پاکستان: کرونا وبا، تباہ حال شعبۂ صحت اور حکمرانوں کے جھوٹ

|منجانب: مرکزی بیورو، ریڈ ورکرز فرنٹ|

حفاظتی سامان فراہم نہ کیے جانے اور حکومتی بے حسی کے نتیجے میں گلگت بلتستان میں ایک نوجوان ڈاکٹر اسامہ ریاض کی کرونا وبا کے ہاتھوں موت ہو چکی ہے

کرونا وائرس کی وبا پوری دنیا میں جنگل کی آگ کی مانند پھیلتی جا رہی ہے اور ابھی تک کی معلومات کے مطابق عالمی سطح پر اس کے سوا 3لاکھ سے زائد کیس رپورٹ ہو چکے ہیں جبکہ 14 ہزار سے زائد اموات واقع ہو چکی ہیں۔ پاکستان میں بھی، سرکاری اعدادو شمار کے مطابق، اب تک کرونا کے 799 کیس رپورٹ ہو چکے ہیں جبکہ اس سے 5اموات بھی واقع ہوئی ہیں۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ کرونا کے تشخیصی ٹیسٹ کی عوامی پیمانے پر عدم فراہمی کی وجہ سے یہ حکومتی اعدادو شمار بالکل غلط ہیں اور وبا کا پھیلاؤ درحقیقت اس سے کہیں آگے بڑھ چکا ہے۔ ایسے میں پاکستان کے حکمرانوں کا عوام کی صحت اور شعبۂ صحت کے ملازمین کی طرف رویہ انتہائی بے حسی اور شرمناک لاپرواہی پر مبنی ہے۔ حکومت کی طرف سے پوری کوشش کی جا رہی ہے کہ کسی طرح اپنی نااہلی اور بے حسی کا پورا ملبہ شعبۂ صحت کے محنت کشوں اور عوام پر ڈال دیا جائے اور خود کو صاف بچا لیا جائے۔

ابھی تک پورے ملک کے ینگ ڈاکٹرز، پیرامیڈکس اور نرسز کے بار بار مطالبہ کرنے کے باوجود انہیں حکومت کی طرف سے مطلوبہ معیار کی حفاظتی کٹس مہیا نہیں کی گئی ہیں۔ بلکہ حفاظتی کٹس تو دور کی بات، بے شمار سرکاری ہسپتالوں میں تو سادہ گاؤنز، سادہ سرجیکل ماسکس اور دستانے تک مطلوبہ مقدار میں دستیاب نہیں ہیں۔ کرونا کی وبا سے لڑنے والے ہیلتھ سٹاف کے لئے لازمی این95 نامی ماسک کسی ہسپتال میں مہیا نہیں کیا جا رہا اور نہ ہی یہ مارکیٹ سے مل رہا ہے۔ اعلیٰ حکام کی طرف سے حفاظتی کٹس کی دستیابی کے بارے میں پیش کئے جانے والے اعدادو شمار صرف جھوٹ کا ایک پلندہ ہیں۔ درحقیقت، صرف فوٹو سیشن کے لئے انتہائی محدود تعداد میں یہ کٹس چند ایک ہسپتالوں کو دی گئی ہیں۔ واضح رہے کہ یہ کٹس صرف سنگل ٹائم استعمال کے لئے ہوتی ہیں اور صرف آئسولیشن وارڈز میں نہیں بلکہ متعلقہ ہسپتال میں کام کرنے والے تمام عملے کے لئے ان کا استعمال لازمی ہے۔ اسی حکومتی بے حسی کے نتیجے میں گلگت بلتستان میں ایک نوجوان ڈاکٹر اسامہ ریاض کی کرونا وبا کے ہاتھوں موت ہو چکی ہے جبکہ کراچی، کوئٹہ، لاہور، پمز اور پشاور سے کئی ایک ڈاکٹرز اور دیگر ہیلتھ سٹاف کے کرونا سے متاثر ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔

سروسز ہسپتال لاہور میں تمام عملہ بغیر کسی حفاظتی سامان جیسے N95 ماسک، حفاظتی سوٹ وغیرہ کے ایمرجنسی میں ڈیوٹی سرانجام دیتے ہوئے

ایسے میں جب اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر فرنٹ لائن پر کرونا وبا سے لڑنے والے شعبۂ صحت کے محنت کش حکومت کی اس نااہلی کیخلاف آواز اٹھاتے ہیں تو انہیں حفاظتی کٹس مہیا کرنے کی بجائے حکومت ان کے خلاف شرمناک اور غلیظ ترین جھوٹا پراپیگنڈہ کر رہی ہے اور ان پر یہ الزام لگا یا جا رہا ہے کہ وہ کام نہیں کرنا چاہتے اور ہڑتال پر ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ آواز اٹھانے والے ہیلتھ سٹاف کیخلاف تنخواہوں کی بندش اور جبری تبادلوں پر مشتمل تادیبی کاروائیاں بھی کی جارہی ہیں۔ یہاں تک جھوٹ بولا جا رہا ہے کہ ہیلتھ سٹاف اس موقع کا فائدہ اٹھا کر اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کرانا چاہتا ہے۔ اسی جھوٹے تاثر کو مضبوط کرنے کے لئے جب پچھلے دنوں وزیر اعلیٰ پنجاب اور ڈاکٹر یاسمین راشد نے ایک پریس کانفرنس میں کرونا وارڈز میں کام کرنے والے عملے کو ایک نام نہاد سپیشل پیکج دینے کی بات کی تو شعبۂ صحت کے محنت کشوں کی جانب سے انتہائی سخت رد عمل دیکھنے میں آیا۔ ریڈ ورکرز فرنٹ کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے ایک پیرا میڈک کا کہنا تھا کہ یہ ”ہماری قربانیوں پر تھوکنے اور ہمارے منہ پر تھپڑ مارنے جیسا ہے۔۔“۔ اسی طرح ایک ینگ ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ”اس جھوٹی حکومت کو ذرا سا بھی خوفِ خدا نہیں ہے۔ ہم نے کب اپنی تنخواہیں بڑھانے کی بات کی ہے۔ ہم تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں حفاظتی کٹس جبکہ عوام کے لئے تشخیصی ٹیسٹ، ادویات اور وینٹی لیٹرز کا انتظام کیا جائے۔۔“۔

چارسدہ کے ایک ہسپتال میں ڈاکٹر بغیر کسی حفاظتی سامان کے اپنے فرائض سرانجام دیتے ہوئے

اسی طرح، جب حکومتی و ریاستی نمائندوں سے ان کی بد ترین کارکردگی کے متعلق سوال کیا جاتا ہے تو وہ وسائل کی کمی کا رونا رونے لگتے ہیں۔ یہ بھی بالکل جھوٹ ہے۔ ہمارے اندازے کے مطابق صرف 48 ارب روپے کی لاگت سے 12 ہزار نئے وینٹی لیٹرز اور بہترین کوالٹی کی حفاظتی کٹس، تشخیصی ٹیسٹ اور دیگر ادویات کی وافر فراہمی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ مگر حکومت یہ پیسے دینے کو تیار نہیں ہے جبکہ دوسری طرف ہر سال سرمایہ دار حکمران طبقے کی طرف سے لئے جانے والے بیرونی و داخلی قرضوں کی واپسی کے لئے 3500 ارب، فوجی اخراجات کے لئے 1800 ارب اور سرمایہ دار وں کو دی جانے والی سبسڈیوں اور ٹیکس چھوٹ کی مد میں 1200ارب روپے خرچے جاتے ہیں جو کہ سب عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈال کر حاصل ہوتے ہیں۔ حکمران طبقے کی ترجیحات کا یہ عالم ہے کہ اس وقت پورے پاکستان میں کل ملا کر صرف 2 ہزاروینٹی لیٹرزدستیاب ہیں جبکہ پاکستانی فوج کے پاس موجود ٹینکوں کی تعداد 22 سو ہے۔

سائنسی نقطہ نظر سے اس وقت پاکستان میں وبا کی روک تھام کے لئے فوری طور پر ایک نیشنل لاک ڈاؤن کرنا اشد ضروری ہے۔ شعبۂ صحت کے ملازمین کی نمائندہ تنظیمیں پچھلے کئی روز سے حکومت سے یہ مطالبہ بھی کر رہی ہیں لیکن حکومت لاک ڈاؤن سے دیہاڑی دار محنت کشوں کے لئے پیدا ہونے والی معاشی مشکلات کا بہانہ کر کے اس سے کترا رہی ہے۔ درحقیقت لاک ڈاؤن سے انکار کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ اس حکومت کو غریبوں کی کوئی فکر ہے۔ محنت کش طبقہ تو اس وبا کی آمد سے پہلے بھی آئی ایم ایف کی اس گماشتہ حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں کے کارن برباد ہو رہا تھا۔ اصل وجہ یہ ہے کہ لاک ڈاؤن سے سرمایہ دار طبقے کے منافعوں پر بھی ضرب پڑے گی اور وہ کسی صورت اس کے لئے راضی نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وسائل کی کمی کا رونا رونے والی حکومت نے عنقریب سرمایہ دار طبقے کو کھربوں روپے کی ٹیکس چھوٹ اور سبسڈیوں پر مشتمل ایک ”ریلیف پیکج“ دینے کا اعلان کیا ہے جس کا ایک مقصد انہیں ممکنہ لاک ڈاؤن کے لئے راضی کرنا بھی ہے۔لہٰذا، یہ شعبۂ صحت کے محنت کش نہیں بلکہ سرمایہ دار طبقہ ہے جو حالات کا فائدہ اٹھا کر حکومت سے زیادہ سے زیادہ معاشی مراعات حاصل کرنا چاہ رہا ہے۔

ریڈ ورکرز فرنٹ کرونا وبا سے نمٹنے کے لئے عبوری مطالبات پر مبنی اپنا پروگرام پہلے ہی پیش کر چکا ہے۔ ان مطالبات پر عمل کرنے سے نہ صرف کرونا کی وبا سے بطریق احسن نمٹا جا سکتا ہے بلکہ عوام کو معاشی ریلیف بھی دیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح، ہم شعبۂ صحت کے محنت کشوں کی طرف سے حفاظتی کٹس کی فراہمی کے مطالبے کی بھی بھر پور حمایت کرتے ہیں اور انہیں یقین دلاتے ہیں کہ مشکل کی اس گھڑی میں ہم ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ واضح رہے کہ اگر حکومت اور ریاست آئین پاکستان کے تحت پورے کئے جا سکنے والے ان مطالبات پر عمل کرنے سے قاصر رہتی ہے تو اس کا مطلب صرف یہی ہے کہ حکمران اور ریاستی اشرافیہ عوام کے نہیں بلکہ صرف سرمایہ دار طبقے کے نمائندے، خادم اور محافظ ہیں اور ان کا کام عوام کی جانوں کا نہیں بلکہ سرمایہ داروں کے منافعوں کا تحفظ کرنا ہے۔ ایسے میں محنت کش عوام کے پاس واحد آپشن یہی بچتا ہے کہ وہ متحد ہو کر آگے بڑھیں اورایک انقلاب برپا کرتے ہوئے پورے سماج کا سیاسی، معاشی و انتظامی کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیں اور اس حکمران طبقے کا قلع قمع کرتے ہوئے اس سماج کو از سر نو سوشلسٹ بنیادوں پر ترتیب دیں جہاں ہر قسم کے ظلم، استحصال،منافع خوری، ذخیرہ اندوزی اور حکمرانوں کی لوٹ مار کا خاتمہ ہو اور علاج سمیت تمام بنیادی ضروریات کی مفت فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہو۔

مزید پڑھئیے: 

پاکستان: عوام دشمن سرمایہ داری، کرونا وائرس اور لٹیرے حکمران

کرونا وائرس کی عالمی وبا: تاریخ کا ایک نیا موڑ

Comments are closed.