بھارت: بڑی جمہوریت کا بڑا ناٹک

[تحریر: آدم پال]
بھارت کی پندرہویں لوک سبھا کی مدت 31 مئی 2014ء میں مکمل ہورہی ہے جس کے بعد عام انتخابات کا انعقاد کیا جائے گا۔ 13 ستمبر کو بھارتی ریاست گجرات کے شہر احمدآباد میں دائیں بازو کی انتہا پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے پارلیمانی بورڈ کی میٹنگ ہوئی جس میں گجرات کے تین مرتبہ وزیر اعلیٰ بننے والے نریندرا مودی کو 2014ء کے لوک سبھا کے لیے ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے لیے وزیر اعظم کے امیدوار کے طور پر منتخب کر لیا گیا۔ مودی کے اس چناؤسے قبل پارٹی کے اندر اس کے خلاف شدید رد عمل موجود تھا اور پارٹی کے سب سے سینئیر راہنما ایل کے ایڈوانی سمیت دیگر افراد نے مودی کی شدید مخالفت کی تھی۔ ایڈوانی نے اس اجلاس کا بھی بائیکاٹ کیا اور پارٹی کے صدر راج ناتھ سنگھ کو غم و غصے سے بھرا خط لکھا۔ اس سے قبل بہار کا وزیر اعلیٰ نتیش کمار بھی مودی کی نامزدگی کے خلاف بی جے پی سے اپنی پارٹی جنتا دل(یو) کا اتحاد ختم کر چکا ہے۔
مودی نے پارٹی کی جانب سے نامزد ہونے کے بعد ’’نئی سوچ، نئی امید‘‘ کا نعرہ دیا اور کہا کہ 2014ء کے انتخابات میں بی جے پی اور نیشنل ڈیموکریٹک الائنس گڈ گورننس، ترقی کے نعروں پر انتخابات لڑے گی اور کرپشن اور قیمتوں میں اضافے کے خلاف لڑے گی۔ نریندرا مودی پر 2002ء میں گجرات میں ہندو مسل فساد کروانے کا الزام ہے جب وہ اس ریاست کا پہلی دفعہ وزیر علیٰ بنا تھا۔ ان فسادات میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل تھے۔ یہ قتل و غارت پوری گجرات کی ریاست میں تین ماہ تک جاری رہی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ان فسادات میں ایک ہزار سے زائدافراد قتل ہوئے۔ بڑے پیمانے پر قتل عام کیا گیا جس میں عورتوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی بچوں کو جلا کر قتل کرنا، لوٹ مار اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات شامل ہیں۔ 2012ء میں سپریم کورٹ کے فیصلے میں نریندرا مودی کو ان فسادات میں ملوث ہونے کے الزام سے بری کر دیا گیا۔ گو کہ ابھی تک بہت سے ایسے شواہد منظر عام پر آ رہے ہیں جن سے واضح ہے کہ مودی ان واقعات میں براہ راست ملوث تھا۔
نئی سوچ، نئی امید کا نعرہ لگانے والانریندرا مودی ہندو بنیاد پرست ہونے کا دعویٰ کرتاہے لیکن درحقیقت وہ سرمایہ دارانہ نظام کا سب سے بڑاحامی اور پرچارک بھی ہے جس وجہ سے بہت سے سرمایہ دارمودی کو پسند کرتے ہیں۔ اسی ماہ اکنامک ٹائمز اور نیلسن نے ایک سروے کے نتائج شائع کیے ہیں جس کے مطابق بھارت کی 100 کارپوریشنوں کے سربراہوں میں سے 74 نے مودی کو اگلا وزیر اعظم بنانے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ اگست میں ایک اقتصادی تجزیہ نگار کرس ووڈ نے لکھاکہ ’’بھارتی سٹاک مارکیٹ کی سب سے بڑی امید یہ ہے کہ مودی بی جے پی کی جانب سے وزیر اعظم کا امیدوار نامزد ہو۔‘‘ اسی طرح وہ بہت سے سرمایہ دارانہ اداروں کے ایوارڈ اور میڈل بھی حاصل کر چکا ہے اور مارچ 2012ء میں اس کی تصویر ٹائم میگزین کے سرورق پر شائع کی گئی۔
وزیر اعلیٰ کے طور پر بھی مودی گجرات میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاروں کے لیے دروازے کھول چکا ہے۔ مودی کو 2009ء میں گجرات میں سب سے زیادہ بیرونی سرمایہ کاری کروانے پر ایف ڈی آئی میگزین کی جانب سے ایوارڈ دیا گیا۔ اس سال اس نے اپنی ریاست میں 2.8 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کروائی جو پورے ملک میں ہونے والی سرمایہ کاری کا 10.3 فیصد تھی۔ اس سال تک گجرات کا شرح نمو 10 فیصد سے زیادہ تھا۔ لیکن اس تمام تر ترقی کے باوجود گجرات کے عوام کی حالت تیزی سے ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ مودی کے خوف اور دہشت کی حکومت میں سرمایہ داروں کے منافعوں میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن عوام کی اذیتوں شرح نمو بھی تیزی سے بڑھی ہے۔ چار سال سے کم عمر کے 80 فیصد بچے جبکہ 60 فیصد خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں۔ خون کی کمی کی اس ’وبا‘ پر مودی ہنستا ہے اور کہتا ہے کہ خواتین کو وزن کم کرنے کا ویسے بھی شوق ہوتا ہے۔ بھوک کی عالمی فہرست کے مطابق گجرات کوبھارت کی نچلی ترین پانچ ریاستوں میں شمار کیا جاتا ہے جہاں بڑی تعداد میں غذائی قلت کا شکار ہیں۔ گجرات ریاست کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ایک دہائی میں دیہاتوں میں غریب خاندانوں کی تعداد میں 30 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ سروے کے مطابق گجرات میں 39.67 لاکھ خاندان غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں جس میں سے 9.17 لاکھ خاندان شہروں میں ہیں۔ اس تما تر پرفارمنس کے باوجود مودی ترقی کے نعرے پر الیکشن لڑ نے جا رہا ہے جو درحقیقت سرمایہ داروں کی ترقی اور ان کے منافعوں میں اضافے کا پروگرام ہے۔
اپنے ایک تازہ بیان میں مودی نے کہا کہ ’’میں ایک ایسے بھارت کا خواب دیکھتا ہوں جو پوری دنیا کو اسلحہ فروخت کرے۔ بھارت کو اسلحے کی پیداوار میں خود کفیل ہونا چاہیے۔‘‘ دنیا کی سب سے زیادہ غربت اور بیماری پالنے والے ملک کے ممکنہ وزیراعظم کا یہ خواب محنت کشوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے سوا کچھ نہیں۔
دوسری جانب کانگریس راہول گاندھی کو وزیر اعظم کے امیدوار کے طور پر سامنے لا رہی ہے۔ کانگریس کی قیادت میں قائم یو پی اے الائنس کی دوسری حکومت میں بھارت کی سرمایہ دارانہ بنیادوں پر نام نہاد ترقی کا پول کھل چکا ہے۔ اگر سرمایہ دارانہ بنیادوں پر بھی تجزیہ کریں تو بھارتی معیشت تیز ترین زوال کا شکار ہے۔ 2013ء کے لیے متوقع شرح نمو کم ہو کر 5.2فیصد تک آ چکی ہے۔ بھارتی روپے کی قدر تاریخ کی کم ترین سطح تک پہنچ چکی ہے اور28 اگست کو ایک ڈالر 68.85 روپے میں فروخت ہو رہاتھا۔ اسی طرح تیل اور غذائی اجناس خاص طور پر سبزیوں کی قیمتوں میں بھی بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے جس سے عام آدمی کی زندگی کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ افراط زر 6.1 فیصد ہے جبکہ غذائی اجناس کا افراط زر اگست میں 18.18 فیصد تھا جو گزشتہ تین سال میں سب سے زیادہ ہے۔ پوری دنیا کے ایک تہائی غریب بھارت میں بستے ہیں۔ جبکہ 68 فیصد سے زائد آبادی دو ڈالر یومیہ سے کم پر زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ 90 کی دہائی میں جب منموہن سنگھ وزیر خزانہ تھا اس وقت پرائیویٹائزیشن، لبرلائزیشن کی پالیسیوں کے آغاز سے اب تک سرمایہ داروں کی دولت میں ہزاروں گنا اضافہ ہو چکا ہے لیکن ساتھ غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں زندہ رہنے والے محنت کشوں کی تعداد بھی تیزی سے بڑھی ہے۔ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر ہونے والا شرح نمو میں اضافہ غریبوں کے لیے مزید اذیت اور بربادی لے کر آتا ہے جس کی زندہ مثال بھارت ہے۔ بھارت کے سی بی آئی کے ڈائریکٹر کے ایک بیان کے مطابق بھارت کے امیر افراد کے کالے دھن کے تقریباً 500 ارب ڈالر غیر ملکی بینکوں میں موجود ہیں جبکہ کچھ رپورٹوں کے مطابق یہ رقم 1.4 کھرب ڈالر سے بھی زائد ہے۔ بھارت کے 100 امیر ترین افراد کی دولت 250 ارب ڈالر سے زائد ہے جبکہ صرف مکیش امبانی کی ذاتی دولت 21 ارب ڈالر ہے۔ موجودہ کانگریس حکومت کے آغاز کے وقت ایک سکینڈل بھی سامنے آیا تھا جس میں مکیش امبانی اور این ڈی ٹی وی کی اینکر پرسن صحافی بارکھا دت ٹیلیفون پر گفتگو کرتے ہوئے اہم وزارتوں کے فیصلے کر رہے تھے۔ اسی گفتگو میں مکیش امبانی نے کہا تھا کہ ’’کانگریس تو اپنی دوکان ہے۔‘‘
اس صورتحال میں ہندوستان کے عوام کے دکھوں کا مداوا ان دونوں بڑی جماعتوں کے پاس نہیں اور دونوں ہی سرمایہ دارانہ پالیسیوں کی وحشت عوام پر مسلط کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔ ایسے میں علاقائی پارٹیاں بھی لوٹ مار میں اپنا حصہ وصول کرنے کی تگ و دو میں ہیں۔ مختلف علاقائی، نسلی، ذات پات، مذہبی، لسانی اور قومی تعصبات کو اجاگر کر کے اپنی سیاست چمکائی جاتی ہے اور خوف، دہشت اور لالچ کے بل بوتے پر ووٹ حاصل کرنے کا طریقہ کار وسیع پیمانے پر رائج ہے۔ مختلف ریاستوں میں پہلے ہی علاقائی سطح کی پارٹیوں کی حکومت ہے اور ان دونوں بڑی پارٹیوں کی جانب سے کوئی واضح متبادل لائحہ عمل نہ ہونے کے باعث وہ لوک سبھا میں بڑاحصہ حاصل کر کے مخلوط حکومت میں آنے کے امکانات پر کام کر رہی ہیں۔ ایسے میں بھارت کی کمیونسٹ پارٹیوں کا فریضہ بنتا ہے کہ وہ متبادل سماجی سیاسی پروگرام اور نعرے دیں اور سرمایہ دارانہ پالیسیوں کی جگہ سوشلسٹ انقلاب کا نعرہ لگا کر عوام کو اس عذاب سے چھٹکارا دلانے کی جدوجہد کا آغاز کریں۔ چند ماہ قبل بائیں بازو کی مختلف پارٹیوں کا مشترکہ اجلاس ہوا ہے جس میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسی) نے بھی شرکت کی اور انتخابات کے لیے ایک مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دینے کا اعلان کیا۔ اس سال فروری میں پورے بھارت کے محنت کشوں کی ایک عام ہڑتال بھی ہوئی تھی جس میں مزدور دشمن قوانین اور مہنگائی، بیروزگاری کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا گیا جس میں کروڑوں افراد نے حصہ لیا۔ مغربی بنگال کی ریاست میں بائیں بازو کا اتحاد اپنی مزدور دشمن پالیسیوں اور سرمایہ داروں کو نوازنے کے باعث پہلے ہی 35سالہ اقتدارسے ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔ لوک سبھا کے گزشتہ انتخابات میں بھی انہیں کم ترین نشستیں ملی تھیں۔ معاشی بحران کے باعث ان پارٹیوں کی صفوں میں کافی بے چینی پائی جاتی ہے اور نوجوان اور محنت کش قیادت پر انقلابی لائحہ عمل اختیار کرنے کا دباؤ ڈال رہے ہیں۔
غربت اور بیماری کی اس دلدل سے نکلنے کا واحد رستہ سوشلسٹ انقلاب ہے۔ جب تک اس سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینکا نہیں جاتا اس وقت تک بھارت میں کوئی ایک مسئلہ بھی حل نہیں ہو سکتا بلکہ ان مسائل میں روز بروز اضافہ ہو گا اور بحران کی شدت بڑھے گی۔ بھارت کے محنت کشوں کی جدوجہد اور لڑائی کی عظیم روایات ہیں۔ برطانوی سامراج کے خلاف آزادی کی جدوجہد سے لے کر آج تک ان محنت کشوں نے مذہبی بنیاد پرستی، نسلی، قومی، لسانی اور دیگر تعصبات کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھی ہے۔ کمیونسٹ پارٹیوں کی سٹالنسٹ قیادتوں کے جرائم کی وجہ سے وہ آج تک جمہوریت کو ہی اپنے مسائل کا حل سمجھتے رہے ہیں۔ یہ جمہوریت اور پارلیمنٹ سرمایہ داروں اور سامراجی اداروں کی لونڈی ہے اور اس نظام میں رہ کر کوئی بہتری ممکن نہیں۔ بھارت میں انتخابات کے ذریعے کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی اور نہ ہی مسلح جدوجہد نجات کا رستہ ہے۔ بائیں بازو کے نظریات کے لیے مسلح جدوجہد کرنے والے بھی سرمایہ داری کے اندر رہتے ہوئے حل تلاش کر رہے ہیں جو کسی صورت ممکن نہیں۔ جب تک ہندوستان کا محنت کش طبقہ متحد ہو کر سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف سیاسی جدوجہد کے میدان میں نہیں اترتا اور اس کا خاتمہ نہیں کرتااس وقت تک اس نظام کی تباہکاریاں انسانیت کی ایسے ہی تذلیل جاری رکھیں گی۔ آئندہ انتخابات اس طرز پرر جدوجہد کو اجاگر کرنے اور جمہوریت کے ڈھونگ کا پردہ چاک کرنے کا اہم موقع ہیں۔ اس دوران اگر تمام فروعی تعصبات کو بالائے طاق رکھ کر طبقاتی جدوجہد اور سوشلٹ متبادل کو منظر عام پر لایا جاتا ہے تو یقیناًبرصغیر اور پوری دنیا کے سوشلسٹ مستقبل کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔

Comments are closed.