|تحریر: سلمیٰ ناظر|
آج کل پاکستان کے ہر میڈیا چینل پر جن خبروں پر سب سے زیادہ چرچا ہو رہی ہے وہ پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل حافظ منیر کے امریکہ کے دوروں، وہاں وائٹ ہاؤس میں اوول آفس میں ان کی امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی خبریں ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والے حالیہ دفاعی معاہدے کا بھی خوب ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے۔ حال ہی میں مصر میں ہونے والے فلسطین میں جنگ بندی کے اجلاس میں جب ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیراعظم شہباز شریف کو تقریر کرنے کی دعوت دی، اس خبر کو بھی تمام میڈیا چینلز بہت زیادہ اچھال رہے ہیں۔ ان میڈیا چینلز پر دن رات ہونے والے تبصروں اور تجزیہ نگاروں کی جانب سے بھی یہی شور مچایا جا رہا ہے کہ اب پاکستان عالمی سطح پر ابھر رہا ہے، پاکستان اب ترقی کی راہ پر گامزن ہو رہا ہے، بہت جلد پاکستان کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے اور یہاں عام عوام کے لیے دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی۔ بہت سے تجزیہ نگار توحالیہ دوروں اور معاہدوں کو ”تاریخی اور غیر معمولی“ قرار دے رہے ہیں۔ پاکستان اور سعودیہ کے دفاعی معاہدے کو لے کر بھی انہیں باتوں کا چرچا ہو رہا ہے کہ پاکستان چونکہ ایک ایٹمی طاقت کا حامل ملک ہے، لہٰذا اب پاکستان اپنے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی وجہ عالمی سطح پر بھی اپنا اسٹریٹیجک کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس کے لیے گزشتہ عرصے میں ہونے والی پاکستان اور انڈیا کی جنگ کو بھی جواز بنایا جا رہا ہے کہ پاکستان نے انڈیا کو پوری دنیا کے سامنے شکست دی ہے جبکہ پاکستان اور انڈیا دونوں ہی اس جنگ کو جیتنے کا دعویٰ کر رہے تھے۔ اسی طرح اس سامراجی ہلا شیری سے حوصلہ پاتے ہوئے ابھی حال ہی پاکستان کے افغانستان پر ہوائی حملوں پر بھی مقتدر حلقوں کی جانب سے بہت بڑھک بازی کی جا رہی ہے حالانکہ ان حملوں میں جاں بحق ہونے والے زیادہ تر عام لوگ تھے۔ دوسری طرف انڈیا کے حکمران بھی دن رات جنگی بیانات دے رہے ہیں اور اپنے اسٹریٹیجک مقاصد کے لیے افغانستان سے بھی پینگیں بڑھا رہے ہیں لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور انڈیا جوہری اور جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہیں لیکن دونوں ممالک میں لاکھوں افراد ہر سال بھوک، مہنگائی اور دوائی کی قلت سے مر رہے ہیں۔ پاکستان کے فنانس کے مشیر نے بھی حال ہی میں اپنی ایک ٹویٹ میں بلوم برگ کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ پچھلے پندرہ مہینوں میں پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے امکانات میں 22 فیصد کمی آئی ہے۔ اس نے کہا کہ اس ”کمی“ کی وجہ سے سرمایہ کاروں کا پاکستان پر اعتماد بحال ہو رہا ہے اور اب پاکستان دیوالیہ ہونے کے خدشات سے نکل کر ایک مستحکم، پُر اعتماد اور اصلاحات پر گامزن ملک کے طور پر ابھر رہا ہے۔
پاکستان کے سعودی عرب کے دورے کے بعد اب سعودی وفد بھی پاکستان کا دورہ کر چکا ہے۔ ڈان کی رپورٹ کے مطابق اس دورے کا مقصد پاکستان کے ساتھ تجارت اور پاکستان میں انویسٹمنٹ بتایا جا رہا ہے اور یہ بھی کہ پاکستان سعودی عرب کے ساتھ تیل کی تجارت میں بھی دلچسپی رکھتا ہے۔ سعودی عرب نے پاکستان میں 5 ارب ڈالر کی انویسٹمنٹ کرنے کا بھی وعدہ کیا ہے جس میں 2 ارب ڈالر اسی سال دسمبر کے مہینے میں اور 3 ارب ڈالر جون 2026ء میں انویسٹ کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ یہ رپورٹس بھی ہیں کہ سعودی عرب اپنے ویژن 2030ء کے تحت پاکستان میں سی پیک کی طرز پر پاکستان سعودیہ اکنامک فریم ورک بنانے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ اسی طرح پاکستان میں سی پیک کے منصوبے کے تحت چین کی سرمایہ کاری بھی جاری ہے۔ جبکہ پاکستان کی دفاعی ضروریات کا 85 فیصد سے زائد چین سے درآمد کیا جاتا ہے۔ درحقیقت دنیا میں چین کا اسلحہ خریدنے والا سب سے بڑا ملک پاکستان ہی ہے۔ ابھی حال ہی میں ہونے والے امریکہ کے دورے کے متعلق بھی یہ خبریں موجود ہیں کہ پاکستان نے امریکہ کو بھی ملک میں سرمایہ کاری کرنے کی دعوت دی ہے۔ امریکہ کے دورے پر ٹرمپ کے ساتھ ملاقات کے دوران فیلڈ مارشل کی ایک تصویر بہت گردش کرتی نظر آئی جس میں فیلڈ مارشل صاحب ایک ڈبے میں پاکستان میں موجود نایاب دھاتیں اور جواہرات ٹرمپ کو دکھا رہے ہیں۔ دن رات چلائی جانے والی ان تمام خبروں کے ذریعے یہ تاثر قائم کیا جا رہا ہے کہ پاکستان کا دنیا بھر میں اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے اور پاکستان میں عام انسان کی زندگی خوشیوں سے بھرنے والی ہے۔

لیکن ان تمام جھوٹی خبروں کے باوجود پاکستان کے عوام غربت کی چکی میں پس رہے ہیں جبکہ حکمرانوں کے خلاف نفرت بڑھتی جا رہی ہے کیونکہ عوام کو اپنی زندگیوں میں کوئی بہتری ہوتی ہوئی نظر نہیں آ رہی۔ حکمرانوں کے پالتو میڈیا چینلز پہ نشر کی جانے والی یہ تمام خبریں نہ پاکستان کے زمینی حقائق سے میل کھاتی ہیں اور نہ ہی محنت کش طبقے کا ان خبروں سے کوئی تعلق ہے۔ ہاں اگر کوئی تعلق بنتا بھی ہے تو یہ یہی ہے کہ حکمرانوں کے ان تمام دوروں اور معاہدوں کے نتیجے میں پاکستان میں عام انسانوں، محنت کشوں اور نوجوانوں کی زندگیاں بد سے بدتر ہوں گی۔ کسی ملک کا سرمایہ دار طبقہ جب بھی کسی دوسرے ملک میں سرمایہ کاری کرتا ہے تو اس کا بنیادی مقصد اپنے یا دوسرے ملک کے عوام کی زندگیوں کو بہتر بنانا نہیں ہوتا بلکہ اس کا بنیادی مقصد اپنے منافعوں میں اضافہ کرنا ہوتا ہے۔ پاکستان میں سی پیک کی مثال ہمارے سامنے ہے۔
سی پیک کے منصوبے کے تحت چینی سامراج نے اپنے منافعوں میں اربوں کھربوں کا اضافہ کیا ہے۔ 2015ء میں جب سی پیک کے منصوبے کا اعلان ہوا تھا تو اس وقت اس منصوبے کا حجم 46 ارب ڈالر تھا جو اُس وقت پاکستان کے کل جی ڈی پی کا 20 فیصد تھا۔ کچھ ہی عرصے میں اس منصوبے کا حجم 60 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ اس منصوبے کے تحت بننے والے اربوں ڈالروں کے منصوبوں کا بلوچستان سمیت پورے ملک کے عوام کو رتی برابر بھی فائدہ نہیں ہوا، جبکہ پاکستان کے سامراجی گماشتہ حکمرانوں اور فوجی اشرافیہ، جن کی پاکستان کے خطے میں سامراجی منصوبوں کے خیال سے ہی رالیں ٹپکنے لگتی ہیں، نے اس میں سے اپنا حصہ بٹورا اور لوٹ مار کا بازار گرم کیا۔ دوسری طرف عام عوام اور محنت کش بے روزگاری، بھوک، افلاس کی دلدل میں دھنستے چلے گئے، خاص طور پر گوادر جو سی پیک کے منصوبے میں کلیدی اہمیت کا حامل شہر ہے، کے عوام پانی جیسی بنیادی ضرورت اور دیگر سہولیات سے محروم ہوتے گئے۔ سی پیک اور اس جیسے تمام سامراجی منصوبوں کی قیمت عام عوام اور محنت کش طبقہ ادا کرتے ہیں جن کی زندگیاں مزید محرومیوں سے بھر جاتی ہیں اور ان منصوبوں کے نتیجے میں بڑھنے والے سامراجی قرضوں کا سارا بوجھ حکمران طبقہ عام عوام اور محنت کشوں پر ڈالتا ہے اور خود ان منصوبوں میں سے اپنا حصہ بٹور کر اپنی عیاشیوں اور دولت میں اضافہ کرتا ہے۔ اسی طرح پاکستان میں ملٹی نیشنل کمپنیاں جو یہاں کے عوام کی سستی قوت محنت کو خریدتی ہیں اور ہر سال اربوں کے منافعے یہاں سے لوٹتی ہیں۔
درحقیقت پاکستان کی معیشت اس وقت دیوالیہ پن کی حدوں کو چھو چکی ہے اور عالمی سامراجی طاقتیں گدھ کی طرح یہاں کے عوام کی پیدا کردہ دولت کا آخری قطرہ بھی نچوڑ کر لے جا رہی ہیں۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ساتھ ساتھ چین کی سامراجی کمپنیاں اور بینک بھی اس ملک کی معیشت کو لوٹ رہے ہیں جبکہ عوام ترقی اور خوشحالی کے دعوے سن رہے ہیں اور بڑے انفرااسٹرکچر کے منصوبوں کو تعمیر ہوتے دیکھ رہے ہیں لیکن ان کے سائے تلے مزید محرومی اور غربت میں دھنستے جا رہے ہیں۔ اس دوران یہاں کے حکمران طبقے کی لوٹ مار بھی اربوں سے کھربوں روپے میں جا چکی ہے اور اس کو بڑھانے کے لیے ہر سال عوام پر نئے ٹیکس لگا دیے جاتے ہیں جبکہ ان پر ہونے والے اخراجات میں بڑے پیمانے پر کٹوتی لگا دی جاتی ہے۔
ایک اور چیز جس نے اس وقت پاکستان کے حکمران طبقے کے اندر بہت زیادہ خوش فہمی اور خود اعتمادی پیدا کر دی ہے وہ امریکہ کی تھپکیاں ہیں۔ درحقیقت پاکستانی ریاست اپنے آغاز سے ہی ایک کٹھ پتلی ریاست کا کردار ادا کرتی آئی ہے۔ پوری دنیا میں امیر سرمایہ دار ممالک اور خاص طور پر سامراجی ممالک کے آگے پاکستانی ریاست اور یہاں کا حکمران طبقہ ان کے تلوے چاٹنے کے لیے ہمیشہ تیار نظر آتا ہے۔ لیکن موجودہ عہد میں امریکی سامراج اپنے نسبتی زوال میں داخل ہو چکا ہے۔ چین اور روس جو عالمی سطح پر امریکہ کے مقابلے میں سامراجی طاقتوں کے طور پر ابھرے ہیں، ان کا اثر و رسوخ کم کرنے کے لیے امریکہ نے گزشتہ عرصے میں عالمی سطح پر تجارتی جنگ کا بھی آغاز کیا اور چین پر بھاری ماترا میں ٹیرف نافذ کیے۔ لیکن اپنی کمزوری اور ناکامی کی وجہ سے اسے وہ ٹیرف کم کرنے پڑے۔ اس کے بعد انڈیا کی روس سے تیل کی خریداری کو روکنے کے لیے بھی ٹرمپ نے پہلے انڈیا پر 25 فیصد ٹیرف لگائے لیکن مقصد حاصل نہ ہونے کی صورت میں ٹرمپ نے ٹیرف کو دگنا کر دیا لیکن اس کے باوجود امریکہ کو اپنی مرضی کا تجارتی معاہدہ حاصل کرنے میں ابھی تک کامیابی نہیں ملی۔ اس صورتحال میں انڈیا اور پاکستان کی چار روزہ جنگ نے بھی اہم کردار ادا کیا جس کے دوران مودی اور ٹرمپ کے باہمی تعلقات خراب ہوئے اور ٹرمپ نے مودی کی مخالفت میں پاکستان کے گماشتہ حکمرانوں کو تھپکیاں اور شاباش دینا شروع کر دی۔ فیلڈ مارشل کو وائٹ ہاؤس میں لنچ بھی کروایا گیا تاکہ مودی کو نیچا دکھایا جا سکے۔ ٹرمپ کی دعوت پر پاکستان کے وزیراعظم اور فیلڈمارشل کے حالیہ امریکی دوروں کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ ٹرمپ انڈیا اور مودی کو نیچا دکھا سکے۔ پاکستان کا حکمران طبقہ اس بات پر بھی بہت ناچ رہا ہے کہ امریکہ نے انڈیا پر 50 فیصد ٹیرف لگائے جبکہ پاکستان سے ”محبت“ میں امریکہ نے پاکستان پر صرف 19 فیصد ٹیکس لگائے ہیں۔ دوسری طرف چین بھی پاکستان کو انڈیا کے خلاف ایک سٹریٹجک اتحادی کے طور پر دیکھتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ فوجی اعتبار سے انڈیا کی توجہ پاکستان پر ہی مرکوز رہے تاکہ وہ چین کے ساتھ محاذ آرائی کی جانب نہ بڑھے۔ لیکن یہ صورتحال جیسے الٹ میں تبدیل ہوئی ہے اور پاکستان عالمی سطح پر تنہائی سے باہر نکلا ہے یہ دوبارہ الٹ سکتی ہے اور خطے میں طاقتوں کا توازن نئی شکل اختیار کر سکتا ہے۔
اس وقت عالمی سطح پر امریکی سامراج زوال پذیر ہو کر کمزور ہو رہا ہے اور اس کی عالمی تعلقات پر گرفت کمزور ہو رہی ہے۔ امریکہ کی اسی کمزوری کی جھلک پاکستان اور سعودی عرب کے حالیہ دفاعی و مالی معاہدے میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ ماضی میں امریکہ پاکستان جیسی ریاستوں کی معاشی بقا اور سعودی عرب جیسی ریاستوں کے دفاع کا ضامن تھا۔ لیکن اب امریکی معیشت کے بحران اور داخلی انتشار نے اسے پوری دنیا میں اپنے اتحادیوں کو سہارا دینے سے عاجز کر دیا ہے۔ اب امریکہ اپنے اتحادی ممالک میں اپنا اعتماد بھی کھوتا جا رہا ہے، سعودی عرب میں اس اعتماد میں کمی کی وجہ دوحہ میں اسرائیل کا حالیہ حملہ بھی ہے۔ لیکن امریکہ سعودی عرب کے ساتھ اپنے اچھے تعلقات بحال رکھنے کا خواہش مند ہے۔ افغانستان کی جنگ میں اپنی شکست کے بعد اور وہاں سے اپنی فوج کے انخلا کے بعد امریکہ کے لیے پاکستان کی کوئی حیثیت باقی نہیں بچی تھی جس کے لیے پاکستان کا حکمران طبقہ کافی رونا دھونا بھی مچاتا رہا ہے۔ امریکی سامراج کے لیے یہ بھی ایک المیہ ہے کہ دنیا کو دکھانے اور اپنا اثر و رسوخ کے قائم ہونے کا تاثر بحال کرنے کے لیے اب امریکی سامراج کو پاکستان جیسی کٹھ پتلی ریاست کو دوبارہ گود میں اٹھانا پڑ رہا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کے حکمرانوں کے لیے ہر دن عید اور ہر رات دیوالی بنی ہوئی ہے۔
آئی ایم ایف کی غلامی
امریکہ کی پشت پناہی کے زعم میں ہی پاکستان کا حکمران طبقہ اس وقت یہاں کے محنت کش طبقے پر تاریخ کے بدترین حملے بھی کر رہا ہے۔ اسی طرح ملک میں جو تھوڑی بہت جمہوری آزادیاں موجود تھیں ان کا بھی قلع قمع کر دیا گیا ہے اور ریاست کا بدترین جبر ہر سیاسی اور سماجی کارکن کی گردن تک پہنچ چکا ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے احکامات کے تحت پاکستان کی معیشت گہرے بحران کا شکار ہو چکی ہے اور ملک مسلسل دیوالیہ ہو رہا ہے۔ الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں آئی ایم ایف سے قرضہ لینے والے 86 ممالک میں پاکستان چوتھے نمبر پر آتا ہے اور پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہے جو آئی ایم ایف سے سب سے زیادہ قرضہ لیتے ہیں۔ لیکن پاکستان کا حکمران طبقہ آئی ایم ایف کی جن شرائط پر قرضے کی ہر قسط وصول کرتا ہے ان شرائط کے ذریعے پاکستان کے محنت کشوں اور نوجوانوں کی زندگیوں کا سودا کیا جاتا ہے۔ مہنگائی ملک کی تاریخ کی بلند ترین شرح پر پہنچ چکی ہے، روزانہ کی بنیاد پر عوام بے روزگاری کی دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں، بجلی کے بلوں کی وجہ سے عوام کا برا حال ہے، صحت و تعلیم عوام کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہے، اپنے لیے دو وقت کی روٹی حاصل کرنے کے لیے محنت کش طبقہ بیک وقت ایک سے دو اور دو سے تین نوکریاں کرنے پہ مجبور ہے۔ پاکستان کی نوجوان نسل اس ملک میں اپنا کوئی مستقبل نہیں دیکھتی۔ جس کی وجہ سے پاکستان سے ہر سال لاکھوں نوجوان لڑکے لڑکیاں ملک سے باہر، اپنے خاندان سے دور روزگار کی تلاش کے لیے جانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ان میں زیادہ نوجوان سعودی عرب یا عرب امارات کا رخ کرتے ہیں اور باقی کسی طرح مغربی ممالک میں پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
تارکین وطن محنت کش
پاکستان کے سعودیہ عرب کے ساتھ حالیہ معاہدے کے ساتھ پاکستان اپنی لیبر فورس سعودیہ عرب میں بھیجنے کا بھی پلان بنا رہا ہے تاکہ ملک کی ترسیلات زر میں اضافہ کیا جا سکے۔ سال 2020ء سے 2024ء کے درمیان پاکستان سے ایک لاکھ 88 ہزار سے زیادہ لوگ روزگار کی تلاش میں سعودیہ عرب گئے اور یہ شرح سال 2015ء سے 2019ء کی شرح سے 21 فیصد زیادہ ہے۔ 2020ء سے 2024ء میں پاکستان کی سعودی عرب سے ترسیلات زر 7.39 بلین ڈالر سے بڑھ کر 8.59 بلین ڈالر ہو گئیں۔ عرب نیوز کی ایک رپورٹ میں بیورو آف ایمیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے سینئر ڈائریکٹر گل اکبر نے اسے ”برین ڈرین“ کی بجائے بہت فخر سے ”قوم کی کامیابی“ قرار دیا۔ اس نے کہا کہ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے ذریعے پیدا ہونے والی ترسیلات زر سے ملکی معیشت مستحکم ہوتی ہے اور غیر ملکی زرمبادلہ میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ اکبر نے مزید کہا کہ پاکستان نے گزشتہ مالی سال میں 38.3 ارب ڈالر کی ترسیلات زر حاصل کیں، جس میں گزشتہ سال 8 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔
گل اکبر جو کہ حکمران طبقے کا ہی ماؤتھ پیس ہے، وہ پاکستان کے حکمران طبقے اور یہاں کی ریاست کی ناکامی کو چھپانے کے لیے یہ سب بول رہا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی ریاست اور حکمران ملک کے اندر روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں ناکام ہیں اور موجودہ مواقعوں کو بھی تیزی سے ختم کیا جا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان سے نوجوان اور محنت کش ملک سے باہر جانے پر مجبور ہوتے ہیں تاکہ اپنے گھر والوں کا پیٹ پال سکیں۔ بیرون ملک دوسرے ممالک کا سرمایہ دار طبقہ بھی ان کا شدید استحصال کرتا ہے اور یہاں سے جانے والے محنت کشوں کی قوت محنت کو سستے داموں لوٹ کر اپنے منافعوں میں اضافہ کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے بیرون ملک میں پاکستانی نوجوانوں اور محنت کشوں میں نہ صرف پاکستان کے حکمرانوں کے خلاف شدید نفرت موجود ہے بلکہ دوسرے ممالک کے حکمرانوں اور سرمایہ داروں سے بھی شدید نفرت کرتے ہیں جو ان کا استحصال کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ ان ممالک کے اپنے عوام بھی اپنے حکمرانوں سے تنگ ہیں اور ان سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ خاص طور پر اگر سعودی حکومت کی بات کی جائے تو سعودی حکومت بھی اس بات سے خوفزدہ ہے کہ سعودیہ عرب کے اندر بھی کسی بھی وقت ایک عوامی بغاوت جنم لے سکتی ہے۔ پاکستان کے ساتھ سعودی حکومت کے حالیہ ”دفاعی معاہدے“ کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جب سعودی عرب میں عام عوام اور محنت کش بغاوت کا سر بلند کریں تو اس سر کو کچلا جا سکے جس کے لیے پاکستان کا حکمران طبقہ یقیناً سعودی حکمران طبقے کے مفادات کی بقا کے لیے معاون ثابت ہو گا۔ ماضی میں بھی پاکستان کی ریاست سعودی حکمران طبقے کے لیے ”دفاعی“ خدمات سر انجام دے چکی ہے۔ ایک جملہ جو ہر دوسرے میڈیا چینل پر بھی دوہرایا جا رہا ہے کہ، ایک ملک پر حملے کو دوسرے ملک پر حملہ تصور کیا جائے گا، اس ”دفاعی معاہدے“ میں اس جملے کا مطلب اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ دونوں ممالک میں جب عوام اپنے حکمرانوں کے خلاف بغاوت کے لیے نکلیں گے تو دونوں ممالک کے حکمران اپنے طبقے کے مفادات اور اقتدار کو بچانے کے لیے اور عوامی بغاوت کو روکنے کے لیے ایک دوسرے کے معاون ثابت ہوں گے۔
نجکاری کے حملے
پاکستان میں اس وقت حکمران طبقہ اور عالمی مالیاتی اداروں نے اپنی لوٹ مار اور استحصال کو جاری رکھنے کے لیے محنت کش طبقے پر خوفناک حملے جاری رکھے ہوئے ہیں جن میں پورے ملک میں ہسپتالوں، سکولوں اور کالجوں کی مکمل نجکاری کی جا رہی ہے اور اس وقت ان شعبوں کے محنت کشوں کی قابل ذکر تحریکیں جاری ہیں۔ محنت کشوں کی ان تحریکوں کا یہ خوف ہے جسے پاکستان کے حکمران سوشل میڈیا پر اپنی مسکراہٹوں کے پیچھے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن وہ خود بھی جانتے ہیں کہ عوام میں ان کے خلاف کس قدر نفرت اور غصہ موجود ہے کیونکہ پاکستان کے حکمرانوں نے عوام کو بھوک، بے روزگاری، لاعلاجی، جنگوں، مہنگائی، بے بسی اور لاچاری کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ پاکستان کا محنت کش طبقہ صرف موجودہ حکمران ٹولے سے نہیں بلکہ تمام پارٹیوں سے نفرت کرتا ہے اور خاص طور پر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ سے۔ پاکستان میں حالیہ سیلابوں اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہی نے حکمرانوں کی بے حسی کو اور بھی ننگا کر دیا ہے اور ان سے نفرت میں مزید اضافہ کیا ہے۔ ان کے خوف کا یہ عالم ہے کہ اگر کوئی عام آدمی حکمرانوں کے خلاف کوئی بات کرنے پر مشہور ہو جائے اور لوگ اسے پسند کرنے لگیں تو یہ حکمران عوام میں اپنا خوف قائم رکھنے کے لیے اس سے معافی منگواتے ہیں۔
درحقیقت اس وقت پوری دنیا میں چلنے والی محنت کش طبقے کی انقلابی سیاسی تحریکیں اور خاص طور پر نوجوانوں کی تحریکیں، جنہیں ’جین زی انقلاب‘ کا نام دیا جا رہا ہے، ان تمام انقلابی سیاسی تحریکوں نے حکمرانوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان تحریکوں کے ذریعے عوام نے حکمرانوں کے تختے الٹ دیے ہیں اور انہیں استعفیٰ دینے پہ مجبور کیا ہے۔ پاکستان کے زیر کنٹرول ”آزاد“ کشمیر میں چلنے والی انقلابی تحریک بھی اس حوالے سے بہت اہم ہے، اس تحریک کے ذریعے عوام نے لڑ کر ماضی میں بھی شاندار فتوحات حاصل کی ہیں اور یہ تحریک اب بھی پورے زور سے جاری ہے۔ حکمران طبقہ اس بات سے بے حد خوفزدہ ہے کہ انہوں نے سالہا سال سے عوام کے ذہنوں پر ریاست، فوج، پولیس، ریاستی اداروں اور ان کی طاقت اور خوف کا جو خول چڑھایا تھا، اب وہ اتر رہا ہے۔ محنت کش طبقہ بہت بڑی شعوری تبدیلیوں سے گزر رہا ہے اور اپنی طاقت کا ادراک حاصل کر رہا ہے۔ ”آزاد“ کشمیر کی تحریک نے اور اس کی کامیابیوں نے نہ صرف پاکستان کے باقی محنت کشوں اور نوجوانوں کو شکتی اور حوصلہ دیا ہے بلکہ انڈیا کے زیر قبضہ کشمیر پر بھی اس تحریک کے بہت زیادہ حوصلہ افزا اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
پاکستان سمیت پوری دنیا کے محنت کش طبقے میں اس وقت دیوہیکل سیاسی و انقلابی اور شعوری تبدیلیاں بہت تیزی کے ساتھ رونما ہو رہی ہیں، جنہوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے حکمران طبقے کو خوفزدہ کر رکھا ہے اور وہ اپنے نظام سرمایہ داری کو بچانے کے لیے محنت کش طبقے پر حملے کر رہے ہیں۔ لیکن یہ نظام اور اس کے حکمران اپنے اندرونی تضادات کی وجہ سے مسلسل کمزور ہو رہے ہیں اور اپنے خاتمے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان کے حالیہ دوروں اور معاہدوں کے پیچھے یہاں کے حکمرانوں کا محنت کش طبقے سے خوف ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ جب محنت کش طبقہ ان کے نظام اور اقتدار کو ختم کرنے کے لیے نکلے گا اور دوسرے حکمران ان کی اور ان کے مفادات کی حفاظت کریں گے لیکن پوری دنیا میں بننے والی حالیہ تحریکوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ جب محنت کش طبقہ حرکت میں آتا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے نہیں روک سکتی، وہ اپنے راستے کی ہر ایک رکاوٹ کو اپنے پیروں تلے روندتے ہوئے آگے بڑھتا ہے۔ ’ایک کا دکھ، سب کا دکھ‘ کے نعرے کے تحت کسی بھی ملک کے کسی ایک ادارے کے مزدور اس طبقاتی جنگ میں دوسرے ادارے کے مزدوروں کی طاقت بنتے ہیں اور اسی طرح کسی ایک ملک کا محنت کش طبقہ کسی دوسرے ملک کے محنت طبقے کی طاقت بنتا ہے۔ محنت کش طبقے کی یہی طاقت پاکستان سمیت پوری دنیا کے حکمران طبقے کی موت ثابت ہو گی۔ جب محنت کش طبقہ اپنی پورے طاقت کے ساتھ اس کرۂ ارض سے حکمران طبقے، طبقاتی نظام اور سرمایہ داری کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کرے گا اور پوری دنیا میں اپنی حکمرانی کا سرخ جھنڈا لہرائے گا۔





















In defence of Marxism!
Marxist Archives
Progressive Youth Alliance