبہ کے لیے ہے، ویسے ہی زبور عام لوگوں کے لیے ہے۔
لیکن یہ سمجھنے کے لیے کہ تحریک کو زبوروی (عوامی اسمبلیوں) کی ضرورت کیوں ہے، ہمیں سربیا اور وسیع تر سابقہ یوگوسلاویہ کے خطے کی تاریخ کی چند تفصیلات کو سمجھنا ہو گا۔
”اسمبلیوں“ (زبوروی) کی اصطلاح اس خطے میں پہلی بار عثمانی سلطنت کے خلاف جدوجہد کے دوران استعمال ہوئی اور انیسویں صدی کے اوائل میں سربین انقلاب (پہلی سربین بغاوت) کے دوران رائج ہوئی۔ اس وقت مقامی کمیونٹیاں اپنی اپنی عوامی اسمبلیوں میں منظم ہو جاتی تھیں، جہاں وہ قومی آزادی کی جدوجہد کو جاری رکھنے کے فیصلے کرتی تھیں۔
اسی طرح کے اجتماعات کروشیا کے علاقے لیقا (Lika) اور دالماتیا (Dalmatia) کے کچھ حصوں میں بھی منعقد ہوتے تھے۔ بعد میں، یوگوسلاویہ کی بادشاہت کے دور میں بھی یہ روایت برقرار رہی اور سوشلسٹ فیڈرل ریپبلک آف یوگوسلاویہ (SFRY) کے دوران آئین نے کارکنوں کو اسمبلیوں کے ذریعے کارخانوں اور کام کی جگہوں کے بعض انتظامی معاملات میں فیصلے کرنے کا حق دیا تھا۔
یوگوسلاویہ کے ٹوٹنے کے بعد بھی سربیا، کروشیا، سلووینیا اور دیگر سابقہ جمہوریتوں میں زبوروی کا تصور مقامی اور علاقائی خود حکمرانی کی ایک شکل کے طور پر برقرار رہا۔ مقدونیہ میں آج بھی ”سوبرینی“ (sobranie) کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے، جس کا مطلب بھی یہی ہے۔ اسی لیے طلبہ کی جانب سے عوامی اسمبلیوں کے قیام کی جو اپیل کی جا رہی ہے، وہ دراصل ایک ایسے قانونی ڈھانچے سے جڑی ہوئی ہے جو تکنیکی طور پر پہلے سے موجود ہے، کیونکہ ایسے بڑے عوامی اجتماعات ہماری انقلابی اور بغاوتی تاریخ کا حصہ رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ 1920ء میں، جب یوگوسلاویہ کی بادشاہت میں ”اوبزنانا“ (Obznana) کا اعلان ہوا، جس کے تحت کمیونسٹ پارٹی آف یوگوسلاویہ اور اس سے منسلک تمام تنظیموں پر پابندی لگا دی گئی تھی، اس سے پہلے بھی بے شمار زبوروی منظم کیے گئے تھے۔ اوبزنانا کے خلاف مزاحمت نے زگریب (Zagreb) میں ایک عام ہڑتال کو جنم دیا تھا۔
علاقائی اور بین الاقوامی میڈیا میں اکثر سربیا کی صورت حال کو سرب قوم پرستی سے آلودہ قرار دیا جاتا ہے، کچھ تو حد یہ کہ الٹرا رجعت پسند چیٹنک تحریک (Chetnik Movement) کی روح کی بھی یاد دلاتے ہیں۔ لیکن حالیہ تحریک کے ساتھ کروشیا سے وسیع یکجہتی اور نووی پازار (Novi Pazar) میں سربوں اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد کے متاثر کن مناظر یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اس تحریک کے پیچھے تمام یوگوسلاوی عوام کی جدوجہد میں اتحاد کی ایک مشترکہ خواہش کارفرما ہے، جو قوم پرستی، نسلی اور مذہبی تقسیموں کے خلاف ہے۔
سربیا میں زبوروی (عوامی اسمبلیوں) کی اہمیت
مارچ کے اوائل میں طلبہ کی جانب سے دی گئی اپیل کے بعد سربیا بھر میں عوامی اسمبلیاں (زبوروی) تیزی سے ابھرنے لگیں۔ جب یہ مضمون لکھا جا رہا ہے، تب تک ملک بھر میں سینکڑوں زبوروی منعقد ہو چکی ہیں۔ صرف اپیل کے دن ہی 50 سے زائد شہروں اور بلدیاتی علاقوں نے اس کے حق میں جواب دیا۔ اس اپیل کے ساتھ ساتھ طلبہ نے اسمبلیوں کے انعقاد کے لیے ایک ہدایت نامہ بھی شائع کیا، جس میں وضاحت کی گئی کہ شہری کمیٹیاں دراصل وہی طریقہ کار اپناتی ہیں جو طلبہ کی کمیٹیوں میں رائج تھا، فرق صرف یہ ہے کہ اب یہ مقامی و علاقائی بنیادوں پر منظم کی جا رہی ہیں۔
ہم نے اپنی ایک پچھلی تحریر میں لکھا تھا کہ محنت کشوں اور طلبہ کے درمیان مشترکہ کمیٹیاں منعقد کرنا تحریک کے لیے ایک فیصلہ کن قدم ہو گا۔ طلبہ نے بالکل درست نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جدوجہد کو وسیع عوامی طبقوں کے ساتھ جوڑنا ضروری ہے۔ مارچ میں طلبہ کی جانب سے جاری کی گئی اپیل پہلے ہی محنت کش طبقے اور عوام کی وسیع پرتوں میں گونجنے لگی تھی اور لوگ پہلے سے زیادہ عزم کے ساتھ جواب دے رہے تھے۔
سربیا میں اساتذہ، جو احتجاجوں کے آغاز سے مختلف قسم کی ہڑتالی سرگرمیوں میں مصروف رہے ہیں، پہلے ہی اپنی سرگرمیوں کو اپنی کمیٹیوں کے ذریعے منظم کر رہے تھے۔
اساتذہ سے متاثر ہو کر اب نام نہاد پیشہ ورانہ اسمبلیاں (strukovni zborovi) بھی بننے لگی ہیں۔ آئی ٹی کے شعبے، اساتذہ اور حال ہی میں صحت کے شعبے کے محنت کشوں کی اپنی اپنی اسمبلیاں قائم ہو چکی ہیں۔ گزشتہ ہفتے ایک ٹی وی چینل کے محنت کشوں نے، جو اس وقت اپنے ادارے پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں، اپنی ایک اسمبلی قائم کی ہے جس کے ذریعے انہوں نے اپنے مطالبات پیش کیے ہیں۔
ایک کمیونسٹ نقطہ نظر سے، ہم ان اسمبلیوں کے عام فروغ کا مطالبہ کرتے ہیں تاکہ محنت کش طبقے کی آزادانہ شرکت کو منظم کیا جا سکے، وہ اپنے مطالبات خود اٹھا سکیں اور اس تحریک میں حکومت کے خلاف صفِ اول میں کھڑے ہو سکیں۔
صحت کے شعبے کے محنت کشوں کی طرف سے کیے گئے تبصرے خاص طور پر دلچسپ ہیں، جو اسمبلیوں کے کردار اور ان کے مقصد کے بارے میں سوالات اٹھاتے ہیں۔ ایک خبر رساں ادارہ رپورٹ کرتا ہے:
”صحت کے محنت کشوں نے سوشل میڈیا پر ایک اجلاس کی کال دی، صحت کے پیشہ ور افراد کے اتحاد پر زور دیا، تاکہ ایک ساتھ میٹنگ، تنظیم سازی اور اجتماعی کاروائی کے ذریعے اپنے پیشے کا تحفظ کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ یونینیں اپنا کام نہیں کر رہیں، وہ ’سو رہی ہیں‘، اور یہ ضروری ہے کہ مل کر عمل کیا جائے، منظم ہوا جائے اور ایک اجتماعی اور قابلِ عمل منصوبہ تشکیل دیا جائے۔
”میڈیکل فیکلٹی کے طلبہ نے اس اجلاس کی حمایت کی اور اس کے لیے منتظمین، حفاظتی دستے اور نوٹ لکھنے والے فراہم کیے۔“
یہ اسمبلیاں اکثر سوشل میڈیا یا وائبر ایپ کے ذریعے خودبخود منظم کی جاتی ہیں۔ طلبہ عموماً منتظمین اور نوٹ لکھنے والوں کے طور پر شامل ہوتے ہیں۔
مزید برآں، اسمبلیاں اکثر ایسے فیصلے بھی کرتی ہیں جن کا انہیں تکنیکی طور پر مقامی حکومت کے ضوابط کے تحت اختیار حاصل نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر، چاچک (Cacak) کی عوامی اسمبلی نے موجودہ میئر کو ہٹانے کے حق میں ووٹ دیا اور اب اس کی برطرفی تک وہاں بڑے عوامی مظاہرے ہو رہے ہیں۔
اسمبلیوں کا یہ وسیع پیمانے پر ظہور عوام کے اندر بڑھتی ہوئی بغاوت کا نتیجہ ہے۔ مثلاً، نیش (Niš) میں لوگوں نے موجودہ میئر پر انڈے پھینکے۔ کراگویواتس (Kragujevac) میں عوامی اسمبلی نے فیصلہ کیا کہ شہر انتظامیہ کو تعلیمی شعبے کے محنت کشوں کی تنخواہیں ادا کرنی چاہئیں اور اگر ان کے مطالبات پورے نہ کیے گئے تو انہوں نے بدھ کی شام 6 بجے سٹی ہال کے سامنے مظاہرہ کرنے کی دھمکی دی۔
حال ہی میں عوامی اسمبلیوں کو مرکزی سطح پر منظم کرنے کی طرف رجحان بڑھ رہا ہے۔ مثلاً، نووی ساد (Novi Sad) میں تمام اسمبلیوں کی ایک مشترکہ اسمبلی (“Zbor svih Zborova”) قائم کی گئی ہے جسے ٹی وی اسٹیشن پر قبضے کی تنظیم کے لیے استعمال کیا گیا۔ دیگر اسمبلیوں کو بھی جزوی طور پر مرکزی سطح پر منظم کیا گیا تاکہ طلبہ کے ٹی وی سٹیشن کے محاصرے کے دوران ان کے دفاع کے لیے یونٹس سربیا بھر میں بھیجے جا سکیں۔
ہمیں بالکل واضح ہونا چاہیے۔ اسمبلیوں کو مرکزی سطح پر منظم کرنے اور محنت کشوں کی جمہوریت کے طریقے متعارف کرانے، جیسے کہ مقامی اسمبلیوں کی جانب سے نمائندوں کا انتخاب اور انہیں واپس بلانے کا حق، یہ وہ ابتدائی قدم ہیں جو معاشرے میں ایک متبادل اقتدار کے قیام کی طرف لے جاتے ہیں۔ اس سے یہ سوال کھڑا ہوتا ہے کہ ”فیصلہ کون کرے گا“، وسیع تر اکثریت یعنی محنت کش اور طلبہ یا موجودہ کرپٹ سرمایہ دار طبقے کی حکومت، جس کی نمائندگی ووچچ کے اقتدار سے ہوتی ہے۔ ایک کمیونسٹ نقطہ نظر سے ہم اس سمت میں اٹھائے گئے ہر قدم کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔
اسمبلیاں (زبرُوی) کیا ظاہر کرتی ہیں؟
یہ سوال اب مرکزی دھارے کے میڈیا میں بھی زیرِ بحث آ رہا ہے۔ بہت سے اخبارات اور چینلز اسمبلیوں کو عوام کی سیاسی شمولیت کا ایک نیا ذریعہ قرار دے رہے ہیں۔ ریڈار نووا (Radar Nova) نے ایک طالبعلم کے الفاظ نقل کیے، جس نے یوں خلاصہ پیش کیا:
”اسمبلیاں شہریوں کے لیے ایک موقع ہیں کہ وہ اپنی برادری میں سیاسی بحران پر کھل کر اظہارِ رائے کریں اور اپنی شرکت کے ذریعے یہ یاد رکھیں کہ سیاست صرف سیاسی جماعتوں تک محدود نہیں۔ عام طور پر اوپر سے نیچے کی سیاست کے بجائے اب ایک انقلابی تبدیلی آئی ہے، جہاں شہری اپنی ضروریات کا تعین خود کرتے ہیں اور دوسروں کو براہِ راست کام کے گروپوں میں شامل ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔ اپنے مستقبل کو اپنے ہاتھ میں لینا ایک طاقتور تصور ہے اور یہ قدرتی طور پر لوگوں کو متحرک کرتا ہے۔“
میڈیا یہ رپورٹ کر رہا ہے کہ اسمبلیاں ”سیاسی طاقت عوام کو دیتی ہیں“، اور یہاں تک کہ بعض رپورٹرز لاشعوری طور پر اسمبلیوں کو لبرل جمہوریت کے موجودہ ڈھانچوں سے الگ کر کے دیکھ رہے ہیں اور ان کی اہمیت پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ ایک نیوز آؤٹ لیٹ نے یہاں تک پوچھا کہ آیا اسمبلیاں ایک ”متوازی حقیقت“ (parallel reality) کی نمائندگی کرتی ہیں؟ یہ بالکل درست سوال ہے۔ ہمارے سامنے ایک ممکنہ متبادل اقتدار نمو پا رہا ہے۔
سربیا، باقی سابق یوگوسلاوی ممالک کی طرح، نسبتاً کمزور ٹریڈ یونین ڈھانچے رکھتا ہے۔ صرف تقریباً 20 فیصد محنت کش یونینوں میں منظم ہیں اور یہ بھی زیادہ تر عوامی شعبے میں جیسے کہ صحت، تعلیم اور عوامی خدمات۔ تاہم، صحت اور تعلیم کے محنت کشوں کی رائے سے یہ واضح ہے کہ اسمبلیاں ایک نئی قسم کی تنظیم کاری کی نمائندگی کرتی ہیں، ایسی تنظیم جس میں تمام محنت کش شامل ہو سکتے ہیں اور جس کے ذریعے وہ ٹریڈ یونین کی افسر شاہی کو نظرانداز کر کے براہِ راست عمل کر سکتے ہیں، کیونکہ اب وہ ان پر اعتماد نہیں رکھتے۔
مثال کے طور پر سربیا کے ثقافتی میگزین ”اوبلاکودر“ (Oblakoder) کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ایک مضمون میں اس مسئلے کو اٹھایا گیا کہ موجودہ یونین سازی ناکافی ہے اور یہ کہ ایک عام ہڑتال تبھی ممکن ہے جب عوام خود کو طلبہ کی طرح کمیٹیوں میں منظم کریں گے۔
یہ سارا عمل قدرتی طور پر میڈیا میں یہ سوال اٹھا رہا ہے: ”کیا اسمبلیاں یونینوں کی جگہ لے سکتی ہیں؟“ ایک انٹرویو میں ایک استاد نے یہ کہتے ہوئے اس سوال کا مثبت جواب دیا کہ، ”یہ تنظیم سازی کا ایک نیا طریقہ“ ہے۔ محنت کشوں کی اسمبلیوں کو تمام محنت کشوں کو منظم کرنا چاہیے، خاص طور پر ہڑتالوں یا جدوجہد کے دوران۔ محنت کش طبقے کی وسیع پیمانے پر شرکت کے نتیجے میں سب سے ترقی پسند پرتوں کو موجودہ ٹریڈ یونینوں کا کنٹرول سنبھالنے کی طرف بھی بڑھنا چاہیے تاکہ انہیں لڑاکا یونینوں میں تبدیل کیا جا سکے۔ جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں، آج محنت کش اسمبلیوں کے ذریعے موجودہ یونینوں کو مزید لڑاکا بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، خاص طور پر تعلیم کے شعبے میں، جہاں محنت کشوں کی اسمبلیاں اب مرکزی حیثیت اختیار کرنے کی طرف جا رہی ہیں اور اپنی جدوجہد کو منظم کر رہی ہیں۔
شروع سے ہی یہ تحریک ریاستی اداروں پر عدم اعتماد سے عبارت رہی ہے، وہ ادارے جو حکمرانوں کی سربیائی پروگریسو پارٹی (SNS) کے قبضے میں تھے۔ عوام اور محنت کش طبقہ آگے بڑھتے ہوئے اب اس نتیجے پر پہنچ رہے ہیں کہ انہیں اپنے ادارے بنانے کی ضرورت ہے۔ طلبہ نے میڈیا انٹرویوز میں وضاحت کی ہے کہ اسمبلیوں کے قیام کی تجویز انہوں نے اس لیے دی تاکہ تحریک کے سیاسی اظہار کی محدود صلاحیت کو عبور کر کے اسے ایک عوامی تحریک میں بدلا جا سکے۔ علاوہ ازیں، نادانستہ طور پر، وہ خود عوامی قیادت بن گئے ہیں، جیسا کہ یہ بات عوام کی سیاسی رہنمائی کے لیے طلبہ کی طرف رجوع کرنے کے عمل سے واضح ہے۔
محنت کشوں کی اسمبلیوں کے ایجنڈوں میں اکثر ہڑتالوں اور اساتذہ کی تنخواہوں کی عدم ادائیگی جیسے مسائل شامل ہوتے ہیں۔ عام طور پر غیر منظم محنت کشوں کے پاس صرف یہ راستہ ہوتا تھا کہ وہ مقامی حکام کو درخواستیں دیں یا متعلقہ اداروں سے اپیل کریں۔ لیکن اب ضروری ہے کہ وہ بھی اپنی اسمبلیاں قائم کریں، جیسے آئی ٹی ورکرز، اساتذہ، صحت کے ملازمین اور ٹی وی ورکرز نے کی ہیں تاکہ وہ اپنے اگلے اقدامات پر اجتماعی طور پر فیصلے کر سکیں، ہڑتالوں پر بحث کر سکیں اور انہیں منظم بھی کر سکیں جیسا کہ نیش (Niš) میں محنت کشوں کی کمیٹیوں نے کیا، جس نے ہڑتال کے حق میں ووٹ دیا۔
اسی طرح، یہ بات بھی اہم ہے کہ طلبہ کی جانب سے اسمبلیوں کے قیام کی اپیل سے پہلے ہی محنت کش طبقے کو یوگوسلاویہ کے دور کی ”ورکرز یونینوں“ کی روایات کا علم تھا۔ ٹینٹ (TENT) پاور پلانٹ کے محنت کش اس کی ایک دلچسپ مثال ہیں، جنہوں نے جنوری میں ایک ہڑتال کا اعلان کیا تھا جس کے مطالبات عام ہڑتالوں کی روایتی حدوں سے کہیں آگے تھے۔ اس وقت انہوں نے اعلان کیا تھا:
”قانون کہتا ہے کہ ہڑتالی سرگرمیاں صرف باضابطہ اعلان کے بعد ہی شروع ہو سکتی ہیں۔ ہمیں UGS Nezavisnost (ٹریڈ یونین فیڈریشن) کی منظوری لینی ہو گی اور پھر ہم آغاز کریں گے۔ لیکن اگر ورکرز کا زبور (zbor) ہڑتال کرنے کا فیصلہ کرے گا، تو ان کی منظوری کے بغیر بھی ہڑتال ہو گی۔“
ان کے مطالبات میں طلبہ کے مطالبات کی تکمیل، بجلی کے شعبے کی تباہ کن حالت کی ذمہ داری کا تعین اور EPS AD (ٹینٹ کا سرکاری ادارہ) کے جنرل ڈائریکٹر، ایگزیکٹو بورڈ، سپروائزری بورڈ، EPS کی اسمبلی اور وزیر برائے معدنیات و توانائی کی برطرفی کے مطالبات شامل تھے۔
ہڑتالوں، احتجاجات اور مظاہروں کا تحفظ
جیسے جیسے تحریک میں شدت آئی، اسے ریاست، وُچچ، ایس این ایس (SNS) اور ان کے غنڈوں کی طرف سے مسلسل اشتعال انگیزیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ کئی مواقعوں پر دھمکیاں بدترین حملوں میں تبدیل ہوئیں۔ احتجاجوں، محاصرہ، قبضے اور ہڑتالوں کے مؤثر انتظام اور خود دفاع کو منظم کرنے کی ضرورت اب وسیع پیمانے پر سمجھ میں آ چکی ہے۔
آغاز میں، طلبہ نے دابرے نامی خود دفاعی یونٹ تشکیل دیے تاکہ وہ ایس این ایس کے غنڈوں اور اشتعال انگیزوں کے وحشیانہ حملوں سے اپنے آپ کو بچا سکیں۔ اس دوران، سربیائی فوج کے سابق فوجیوں اور بائیکر گروپوں نے بھی خود دفاعی یونٹ تشکیل دیے، جو احتجاجوں کے دوران طلبہ کی حفاظت کرنے لگے۔
اس کے علاوہ، سربیا میں آئی ٹی شعبے کی اسمبلیاں دوسرے محنت کشوں کی مدد سے تعلیمی کارکنوں کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے پیسہ اکٹھا کر رہی ہیں۔
اس سطح پر طبقاتی یکجہتی عام طور پر ”سماجی امن“ کے ادوار میں دیکھنے کو نہیں ملتی۔ ہر چیز اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ایک عوامی اسمبلی صرف ”ایک اسمبلی“ نہیں ہے اور چھت کا گرنا محض ایک حادثہ نہیں تھا۔
پورے نظام پر گہری عدم اعتمادی
سربیا کی موجودہ سیاسی صورتحال کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ طلبہ اور دیگر جو حکومت کے خلاف تحریک چلا رہے ہیں، ان کی پورے نظام پر گہری عدم اعتمادی ہے، بشمول ان جماعتوں کے جو ”اپوزیشن“ میں ہیں۔
ملوشویچ (Miloševic)کا اکتوبر 2000ء میں محنت کش طبقے کی انقلابی تحریک کے ذریعے اقتدار سے خاتمہ اس اپوزیشن کو اقتدار میں لایا تھا، جو عوامی تحریک کے مطالبات کے مطابق بنیادی تبدیلیاں لانے میں ناکام رہی۔ اس خیانت نے وُچچ حکومت کے قیام کے لیے حالات پیدا کیے۔ اس وجہ سے عوام کا کہنا ہے کہ، ”وُچچ بھی بیکار ہے، اپوزیشن بھی بیکار ہے“، اور وہ نظام کی تبدیلی کی خواہش رکھتے ہیں۔ سب سے لڑاکا پرت نے پہلے ہی یہ نتیجہ اخذ کر چکی ہے کہ ایک ایسی تحریک ہے کی ضرورت ہے جو آخرکار ایک انقلاب بن کر اس سب کو بہا لے جائے۔
تحریک کہاں سے آئی؟
2008ء کے عالمی اقتصادی بحران نے دنیا بھر میں سرمایہ داری کو غیر مستحکم کر دیا اور شعور میں زبردست تبدیلیاں آئیں۔ اس جاری بحران نے دنیا بھر میں زندگی کے معیار کو کم کر دیا ہے۔ گزشتہ 30 سالوں میں، سربیا میں سرمایہ داری کی بحالی کی وجہ سے معیارِ زندگی مسلسل گر رہا ہے۔ سربیا میں کوئی ایسا شعبہ یا بنیادی ڈھانچہ نہیں ہے جو پاسنگ گریڈ حاصل کر سکے، عوامی نقل و حمل سے لے کر زراعت تک، ہر چیز پسماندہ اور نظرانداز ہو چکی ہے۔
برظانیہ سے ٹیڈ گرانٹ نے مئی 1968ء میں فرانس میں طلبہ کے کردار کو یوں بیان کیا:
”اس ماحول میں طلبہ کی بغاوت ابھری۔ یہ معاشرے میں عدم اطمینان کی علامت تھی۔ درمیانی طبقے، اوپری درمیانی طبقے اور حتیٰ کہ بورژوازی کے بیٹے اور بیٹیاں حکمران طبقے کی گندی اقدار کے خلاف بغاوت کر گئے۔ یہ تحریک سرمایہ داری کی دنیا میں بحران کی علامت تھی۔ طلبہ کے مظاہروں پر پولیس نے شدید حملے کیے، جو اپنی بربریت کے لیے بدنام تھے۔ مظاہرین کے اوپر جبر نے طلبہ کو مزید مشتعل کر دیا، جس کے نتیجے میں لاطینی محلے میں سڑکوں پر جھڑپیں ہوئیں، پیرس کی یونیورسٹیوں پر قبضے ہوئے اور پھر پورے فرانس میں یہ تحریک پھیل گئی۔ اس کے نتیجے میں ہائی سکول کے طلبہ میں بھی ایک تحریک ابھری۔“
ٹیڈ گرانٹ کی فرانس میں تحریک کی وضاحت سربیا کی موجودہ تحریک سے بہت ملتی جلتی ہے۔ یہ کوئی اتفاق نہیں کہ آج کے طلبہ کھل کر کہتے ہیں کہ وہ فرانس اور سابق یوگوسلاویہ کی 1968ء کی تحریکوں سے تحرک حاصل کرتے ہیں۔ یہاں 1968ء کی تحریک کا مختلف رخ تھا، جہاں طلبہ نے سوشلزم کے خلاف نہیں بلکہ اس بیوروکریسی کے خلاف مطالبات کیے جو آخرکار سرمایہ داری کو بحال کرنے کا باعث بنی۔ حتیٰ کہ خبروں کی عمومی رپورٹوں میں بھی اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ سربیا کی موجودہ تحریک 1968ء کی طلبہ جدوجہد کے ساتھ مماثلت رکھتی ہے۔
طلبہ کی یہ تحریک سرمایہ داری کے نظام کے شدید گہرے بحران کی علامت ہے۔ معمول کے ادوار میں، جب لبرل جمہوریت کے دھوکے غالب ہوتے ہیں، زیادہ تر لوگ سیاست میں فعال طور پر حصہ نہیں لیتے۔ اس کے برعکس، وہ اکثر مکمل طور پر لاتعلق رہتے ہیں۔ صرف ایک اقلیتی طبقہ ہی سیاسی طور پر فعال ہوتا ہے۔ البتہ، سربیا میں عوامی اسمبلیوں میں شرکت، خاص طور پر کام کی جگہوں پر، ابھی تک ایک عمومی تحرک کی سطح پر نہیں پہنچی ہے۔ تاہم، یہ تحریک روز بروز مضبوط ہو رہی ہے۔
اعداد و شمار بہت کچھ بیان کرتے ہیں۔ مارچ میں ہی، سی آر ٹی اے (CRTA) کے مطابق، 378 مقامات پر ایک ہزار چھ سو ستانوے مظاہرے ہوئے، جن میں سینکڑوں ہزاروں لوگ شامل تھے اور سربیا میں 200 زبوروی تشکیل دیے گئے۔ صرف نووی ساد کی اسمبلیوں میں ہزاروں لوگ شامل ہیں۔ ہم یہ توقع کر سکتے ہیں کہ اس وقت سربیا میں دسیوں، اگر نہیں تو سینکڑوں، ہزاروں لوگ ان اسمبلیوں میں شریک ہیں۔ اور وُچچ انہیں ”غیر جمہوری“ قرار دیتے ہوئے، ان کو بالشویک اختراعات کہہ رہا ہے۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ میڈیا میں کچھ صحافی ان اسمبلیوں کو سربیا میں انقلاب سے جوڑ رہے ہیں۔
ٹراٹسکی نے ”انقلاب روس کی تاریخ“ میں انقلاب کو اس فیصلہ کن لمحے کے طور پر بیان کیا ہے جب عوام براہ راست تاریخی واقعات میں مداخلت کرتی ہے۔ اس کی تخلیق اب سربیا میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اگر ہم لینن کے بیان کردہ انقلاب کے حالات کو دیکھیں، تو ہم مندرجہ ذیل باتیں دیکھ سکتے ہیں:
پہلی حالت یہ ہے کہ بحران حکمران طبقے میں تقسیم اور ہچکچاہٹ پیدا کرتا ہے۔ سربیا کی بورژوازی سے یہ بالکل واضح ہو جاتا ہے، اور مقامی بالکانی (Balkan) حکمران طبقے کو اس تحریک کے نتائج کا خوف ہے جو سابق یوگوسلاویہ کے دیگر ممالک میں مختلف شکلوں میں گونج رہی ہے۔ وُچچ اس سے زیادہ گھبرایا ہوا اور غیر مستحکم دکھائی نہیں دے سکتا، اور ’سربیا کی پارلیمنٹ‘ سے مایوسی کی بو آ رہی ہے۔ مہینوں سے میڈیا میں طلبہ پر بالشویزم، کمیونزم اور انقلاب کی حمایت کرنے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔
دوسری حالت، پیٹی بورژوازی کی کمزوری ہے، جو بحران سے بچنے کے لیے محنت کش طبقے کے ذریعے یا سرمایہ داروں کے ذریعے راستہ تلاش کرتی ہے۔ جیسا کہ لینن نے وضاحت کی، محنت کش طبقے کی مستحکم پالیسی کے ذریعے ان حالات میں درمیانے طبقے کی حمایت جیتی جا سکتی ہے۔
تیسری حالت یہ ہے کہ محنت کش طبقہ لڑنے کے لیے تیار ہو۔ طلبہ کی جانب سے عام ہڑتال اور تحریک کی بار ہا اپیلوں کے باوجود، یہ ابھی تک مکمل طور پر حقیقت نہیں بن سکا۔ یہ جزوی طور پر یونین بیوروکریسی کے رویے کی وجہ سے ہے، جس نے اب تک صرف طلبہ کے مطالبات کے لیے زبانی حمایت دی ہے اور اس نے اپنی ممبرشپ میں عام ہڑتال کی اپیل کو نہیں پھیلایا۔ فطری طور پر، محنت کش طبقے کے وہ حصے جو ابھی متحرک ہو رہے ہیں، جیسے شعبہ تعلیم کے ملازمین، انہوں نے جدوجہد کے لیے اپنے اوزار تشکیل دیے ہیں جن کے ذریعے انہوں نے ہڑتالیں منظم کی ہیں۔ حالیہ دنوں میں سربیا میں کئی ہڑتالیں ہو رہی ہیں، جو سطح کے نیچے موجود طبقاتی جدوجہد کی شدت کا اظہار ہیں۔ محنت کشوں کا اپنے مطالبات کے لیے ہڑتالی کمیٹیوں کے ذریعے لڑنا ضروری ہے۔
لیکن سب سے بڑھ کر جو چیز موجود نہیں ہے وہ لینن کی بیان کردہ چوتھی حالت ہے؛ ایک عوامی انقلابی پارٹی کا وجود، جو محنت کشوں میں جڑیں رکھتی ہو اور جو محنت کش طبقے کے لیے فتح کو یقینی بنانے کے لیے سب سے جرات مندانہ اقدامات کرنے کے لیے تیار ہو۔
ایسی پارٹی کے فقدان کی وجہ سے تحریک مختلف طبقوں کے دباؤ کا شکار ہے۔ بورژوازی کی ’عوامی رائے‘، جو بین الاقوامی سرمایہ دارانہ میڈیا کی مدد سے چلائی جا رہی ہے، تحریک کو ”یورپی طریقہ“ کے طور پر بیان کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جو ”کرپشن پر مبنی نظام سے نکلنے کا طریقہ“ ہے۔ یہ خیال کہ ’ماہرین‘ سے چلنے والی حکومت ’بہتر جمہوری نظام‘ کی طرف منتقلی کی رہنمائی کر سکتی ہے، تحریک کو خشک آئینی اصلاحات کے پیچھے لگانے کا خطرہ رکھتا ہے، جب کہ فساد کا اصل ماخذ خود سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ مختلف بورژوا میڈیا آؤٹ لیٹس اس تحریک کو ’قانون کی حکمرانی‘ اور ’آئینی ریاست‘ قائم کرنے کی کوشش کے طور پر یا صرف معمولی اینٹی کرپشن مظاہروں کے طور پر بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
تاہم یہ واضح ہے کہ یہ نظریاتی مہم اسمبلیوں میں موجود طلبہ کے شعور میں گہرائی تک نہیں جا رہی، اور تحریک کے مقاصد بورژوازی کی خواہش سے کہیں آگے بڑھ رہے ہیں۔ بورژوازی کے خیالات کا دباؤ طلبہ پر بڑھ رہا ہے، خاص طور پر ’عبوری حکومت‘ بنانے کی ممکنہ کوششوں اور طلبہ کو آئندہ انتخابات کے بارے میں رسمی فیصلہ کرنے پر مجبور کرنے کے حوالے سے۔ اس کے ساتھ ساتھ، حکومت زیادہ سے زیادہ جارحانہ ہو رہی ہے۔ حکومت کی طرف سے ایک سنگین اشتعال انگیزی غصے کو مزید ابھار سکتی ہے اور مزید بڑے انقلابی ابھار اور عوامی اسمبلیوں کی عمومی نوعیت کو جنم دے سکتی ہے۔
ان واقعات کے دوران اس تحریک کی سب سے زیادہ جرات مندانہ پرتیں ایک نئی عوامی انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے قیام میں مدد دیں گی، جو مستقبل میں انقلابی قیادت کی بنیاد رکھیں گی۔
آگے کیا ہو سکتا ہے؟
اس تحریک میں اس وقت عملی اقدام کے لیے فیصلہ کن اور ٹھوس اقدامات کی کمی ہے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ جرات مندانہ ہوتی جا رہی ہے۔ طلبہ کی کمیٹیوں سے لے کر عام ہڑتال کی اپیلوں، عوامی اسمبلیوں کے قیام اور کارکنوں کی عوامی اسمبلیوں تک، عوامی جدوجہد کے یہ اوزار اب ابھر رہے ہیں اور زیادہ مرکزیت اختیار کر رہے ہیں۔
تحریک تقریباً چھ مہینے سے جاری ہے، لیکن یہ ہمیشہ کے لیے نہیں چل سکتی۔ تاہم، تحریک کے دوران سب سے زیادہ لڑاکا پرتیں ناگزیر طور پر انقلابی نتائج پر پہنچیں گی تاکہ وہ پیٹی بورژوازی اور بورژوا خیالات سے اپنے آپ کو بچا سکیں۔
طلبہ اپنے تجربات سے سیکھ رہے ہیں اور وہ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ انہیں اسمبلیوں، کمیٹیوں اور یونینز کے درمیان متحدہ کاروائی کے لیے اپیل کرنی ہو گی، اور عام ہڑتال کی جانب بڑھانا ہو گا۔ اب تک، طلبہ تحریک کا مرکز رہے ہیں، اور وہ آگے بھی رہ سکتے ہیں۔ عوامی اسمبلیوں کے قیام کو عام کرنے کی ان کی اپیل صحیح قدم تھا، کیونکہ ایک حقیقی خطرہ تھا کہ یہ تحریک محنت کش طبقے سے الگ ہو جائے گی۔ سماجی نقطہ نظر اپناتے ہوئے اور عوام سے تحریک کے لیے متحرک ہونے کی اپیل کر کے انہوں نے درست فیصلہ کیا۔
طلبہ نے اس بات کو صحیح طور پر سمجھا ہے کہ محنت کش طبقے کو اپنے طاقتور کردار کو ادا کرنے کے لیے تیار کرنا ضروری ہے تاکہ وہ حکومتی نظام کے خلاف مکمل طور پر متحرک ہو جائے۔ میں یہاں ٹیڈ گرانٹ کا حوالہ دوں گا:
”ایک پہیہ نہیں گھومتا، نہ کوئی فون بجتا ہے، نہ کوئی بلب روشن ہوتا ہے، جب تک محنت کش طبقے کی مرضی نہ ہو! ایک بار جب یہ عظیم طاقت متحرک ہو جائے تو زمین پر کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی۔“
لیکن تاریخ ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ایک انقلابی پارٹی کو بڑی سیاسی تبدیلیوں سے پہلے کے فوری عرصے میں اچانک سے وجود میں نہیں لایا جا سکتا۔ یہی وہ چیز ہے جو موجودہ تحریک ہمیں دکھا رہی ہے اور قیادت کے فقدان کا شکار ہے۔ دوسری طرف، یہ ایک لحاظ سے اس کی سب سے بڑی طاقت بھی ہے، یعنی یہاں کوئی اصلاح پسند رہنما نہیں ہیں، کوئی سٹالنسٹ پارٹیاں نہیں ہیں اور بائیں بازو کے علاوہ کوئی سیاسی آپشن نہیں ہے جو اس صورتحال کو غلط سمت میں موڑ سکے، جیسا کہ 1968ء میں فرانس میں انقلاب کے دوران ہوا تھا۔
تاہم، طلبہ کو یہ بھی علم ہونا چاہیے کہ محنت کش طبقہ صرف اس وقت فیصلہ کن طور پر متحرک ہوتا ہے جب کچھ مخصوص حالات پیدا ہوتے ہیں، نہ کہ صرف اس لیے کہ ایسی تحریک کی خواہش کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ عمومی ہڑتال کے مطالبات ابھی تک مطلوبہ دھماکہ خیز اثرات پیدا نہیں کر پائے۔
تاہم، ہم ایک بات یقین سے کہہ سکتے ہیں۔ طلبہ کی بغاوت سے، جن میں سے زیادہ تر سربیا کے محنت کش طبقے کے بیٹے اور بیٹیاں ہیں، ہم محنت کش طبقے کی خود کی مایوسی کو محسوس کر سکتے ہیں۔ یہ ایک آنے والے دھماکے کی علامت ہے اور یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ جب محنت کش طبقہ اٹھے گا تو اس کا غصہ کتنا شدید ہو گا، نہ صرف سربیا میں بلکہ پورے بالکانی علاقے میں۔ نوجوانوں اور محنت کش طبقے کے کچھ حصے اس تحریک سے یہ نتیجہ اخذ کریں گے کہ بنیادی سماجی تبدیلی حاصل کرنے کے لیے ایک انقلابی قیادت ضروری ہے، یعنی سرمایہ داری کا خاتمہ اور اسے محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول پر مبنی سوشلسٹ معیشت سے تبدیل کرنا۔
لیکن فی الحال طلبہ کے ووچک (Vucic) کو ہٹانے اور سربیا میں زیادہ منصفانہ نظام کے قیام کے مطالبات کی تکمیل کی ذمہ داری صرف اور صرف سربیا کے محنت کشوں پر عائد ہوتی ہے۔ ان مطالبات کی تکمیل کے لیے بڑے پیمانے کے عوامی تحرک اور انقلابی عام ہڑتال کی ضرورت ہو گی، ایک ایسی عام ہڑتال جس کی مثال اس خطے کی حالیہ تاریخ میں کہیں نہ ہو۔ ہڑتال کی قیادت نوجوان محنت کشوں کے پاس ہو گی جن پر ماضی کی شکستوں کا کوئی بوجھ نہیں ہو گا۔
بطور کمیونسٹ، ہم ہر محلے اور کام کی جگہ پر اسمبلی (zborovi) کے قیام کو عام کرنے کی اپیل کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم اس بات کا بھی دفاع کرتے ہیں کہ ان اسمبلیوں کو علاقائی اور قومی سطح پر جمہوری طریقے سے ہم آہنگ اور مرکزیت دینے کی ضرورت ہے، جس کے لیے محنت کشوں کی جمہوریت کے طریقے متعارف کرائے جائیں۔ تمام نمائندے اُن اسمبلیوں کے ذریعے منتخب کیے جائیں اور اُنہی کے ذریعے واپس بلائے جانے کے تابع ہوں، جنہوں نے انہیں منتخب کیا ہو۔
عام ہڑتال کی جانب بڑھنے والی تحریک، عوامی کے خود رو طور پر منظم ہونے کے رجحان کو مضبوط کرے گی، جو کہ اسمبلیوں، ہڑتالی کمیٹیوں اور کونسلوں سے منتخب شدہ نمائندوں کی کونسلوں کے ذریعے ظاہر ہو گا۔ یہ ادارے محض جدوجہد کے اوزار نہیں ہوں گے، بلکہ عوام کے خود رو طور پر منظم ہونے کے ادارے بھی ہوں گے، جو کرپٹ سرمایہ دارانہ اداروں کا متبادل طاقت بن کر اُبھریں گے۔
تمام طاقت زبورویوں کو دو!
ہم جو کچھ سربیا میں دیکھ رہے ہیں وہ ایک انقلابی بحران کی ابتدائی علامتیں ہیں۔ پورا معاشرہ متاثر ہو رہا ہے۔ عوام کے شعور کو عوامی سرگرمیوں اور طبقاتی جدوجہد کے ذریعے بدلا جا رہا ہے۔ طلبہ کا ”ادارے اپنا کام کریں“ کا بظاہر ’قدامت پسندانہ‘ مطالبہ طلبہ اور عوام کی وسیع پرتوں اور محنت کشوں کی جانب سے خود اپنے فیصلے کرنے، خود کو اسمبلیوں میں منظم کرنے اور انہیں آپس میں ہم آہنگ اور مرکزیت دینے کی ایک خودمختار تحریک کی طرف بڑھا۔
حقیقت میں یہ تحریک یوگوسلاویہ کے انہدام کے بعد سے سربیا میں جاری انقلاب کے سالماتی عمل کا ایک دھماکہ خیز اظہار ہے۔ یہ سرمایہ داری اور اس کی ترقی کے بنیادی حالات بھی فراہم نہ کر سکنے کی ناکامی کے ساتھ عمومی عدم اطمینان کا اظہار ہے۔
اس لیے اسمبلیاں عوام کی اس خواہش کی نمائندگی کرتی ہیں کہ وہ سیاسی فیصلوں اور سیاست میں شریک ہوں۔ عوام کی یہ خواہش تب ہی حقیقت بن سکتی ہے جب اسمبلیاں سربیا میں حقیقت میں حکومت بن جائیں۔ یہ اسمبلیاں، جب تک کہ یہ محنت کش طبقے کی اکثریت کو شامل کرتی ہیں اور ان کو منتخب نمائندوں کی کونسلوں کے ذریعے ہم آہنگ اور مرکزیت دیتی ہیں، دراصل سوویتوں کی ابتدائی شکل ہیں، جو 1905ء اور 1917ء میں روس میں انقلاب کے دوران ابھری تھیں۔ یہ تحریک صرف نووی ساد کے چھت کے حادثے کے متاثرین کے لیے انصاف کی لڑائی تک محدود نہیں رہ سکتی۔ محنت کش طبقے کی طاقت نہ صرف وُچچ کو گرا سکتی ہے بلکہ بڑی اور فیصلہ کن کامیابیاں بھی حاصل کر سکتی ہے۔
اس طاقت کو مزید مضبوط کرنے کے لیے:
ہمیں عوامی اسمبلیوں کو جدوجہد کا مرکزی آلہ بنانا ہو گا۔ طلبہ اور محنت کشوں کو یکجا کر کے عمومی ہڑتال منظم کرنی ہو گی۔
محنت کشوں کی مزید اسمبلیاں قائم کرنی ہوں گی! محنت کشوں کو اپنے کام کی جگہوں میں عوامی اسمبلیاں بنانی ہوں گی اور انہیں شعبے کے لحاظ سے ہم آہنگ کرنا ہو گا، جیسا کہ آئی ٹی، تعلیم اور صحت کے ملازمین نے کیا ہے۔
کیوں؟
کیونکہ ریاست کے خلاف سب سے طاقتور ہتھیار ہڑتال ہے۔
محنت کشوں کو اپنی ہڑتالی کمیٹیاں قائم کرنی ہوں گی اور اسمبلی ہی وہ آلہ ہے جس سے یہ سب کچھ کیا جا سکتا ہے! جیسا کہ شعبہ تعلیم کے ملازمین نے پہلے ہی دکھا دیا ہے۔
اسمبلیوں کو مرکزیت دیں!
ایک مرکزی اسمبلی قائم کریں، تمام اسمبلیوں کی ایک مرکزی اسمبلی، قومی سطح پر، جس میں تمام سربیا سے اسمبلیوں کے نمائندے (محنت کشوں اور عوامی اسمبلیوں کے نمائندے) بھیجے جائیں گے اور طلبہ کی کمیٹیوں کے نمائندے بھی۔
ہمارا مقصد کاروائیوں کی بہتر ہم آہنگی اور ہڑتال اور ناکہ بندی کرنے والی کمیٹیوں کا قیام ہونا چاہیے۔
اسمبلیوں کے زیرِ کنٹرول اپنا دفاع منظم کریں!
طلبہ یونیورسٹیوں کو بند کر رہے ہیں۔ محنت کشوں کو کام کی جگہوں پر قبضہ کرنا چاہیے۔
سربیا میں انقلابی ہڑتال کی جانب قدم بڑھاؤ!