فرانس: ’’نائٹ سٹینڈ اپ‘‘ تحریک، حکمرانوں کے لیے چتاونی

تحریر: |سوزانے مائیکل|
31#NuitDeboutمارچ سے پیرس میں شروع ہونے والی’’نائٹ سٹینڈاپ‘‘ تحریک انتہائی کامیاب رہی ہے اور تیزی سے دوسرے شہروں میں پھیل رہی ہے۔
شہر کے بڑے مراکز پر عوامی اجتماع اسپین میں انڈیگنیڈوز تحریک، امریکہ میں آکوپائی وال سٹریٹ اور یونان میں ایتھنز کے مرکزی مقام پر عوامی اجتماعات کی یاد دلا رہی ہے۔ یہ تمام تحریکیں عرب انقلاب کے وقت 2011ء میں پھوٹی تھیں جب مصر میں تحریر اسکوائر پر قبضے نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔
انقلابی نوجوان
nuit_debout april7ان تحریکوں کے وقت 2011ء میں فرانس میں ڈیفنس روڈ پر قبضے کی کوشش کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔لیکن پانچ سال بعد، مزدور قوانین کے خلاف جدوجہد میں، ’’نائٹ سٹینڈاپ‘‘ تیزی سے عوامی کردادحاصل کر چکی ہے۔ اس تحریک کا بنیادی کردار وہی ہے جو 2011ء کی تحریکوں کا تھا۔ اس کا زیادہ تر انحصار، لیکن مکمل طور پر نہیں، نوجوانوں پر ہے جو سرمایہ داری کے بحران اور کٹوتیوں کی پالیسیوں کے باعث انقلاب کی جانب راغب ہو رہے ہیں۔ پیرس میں، ہر شام، ریپبلک اسکوائر، ایک جلسہ گاہ کی شکل اختیار کر جاتا ہے جس سے اس نظام کے خلاف نفرت کا اظہار ہوتا ہے جس میں صرف ایک فیصد لوگ ہی مستفید ہوتے ہیں۔
’’نائٹ سٹینڈ اپ‘‘اس تمام سیاسی نظام اور اس کی تمام روایتی پارٹیوں کو بھی رد کرتی ہے جس میں حکمران سوشلسٹ پارٹی بھی شامل ہے۔ بورژوا’’جمہوریت‘‘ کے منہ پر طمانچہ ہے۔ میڈیا کے ’’ماہرین‘‘ اور ’’مبصرین‘‘ کے لیے یہ تحریک حیران کن تھی ، جنہوں نے گزشتہ انتخابات میں نوجوانوں کی عدم دلچسپی کو ان کی سیاسی بے حسی قرار دیا بلکہ ’’انفرادیت پسندی‘‘۔
Labour law - throw it into the waterجو لوگ ان جلسوں سے خطاب کرتے ہیں ان کی اکثریت کاکسی بھی سیاسی پارٹی میں کام کا تجربہ نہیں ہوتا۔ لیکن ان میں سے اکثر ناانصافیوں کے خلاف لڑنے والی مختلف تحریکوں یا تنظیموں سے وابستہ ہیں۔ وہ اپنے تجربات ایک دوسرے سے بانٹتے ہیں، مشکلات بیان کرتے ہیں اور دوسروں سے شامل ہونے کی اپیل کرتے ہیں۔ نئے مزدور دشمن قوانین کاخاتمہ ایک مطالبہ ہے لیکن یہ تحریک عمومی طور پر پورے نظام کے خلاف ہے۔ اس تحریک کے انقلابی مضمرات واضح ہیں۔ نوجوانوں کا متحرک ہونااس بات کا عندیہ ہے کہ فرانس میں بڑے سیاسی اور سماجی واقعات کے لیے زمین تیار ہو رہی ہے۔
تناظر
گو کہ ’’نائٹ سٹینڈ اپ‘‘ تحریک کا خود رو کردار ہے لیکن 31مارچ کی رات ہونے والے اجتماع کے لیے کارکنان اور دانشوروں نے کئی ہفتوں تک سخت تیاری کی تھی۔انہوں نے دو درست نکات بنائے تھے۔
مسئلہ صرف مزدور دشمن قانون کا نہیں، بلکہ ان کی ’’دنیا‘‘ کا ہے، یعنی سماجی معاشی نظام جس کو درست کرنے کی ضرورت ہے
قانون کے خلاف لڑائی لازمی ہے،لیکن حکومت صرف ایک دن کے احتجاج سے نہیں مانے گی اور اس کے لیے ایک تسلسل درکار ہو گا۔
یونیورسٹی کے لیکچررفریڈرک لارڈن کو بہت زیادہ پذیرائی ملی جب اس نے ریپبلک اسوائر میں کہاکہ صرف ’’عام ہڑتال‘‘ سے ہی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔
لیبر قانون کے متعلق اپنے مضمون میں ہم نے بھی یہی مؤقف اپنایا تھا جب تحریک کی کمزوریوں اور خوبیوں کا ذکر کیا تھا۔ حکومت اس وقت تک شکست تسلیم نہیں کرے گی جب تک ایک ایسی ہڑتال کا آغاز نہ کیا جائے جو ہر روز دوبارہ نہ شروع کی جا سکے۔ (فرانس میں یہ روایت ہے کہ ہڑتال کو جاری رکھنے کا فیصلہ عوامی اجتماع میں ہر روز ووٹنگ کے ذریعے ہوتا ہے)۔ ہڑتال کا پھیلنا بھی ضروری ہے تاکہ معیشت کے دیگر اہم شعبوں کو اپنے ساتھ شامل کر سکے۔ حکومت کسی ایسی تحریک کے شروع ہونے کے خوف سے بھی پسپا ہو سکتی ہے۔ اسی لیے حکومت نے نوجوانوں کی تحریک کو سختی سے کچلا کیونکہ اسے خوف تھا کہ اس سے محنت کشوں کی تحریک ابھر سکتی ہے۔ لیکن ٹریڈ یونین قیادتیں دور دور تک بھی کسی ایسی ہڑتال کے متعلق نہیں سوچ رہیں۔ وہ تحریک کو کوئی پلیٹ فارم نہیں دے رہی اورمحض28اپریل کو ایک نیا ایکشن ڈے مخصوص کر دیا گیا ہے۔اور اس کے بعد کیا ہوگا ایک اور ایکشن ڈے اور پھر ۔۔۔ ایک اور ۔۔
AG_Nuit_Debout_Lille’’نائٹ سٹینڈ اپ‘‘ تحریک کسی تنظیم کا متبادل نہیں ہو سکتی۔ ہر کام کی جگہ پر قابل تجدید ہڑتال کے لیے تنظیم کی ضرورت ہے۔ اس لیے مزدور تنظیموں سے جڑت بناتے ہوئے انہیں اس جانب دھکیلا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ لاکھوں نوجوان اس تحریک میں سیاسی تجربات حاصل کر رہے ہیں جو بہت قیمتی ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ وہ مزدور تحریک کو آگے کی جانب راستہ دکھا رہے ہیں کہ ’’نظام‘‘ کو بدلا جائے۔یہ درست خیال جسے بائیں بازو اور ٹریڈ یونین کے قائدین ترک کر چکے ہیں، اس کو ایک انقلابی پروگرام میں ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ضروری ہے کہ ہم’’مزدور دشمن قانون‘‘ کی دنیا کو ختم کر کے ایک نئی دنیا سے تبدیل کریں۔ ایک ایسی دنیا جہاں نوجوان اور محنت کش جمہوری طور پر معیشت اور ریاست کو کنٹرول کریں تا کہ وہ اکثریت کے لیے کارآمد ہو سکے، نہ کہ چند ارب پتیوں کے لیے۔مارکسی اصطلاح میں ایک ’’سوشلسٹ‘‘ دنیا۔

Comments are closed.