موجودہ دور میں انقلابی جدوجہد کا حصہ ہونا ہی ’پریکٹیکل‘ ہے!

|تحریر: فضیل اصغر|

اس وقت ملک دیوالیہ ہو چکا ہے بس اس کا محض باقاعدہ اعلان ہونا باقی رہتا ہے۔ سینکڑوں فیکٹریاں بند ہو چکی ہیں اور لاکھوں محنت کش بیروزگار ہو چکے ہیں۔ نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد ملک چھوڑ کر بھاگنے کی کوششوں میں ہے۔ خاص طور پر طلبہ اور نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد بیروزگار ہو چکی ہے اور نیا روزگار دستیاب نہیں۔ ایسے ماحول میں ہر شخص کے ذہن میں ایک ہی سوال گردش کر رہا ہے کہ ”کل کیا ہوگا؟“۔

جہاں ایک طرف کروڑوں محنت کش عوام بھوک، بیروزگاری، لا علاجی، ذلت اور محرومی میں غرق ہیں وہیں دوسری جانب حکمران اپنی دولت میں اضافے کی خاطر جنگلی کتوں کی طرح ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔ ہڈی چھوٹی ہو جانے کی وجہ سے حکمرانوں کی لڑائی بھی تیز ہو چکی ہے۔ سرمایہ دار طبقہ، جرنیل، جج، سول افسر شاہی، سیاسی پارٹیاں، میڈیا اینکرز، دانشور، کھلاڑی، اداکار الغرض سارا حکمران طبقہ اور اس کے پالتو کتے ایک دوسرے پر نہ صرف بھونک رہے ہیں بلکہ ایک دوسرے کو کاٹ بھی رہے ہیں۔ پی ٹی آئی، نون لیگ، پیپلز پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کے مختلف دھڑوں کی ساری لڑائی در حقیقت یہ ہے کہ’’زیادہ مال کون کھائے گا“۔

بہر حال ایسے میں حکمران طبقے کے کچھ سنجیدہ حصوں کو اس بات کا ادراک ہے کہ موجودہ صورت حال ایک بہت بڑی بغاوت کو جنم دے سکتی ہے اور وہ اس حوالے سے کافی خوفزدہ ہیں۔ اسی لیے آئے روز ٹی وی چینلوں، اخبارات، یونیورسٹیوں کے سیمینارز سمیت بڑے شہروں میں دھڑا دھڑ منعقد کروائے جانے والے سیمیناروں اور پروگراموں میں ماضی کے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ خاص طور پر ملکی معیشت پر کئی سیشن منعقد کیے جا رہے ہیں۔ مگر اس کا مقصد بھی در حقیقت نوجوان نسل کو یہ فراڈ لگانا ہے کہ مسئلہ سرمایہ دارانہ نظام کا نہیں بلکہ اسے چلانے والوں کا ہے، تاکہ محنت کشوں اور نوجوانوں کو سرمایہ دارانہ نظام اور سرمایہ دارانہ ریاست کے خلاف بغاوت کرنے سے روکا جا سکے۔ ان پروگراموں میں حکمرانوں کے پالتو دانشور ملکی معاشی پالیسیوں کی خامیوں پر بے تحاشہ بات کریں گے مگر کوئی بھی یہ سوال نہیں کر ے گا کہ اس ملک میں جہاں کروڑوں لوگ بیروزگار ہیں اور لاکھوں بھوک سے مر رہے ہیں وہاں مٹھی بھر جرنیلوں، سرمایہ داروں، جاگیرداروں، ججوں، بیوروکریٹوں کی دولت میں اضافہ کیسے ہو رہا ہے؟ اگر ملک بحران میں ہے تو پھر سب کو بحران میں ہونا چاہئے۔ نہ ہی کوئی یہ بات کرے گا کہ مٹھی بھر حکمرانوں اور سرمایہ داروں کی بے تحاشہ دولت کو ریاستی قبضے میں لے کر پورے سماج کی فلاح کیلئے استعمال کیا جائے تو سارے مسئلے حل ہو سکتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر ان پالتو دانشوروں کی کوشش ہوتی ہے کہ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام اور ریاست کو ازلی و ابدی بنا کر پیش کیا جائے، اور محنت کشوں و نوجوانوں کو یہ تلقین کی جائے کہ جو بھی بہتری ہوگی وہ سرمایہ دارانہ ریاست ہی کرے گی۔

اس طرح بڑی چالاکی سے یہ سوچ محنت کشوں اور نوجوانوں کے ذہنوں میں ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اگر اس ریاست پر ”اچھے حکمرانوں“ کا کنٹرول آجائے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ مگر ہم سوشلسٹ یہ سمجھتے ہیں کہ آج پاکستان تو کیا ترقی یافتہ دنیا کی ریاستیں اور حکمران طبقہ بھی بیروزگاری، مہنگائی اور غربت میں کمی نہیں کر سکتا بلکہ اس میں مزید اضافہ ہی کرے گا۔ یہ درحقیقت سرمایہ دارانہ نظام کا نامیاتی بحران ہے جو آج عالمی سطح پر موجود ہے۔ آج صرف ایک منصوبہ بند معیشت یعنی سوشلزم کے ذریعے ہی سماج کو ترقی دی جا سکتی ہے۔

درحقیقت ہم ایک طبقاتی سماج میں رہتے ہیں، جس میں ایک سرمایہ دار طبقہ ہے جو سماج کی ساری دولت اور ذرائع پیداوار پر قابض ہے، جبکہ دوسرا محنت کش طبقہ ہے،جس کی محنت کو لوٹ کر سرمایہ دار طبقہ اپنی دولت میں اضافہ کرتا ہے۔ لہٰذا پاکستان کا سرمایہ دار طبقہ بھی موجودہ خوفناک معاشی بحران کاسارا بوجھ محنت کشوں پر ڈال رہا ہے۔ بالواسطہ ٹیکس بڑھا ئے جا رہے ہیں، تنخواہوں میں کٹوتیاں کی جا رہی ہیں، نجکاری کی جا رہی ہے، فیسیں بڑھائی جا رہی ہیں وغیرہ۔ مگر ہر سماج کی طرح پاکستان کا سرمایہ دارحکمران طبقہ اور ریاستی اشرافیہ بھی تعداد میں بہت کم ہے، بالکل مٹھی بھر، جبکہ محنت کش تعداد میں بہت زیادہ ہیں۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ محنت کشوں کی محنت سے ہی پورے سماج کا پہیہ چل رہا ہے۔ ٹرانسپورٹ، صحت، تعلیم، شہروں کی صفائی، فیکٹریاں، فصلوں کی پیداوار، الغرض سماج کے تمام شعبے محنت کشوں کی محنت سے ہی چل رہے ہیں۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ پھر اگر محنت کش کام کرنا چھوڑ دیں تو سارا سماج رُک جائے گا۔ تو پھر اتنا زیادہ طاقتور ہونے کے باوجود مٹھی بھر حکمران کیسے تمام وسائل پر قابض ہیں اور محنت کشوں کی محنت کا استحصال کر کے اپنی دولت اور عیاشیوں میں اضافہ کرتے جا رہے ہیں؟

اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ ریاست کی صورت میں ایک منظم و مسلح ادارہ ان کے پاس موجود ہے اور بزور طاقت وہ اپنی حکمرانی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ مگر کیا فوج، پولیس اور عدالتوں کے ذریعے کروڑوں کی تعداد میں موجود محنت کشوں کو لمبے عرصے کے لئے کنٹرول میں رکھا جا سکتا ہے؟ ہرگز نہیں، صرف طاقت کے زور پر ایسا ممکن نہیں۔ کیونکہ جب کروڑوں محنت کش کام کرنے سے انکار کر دیں، یعنی عام ہڑتال کر دیں، تو حکمران ان سے زبردستی کام نہیں کروا سکتے اور نہ ہی سب کو گولیاں مار سکتے ہیں۔ اسی طرح فوج سمیت دیگر سیکورٹی اداروں میں بھی طبقاتی تفریق موجود ہوتی ہے۔ ان سیکورٹی اداروں کی اکثریت بھی محنت کش سپاہیوں پر مشتمل ہوتی ہے جنہیں اگر زبردستی یہ آرڈر دیا جائے کہ جاؤ اور ان لوگوں پر گولیاں چلاؤ جو اس لیے احتجاج کر رہے ہیں کیونکہ انہیں کئی ماہ کی تنخواہ نہیں ملی، یا تنخواہ کاٹی گئی ہے، یا فیسوں میں اضافے کے خلاف تو ایک وقت آنے پر وہ سپاہی اپنے محنت کش بہن بھائیوں پر گولیاں چلانے سے انکار کر دیتے ہیں اور اپنی بندوقوں کا رُخ حکمرانوں کی جانب کر لیتے ہیں۔ لہٰذا حکمران صرف طاقت کے بلبوتے پر ہی اپنی حکمرانی برقرار نہیں رکھ سکتے (اگرچہ یہ بات واضح رہے کہ جتنا ممکن ہو طاقت کا بھرپور استعمال ضرور کیا جاتا ہے)۔ اس لیے حکمران عام حالات میں نظام تعلیم، میڈیا، فلموں،ڈراموں، مندروں، مسجدوں وغیرہ کے ذریعے محنت کشوں اور طلبہ کے ذہنوں کو کنٹرول کرتے ہیں۔

صرف یہ ہی نہیں بلکہ مزدوروں کی یونینوں کو بھی اپنے کنٹرول میں کرنے کیلئے ان کی قیادتوں کو خریدا جاتا ہے۔ مزدوروں کو بتایا جاتا ہے کہ فیکٹری مالک کی وجہ سے ان کے گھر کا چولہا جل رہا ہے لہٰذا ان پر فرض ہے کہ وہ مزید محنت کریں۔ اگر وہ محنت کریں گے تو زیادہ منافع ملنے کی وجہ سے سرمایہ دار ان کی بھی تنخواہ بڑھائے گا۔ اس طرح فیکٹری مالک جب نئی فیکٹری لگائے گا تو اس کے ساتھ نیا روزگار بھی پیدا ہوگا اور ان کے رشتہ داروں کو بھی روزگار ملے گا لہٰذا پورے سماج میں بھی خوشحالی آئے گی۔ مگر ہوتا ہمیشہ اس کے الٹ ہی رہا۔ سرمایہ دار کی دولت میں اضافہ ہوتا رہا مگر مزدوروں کی آمدن کم سے کم تر ہوتی رہی۔ آج صورت حال یہ بن چکی ہے کہ مزدور آج ایک وقت کی روٹی بھی بمشکل ہی پوری کر پا رہا ہے، علاج اور تعلیم تو چھوڑ ہی دیں۔

جبکہ پاکستان میں وہ تمام سرکاری و پرائیویٹ ادارے اور فیکٹریاں جہاں یونینیں موجود ہیں، ان کی یونین قیادتیں کئی دہائیوں سے مزدوروں کو یہی سبق پڑھاتی آرہی ہیں کہ اول تو احتجاج کرنا اچھی بات نہیں بلکہ قیادتوں کے حکام بالا سے مذاکرات کر کے مطالبات منوا نے کا طریقہ زیادہ کار آمد ہے۔ دوم اگر مزدوروں کے پریشر کے تحت احتجاج کرنا پڑ بھی جائے تو احتجاج کے دوران ہی یہ نام نہاد قیادتیں پس پردہ ڈیل کر کے مزدوروں کی جدوجہد کو زائل کر دیتی ہیں۔ سب سے بڑھ کر محنت کشوں کے ذہنوں میں یہ سوچ ڈالی جاتی ہے کہ بس اپنے فوری معاشی مطالبات کیلئے ہی جدوجہد کرو یعنی کہ تنخواہ کٹ گئی ہے یا نہیں ملی تو احتجاج کر لو یا تنخواہوں میں کچھ اضافے کیلئے کر لو (اگرچہ آج تو پاکستان کی مزدور قیادتیں یہ بھی نہیں کر رہیں)، مگر اس سے زیادہ نہیں۔ محنت کشوں کو یہ سوال کرنے سے روکا جاتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ وہ نسلوں سے محنت کرتے آرہے ہیں مگر آج تک ان کے حالات نہیں بدلے۔ یہ سوچنے سے بھی روکا جاتا ہے کہ’’آخر کتنے ہی احتجاج کر کے اگر تھوڑی بہت تنخواہ بڑھا بھی لی تو مہنگائی جتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے اس تناسب سے تو وہ آج پہلے سے بھی زیادہ بدتر صورت حال میں ہیں“۔ ان سوالوں پر قدغن اس لئے ہے کہ کیونکہ یہ سوال پورے سرمایہ دارانہ نظام کو للکارتے ہیں۔ اگر ان سوالوں کی اجازت دے دی جائے تو پھر ایک دن یہ سوال بھی محنت کشوں کے ذہنوں میں آئیں گے کہ’’اگر ساری پیداوار مزدور اپنی محنت سے کر رہے ہیں تو پھر اس سے منافع کما کر ان کا مالک امیر سے امیر تر کیوں ہوتا جا رہا ہے؟“۔ سب سے بڑھ کر تو یہ سوچ جنم لے گی کہ’’اگر سب کچھ پیدا محنت کش کر رہے ہیں تو پھر تمام پیداواری ذرائع پر قبضہ بھی انہی کا ہونا چاہئے!“۔

دوسری طرف طلبہ کو سیاست سے دور رہنے کی تلقین کی جاتی ہے اور ان کے ذہنوں میں یہ سوچ ڈالی جاتی رہی کہ محنت کر کے اچھے نمبر لو تو اچھی نوکری مل جائے گی۔ مگر اب تو صورت حال یہاں تک جا پہنچی ہے کہ سارا تعلیمی نظام ہی منہدم ہونے کے دہانے پر کھڑا ہے۔ بالخصوص اعلیٰ تعلیم تو تقریباً منہدم ہو ہی چکی ہے، کیونکہ اعلیٰ تعلیم نوکری کیلئے حاصل کی جاتی تھی، اور آج ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کیے لاکھوں نوجوان بیروزگار پھر رہے ہیں اور نیا روزگار پیدا ہونے کی بجائے پہلے سے موجود بھی ختم ہو رہا ہے۔ جس کی وجہ سے ڈگری اپنی اہمیت ہی کھو بیٹھی ہے اور ساتھ ہی اعلیٰ تعلیم بھی۔

اسی طرح سارا نصاب ایسے ترتیب دیا گیا ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کو ازلی و ابدی اور ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اس کے خاتمے کو ناممکن ثابت کرتا ہے۔ مگر اب نوجوانوں کے ذہنوں میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف نفرت تیزی سے جڑ پکڑتی جا رہی ہے۔ ایسے میں بڑی چالاکی کے ساتھ حکمرانوں کے پالتو دانشور جو اپنے آپ کو انقلابی بنا کر پیش کرتے ہیں، سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے نوجوانوں کو یہ ترغیب دیتے نظر آتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام ٹھیک تو نہیں ہے پر انقلاب تو بالکل ہی غلط ہے۔ لہٰذا پارلیمنٹ اور عدالتوں کی اہمیت کا تاثر قائم کیا جاتا ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ انقلابی سوچ رکھنے والے نوجوانوں کو کوشش کرنی چاہئے کہ وہ ان اداروں تک پہنچیں اور وہاں سے سب کچھ ٹھیک کریں۔ حتیٰ کہ تعلیمی اداروں میں لسانی بنیادوں پر قائم کونسلوں کے سٹڈی سرکلز میں بھی یہ نام نہاد انقلابی قومی جبر کا شکار نوجوانوں کے جائز نفرت کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہوئے انہیں مابعد نو آبادیات (Post Colonialism) جیسے حکمران طبقے کے غلیظ نظریات پڑھاکر بین الاقوامی طبقاتی یکجہتی کو کمزور کرتے ہیں۔ اسی طرح اب فری لانسنگ کی صورت میں نوجوانوں کو یہ راہ دکھائی جا رہی ہے کہ جیسے اس سے ان کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے لہٰذا سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کیلئے انقلابی جدوجہد کرنے کی ضرورت نہیں۔

حکمرانوں کی جانب سے طلبہ کو سیاست سے دور رہنے کی تلقین کی جاتی ہے اور ان کے ذہنوں میں یہ سوچ ڈالی جاتی رہی کہ محنت کر کے اچھے نمبر لو تو اچھی نوکری مل جائے گی۔

اسی طرح یہ بھی ضروری نہیں کہ صرف وہی شخص حکمران طبقے کے نظریات کا پرچار کرے گا جس نے حکمرانوں سے پیسے لیے ہوں گے۔ بعض اوقات کئی ایسے لوگ بھی حکمران طبقے کے پراپیگنڈے کا شکار ہو جاتے ہیں اور انجانے میں ان نظریات کا پرچار شروع کر دیتے ہیں جو بذات خود حکمران طبقے کے جبر کا شکار ہوتے ہیں اور اس سے چھٹکارا چاہتے ہیں۔ مثلاً پاکستان میں خاص طور پر مظلوم قومیتیں اور خواتین شدید ترین جبر کا شکار ہیں اور اس جبر سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ آج کل ان جمہوری تحریکوں میں بھی قوم پرستی،فیمینزم، مابعد جدیدیت اور مابعد نو آبادیات جیسے مزدور دشمن نظریات حاوی ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی جدوجہد سے لوگوں کو دور کرتے ہیں اور محنت کش عوام کے اتحاد کو کمزور کرتے ہیں۔ قوم پرست پارٹیوں اور دانشوروں نے آج تک قومی جبر کا حل یہی بتایا ہے کہ عدالتوں،آئین یا پھر اقوام متحدہ جیسے عالمی سامراجی اداروں کے ذریعے انہیں آزادی ملے گی مگر 75 سال گزر چکے ہیں اور آزادی ملنا تو دور الٹا ان پر جبر میں مزید اضافہ ہی ہوا ہے۔ اسی طرح صنفی جبر کے خاتمے کا بھی کوئی سنجیدہ حل دینے کی بجائے فیمنزم جیسا مزدور دشمن نظریہ پدرشاہی کے خلاف صرف بھڑاس نکالنا ہی سکھاتا ہے۔ بہر حال آج قومی و صنفی جبر کے شکار محنت کش عوام سمیت دیگر مظلوم پرتوں کے سنجیدہ نوجوان یہ سوچنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ نہ تو سرمایہ دارانہ پارلیمنٹ اور عدلیہ، اور نہ ہی کسی عالمی سامراجی ادارے کی مدد سے کچھ حاصل ہوا، اور نہ ہی علیحدہ علیحدہ جدوجہد سے کچھ حاصل ہوا۔ لہٰذا اب ان پر بھی سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی ناگزیریت عیاں ہوتی جا رہی ہے۔

مشہور روسی انقلابی لیون ٹراٹسکی نے کہا تھا کہ ”ہمارے سروں پر ایک نیلا آسمان ہے لیکن ہماری نفسیات پر ایک پیلا آسمان چھایا ہوا ہے۔ اس پیلے آسمان پر حکمرانوں کے مختلف کردار ناٹک کرتے رہتے ہیں۔ عوام ان میں محو رہتے ہیں لیکن جب محنت کش اس پیلے آسمان کو نیچے کی بجائے اوپر سے دیکھتے ہیں اور ان پر حکمرانوں کا اصل غلیظ کردار عیاں ہوتا ہے تو ان کے خلاف ایسی بغاوت پھوٹتی ہے کہ انقلاب سے یہ نظام ہی اکھاڑ دیا جاتا ہے۔“

پاکستان کے حکمرانوں کے پیلے آسمان کو اب یہاں کے محنت کش و مظلوم عوام نیچے سے نہیں بلکہ اوپر سے دیکھنا شروع ہو گئے ہیں اور آہستہ آہستہ اوپر سے دیکھنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ آج یہ سب کے سامنے عیاں ہو چکا ہے کہ اس بحران میں عمران خان، کسی جرنیل، جج، بیوروکریٹ یا میاں منشاء، ملک ریاض، زرداری، نواز شریف جیسے کسی سرمایہ دار و جاگیردار کی دولت میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ الٹا ان کی دولت اور عیاشیاں پہلے سے کئی گنا بڑھ گئی ہیں۔ یہ بھی تیزی سے عیاں ہوتا جا رہا ہے کہ فوج، عدلیہ، پارلیمنٹ، میڈیا الغرض پوری ریاست سرمایہ داروں اور سامراجی اداروں و ممالک کے کنٹرول میں ہے، لہٰذا ہر پالیسی حکمران طبقہ اپنے حق میں ہی بنا رہا ہے۔ اسی لیے بڑی کمپنیوں، ہاؤسنگ سوسائٹیوں، جاگیروں، بنکوں، پرائیویٹ بجلی گھروں پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا جا رہا۔ اسی لیے نام نہاد دفاعی بجٹ میں کمی کر کے جرنیلوں کی عیاشیوں کو کم نہیں کیا جا رہا۔ اسی لیے پاکستان کے محنت کشوں کی پیدا کردہ دولت سے حاصل شدہ آمدن کے بہت بڑے حصے کو 75 سالوں میں حکمرانوں کی جانب سے لیے گئے قرضوں کے سود کی قسطوں کی ادائیگی میں سامراجی ممالک و اداروں کو دیا جا رہا ہے۔ اسی لیے روٹی، چینی، پتی، تیل سمیت ہر شے پر ٹیکس بڑھا دیا گیا ہے، مگر سرمایہ داروں کو الٹا ٹیکس چھوٹیں دی جارہی ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ عیاں ہو چکا ہے کہ ساری سیاسی پارٹیوں اور اسٹیبلشمنٹ کی لڑائی بس مالی مفادات کے گرد ہی ہے اور وہ بھی ایسے وقت میں جب ملک عملاً دیوالیہ ہو چکا ہے۔

اگرچہ پاکستان کی پوری تاریخ میں محنت کشوں اور سماج کی مظلوم پرتوں کیلئے اچھے حالات تو کبھی بھی نہیں رہے اور حکمران طبقے اور حکمرانوں کے نظام سے نفرت ہمیشہ ہی موجود رہی ہے مگر آج پہلے کی نسبت سب سے اہم تبدیلی یہ ہے کہ سارا حکمران طبقہ اور سرمایہ دارانہ ریاست کے تمام اداروں کا حقیقی عوام دشمن چہرہ تمام محنت کشوں کے سامنے عیاں ہو چکا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ محنت کشوں میں سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے بہتری کی امید ہی دم توڑ چکی ہے۔ حکمران طبقے کیلئے یہ انتہائی خطر ناک صورت حال ہے۔ کیونکہ آج حکمرانوں کی تمام سیاسی پارٹیاں اپنی حمایت کھو بیٹھی ہیں اور اب محنت کش عوام ان سے مزید بیوقوف بننے کو تیار نہیں۔ جرنیلوں کی کرپشن کا سب کو پتہ چل چکا ہے، حکمرانوں کا میڈیا ننگا ہو چکا ہے، عدلیہ کا عوام دشمن کردار انتہائی تیزی سے سب کے سامنے عیاں ہو چکا ہے اور اب لوگ ثاقب نثار (المعروف ڈیم والی سرکار) جیسے بندروں پر ٹھٹھے اڑاتے ہیں۔ جس کا یہ مطلب ہے کہ اگر آج ایک بڑی انقلابی بغاوت جنم لیتی ہے جو ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی جانب بڑھتی ہے، تو اسے روک پانا یہاں کے حکمران طبقے کے بس کی بات نہیں رہی۔ مگر محنت کشوں کو منظم کرتے ہوئے سوشلسٹ انقلاب کی جانب سفر تب ہی ممکن ہے جب ایک ایسی انقلابی پارٹی موجود ہو جو محنت کش عوام کی تحریک کی درست پروگرام پر قیادت کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ ریاست کے خاتمے اور مزدور ریاست کے قیام کی جانب بڑھے۔

آج سب سے اہم فریضہ یہی ہے کہ سوشلسٹ انقلابی پارٹی تعمیر کی جائے۔

آج سب سے اہم فریضہ یہی ہے کہ ایسی سوشلسٹ انقلابی پارٹی تعمیر کی جائے۔ ایسی پارٹی کی تعمیر کے رستے میں بھی آج سب سے بڑی رکاوٹ ریاستی طاقت یا کوئی اور جابر قوت نہیں بلکہ یونیورسٹیوں اور میڈیا وغیرہ کے ذریعے پھیلائے گئے حکمران طبقے کے رنگ برنگے عوام دشمن نظریات ہیں۔ ان میں سب سے غالب یہ سوچ ہے کہ ہمیں ”پریکٹیکل“ ہونا چاہئے۔ چونکہ بحران ہے لہٰذا اپنے آپ کو محفوظ بنانے اور اپنا کیریئر ٹھیک کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ یہ سوچ پریکٹیکل ہونا نہیں بلکہ غلام بننا سکھاتی ہے۔ یہ سوچ گُھٹ گُھٹ کر حکمرانوں کے جبر کے آگے گھٹنے ٹیکنا سکھاتی ہے۔ یہ سوچ علی امین گنڈا پور جیسے بھیڑیے کی یہ بکواس سُن کر سَر جھکانا سکھاتی ہے کہ ”اگر مہنگائی ہے تو لوگ کم روٹی کھائیں“۔ یہی وہ پریکٹیکل سوچ ہے جو یہ سبق دیتی ہے کہ قومی و صنفی جبر کا ایک انقلاب کے ذریعے پورے سماج سے ہمیشہ کیلئے خاتمہ ممکن نہیں، لہٰذا سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے جو بھی تھوڑی بہت ریلیف مل سکتی ہے لے لو۔ ہم لعنت بھیجتے ہیں ایسی غلامانہ پریکٹیکل سوچ پر۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سارا جہاں محنت کشوں کی محنت سے چلتا ہے۔ ہم اِک کھیت نہیں، اِک دیس نہیں، سارا جہاں چھینیں گے تم سے! ہم اپنے جائز حق کی لڑائی لڑ رہے ہیں؛ اور اگر نہیں لڑتے تو بھوک، افلاس، بیروزگاری، لاعلاجی، ماحولیاتی تبدیلیاں، قدرتی آفات کے عذاب ایک بے رحم موت کی صورت میں ہمارا انتظار کر رہے ہیں۔ ہمیں اگر جینا ہے، تو پھر لڑنا ہوگا! ہاں یہ لڑائی کھوکھلے جذبات کی بنیاد پر نہیں بلکہ مارکسزم کے سائنسی نظریات کی بنیاد پر ایک انقلابی پارٹی کے جھنڈے تلے لڑنا ہوگی۔ موجودہ دور میں انقلابی جدوجہد کا حصہ ہونا ہی درحقیقت درست معنوں میں پریکٹیکل ہونا ہے۔ آج کے دور میں ہر وہ شخص، بالخصوص جو نوجوان غلامانہ سوچ کا شکار ہے اور جو سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد میں سرگرم کردار ادا نہیں کر رہا۔ ہم ایسے تمام نوجوانوں اور محنت کشوں کو انقلابی جدوجہد میں شامل ہو کر غلامانہ سوچ سے آزادی حاصل کرنے اور پھر سرمائے کی غلامی سے بھی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے آزادی حاصل کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔

اِک تڑپ، اِک لگن، اِک جنوں چاہئے
وہ بھی کیا آدمی، جو نرا آدمی

Comments are closed.