پاکستان: انقلاب میں تاخیر کیوں؟

|تحریر: پارس جان|

 

2011ء میں عرب بہار اور آکو پائی وال سٹریٹ کی فقیدالمثال تحریک نے سوویت یونین کے اختتام کے بعد کے سیاہ دور کے خاتمے کا اعلان کر دیا تھا۔ 2019ء کے سال کو بجا طور پر انقلابات کا سال قرار دیا جا سکتا ہے۔ لبنان، عراق، ایران، لاطینی امریکہ کے مختلف ممالک اور سب سے بڑھ کر سوڈان میں ریاستیں منہ زور عوامی بغاوتوں کے سامنے بے بس دکھائی دیں۔ گزشتہ دہائی میں یورپ میں بھی بڑی انقلابی تحریکیں ابھریں، امریکہ میں بھی شدید سیاسی عدم استحکام نے جنم لیا اور جہاں ایک طرف بائیں بازو کی شہرت رکھنے والے برنی سینڈرز کو بے پناہ مقبولیت ملی، وہیں بلیک لائیوز میٹر جیسی شاندار عوامی بغاوتیں بھی سیاسی افق پر نمودار ہوئیں۔ انڈیا کی طلبہ تحریک نے بھی ایک نئی انگڑائی لی اور مودی کی جارحانہ پالیسیوں کے خلاف انڈین کسانوں کی شاندار فتح مند مزاحمت نے بھی نئی تاریخ رقم کی۔ انڈیا کے محنت کشوں نے بھی بارہا عام ہڑتالوں کے ذریعے اپنی سیاسی قوت کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ ابھی حال ہی میں ہم نے سری لنکا میں شاندار عوامی انقلاب دیکھا اور اب برطانیہ اور ایک بار پھر ایرانی محنت کشوں کی طاقتور ہڑتالی لہر ابھر رہی ہے۔ لیکن اسی عرصے میں پاکستان میں ملک گیر عوامی انقلابی تحریک کے فقدان نے سیاسی و علمی حلقوں میں اس بحث کو تقویت دی کہ شاید پاکستان کی مٹی انقلاب کے لیے زرخیز نہیں ہے۔ لبرل انٹیلی جنشیہ اس بنیاد پر کھل کر پاکستانی عوام اور بالخصوص محنت کش طبقے کے انقلابی پوٹینشیل کا انکار کرتی ہے اور پاکستان میں حکمران طبقے کی ’اصلاح‘ کو ہی وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیتی ہے۔ بایاں بازو بھی اپنے نظریاتی دیوالیہ پن کے باعث لبرل پروپیگنڈے کا شکار ہو کر یا تو حکمران طبقے کے ہی کسی دھڑے پر ’ترقی پسندی‘ کا لیبل لگا کر اس کی کٹھ پتلی بن جاتا ہے یا پھر درمیانے طبقے سے آرزو مندانہ توقعات وابستہ کر لیتا ہے۔ مارکسزم اور لینن ازم کو متروک قرار دے کر انقلاب کے تصور کو ہی مسخ کر دیا جاتا ہے۔ ایسے میں پاکستان کے ان مخصوص حالات یعنی انقلابی تحریک کے فقدان یا تاخیر زدگی کے محرکات کا مارکسی بنیادوں پر سنجیدہ تجزیہ کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔

شعور کی حرکیات کا سوال

یہ درست ہے کہ پاکستان میں بھی مذکورہ بالا ممالک جیسے یا ان سے ملتے جلتے ہی معروضی حالات موجود ہیں۔معیشت کے عالمی بحران نے دیگر پسماندہ ممالک کی طرح پاکستان کی معیشت کا بھی کچومر نکال دیا ہے اور IMF کی ’بروقت‘ مداخلت نے بظاہر تو باقاعدہ دیوالیہ پن کے خطرے کو فی الوقت ٹال دیا ہے لیکن سنجیدہ حلقے مستقبل قریب میں پھر اس سے بھی بھیانک بحران کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ دیگر تمام ممالک کی طرح پاکستان میں بھی اس بحران کا تمام تر بوجھ محنت کش عوام پر لاد دیا گیا ہے اور مہنگائی، نجکاری اور بیروزگاری نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ اس کے نتیجے میں ملک سے ہجرت، خود کشیوں، بد امنی اور ڈپریشن میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے مگر ابھی تک اس سب کے ردِ عمل میں سوڈان یا سری لنکا جیسی انقلابی تحریک کا ابھار نہیں ہوا۔ درحقیقت ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کسی بھی انقلابی تحریک کے آغاز یا ابھار کے لیے محض معاشی (دیوالیہ پن، ریاستی خسارے، کرنسی کی قدر میں گراوٹ وغیرہ) و سماجی عناصر (بیروزگاری، ڈیپریشن، بدامنی، مایوسی، خود کشیاں) کا ظہور کافی نہیں ہوتا۔ انقلاب اپنی سرشت میں ایک سیاسی معاملہ ہے اور اس کے لیے چند اہم سیاسی محرکات ناگزیر ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے اہم عوامی اور خاص کر محنت کش طبقے کے شعور کی حرکیات کا سوال ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ مذکورہ بالا معاشی و سماجی عناصر عوام اور بالخصوص محنت کش طبقے کے شعور اور نفسیات میں کس طرح منعکس ہوتے ہیں اور وہ ان سے کیا نتائج برآمد کر رہے ہیں۔

محنت کش طبقے کا شعور میکانکی طور پر محض معاشی کیفیت کا پرتو نہیں ہوتا اور نہ ہی محنت کش طبقہ دانشوروں کی طرح ’کتابی شعور‘ کا متحمل ہو سکتا ہے، وہ اپنے تجربات سے سیکھتا ہے۔ محنت کش خلا میں نہیں رہتے، ان کے ارد گرد کسان، طلبہ اور دیگر پیٹی بورژوا عناصر بھی بڑی تعداد میں موجود ہوتے ہیں اور ریاستی پالیسیوں کے ذریعے حکمران طبقے کی سوچ اور شعور سے بھی انہیں آئے روز پالا پڑتا رہتا ہے۔ ان سب کا باہمی جدلیاتی تعلق محنت کش طبقے کو اہم سیاسی نتائج اخذ کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ انقلاب دراصل ان تمام طبقات کی نفسیاتی و شعوری کشمکش کے باہمی تعلق کی یکسر نئی میزان یا مساوات (equation) کی سیاسی رونمائی کا نام ہوتا ہے۔ یہ تمام طبقات اپنے آپ یا ایک دوسرے کے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں، ان سوچوں کے امتزاج پر مبنی مخصوص کیفیت میں یکدم اتھل پتھل کو ہم انقلاب کہتے ہیں۔ پاکستان میں عوامی شعور کی یہ مخصوص موجودہ کیفیت کب تک برقرار رہ سکتی ہے، اس کے لیے بے صبرے مڈل کلاسیوں کے ہیجان پرور تجزیوں کے برعکس ان تمام عوامل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پاکستان کی سیاسی تاریخ کا از سرِ نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

تاریخی ورثہ

اول تو یہ بیانیہ کہ ’پاکستان کے عوام انقلابی ہیں ہی نہیں‘ مڈل کلاس دانشوروں کے محنت کش عوام کی طرف متعصب رویے کی بنیاد پر حقائق سے یکسر روگردانی کی عکاسی کرتا ہے۔ پاکستان کے محنت کشوں نے ایک سے زیادہ بار نظام کی انقلابی تبدیلی کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائی ہے مگر وہ اس تاریخی فریضے کو پایہِ تکمیل تک نہیں پہنچا سکے۔ بالخصوص ایوب آمریت کے خلاف ابھرنے والی 1968-69ء کی انقلابی بغاوت کی قیادت جونہی محنت کش طبقے کو منتقل ہوئی تو وہ نظام کی تبدیلی کی فیصلہ کن جدوجہد کی شکل اختیار کر گئی تھی مگر اس وقت کی انقلابی قیادت کی سیاسی بے راہروی کے باعث یہ تاریخی موقع ضائع کر دیا گیا۔ اس ناکامی نے حکمران طبقے کے ہی ایک شعبدہ باز ذولفقار علی بھٹو کو انقلابی نعرے بازی کے ذریعے انقلابی تحریک کو یرغمال بنانے کا موقع فراہم کیا۔ بھٹو نے جہاں شکست خوردہ بورژوا ریاست کو از سرِ نو منظم کیا وہیں، محنت کش طبقے کے شعور میں نظام کی یکسر تبدیلی کی خواہش اور بورژوا طبقے کے خلاف لاوے کو ٹھنڈا کر کے دونوں طبقات کے مابین صلح صفائی کا ایسا ماڈل پیش کرنے کی کوشش کی جس نے انقلابی شعور کو بہت پیچھے دھکیل دیا اور اس سے جنم لینے والی مایوسی نے رجعت کی راہ ہموار کی۔ یہ یوٹوپیائی ماڈل تو بری طرح ناکام ہو گیا مگر محنت کش عوام کے شعور پہ ایسے ’ردِ انقلابی‘ نقش ثبت کر گیا جن کو کھرچنے میں محنت کشوں کی آئندہ کئی برسوں نہیں بلکہ دہائیوں کی توانائیاں صرف ہو گئیں۔

پاکستان کے محنت کشوں نے ایک سے زیادہ بار نظام کی انقلابی تبدیلی کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائی ہے مگر وہ اس تاریخی فریضے کو پایہِ تکمیل تک نہیں پہنچا سکے۔ بالخصوص ایوب آمریت کے خلاف ابھرنے والی 1968-69ء کی انقلابی بغاوت کی قیادت جونہی محنت کش طبقے کو منتقل ہوئی تو وہ نظام کی تبدیلی کی فیصلہ کن جدوجہد کی شکل اختیار کر گئی تھی مگر اس وقت کی انقلابی قیادت کی سیاسی بے راہروی کے باعث یہ تاریخی موقع ضائع کر دیا گیا۔

60ء کی دہائی میں ایوب آمریت کے خلاف جدوجہد میں محنت کش طبقہ اپنے تجربات کی روشنی میں اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ یہ حکمران طبقہ اس کی زندگی میں بہتری لانے کی نہ تو اہلیت رکھتا ہے اور نہ ہی اس کا ایسا کوئی ارادہ ہے۔ دوسری طرف طلبہ تحریک کے تسلسل اور حکمران طبقے کی ہوسناکی کی نمائش نے درمیانے طبقے کو بھی حکمران طبقے سے مکمل طور پر مایوس کر دیا تھا اور وہ اپنے معیار زندگی میں بہتری کے لیے محنت کش طبقے سے امیدیں وابستہ کرنے لگے تھے۔ مزید برآں اپنی تمام تر افسر شاہانہ مسخ شدگی کے باوجود عالمی سطح پر سوویت یونین، ماؤاسٹ چین اور منصوبہ بند معیشت رکھنے والی دیگر ریاستوں کی موجودگی بھی پوری دنیا میں سماجی و سیاسی شعور پر اپنے اثرات مرتب کر رہی تھی۔ پاکستان میں بھی اس کا اظہار اس عہد میں انٹیلی جنشیہ میں بائیں بازو کے نظریات کی حمایت میں ہوتا ہوا نظر آیا۔ ٹی وی، سنیما، شاعری، حتیٰ کہ موسیقی سمیت ہر میدان میں انقلابی رومانیت کا غلبہ تھا۔ انقلابی سرکشی کی ناکامی کے بعد رفتہ رفتہ چیزیں اپنے الٹ میں تبدیل ہونے لگیں اور 70ء کی دہائی کو ایک عبوری دور سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ نظام کی یکسر تبدیلی کی بجائے بھٹو کی حکومت میں ملنے والی تھوڑی بہت مراعات پر ہی کفایت کی سوچ پروان چڑھائی گئی۔ یہ مراعات بھی دراصل انقلاب کے باعث نئے طبقاتی توازن کا نتیجہ تھیں لیکن محنت کش طبقے نے ان کا سہرا اپنی جرات اور بہادری کی بجائے بھٹو کی کرشماتی شخصیت کے سر پر رکھ دیا اور خود اپنی ہی عظیم انقلابی سرشت سے بیگانہ ہونا شروع ہو گئے۔ بھٹو پر اعتماد اور انحصار درحقیقت اس دشمن طبقے پر انحصار کی تمہید ثابت ہوا، جس کی بھٹو نمائندگی کر رہا تھا۔ طبقاتی جنگ کی بجائے طبقاتی مصالحت کی سوچ غالب آنا شروع ہو گئی۔ درمیانے طبقے نے بھی اسے محنت کش طبقے کی سیاسی جدوجہد سے دستبرداری سمجھ کر دوبارہ حکمران طبقے کی کاسہ لیسی اور جی حضوری کی روش کو اپنا لیا اور وہ ان کے مفادات کے سیاسی ٹھیکیدار بن گئے جنہوں نے پھر طویل عرصے تک محنت کش طبقے سے حسبِ ضرورت ’جیے بھٹو‘ سے لے کر ’نعرہ حیدری‘ تک ہر طرح کے نعرے لگوائے اور خود سرمایہ داروں کے پھینکے گئے ٹکڑوں کو جمع کر کے امیر ہوتے گئے۔ بھٹو کے قتل کے بعد محنت کش طبقے کی اپنے طبقاتی شعور سے بیگانگی کو معیاری جست لگی اور 80ء کی دہائی میں ایم آر ڈی کی تحریک کی پسپائی اور بعد ازاں بے نظیر بھٹو کی سامراجیوں سے ڈیل کے باعث یہ سفر آگے ہی بڑھتا چلا گیا اور سوویت یونین کے انہدام نے اس زوال پذیری کو اپنے منطقی عروج تک پہنچا دیا۔

یوں پیپلز پارٹی محنت کش طبقے کی طبقاتی شعور سے بیگانگی کی تجسیم بن کر رہ گئی۔ وہ جب بھی دائیں بازو کی پالیسیوں سے تنگ آکر اپنی زندگیوں میں بہتری کی کوشش کرتے تو انتخابی معرکے میں پیپلز پارٹی کو کامیاب کرا نے کو ہی اپنا تاریخی فریضہ سمجھ کر اسکی تکمیل کرتے اور جب پیپلز پارٹی بھی دائیں بازو کی ہی پالیسیوں کو آگے بڑھاتی تو پھر مایوسی کی دلدل میں غرق ہو جاتے۔ اسی اثنا میں درمیانہ طبقہ جہاں حکمران طبقے کی کاسہ لیسی کو جاری رکھے ہوئے تھا، وہیں اس نے اپنے آزادانہ سیاسی تشخص کے سراب میں نسلی، لسانی اور مذہبی جذبات کو خوب ہوا دی اور ایم کیو ایم جیسے سیاسی پلیٹ فارم تشکیل دے کر حکمران طبقے کو محنت کش طبقے پر اپنے تسلط کو مزید تقویت دینے کے مواقع بھی مہیا کیے۔ یوں 80ء کی دہائی میں شروع ہونے والا ردِ انقلابی ابھار 90ء کی دہائی کے آغاز میں ہی اپنی تکمیل کو پہنچا۔ یہی وہ وقت تھا کہ جب سوویت یونین کے انہدام کے بعد ساری دنیا میں عالمی مزدور تحریک سیاسی منظرنامے سے معدوم ہونا شروع ہو گئی، اور وینزویلا کے علاوہ اِکا دُکا مستثنیات کے ساتھ یہ کیفیت اگلی دو دہائیوں تک کم و بیش ہر خطے میں غالب رہی۔ چین، انڈیا، روس اور مشرقی یورپ کی منڈیوں اور سستی محنت کی فراوانی کے باعث حکمران طبقے کا اپنے نظام پر اعتماد ایک دفعہ پھر مکمل طور پر بحال ہو گیا اور انہوں نے دنیا بھر کے محنت کشوں کو انقلاب کے خوف میں دی گئی مراعات کی واپسی کا برق رفتار عمل شروع کر دیا۔ مصنوعی معاشی ابھار نے اس تمام تر استحصال کے باوجود سیاسی استحکام کو طویل عرصے تک ممکن بنائے رکھا۔

رجعتی دور کی طوالت اور درمیانے طبقے کا ابھار

عالمی سطح پر اس نئے بین الاقوامی اور طبقاتی توازن سے پاکستان کے حکمرانوں اور بالخصوص ریاستی پالیسی سازوں نے خوب استفادہ حاصل کیا اور ہر طرف ’قومی مفاہمت‘ اور ’حب الوطنی‘ کا خوب بول بالا ہوا۔ سیاست کو عوام کے لیے گناہِ کبیرہ قرار دے دیا گیا۔ یہی وہ وقت تھا جب قہوہ خانوں اور ریستورانوں میں ’سیاسی گفتگو سے پرہیز کریں‘ اور ٹرکوں اور شاہراہوں پر ’پاک فوج کو سلام‘ جیسی تحریریں معمول بن چکی تھیں۔ نہ صرف درمیانے بلکہ محنت کش طبقے کی بھاری اکثریت میں بھی یہ رجعتی تصورات اور دیگر توہمات غالب آ چکے تھے اور ریاست اور حکمران طبقے سے تمام تر نفرت کے باوجود ریاستی پروپیگنڈے اور مسلسل بڑھتی ہوئی طبقاتی خٰلیج کو مقدر سمجھ کر قبول کر لینے کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ یہ بلاشبہ ایک ردِ انقلابی عہد تھا اور سامراجی دلالی کے عوض پاکستان میں پرویز مشرف کی آمریت میں نسبتاً معاشی استحکام نے متضاد سیاسی و سماجی کیفیات کو پروان چڑھایا۔ اگرچہ نجکاری کے خلاف پاکستان سٹیل مل اور پی ٹی سی ایل کے محنت کشوں کی قابلِ ذکر تحریکیں بھی چلیں لیکن عمومی طور پر مزدور تحریک میں شکست خوردگی اور ٹھہراؤ کا عنصر غالب رہا۔ لیکن بظاہر اس جمود کی کیفیت کے باوجود مشرف دور میں پاکستانی سماج میں انتہائی اہم تبدیلیاں بھی وقوع پذیر ہوئیں، جنہوں نے محنت کشوں کے شعور پر گہرے اثرات مرتب کیے۔

پرویز مشرف کے فوجی کُو، کو لبرل انٹیلی جنشیہ نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور مشرف کا موازنہ کمال اتاترک سے کیا گیا۔ ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملوں کے بعد انکل سام کو ایک دفعہ پھر افغانستان میں مداخلت کے لیے اپنی پالتو ریاست کی ضرورت محسوس ہوئی تو اس پر بے دریغ ڈالر نچھاور کیے گئے۔ ایک طرف عالمی معیشت کے مصنوعی ابھار اور دوسری طرف افغانستان میں امریکی مہم جوئی نے پاکستانی معیشت کے غبارے میں بہت تیزی سے ہوا بھری۔ بینکنگ، پراپرٹی اور نجی شعبے کے بلبلوں نے جہاں حکمران طبقے کی دولت میں بڑے پیمانے پر اضافہ کیا، وہیں بالعموم درمیانے طبقے اور بالخصوص اس کی بالائی پرتوں نے بھی بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے۔ نو دولتیوں اور نئے لکھ اورکروڑ پتیوں نے عمومی شعور، ثقافت اور اخلاقیات کو بری طرح متاثر کیا۔ یہ تاثر پروان چڑھنے لگا کہ اگر محنت اور کوشش کی جائے تو کوئی بھی غریب شخص کچھ ہی دنوں میں امیر ہو سکتا ہے لہٰذا یہ طبقاتی سماج عین فطری اور اخلاقی طور پر درست ہے جس میں صرف کام چور لوگ ہی بنیادی ضروریات سے محروم رہ سکتے ہیں۔ دولت کی اس ریل پیل سے براہِ راست مستفید ہونے والی انٹیلی جنشیہ نے مقدس اور الوحی تصورات کی طرح ان خیالات کا پرچار کیا۔ ٹی وی ڈراموں، فلم، شاعری، موسیقی اور عمومی ادب کی گراوٹ جس کا اظہار 90ء کی دہائی سے ہی شروع ہو چکا تھا، اب غالب اور پاپولر رجحان بن گئی اور اس نے سماج کے نو دولتیوں کی ایک نئی پرت کے متوازی فلمی اور ادبی ’ستاروں‘ کی بھی ایک نئی پرت کو جنم دیا۔ حقیقت نگاری کی جگہ ’نظریہ ِ ضرورت‘ کے تحت تخلیق کی گئی کامیابیوں کی کہانیوں (Success Stories) نے لے لی اور ادب کے ساتھ ساتھ صحافت بھی روبہ زوال ہو کر ’زرد صحافت‘ کی اصطلاح کو بھی شرمندہ کرنے لگی۔ محنت کش طبقے کی سیاسی جمالیات کو درکار متوازن اور حفظانِ صحت کے مطابق (ہائی جینک) خوراک معدوم ہوتی چلی گئی اور وہ بھی ویسے ہی اس متعفن ادبی آب و ہوا پر انحصار کرنے پر مجبور ہوئے جس طرح کئی دنوں کا بھوکا شخص جوتوں، ردی کی ٹوکری اور کوڑے کے ڈھیر سے بدبودار کھانا کھا کر بھی ڈکار مارتا ہے اور بادی النظر میں خدا کا شکر بھی ادا کرتا ہے۔

رہی سہی کسر این جی اوز کی بھرمار نے پوری کر دی۔ بالخصوص لیبر این جی اوز نے محنت کش طبقے کو ’یاسیت‘ کی باقاعدہ تربیت کی اور سوشلسٹ نظریات کے متبادل موقع پرست نظریات کو مزدور تحریک میں سرایت کروایا گیا۔پرائیویٹ سیکٹر میں تو ٹریڈ یونینز عملاً نہ ہونے کے برابر ہی تھیں مگر جو چار پانچ فیصد مزدور یونینز میں موجود تھے، وہ بھی این جی اوز کے رحم و کرم پر منحصر ہو گئے۔ پبلک سیکٹر میں بھی مزدور اشرافیہ انقلابی نظریات سے یکسر توبہ تائب ہو گئی۔ جہاں ایک طرف پرانی ٹریڈ یونین اشرافیہ مکمل طور پر موقع پرست ہو چکی تھی اور بمشکل ہی کہیں لڑاکا اور توانا آواز سننے کو ملتی تھی وہیں اس میں مزدور اشرافیہ کی ایک نئی پرت کا جنم بھی ہوا، جو سدھائے ہوئے کتوں اور بندروں کی طرح مالکان اور انتظامیہ کے آگے دم ہلانے کو ہمیشہ تیار رہتی تھی۔ یہ مزدور قیادت اپنے رہن سہن، سوچ اور مفادات کی بنیاد پر محنت کش طبقے کی بجائے مالکان، انتظامیہ اور حکومت سے زیادہ جڑی ہوئی تھی اور انٹیلی جنشیہ کے نظریات کے زیادہ زیرِ اثر تھی۔ اب ’نظام کی تبدیلی‘ خارج از امکان ہو چکی تھی اور حکمران طبقے سے ’خیرات میں آنا ٹکا‘ دلوانے والے لوگ ہی مزدور طبقے کے نجات دہندہ سمجھے جانے لگے۔ اور معیشت کے مصنوعی ابھار کے باعث خیرات کے چند ایک ٹکے فراہم ہو بھی جاتے تھے لہٰذا مفاہمت اور اصلاح پسندی کو ہی ’حقیقت پسندی‘ کی سند مل گئی۔ الیکٹرانک میڈیا جس کا جنم ہی اس غلیظ دور میں ہوا تھا، حکمران طبقے کا اہم اوزار اور ریاست کا اہم ترین ستون بن کر سامنے آیا۔ ’میڈیا سیلیبریٹیز‘ کے ذریعے سیاسی قیادتوں کی تشکیل و ترویج کا آغاز بھی اسی دور میں کیا گیا۔ درمیانے طبقے کی اس ٹھاٹھ باٹھ سے بھری زندگی اور مزدور اشرافیہ کی عقیدت مندی نے محنت کش طبقے میں شدید احساسِ کمتری کو جنم دیا اور وہ اپنے حالات کی زبوں حالی کی ذمہ داری خود پر ہی ڈالنے لگے۔ اِکا دُکا چلنے والی تحریکوں کی ناکامی نے اس احساسِ شکست کو مزید تقویت دی۔ خطے میں ریاست کی ڈبل گیم کے باعث داخلی تضادات بھی شدت اختیار کرتے جا رہے تھے۔ جس کے باعث افغانستان سے واپس آنے والے دہشت گردوں نے اپنے پشت پناہوں کے دم پر دہشت گردی کی نئی لہر کو جنم دیا۔ ہزاروں معصوموں کے خون سے ہولی کھیل کر ڈالر بٹورنے کا سفاک کھیل کھیلا گیا۔ یوں خوف و ہراس بڑھتا چلا گیا اور مزدور تحریک پر بھی اس کے منفی اثرات پڑے۔ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کی آڑ میں مظلوم اقوام پر جبر میں بھی شدت آئی جس کے ردِ عمل میں قوم پرستی کے نظریات بھی مظلوم اقوام کی انٹیلی جنشیہ میں کافی مقبول ہوئے۔ طبقاتی جڑت کے لیے معروضی حالات تاریخ میں شاید ہی کبھی اتنے ناسازگار رہے ہوں گے۔

اس کتاب کے چھٹے باب میں این جی اوز کے غلیظ قردار اور بالخصوص پاکستان میں نیٹ ورک کا احاطہ کیا گیا ہے۔ خریدنے کیلئے ہم سے رابطہ کریں۔

نئی ہلچل

طلبہ تحریک تو اس سارے عرصے میں عملاً ناپید ہو چکی تھی، لہٰذا وہاں سے محنت کش طبقے کو کوئی سیاسی کمک مہیا ہونے کا امکان ہی نہیں تھا۔ لیکن اس تمام تر نا امیدی اور مایوسی کے ماحول میں پی ٹی سی ایل کی نجکاری اور اس سے متعلق ریاستی پالیسیوں کے خلاف پی ٹی سی ایل کے محنت کشوں نے شاندار مزاحمت کی۔ یہ مزاحمت مزدور تحریک کے لیے امید کی نئی کرن بننا شروع ہو گئی تھی۔ دوسری طرف سیاسی اتھل پتھل کے باعث بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی کے امکان بھی دوبارہ بن رہے تھے اور طویل خود ساختہ جلا وطنی کے باعث محنت کش طبقے میں بے نظیر بھٹو سے کچھ توقعات بھی موجود تھیں۔ مگر ریاست کے داخلی تضادات نے نودولتیے درمیانے طبقے کو بھی متاثر کرنا شروع کر دیا تھا۔ یہ نو دولتیے بے حد بے صبرے تھے اور بڑی تیزی سے ان کی دولت میں ہونے والے اضافے نے ان کو بہت سے خواب دکھائے تھے اور وہ جلد از جلد سرمایہ دار طبقے کا حصہ بننے کے لیے بیتاب اور پر امید تھے۔ مگر 2008ء کے عالمی معاشی بحران نے انکی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ معاشی بلبلے پھٹنے لگے اور ان کے ساتھ ان نو دولتیوں کے خواب بھی دھواں ہونے لگے، اس معاشی دھچکے سے ان کے شعور کو لگنے والے تازیانوں نے ان میں سیاسی امنگ کے بیج بوئے۔ بالخصوص درمیانے طبقے کے نوجوان اس نئی سیاسی روش سے متاثر ہوئے۔ یہ درمیانہ طبقہ اور انکی نمائندہ انٹیلی جنشیہ عالمی معاشی نظام کے تضادات کو سمجھنے سے مکمل طور پر قاصر تھے اور انہوں نے مشرف انتظامیہ کو ہی موردِ الزام گردانا۔ اس مرحلے پر مزدور تحریک اور درمیانے طبقے کی باہمی جڑت ناممکن تھی۔ کیونکہ مزدور نجکاری اور لبرل پالیسیوں کے خلاف لڑ رہے تھے اور اس نومولود درمیانے طبقے نے لبرلائزیشن کی کوکھ سے ہی جنم لیا تھا اوریہ نجکاری کو ہی خوشحالی کا نسخہ کیمیا سمجھتا تھا۔ لہٰذا اس درمیانے طبقے نے اپنا سیاسی وزن ریاست کے داخلی تضادات کی بنا پر ابھرنے والی ’عدلیہ بحالی تحریک‘ کے پلڑے میں ڈال دیا۔ ریاست کا زیادہ طاقتور دھڑا اس تحریک کی پشت پناہی کر رہا تھا اور یہ مصنوعی معاشی ابھار کی آکسیجن پر پلنے والی مڈل کلاس، الیکٹرانک میڈیا اور لبرل انٹیلی جنشیہ سب ایک پیج پر تھے اور یوں اس تحریک کے غبارے میں بھی بہت زیادہ ہوا بھر دی گئی۔ عمران خان اور اسکی پارٹی بھی اسی تحریک میں پہلی دفعہ زیادہ سنجیدہ سیاسی رجحان کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ مایوسی کی دلدل سے اپنی پوری توانائی صرف کر کے دوبارہ ابھرنے کی کوشش کرنے والی مزدور تحریک درمیانے طبقے کی اس مصنوعی اور جعلی تحریک کے نیچے دب گئی اور ریاست کی داخلی خانہ جنگی میں بے نظیر بھٹو کے قتل نے محنت کش طبقے کو ایک بار پھر مایوسی کی دلدل میں غرق کر دیا۔

2008ء کے عالمی معاشی بحران سے سوویت یونین کے انہدام کے بعد بننے والے رجعت کے بادل بہرحال چھٹنے لگے تھے۔ ایک دو سال تو یورپ اور امریکہ کے محنت کش شدید نفسیاتی دھچکے سے سکتے کی سی کیفیت میں چلے گئے یا وہ اس بحران کو کوئی انتظامی مسئلہ سمجھ رہے تھے، اور ان کو لگتا تھا کہ ایک یا دو سال میں صورتحال پھر معمول پر آ جائے گی اور گزشتہ تین، چار دہائیوں کی طرح پھر ان کا معیارِ زندگی مسلسل بلند ہونا شروع ہو جائے گا۔ مگر جب حکومتوں اور انتظامیہ کی تبدیلیوں کے باوجود صورتحال بہتر ہونے کی بجائے مزید خراب ہوتی گئی تو بالآخر تحریکوں اور مزاحمتوں کے نئے سلسلے کا آغاز ہوا جس نے سوویت یونین کے انہدام کے بعد کے سیاہ دور کا خاتمہ کر دیا اور ایک عبوری کیفیت کو جنم دیا۔ پسپائی کے طویل دور کے باعث دنیا بھر میں بایاں بازو اور مزدور تحریک شدید پسپا ہو چکی تھی جس کے باعث اس نئی صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے لیے انقلابی قیادت کہیں موجود نہیں تھی لہٰذا یہ عبوری کیفیت طویل سے طویل تر ہوتی چلی گئی۔ پاکستان پر بھی عالمی سیاسی منظرنامے کی اس تبدیلی کے اثرات ناگزیر تھے۔ مگر یہاں محنت کش طبقہ بے نظیر بھٹو کے قتل، پی ٹی سی ایل کی تحریک کی ناکامی اور زرداری کی قیادت میں بننے والی پیپلز پارٹی کی حکومت کے معاشی حملوں کے باعث شدید گھائل اور اذیت کی کیفیت میں تھا۔ بایاں بازو محنت کشوں کی داد رسی کی بجائے درمیانے طبقے اور ’ترقی پسند‘ بورژوازی کی نئی سیاسی اڑان کے سحر میں تھا اور عدلیہ کی بحالی کو جمہوری انقلاب کے لیے ایک اہم سیاسی پیش رفت قرار دے رہا تھا۔ اس تمام تر مایوس کن صورتحال کے باوجود عالمی سیاسی منظر نامے میں انقلابی کردار کے حامل تغیر و تبدل نے پاکستان کے محنت کش طبقے کو ایک دفعہ پھر نئی شکتی اور توانائی دی۔ اس بار اس کا اظہار کے ای ایس سی (کے الیکٹرک) کے محنت کشوں کی برطرفیوں کے خلاف شاندار مزاحمتی تحریک میں ہوا۔ ٹریڈ یونین فیڈریشنز اس وقت تک این جی اوز کے مکمل شکنجے میں جکڑی جا چکی تھیں اور انہوں نے اس تحریک کو دیگر اداروں کے ساتھ جوڑنے کی بجائے یا تو اسے یکسر نظرانداز کر دیا یا پیپلز پارٹی کی مزدور دشمن حکومت کی ایما پر تحریک کی قیادت کو سمجھوتے کرنے پر مجبور کرتے رہے۔ یہ تحریک کئی مہینے تک جاری رہنے کے بعد بالآخر شکست خوردہ ہوئی لیکن کچھ ہی عرصے بعد پی آئی اے کے محنت کشوں کی نجکاری مخالف تحریک نمودار ہوئی، اس تحریک پر عالمی سیاسی ابھار کے اثرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک مرحلے پر کراچی ایئر پورٹ پر مظاہرین نے بینر پر جلی حروف میں ”تحریر سکوائر‘‘ لکھوایا ہوا تھا۔ اس تحریک کے دوسرے مرحلے میں نام نہاد جمہوری حکومت میں کراچی ایئر پورٹ پر محنت کشوں پر گولی چلائی گئی اور دو محنت کش شہید کر دیئے گئے۔ اس تحریک کو بھی دیگر شعبہ جات سے کوئی موافق سیاسی کمک مہیا نہ ہو سکی اور یہ بھی بالآخر ناکامی سے دوچار ہو گئی۔

تحریکِ انصاف، پیپلز پارٹی اور طبقاتی توازن

کے الیکٹرک اور پی آئی اے کی تحریکوں میں اتنا پوٹینشل موجود تھا کہ وہ ایک بڑی انقلابی تحریک کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی تھیں لیکن اس وقت درمیانہ طبقہ جس سیاسی سرمستی کا شکار تھا، اسے محنت کش طبقے کی طرف مائل کرنا عملاً نا ممکن تھا۔ عدلیہ بحالی تحریک کی بظاہر کامیابی سے درمیانے طبقے کے حوصلے کافی بلند ہوئے تھے اور ان کو یہ غلط فہمی ہو گئی تھی کہ انہوں نے مشرف آمریت کا تختہ الٹنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا۔ درمیانہ طبقہ ہمیشہ طاقت پرست ہوتا ہے اور اس وقت وہ خود کو محنت کش طبقے سے زیادہ طاقتور سمجھ رہے تھے اور ریاست کے طاقتور دھڑے نے انہیں اپنے پالتو الیکٹرانک میڈیا اور مصنوعی طور پر بھاری بھرکم سرمایہ کاری سے تخلیق کیے گئے سوشل میڈیا ٹائیکونز کے ہولناک پروپیگنڈے کے ذریعے عمران خان کی صورت میں ایک نیا ’کرشماتی لیڈر‘ بھی مہیا کر دیا تھا۔ انہوں نے اپنی ہیجانی طبع کے باعث اس لیڈر کو لگ بھگ کسی پیغمبر کے درجے پر فائز کر دیا۔ محنت کش طبقے نے اس سیاسی بیہودگی کا حصہ نہ بن کر اپنی سیاسی بلوغت اور درمیانے طبقے پر اپنی موضوعی سبقت کا ثبوت دیا۔لیکن دوسری طرف پیپلز پارٹی بھی مفاہمت کی سیاست کے باعث محنت کش طبقے کے سامنے بالکل عریاں ہو چکی تھی۔ پیپلز پارٹی کو سامراج اور اسٹیبلشمنٹ کی دلالی کے باعث تاریخ میں پہلی مرتبہ اقتدار میں بہت بڑا حصہ ملا تھا۔ مرکزی حکومت کے ساتھ ساتھ، پشتونخواہ، بلوچستان میں مخلوط صوبائی حکومتیں، کشمیر اور گلگت میں حکومت، صدر کا عہدہ اور پنجاب کی گورنرشپ اور پھر سندھ میں طویل اقتدار جو ابھی تک جاری ہے، یہ سب ماضی میں پیپلز پارٹی محض خواب میں ہی سوچا کرتی تھی۔ مگر آصف علی زرداری کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ غیر مشروط اور والہانہ وابستگی جسے، ہماری لبرل انٹیلی جنشیہ تحسین کی نظر سے دیکھتی ہے، کے باعث یہ خواب تو شرمندہِ تعبیر ہو گیا مگر اس کی قیمت پیپلز پارٹی کے سیاسی کردار میں سو فیصد تبدیلی کے عوض چکائی گئی۔ پہلی دفعہ محنت کش طبقے کی یادداشت میں محفوظ پیپلز پارٹی اور ان کے سامنے زندہ اور جیتی جاگتی پیپلز پارٹی کے مابین تضاد محنت کش طبقے کے عملی سیاسی تجربے کے ذریعے ان کے شعور کا حصہ بنا۔ پھر نون لیگ، ق لیگ، فضل الرحمان سمیت ان تمام رجعتی طاقتوں سے، جن سے محنت کش طبقہ شدید نفرت کرتا تھا، اقتدار کی ہوس میں سیاسی لین دین کر کے زرداری صاحب نے پیپلز پارٹی کو ایک سیاسی پارٹی سے زیادہ بزنس کارپوریشن میں تبدیل کر دیا۔

پیپلز پارٹی سے اس بار محنت کش طبقے کی مایوسی 90ء کی دہائی کے اختتام کی مایوسی سے معیاری طور پر مختلف تھی۔ اس کی ایک وجہ تو ظاہر ہے کہ بے نظیر کی کرشماتی شخصیت کا خلا تھا جسے زرداری صاحب اپنے مخصوص سیاسی و ثقافتی پسِ منظر کے باعث کسی صورت پورا نہیں کر سکتے تھے، اور بلاول بھٹو زرداری نے بھی اپنی سیاسی رونمائی کی تقریب میں ہی ’ایک زرداری، سب پر بھاری‘ کا نعرہ لگا کر خود کو ایکسپوز کر لیا تھا کہ وہ بھٹو کم اور زرداری زیادہ ہے۔ اور دوسری وجہ زیادہ موثر اور فیصلہ کن ہے اور وہ اس نئے عہد کا عمومی کردار ہے جس میں عالمی سطح پر ٹیکنالوجی کے انقلاب کے زیرِ اثر جوان ہونے والی نئی نسل اپنی سرشت میں روایت شکن واقع ہوئی ہے۔ یہ نوجوان نسل جو اس وقت پاکستان کی جامعات، تعلیمی اداروں اور حتیٰ کہ فیکٹریوں وغیرہ میں موجود ہے، اپنے آبا ؤ اجداد سے یکسر مختلف ہے۔ یہ بہت عملیت پسند ہے اور یہ ماضی کے قصے کہانیوں سے مرغوب ہونے والی نہیں۔ مگر اسی عملیت پسندی کا ایک منفی پہلو اسکی سطحیت اور ناپائیداری بھی ہے۔ اسی عملیت پسندی اور فوری نتائج کے جنون کے باعث یہ نوجوان عمران خان کے ’ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں‘ جیسے کھوکھلے پروگرام کے جھانسے میں آ کر بالآخر اسے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے کے ریاستی ایجنڈے میں کٹھ پتلیوں کے طور پر استعمال ہو ئے۔اور جب عمران خان کے لگ بھگ چار سالہ اقتدار میں انہی پالیسیوں کا تسلسل سامنے آیا تو اس کی حمایت میں بھی بڑی گراوٹ دیکھنے میں آئی۔ لیکن ایک دفعہ پھر خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال میں ریاست کی داخلی خانہ جنگی میں عمران خان کی حکومت گرادی گئی اور ان ڈرامائی تبدیلیوں سے فائدہ اٹھا کر عمران خان کو ’اینٹی امریکہ‘ اور ’اینٹی اسٹیبلشمنٹ‘ کارڈ کھیلنے کا موقع مل گیا۔

درمیانہ طبقہ ہمیشہ طاقت پرست ہوتا ہے اور اس وقت وہ خود کو محنت کش طبقے سے زیادہ طاقتور سمجھ رہے تھے اور ریاست کے طاقتور دھڑے نے انہیں اپنے پالتو الیکٹرانک میڈیا اور مصنوعی طور پر بھاری بھرکم سرمایہ کاری سے تخلیق کیے گئے سوشل میڈیا ٹائیکونز کے ہولناک پروپیگنڈے کے ذریعے عمران خان کی صورت میں ایک نیا ’کرشماتی لیڈر‘ بھی مہیا کر دیا تھا۔ انہوں نے اپنی ہیجانی طبع کے باعث اس لیڈر کو لگ بھگ کسی پیغمبر کے درجے پر فائز کر دیا۔

محنت کش طبقہ بھی اس تمام ترعرصے میں محض تماشائی نہیں بنا رہا بلکہ حکمران طبقے کے رچائے گئے اس ڈرامے سے لاتعلق ہو کر اس نے اپنی بقا کی جنگ کسی نہ کسی سطح پر جاری رکھی۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے یکسر بائیکاٹ اور سوشل میڈیا پر اثر انداز ہونے کی محدود صلاحیت کے باعث مزدور تحریک کو وہ توجہ نہیں مل پائی، جس کی وہ مستحق تھی۔ لبرل انٹیلی جنشیہ اور اس سے متاثر نوجوان اسے ہی ’ہاٹ ایشو‘ سمجھتے ہیں جسے میڈیائی شورو غل کے ذریعے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا تا ہے۔ پشتون عوام اور نوجوانوں کی پشتون تحفظ تحریک بھی صورتحال میں اہم تبدیلی کی غماز تھی مگر اسے بھی میڈیا بلیک آؤٹ کا سامنا کرنا پڑا، لیکن اس کے باوجود وہ کسی نہ کسی شکل میں آج بھی جاری ہے۔ مزدور تحریک نے بھی گزشتہ عشرے میں بہت سی عملی جدوجہدیں کی ہیں اور اہم اسباق سیکھے ہیں۔ کے الیکٹرک اور پی آئی اے کے محنت کشوں کے علاوہ ریلوے، پاکستان سٹیل، نرسز، ینگ ڈاکٹرز، اساتذہ، واپڈا اور سب سے اہم نجی صنعتی شعبے کے محنت کشوں نے بھی قابلِ ذکر جدوجہدیں کیں۔ چھوٹے سرکاری ملازمین کے بین الصوبائی اتحاد کی تشکیل بھی ایک اہم سنگِ میل ہے جس کی جدوجہد قیادت کی تمام تر بوکھلاہٹ کے باوجود ابھی تک جاری ہے اور اس نے حال ہی میں پنجاب میں ایک اہم جزوی کامیابی بھی حاصل کی ہے۔ اس سے قبل محکمہ صحت کے محنت کشوں کا گرینڈ ہیلتھ الائنس بھی ایک اہم پیش رفت تھی۔ اسی طرح پاکستان کے محنت کشوں کے اہم ترین مرکز یعنی کراچی میں لانڈھی، کورنگی کے محنت کشوں میں سیاسی تحرک مسلسل بڑھ رہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ یہ تمام تحریکیں زیادہ تر ایک دوسرے سے کٹی ہوئی ہیں اور اسی باعث ایک سیاسی قوت کے طور پر درمیانے طبقے کی سیاسی طور پر فعال پرتوں کی توجہ حاصل نہیں کر پا رہیں۔

یہی وجہ ہے کہ درمیانے طبقے کے نوجوانوں کی بھاری اکثریت تحریکِ انصاف کی حکومت گرائے جانے کے بعد ایک دفعہ پھر تحریکِ انصاف ہی کی طرف رجوع کرنے پر مجبور ہوئی۔ مگر یہ نوجوان بھی اپنے ان عملی تجربات سے اپنے تئیں اہم اسباق سیکھ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر عمران خان کی مقبولیت کی دوسری لہر (پارلیمانی عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے حکومت سے بے دخلی کے بعد) پہلی لہر سے معیاری طور پر مختلف تھی۔ یہ درمیانہ طبقہ 2018ء میں یا اس سے قبل نام نہاد ففتھ جنریشن وار کے سپاہی بن کر عمران خان کو اس لیے ہیرو اور مسیحا سمجھتے تھے کیونکہ وہ اسٹیبلشمنٹ کا وفادار تھا۔ وہ علی الاعلان نواز شریف اور زرداری سے تو اپنی نفرت کا اظہار کیا کرتے تھے اور انکی کرپشن کو آڑے ہاتھوں لیتے تھے مگر فوج اور اسٹیبلشمنٹ کو دودھ سے دھلے سمجھتے تھے اور کامل یقین رکھتے تھے کہ فوج واقعی عمران خان پراجیکٹ کے ذریعے بدعنوانی کو ختم کرنے میں سنجیدہ ہے۔ یا ان کا خیال تھا کہ عمران خان جو ’تبدیلی‘ لانا چاہتا ہے اس کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھی کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں ہے۔ مگر عمران خان کی حمایت کی دوسری لہر کی قوتِ محرکہ میں غالب عنصر اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور سامراج مخالف جذبات تھے۔ اگرچہ اس میں بھی ’قومی غیرت‘ اور دیگر دائیں بازو کے نظریات کی کھوکھلی نعرے بازی ضرور موجود تھی مگر محنت کش طبقے کی قیادت کے بغیر درمیانے طبقے کے کسی بھی سیاسی رجحان کو اس طرح کی رومانویت اور سیاسی بیماریوں سے مکمل طور پر آزاد نہیں کرایا جا سکتا۔ آج سے دس سال قبل جب کے الیکٹرک اور پی آئی اے کے محنت کش سراپا احتجاج تھے، اس وقت درمیانے طبقے کی نوجوان نسل کو (مشرف دور کے مصنوعی معاشی ابھار سے حاصل کردہ معاشی سکت اور عدلیہ بحالی تحریک کی کامیابی سے حاصل کردہ سیاسی اعتماد کے باعث) محنت کش طبقے کی قیادت میں منظم کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن تھا مگر اب ایک دہائی سے زیادہ کے تلخ تجربات کے باعث اور معاشی طور پر شدید دباؤ اور سیاسی بدظنی کی وجہ سے یہ نہ صرف ممکن ہو چلا ہے بلکہ مزدور تحریک بھی پھر ایک نئی انگڑائی لینے کو پر تولنا شروع ہو چکی ہے۔ یوں محنت کش طبقے کو متحد کرنے کے لیے ایک ایسے بڑے سیاسی پلیٹ فارم اور پروگرام کی ضرورت ہے جو نہ صرف منتشر مزدور تحریک کی طاقت کو مجتمع کرے بلکہ طلبہ، پی ٹی ایم جیسی جمہوری تحریکوں اور درمیانے طبقے کے نوجوانوں کو بھی محنت کش طبقے کی سیاسی قیادت کی طرف راغب کر سکے۔

انٹیلی جنشیہ کا غلیظ کردار

جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ درمیانہ طبقہ یا اس کی ہراول پرتیں خود بخود اپنے تجربات کی روشنی میں سوشلسٹ نظریات کو قبول کرتے ہوئے مزدور تحریک میں شامل ہو جائیں گی، شدید غلط فہمی کا شکار ہیں۔ بائیں بازو میں کچھ لوگ اکثر یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ ہمیں اپنے نقطہِ نظر میں لچک پیدا کرنی چاہیے یا اپنی گزارشات کو انتہائی سلیس اور قابلِ فہم انداز میں پیش کرنا چاہیے تاکہ لوگ جوق در جوق اس جدوجہد کا حصہ بن سکیں۔ یہ بات محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے تو مخصوص حالات میں درست ہو سکتی ہے مگر درمیانے طبقے اور بالخصوص انٹیلی جنشیہ کے لیے سراسر غلط ہے۔ یہ لوگ سوشلسٹ پروپیگنڈے اور نظریات کو جتنا سمجھتے چلے جاتے ہیں، اتنا ہی مزدور تحریک اور سوشلزم کے دشمن بنتے چلے جاتے ہیں۔ اس کی بنیادیں انکی نجی ملکیت کے مقدس حق کے تصور اور اس پر استوار انفرادیت میں پیوست ہیں۔ اور دنیا بھر کی جامعات اور تعلیمی اداروں میں اب پوسٹ ماڈرن اور پوسٹ کلونیل ازم کے نظریات طلبہ کے دماغوں میں دھڑا دھڑ انڈیلے جا رہے ہیں جو طبقاتی جڑت اور اجتماعیت کی بجائے شناخت کی سیاست اور انفرادیت کو فروغ دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کرونا بحران کے بعد کام کی ڈیجیٹلائزیشن اور ورک فرام ہوم کے تصور نے بہت بڑے پیمانے پر فروغ پایا ہے۔ فری لانسرز جگہ جگہ کھمبیوں کی طرح اُگ آئے ہیں، جس سے انفرادیت کی سوچ کو مزید تقویت مل رہی ہے۔ پاکستان جیسے سماج جہاں سرمایہ دارانہ نظام کے بحران نے روزگار کے مواقع سکیڑ دیئے ہیں وہاں فری لانسنگ کے ذریعے یورپ، امریکہ اور کینیڈا کے سرمایہ دار یہاں کی سستی محنت کا دل کھول کر استحصال کر رہے ہیں، یوں یہاں کے ہنرمند نوجوانوں کے لیے یہ کافی پرکشش پیشہ بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت اس شعبے میں کام کرنے والوں کی تعداد کے حوالے سے پاکستان پانچویں یا چھٹے نمبر پر ہے۔ ان نوجوانوں کو چونکہ معاوضہ عام طور پر ڈالر میں ملتا ہے، یوں ملکی معیشت جتنی زوال پذیر ہوتی چلی جاتی ہے، ان کی کمائی اور معیارِ زندگی میں بہتری آتی چلی جاتی ہے۔ یوں یہ تاریخ میں ’کام کرنے والے طبقے‘ کی شاید پہلی ایسی نسل ہیں جن کے مالی مفادات اپنے اردگرد رہنے والے اور فارمل سیکٹر میں کام کرنے والے محنت کشوں کے مادی مفادات سے باہم متضاد اور متصادم ہیں۔ ان کا سماجی کردار انتہائی رجعتی ہے اور یہ سرمایہ دارانہ نظام کے سب سے بڑے حامی ہوتے ہیں۔

فری لانسرز جگہ جگہ کھمبیوں کی طرح اُگ آئے ہیں، جس سے انفرادیت کی سوچ کو مزید تقویت مل رہی ہے۔

یوں بالخصوص ٹیکنالوجی کے حالیہ انقلاب نے جو ’دانشوروں‘ کی نئی نسل پیدا کی ہے، اس میں سوشل میڈیا ٹائیکونز، بلاگرز، موٹیویشنل سپیکرز اور انفلوینسرز(Influencers) شامل ہیں اور یہ تمام لوگ اپنے مخصوص میڈیم کے باعث بہت تیزی سے مقبول ہوتے ہیں اور ان میں دانشورانہ خبط (Intellectual Upstartism) اپنی انتہاؤں تک پہنچا ہوتا ہے۔ یہ اپنے آغاز سے ہی کسی بھی قسم کے ٹیم ورک کی بجائے خالصتاً اپنی ’صلاحیتوں‘ کے بلبوتے پر مقبولیت حاصل کرتے ہیں لہٰذا ان کے نزدیک ’ہم‘ لفظ ہتک آمیز ہوتا ہے اور یہ ’میں‘ کے سحر سے نہ صرف خود کبھی نہیں نکل پاتے بلکہ اپنے متاثرین کو بھی کبھی نہیں نکلنے دیتے۔ اس لیے یوں تو مزدور تحریک اور ترقی پسند نظریات سے کٹ کر ہر عہد میں ہی انٹیلی جنشیہ کا کردار رجعتی اور ردِ انقلابی ہوتا ہے مگر اس عہد میں یہ جس قدر سماج دشمن اور نرگسیت کا شکار ہے، ماضی میں اس کا تصور بھی محال تھا اور پھر پاکستان کے مخصوص غلیظ سماجی و ثقافتی معیارات کے پسِ منظر میں یہاں کی انٹیلی جنشیہ کی موجودہ نسل نہ صرف متعفن اور انسان دشمن ہے بلکہ سفاک اور مردم بیزار بھی ہے۔ نام نہاد بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے بلاگرز بھی خودپسندی اور حکمران طبقے کی کاسہ لیسی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ یہ سب نہ صرف ردِ انقلابی ہیں بلکہ زوال پذیر سرمایہ دارانہ نظام کا وہ فُضلہ ہیں جسے صاف کرنا انقلاب کے کارواں کے پہلے دستوں کا بنیادی فریضہ ہو گا۔

کیا انقلاب ممکن ہے؟

جیسا کہ ہم پہلے وضاحت کر چکے ہیں کہ انقلاب کے لیے معاشی اور سماجی عناصر نہ صرف موجود ہیں بلکہ وہ گلنا سڑنا شروع ہو چکے ہیں۔ مسئلہ موضوعی عنصر کے فقدان کا ہے۔ موضوعی عنصر کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ عام طور پر اس کا ایک ہی پہلو زیرِ بحث لایا جاتا ہے یعنی ایک ایسی انقلابی پارٹی جو کسی بھی انقلابی تحریک کو پایہِ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ناگزیر ہے مگر اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے جو ایک انقلابی کیفیت کو جنم دینے کی بنیادی شرط ہے اور یہ دوسرا پہلو ہے سماجی شعور، جس میں سب سے اہم ہے محنت کش طبقے کا شعور اور پھر دیگر طبقات کے ساتھ اس کا تعلق۔ سرمایہ دارانہ سماج تین بنیادی طبقات پر مشتمل ہوتا ہے۔ محنت کش طبقہ، درمیانہ طبقہ اور سرمایہ دار طبقہ۔ انقلابی کیفیت کی بنیادی شرائط یہ ہوتی ہیں کہ اپنے نظام کے مسلسل بحران کے باعث سرمایہ دار طبقے کا اپنے ہی نظام اور اس کو چلانے کے مروجہ طریقہ ہائے کار سے اعتماد اٹھ جاتا ہے اور اس میں ٹوٹ پھوٹ اپنی انتہاؤں کو پہنچ جاتی ہے۔ درمیانے طبقے کا اور بالخصوص اس کے نوجوانوں کا تمام مروجہ سیاسی قیادتوں سے اعتماد ختم ہو جاتا ہے اور وہ اپنی بقا کی جدوجہد میں ہیجان میں مبتلا ہوتا ہے اور حالات کے دباؤ کے تحت انقلابی رستے اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اور محنت کش طبقہ مروجہ تمام سیاسی معمولات کے برعکس سماج کی تبدیلی کے لیے پر عزم ہوتا ہے اور انقلابی جدوجہد کا آغاز کر دیتا ہے۔ یوں معاشی و سماجی بحرانوں سے بدحال اور پریشان طبقات کے سوچ اور شعور میں ایک خاص ہم آہنگی انقلابی کیفیت کی بنیادی شرائط میں سے ایک ہے۔ انقلاب کے لیے درکار معاشی و سماجی عناصر کو تیار ہونے کے لیے بہت طویل وقت، دہائیاں اور کئی برس درکار ہوتے ہیں مگر نفسیاتی عوامل بہت جلد اور حیران کن انداز میں ابھر کر صورتحال میں فیصلہ کن تبدیلی کا سبب بن جاتے ہیں۔

اگر ہم پاکستان کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیں تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ معاشی بحران اپنی انتہاؤں پر پہنچ چکا ہے اور اس کے زیرِ اثر سماجی زبوں حالی ایک انقلاب کی متقاضی ہے۔ حکمران طبقہ ایک طویل عرصے سے باہم دست و گریبان ہے اور اس کے مختلف دھڑے ایک دوسرے کو بری طرح ایکسپوز کر رہے ہیں۔ ریاستی ادارے اس داخلی رسہ کشی میں لڑ لڑ کر ہلکان ہو چکے ہیں۔ مگر محنت کش طبقے کا شعور بہرحال ابھی سست روی کا شکار ہے۔ محنت کش طبقہ حکمران طبقے اور ریاستی اداروں کے کردار کو تو سمجھ چکا ہے مگر مزدور تحریک ابھی تک معاشی مطالبات کے گرد دفاعی اور مزاحمتی تحریکوں سے سیاسی مطالبات کے گرد انقلابی پہل گامی کی طرف آگے نہیں بڑھ پا رہی۔ اس ضمن میں ایک عام ہڑتال محنت کش طبقے کو وہ اعتماد اور شعور دے سکتی ہے جس سے وہ نہ صرف نظام اور ریاست کو للکار سکتا ہے بلکہ درمیانے طبقے کی لڑاکا پرتوں کو اپنی طرف متوجہ کر سکتا ہے۔ عام ہڑتال کی ضرورت بہرحال اب شدت سے محسوس کی جا رہی ہے مگر ٹریڈ یونین اشرافیہ اس کے رستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے لیکن یہ رکاوٹ بہرحال تا دیر سطح کے نیچے پکنے والے لاوے کو روکنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ درمیانے طبقے کے نوجوان بھی دیگر تمام سیاسی قیادتوں سے تو مایوس ہو ہی چکے تھے، اب 9 مئی کے واقعات کے بعد تحریکِ انصاف کی قیادت کی ٹوٹ پھوٹ اور عمران خان کی طرف سے اپنائے جانے والے بزدلانہ مؤقف اور اپنے کارکنوں سے لاتعلقی کے اعلانات کے بعد وہ تحریکِ انصاف سے بھی بدظن ہو رہے ہیں۔ ایک دفعہ پھر تحریکِ انصاف کی مقبولیت کا گراف تیزی سے گر رہا ہے۔ اگر وہ عمران خان کے سحر سے آزاد ہوتے ہیں تو پھر اسٹیبلشمنٹ کے کھلواڑ کا پردہ چاک ہو جانے کے باعث اب دوبارہ ان نوجوانوں کو کسی نئے پراجیکٹ میں استعمال کرنا اتنا آسان نہیں ہو گا۔ تمام پارٹیاں، حاوی دانش اور ریاستی ادارے سب اس وقت نئے انتخابات کو تمام مسائل کا حل بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان انتخابات کے بعد حکمران طبقے کے تمام کارڈز ختم ہو جائیں گے۔ معاشی اور سماجی کیفیت میں بہتری کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ مہنگائی اور بیروزگاری کا جن قابو سے باہر ہو کر محنت کشوں اور درمیانے طبقے کو سیاسی طور پر متحرک اور منظم ہونے اور ایک دوسرے کے قریب آنے پر مجبور کرے گا، ہم عملاً ایک انقلاب سے پہلے کی صورتحال میں موجود ہیں، کوئی بھی ایک واقعہ اس صورتحال کے انقلابی کیفیت میں تبدیل ہونے کا موجب بن سکتا ہے۔ اس تاریخی ضرورت کے حقیقت کا روپ دھارنے میں پہلے ہی بہت دیر ہو چکی، ہم اس کے وقت اور شدت کا قطعی اندازہ تو نہیں لگا سکتے مگر اتنا ضرور کہہ سکتے ہیں کہ تاریخ بہت کفایت شعار ہوتی ہے۔ اس نے پاکستان میں انقلاب کو اس لیے تاخیر زدہ کیا ہے تاکہ اسکی تیاری کے ضروری مدارج طے کئے جا سکیں۔ لینن کے بقول ”عوام جب ہاتھ سے ووٹ دے دے کر تھک جاتے ہیں تو وہ پاؤں سے ووٹ ڈالتے ہیں“ اور اسے انقلاب کہا جاتا ہے۔

Comments are closed.