بیمار نظام اور خودکشیوں کا ناسور!

|تحریر: ماہ بلوص اسد|

سرمایہ دارانہ نظام کا عالمی معاشی بحران جہاں دنیا بھر میں اپنے اثرات سیاست اور معیشت کے میدان پر مرتب کر رہا ہے وہاں اس نے ایک عام انسان کی سماجی اور انفرادی زندگی کو بھی متاثر کیاہے۔ ایک طبقاتی معاشرے میں ایک انسانی جان کی قیمت ماسوائے قوت محنت کے ذریعے دولت پیدا کرنے والے آلے کے اور کچھ نہیں ہوتی۔ سرمائے کے تسلط کے زیر اثر جہاں یہ نظام بھوک ، لاعلاجی اور معاشی قتل سے انسانی جانوں کو شکار بناتا ہے وہیں دوسری طرف خونی جنگوں کے نتیجے میں ہجرتیں اور قحط سالی انسانی جانوں کو تباہ کرتی جا رہی ہے۔ یہ ہمارے عہد کا معمول بن چکا ہے اور بظاہر یہ لگتا ہے کہ عام لوگ اس کے عادی ہو جانے کے بعد اس معمول کو قبول کر چکے ہیں۔ بے بسی اور بے حسی بظاہر سماج پر حاوی نظر آتی ہے، لیکن یہ تمام تکلیفیں ایک سماجی لاوے کی صورت میں پکنے کے عمل میں ہیں۔ ریاست پاکستان کے باشندوں کو اور خصوصاً نوجوانوں کو بارہا میڈیا، نصاب اور سماجی تربیت میں یہ باور کروایا جاتا ہے کہ پاکستان ایک علیحدہ ملک ہے، ایک اسلامی ریاست جو باقی دنیا سے بالکل مختلف ہے۔ اس کی مذہبی اقدار، سیاست، معیشت وغیرہ سب دوقومی نظریے کی ماتحت ہیں۔ یہ ملک اور اس کا معاشی سیاسی نظام مغربی دنیا سے ناصرف مختلف ہے بلکہ متصادم بھی ہے اور یہ کہ اس ملک کے قیام کا مقصد پوری دنیا میں اسلام کا بول بالا کرنا ہے۔ جبکہ حقیقت بالکل مختلف ہے۔ 

ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں پوری دنیا کی معیشت اور سیاست ایک وجود کے طور پر ایک کل میں جڑی ہوئی ہے۔ یہ جڑت سرمائے کی زنجیر کے تحت بنی ہے اور سرمایہ دارانہ نظام ہی دنیا کی تمام ریاستوں کے داخلی اور خارجی ، معاشی اور داخلی حالات کا تعین کرتا ہے۔ پاکستان بھی ایک سرمایہ دارانہ ریاست ہے جس کا حتمی مقصد اس ملک کے امیر ’’باشندوں‘‘ اور ان کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔ دوسری طرف عالمی سامراجی طاقتوں کی غلامی اور کاسہ لیسی روز اول سے اس ملک کے حکمرانوں کا وطیرہ رہا ہے۔ ایک عالمی بحران زدہ معاشی کل کے جزو کے طور پر یہ سماج ناصرف معاشی اور سیاسی طور پر متاثر ہوتا ہے بلکہ اس کا ہر حصہ اور شعبہ اس بحران کی زد میں آ جاتا ہے۔ ہسپتالوں کے برآمدوں میں جہاں ایک ماں نئی زندگی کو جنم دیتے اپنی زندگی کی بازی ہار جاتی ہے وہیں اس نئی زندگی کی بقا اس نظام میں ایک نئی مسلسل جدوجہد بن جاتی ہے۔آبادی کی اکثریت کے لئے دو وقت کی روٹی کا حصول زندگی گزارنے کا حتمی مقصد بنا دیا گیا ہے۔ 

تعلیم اور علاج کا شمار اب آسائشوں میں ہوتا ہے۔ جو یہ آسائشیں افورڈ کر بھی لیتے ہیں ان کی زندگی بھی سہل نہیں رہتی بلکہ بیروزگاری اور معاشی طور پر غیر محفوظ مستقبل کا خوف ذہنی دباؤ بن کر انسان کو خود اپنی جان لینے پر مجبور کر دیتا ہے۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اس قتل کا ذمہ دار بھی وہ انسان نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام، اس کا بحران اور اس کے تعفن زدہ سماجی رشتے ہی ہوتے ہیں۔ ویسے تو پورا سماج ہی قتل گاہ بن چکا ہے لیکن خود کشی کا بڑھتا ہو ارجحان خاص طور پر نوجوانوں اور طالب علموں میں بڑھتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ ’’علم کی دولت‘‘ حاصل کرنے والے خود اپنی جان لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں کیونکہ علم کی دولت کا حصول بھی درحقیقت دو وقت کی روٹی کا حصول ہی بن گیا ہے۔ ہر سال بورڈ کے نتائج کا اعلان کئی طلبہ کے لیے موت کا اعلان ثابت ہوتا ہے۔ نجی اور سرکاری تعلیمی ادارے (سرکاری تو ناپید ہی ہوتے جا رہے ہیں) ناصرف خود علم کی قتل گاہیں بن گئے ہیں بلکہ علم حاصل کرنے والوں کی بھی۔ جہاں پورا سماج ہی ایک پریشر کوکر بنا ہوا ہے وہاں تعلیمی اداروں کی صورتحال بھی کچھ مختلف نہیں ۔ ہم اپنے بڑوں سے سنتے ہیں کہ ان کے وقت میں ’’سٹوڈنٹ لائف‘‘ زندگی کا آئیڈیل حصہ ہوا کرتی تھی۔ ہمارے والدین کو تو اپنی فیسوں کی رقم تک یاد نہیں کیونکہ وہ نہایت کم تھی۔ لیکن آج وہ ہر ماہ اپنے بچوں کی بھاری بھرکم فیسوں کے لیے دن رات نوکریاں کرنے ، کمیٹیاں ڈالنے اور پونجی جمع کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ ناصرف والدین بلکہ طلبہ خود بھی پارٹ ٹائم جابز کرنے کے باوجود اپنے تعلیمی اخراجات اور دیگر ضرورتیں پوری کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ ایسی کیفیت کہ کسی ایک مضمون میں فیل ہونا ایک انسان کی اپنی جان لے لینے کی وجہ بن جانا کوئی غیر معمولی بات نہیں رہ جاتی۔ 

HRCPکی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2010ء میں 2398خود کشی کے واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ 2017ء سے اپریل 2018ء تک 42,790کیس رپورٹ ہوئے۔ یاد رہے کہ یہ تعداد ان واقعات کی ہے جن کی رپورٹ میڈیا یا پولیس کے پاس درج ہوئی ہے۔ ملکی سطح پر خودکشی کرنے والوں کے متعلق کوئی سروے سرکاری سطح پر کیا ہی نہیں جاتا۔ ان کیسوں میں 2115معاشی مسائل کی وجہ سے ، 186تعلیمی مسائل کی وجہ سے، 1027نفسیاتی مسائل، 1598بیروزگاری، 15000گھریلو مسائل اور باقی خودکشیاں دیگر وجوہات کی بنا پر ہوئیں۔ بلاشبہ یہ اعداد و شمار نامکمل ہیں لیکن سماج کی عمومی صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں۔ دوسری طرف WHOکی رپورٹ کے مطابق 20کروڑ سے تجاوز کرتی آبادی کے لئے ملک میں صرف 343رجسٹرڈ سائیکیٹرسٹس اور سائیکالوجسٹس موجود ہیں۔ 

سرمایہ دارانہ نظام ایک بحرانی کیفیت میں ایک بیمار درندے کی صورت اختیار کر چکا ہے جو کہ اپنا اظہار بیمار نفسیات کی صورت میں کر رہا ہے۔ اس نظام میں نفسیات کی سائنس ازخود اتنی بیمار ہے کہ خودکشی کی وجہ حقیقی سماجی مسائل کی بجائے مجرد نفسیاتی مسائل جیسا کہ Depressionیا Sensitivity بتاتے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ دلیل کہ خودکشی کرنے والا شخص زمانے کی دوڑ کے ساتھ ’’cope‘‘ نہیں کر سکا۔ ایک طبقاتی نظام میں معاشی اور سماجی دباؤ کو برداشت کرنے کی صلاحیت نہ رکھنے والا اور ذلت اور محرومی کو اپنا مقدر تسلیم نہ کرنے والے یہاں ’’misfit‘‘ سمجھے جاتے ہیں۔ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان نوکری حاصل کرنے کے لئے سفارش یا رشوت نہیں رکھتا وہ وہ اپنی زندگی خود ختم کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے، وہ ذہنی مریض کہلاتا ہے جبکہ یہ نظام جس نے اسے یہ قدم اٹھانے پر مجبور کیا وہ ’’Normal‘‘ یا معمول ہے۔ یہ اس نظام کی سچائی ہے جو سچ کو جھوٹ یا جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کرتی ہے اور نوجوانوں کے شعور پر حاوی رہتی ہے۔ طبقاتی سماج میں ناصرف اچھی تعلیم کے معیار اور قیمت کا تعین سرمائے کے بلبوتے پر ہوتا ہے بلکہ اچھی نوکری کے حصول کے لئے بھی اعلیٰ قسم کے تعلیمی ادارے جسکی فیس بھاری بھرکم ہوتی ہے، سے ڈگری حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ سرکاری ادارے سے تعلیم یافتہ نوجوان کو نوکری کے لئے کم ترجیح دی جاتی ہے کیونکہ سرکاری اداروں میں تعلیم کا معیار گر چکا ہے۔ دوسری طرف نجی تعلیمی اداروں کی دکانیں چمک رہی ہیں۔ لہٰذا نوکریاں بھی ان ’’Branded‘‘ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والی اشرافیہ کی اولادوں کو ہی ملتی ہیں۔ اور سرکاری اداروں سے تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان انتھک محنت اور ڈگری کے حصول کے لئے تمام جمع پونجی خرچ کرنے والے روزگار سے محروم رہتے ہیں۔ میڈیا میں رپورٹ ہونے والی خودکشی کو نوجوان کا ذاتی اقدام اور ذاتی مسئلہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ وہ تمام خودکشیاں اس نظام کے ہاتھوں قتل ہیں۔ یہ ذاتی نہیں بلکہ طبقاتی اور سیاسی مسئلہ ہے اور اس کا حل بھی کسی کا اپنی ذات کو درست کر لینا یا ’’زمانے کی دوڑ‘‘ کے مطابق خود کو ڈھال لینا نہیں بلکہ ایک عملی اور سیاسی جدوجہد سے ہی ممکن ہے۔ اس نظام کے اندر خود کو ذاتی سطح پر زمانے کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کا مطلب چوری کرنا، چالبازی کرنا، منافقت کرنا، حق مارنا، دھوکا دہی سے اپنے ساتھیوں اور ہم جماعتوں کے مستقبل کو برباد کر کے اپنا مستقبل سنوارنا ہے۔ یہ ہے اس نظام میں ایک کامیاب زندگی گزارنے کا نسخہ۔ جس ملک میں ایک نوکری کی سیٹ پر لاکھوں درخواستیں موصول ہوں وہاں روشن مستقبل کا خواب دیکھنا خود کو دھوکا دینا ہے۔ 

عالمی معاشی بحران اور خصوصاً تجارتی جنگ کے آغاز سے جہاں عالمی معیشت متاثر ہوئی ہے وہاں پاکستان کی معیشت بھی اس کے اثرات سے محفوظ نہیں۔ ڈالر کی قدر بڑھنے سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا۔ دوسری طرف تیل کی قیمتوں میں بھی مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس سے بالخصوص درمیانہ طبقہ متاثر ہو گا۔ کیونکہ روپے کی گراوٹ سے مہنگائی میں تو تیز ترین اضافہ ہو گا لیکن آمدن میں کوئی بڑھوتری نہیں ہو گی۔ جو چند نوجوان آج تعلیم حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ صلاحیت بھی آہستہ آہستہ ان سے چھن جائے گی۔ دوسری طرف نئے روزگار تو دور کی بات جو پہلے سے موجود روزگار ہے وہ بھی نجکاری اور ڈاؤن سائزنگ کے حملوں میں چھن جائینگے۔ سرکاری ہسپتالوں، تعلیمی اداروں اور اور دیگر شعبے جہاں ہمارے والدین کئی سالوں سے نوکریاں کر کے گھر کا نظام چلا رہے ہیں وہ بھی اب خطرے میں ہیں۔ سرکاری اداروں کو کوڑیوں کے بھاؤ بیچا جائے گا اور ملازمین کی بڑی تعداد کو برطرف کر دیا جائے گا۔ ایسی صورتحال میں ماسوائے جدوجہد کے غریب عوام کے پاس اور کوئی راستہ نہیں۔ 

آئے دن ہم اپنے شہروں کے پریس کلبوں کے باہر احتجاج دیکھتے ہیں ، یہ سلسلہ مزید تیز ہو گا۔ اسی طرح تعلیمی اداروں کے اندر جہاں ہمیں بھیڑ بکریوں کی طرح رکھا جاتا ہے اب پرانے معمول کی طرح نہیں رہا جا سکتا۔ وقت اور حالات ہم سے تقاضا کر رہے ہیں کہ ہم ان حالات کو تبدیل کریں۔کوئی ہیرو کوئی مسیحا نہیں آئے گا۔ ہماری اپنی اجتماعی جدوجہد ہی ہماری بقا کی جنگ کا فیصلہ کرے گی، جس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں سیاست کے میدان میں اترنا ہو گا۔ لیکن سیاست سے تو ہم نفرت کرتے ہیں اور کرنی بھی چاہئے۔ جس سیاست کا شور ہم میڈیا پر سنتے ہیں وہ واقعی قابل نفرت ہے۔ جو سیاسی گروہ ہمیں اپنے تعلیمی اداروں میں مفاد پرستی اور غنڈہ گردی کرتے نظر آتے ہیں وہ بھی قابل نفرت ہیں لیکن ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ یہ تمام سیاست جس سے ہم نفرت کرتے ہیں یہ حکمران طبقے کی سیاست ہے اور اس کے اصولوں کا تعین بھی وہ کرتے ہیں نہ کہ غریب نوجوان یا مزدور کسان۔ یہ سیاست ان کے اپنے مفادات کی عکاس اور غلیظ ہے۔ لیکن ہم جو سیاست کریں گے وہ ہمارے طبقے کی سیاست ہو گی یعنی حق کے لیے، سچ کو سچ کہنے کے لیے، خودکشی کو قتل کہنے کے لئے، جس میں جھوٹ اور لالچ کی کوئی گنجائش نہیں ہو گی۔ اس کا مقصد اجتماعی فائدہ ہو گا۔ فیسوں کے خاتمے، نئے ہاسٹلز، بہتر ٹرانسپورٹ، اعلیٰ تعلیمی معیار، نوکریاں اور محفوظ مستقبل کے لیے سیاست ہو گی، نہ کہ کسی تعمیری منصوبے کے ٹھیکے کے حصول کی سیاست۔ ایسی جدوجہد کے لئے منظم ہونا ضروری ہے۔ بلاشبہ ہم حکمرانوں کی پارٹیوں، تنظیموں اور لیڈروں سے نفرت کرتے ہیں۔ لیکن جہاں ان سے نفرت جائز ہے وہیں خود اپنے طبقے کے افراد کو ایک پلیٹ فارم پر منظم کرنا بھی ضروری ہے تاکہ ان کے خلاف جدوجہد کی جا سکے۔ حکمرانوں کی پارٹیوں کے لیڈر ان کی دولت کے بلبوتے پر منتخب ہوتے ہیں جبکہ مظلوم لوگ اپنی قیادت کا انتخاب ان کے حقوق کی درست ترجمانی اور جدوجہد کرنے کے درست سیاسی پروگرام کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ اس لئے آج ہمیں اپنے تعلیمی اداروں میں سیاست کا نیا آغاز کرنا ہو گا۔ طلبہ یونین کی بحالی کی جدوجہد تیز کرنی ہو گی تاکہ ہم درست اور جمہوری انداز میں اپنے حقوق کی ترجمانی کرنے والی قیادت کو منتخب کر کے منظم جمہوری طریقے سے اپنی جدوجہد کو آگے بڑھا سکیں۔ دوسری طرف ہمیں اپنے اداروں سے باہر اپنے طبقے کی جدوجہد کا بھی حصہ بننا ہو گا۔ نجکاری اور معاشی جبر کے خلاف ہونے والے مظاہروں اور تحریکوں کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا ہو گا۔ اس نظام کے خلاف جدوجہد نہ ہی الگ تھلگ کھڑے ہو کر لڑی جا سکتی ہے اور نہ ہی لڑ کر کامیاب کی جا سکتی ہے۔ اس قاتل نظام کے خاتمے اور سوشلسٹ مزدور ریاست کا قیام ہی ناصرف ہمارے محفوظ مستقبل کی بلکہ آنیوالی نسلوں کی بقا کو یقینی بنا سکتا ہے۔